Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

ہزاروں مردہ پرندوں اور مچھلیوں کی پُراسرار بارش ۔ عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..

 


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

 

 2011ء کانیا سال شروع ہونے میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت باقی تھاکہ امریکی ریاست ارکنساس کے ایک چھوٹے سے قصبے میں آسمان سے کالے پرندے گرنے شروع ہوگئے ، جس نے نئے سال کی تقریبات کے منتظر شہریوں کو خوف.وہراس میں مبتلاکردیا۔
ارکنساس کی مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق آسمان سے گرنے والے کالے پرندوں کی تعداد دو سے تین ہزار کے لگ بھگ تھی، جبکہ ارکنساس کے محکمے وائلڈ لائف کے ایک عہدیدار ڈک کلارک کا کہنا تھا کہ ان کے محکمے نے ایک ہزار سےزیادہ پرندے اکٹھے کیے، جو بی بے(Beebe) نامی قصبے میں ایک کلو میٹر کے دائرے میں گرے تھے۔ان میں سے زیادہ تر مرچکے تھے مگر کچھ اٹھاتے وقت تک زندہ تھے۔


کئی مردہ پرندے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اکھٹے کیے، جوسڑکوں، گلیوں اور مکانوں کی چھتوں پر جابجا بکھرے پڑے تھے۔
ڈک کلارک کا کہناہے کہ پرندے مقامی وقت کے مطابق تقریباً ساڑھے گیارہ بجے آسمان سے گرنا شروع ہوئے اور یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا۔ وائلڈ لائف کے ایک اور عہدیدار روبی کنگ کا کہناہے کہ انہوں نے 65 مردہ پرندے اکٹھے کیے، جو سب کے سب اسی ایک علاقے میں گرے تھے۔
وائلڈ لائف کے عہدیداروں نے اس واقعے کے بعد پورے علاقے پر ہیلی کاپٹر سے پروازیں کیں، مگر Beebe قصبے کے لگ بھگ ایک کلو میٹر کے دائرے کے باہر انہیں کہیں کوئی اور مردہ پرندہ نہیں ملا۔
اس قسم کی برسات ان لوگوں کے لیے باعث دلچسپی ہے جو عجیب وغریب واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔۔




ہزاروں مردہ پرندوں کی پر اسرار برسات کے حوالے سےجنگلی حیات کی ایک ماہر کیرن رو کا کہنا ہے کہ مختلف اوقات میں عالمی سطح پر اس طرح کے پراسرار واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ مثلاً پرندے سخت موسم اورطوفانوں سے بچنے کے لیے سینکڑوں میل تک پروازیں کرتے ہیں اور اس دوران کبھی کبھار انہیں غیر معمولی حالات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
قطب شمالی پر اکثر اوقات پرندے گہری دھند میں پرواز کے دوران ایک دوسرے سے ٹکرا کر گرجانے سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جبکہ پہاڑی علاقوں میں کئی پرندے پرواز کرتے وقت تیز جھکڑوں کی زد میں آکر چٹانوں سے ٹکرا کر مرجاتے ہیں، تاہم ہزاروں پرندوں کی پراسرار حالات میں ایک ساتھ ہلاکت نہایت تعجب خیز ہے۔
کیرن رو کہتی ہیں کہ Beebe میں بڑے پیمانے پر ایک ساتھ پرندوں کی پراسرارہلاکت کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نئے سال کے موقع پرآتش بازی کے شور سے پرندے گھبرا کر اُڑے ہوں اورخوف کے اسی دباؤ کے باعث ہلاک ہوگئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے کوئی زہریلی چیزکھائی ہو اور جب زہر نے اپنا اثردکھانا شروع کیا ہو تووہ بے چینی میں اڑنے لگے ہوں۔
یہ عقلی دلیلیں یقیناً وزن رکھتی ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہی نہیں ہوا، بلکہ تاریخ میں اس طرح کے کئی پراسرار اور حیرت انگیز واقعات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگست 2005ء میں ایک ایسا ہی پراسرار واقعہ کینیڈا کےعلاقے مانیٹوبا میں پیش آیا ۔ جس میں دوسو سے زیادہ مرغابیاں ایک کھلے میدان میں مردہ پائی گئیں۔ وہ نہ تو شکاریوں کی گولیوں کانشانہ بنی تھیں اور نہ ہی ان کے جسموں پر زخموں کے کوئی نشان تھے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق انہوں نے کوئی زہریلی چیز بھی نہیں کھائی تھی۔ کچھ عرصے تک ماہرین اس خیال پر متفق رہے کہ وہ اجتماعی خودکشی کا ایک حیران کن واقعہ تھا۔ تاہم کچھ عرصہ قبل کی گئی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ امکانی طورپر مرغابیوں کی ایک ساتھ ہلاکت کی وجہ یہ تھی کہ تاریکی میں پرواز کے دوران وہ اپنی سمت کا تعین کھو بیٹھیں تھیں اور نتیجتاً ایک ساتھ زمین سے ٹکرا کر ہلاک ہوگئیں۔جیسے بعض مرتبہ طیارے اس وجہ سے زمین سے ٹکرا کر تباہ ہوجاتے ہیں کہ پائلٹ سمت کا تعین کھوبیٹھتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک نہایت عجیب وغریب واقعہ ارکنساس میں کئی عشرے قبل بھی پیش آچکا ہے جب 2جنوری 1973ء کو آسمان سے بارش کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں مینڈک برسے تھے۔ارکنساس میں گالف کے میدان میں گالف کا کھیل جاری تھا کہ اچانک بارش شروع ہوگئی، گالف کے سبھی کھلاڑی اور کوچز اس انوکھی بارش کو حیرت سے دیکھ رہےتھے۔
23ستمبر1973ء کو روزنامہ ٹائمز کے مطابق فرانس کے جنوبی گاؤں Brignoles میں آسمان سے ایک عجیب و غریب طوفان نمودار ہوا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے Toads آسمان سے زمین پر گرے۔ اخبارات نے دعویٰ کیا کہ Toads کی یہ برسات سخت آندھی کی وجہ سے ہوئی۔ ڈیلی نیوز کے مطابق 5ستمبر1992ء کو Chalon– Sur Saone میں بالکل اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا، جس میں مسلسل دو دن آسمان سے چھوٹے چھوٹے Toads کی برسات ہوتی رہی۔ 
اگست1804ء میں بھیToulouse کے علاقے میں یہ برسات دیکھی گئی تھی۔ اُس وقت یہ خبرCharles Fort نے شائع کی تھی، جس کے مطابق برسنے والے ٹوڈز نہایت چھوٹے، نومولود اور لا تعداد تھے۔ خبر کے مطابق برسات سے پہلے نہایت شفاف دن تھا لیکن اچانک آسمان پر بادل آئےاور برسات کے دوران یہ ٹوڈز آسمان سے برسنا شروع ہوگئے۔
Blickling Hall Norfolk کے مسوّدوں کے مجموعوں سے پتہ چلا ہے کہ Nurfolk کے گاؤں میں بھی 24اکتوبر1683ء کو ایسی ہی عجیب.وغریب برسات دیکھنے میں آئی۔ علاقے کے لوگوں کے لیے یہ برسات انتہائی تکلیف دہ بن گئی تھی، کیونکہ یہ تمام ٹوڈز لوگوں کے گھروں میں گھس گئے اور لوگوں کے لیے ان کی بُو برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ لوگوں نے بیلچوں کی مدد سے ان ٹوڈز کو اُٹھا کر آگ میں پھینکا۔ اس طرح اگلے دن لوگوں کو نجات مل سکی۔
مینڈک اور مچھلیوں کی برسات کے متعلق اور بھی بہت سے ریکارڈز موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ہم منگول قوم کے تاریخی کیلنڈر اورچوتھی صدی عیسوی کے Deipnosophists Chroniclesکا حوالہ دینا چاہیں گے،یہاں ادبی اور تاریخی رسائل لوگوں کے پڑھنے کے لیے رکھے جاتے تھے۔ان تاریخی ذرائع کے مطابق یونان کے قصبہChersonesus میں لگاتار تین دن تک مچھلیوں کی برسات دیکھنے میں آئی۔ اسی کے ساتھ مینڈک بھی اتنی تعداد میں برسے کہ لوگوں کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوگیا اور سارے راستے بلاک ہوگئے۔
انیسویں صدی میں بھی ہمیں اس قسم کے بے شمار واقعات ملتے ہیں اور یہ واقعات ہمیں Charles fort کی کتاب میں ملتے ہیں یا ان کا تذکرہ ڈاکٹر ری آرڈبلیو گڈ جر کے آرٹیکلDistinguished Modern Authority On Falling Frogs And Fishesمیں ملتا ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے، اس قسم کی انوکھی برسات ایک خاص قسم کے طوفان کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس طوفان کے دوران بارش کے پانی کے ساتھ مٹی چٹانی پودے اور دوسرے جانوروں کی بجائے مینڈک، پرندے اور Fishes آسمان سے برستی ہیں۔ یعنی یہ کہنا چاہیے کہ یہ طوفان بہت ہی خاص قسم کا طوفان ہوتا ہے۔ حالانکہ عام طور پر یہ طوفان اتنے خاص نہیں ہوتے۔ اس بات کی بھی وضاحت نہیں ہوسکی کہ بعض اوقات بالکل شفاف آسمان سے بھی اس قسم کی برسات کیوں ہوتی ہے یا یہ کہ ایسے طوفان یا بارش کے دوران صرف ایک مخصوص حصے پر ہی کیوں ایسی انوکھی برسات ہوتی ہے….؟
اس برسات کے متعلق ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ دراصل فضا میں اڑنے والے یہ پرندے ان مینڈک اور مچھلیوں کو اگلتے ہیں۔ یا پھر زلزلے کی وجہ سے یہ مینڈک وغیرہ زمین پر نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک مشہور ماہر طبیعیات Count De Castelnauکے بیان کے مطابق فروری 1986ء میں کئی دن تک طوفان آیا جس کی وجہ سے سنگاپور میں تقریباً 50ایکڑ زمین Cat Fish کی عام قسم سے بھر گئی۔ علاقے کے لوگ ٹوکری بھر بھر کر ان مچھلیوں کو جمع کرنے لگے، ان کا کہنا تھا کہ یہ مچھلیاں آسمان سے برسی ہیں، جبکہ Count کے مطابق جس نے یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ مچھلیوں کی یہ برسات دراصل زلزلے کا نتیجہ ہے، لیکن اس سے زیادہ وہ وضاحت نہ کرسکا۔
30جون 1892ء کو برمنگھم کے علاقے میں برسنے والے مینڈک مقامی مینڈکوں کی قسم سے بالکل مختلف تھے، یہ سب سفید رنگ کے تھے۔


بعض مرتبہ ان برسات میں برسنے والی مچھلیاں مردہ ہوتی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ کئی مرتبہ مردہ مچھلیوں کی برسات ہوچکی ہے اور بعض واقعات میں ان کو مرے ہوئے اتنا وقت گزر چکا ہوتا ہے کہ یہ چونے میں تبدیل ہوچکی ہوتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ برسنے سے پہلے یہ مچھلیاں کافی وقت آسمانی سمندر میں گزارتی ہیں۔
ایک سائنسدان ہمبولٹHumboldt اس طرز کی بارش کو قرون وسطیٰ کے لوگوں کی ضعیف الاعتقادی قرار دیتا ہے۔ دراصل ہمبولٹ کے زمانے میں شہابِ ثاقب کی برسات کو بھی وہم سمجھا جاتا تھا۔ اُس کی زندگی کے دوران جنوبی امریکہ میں ایک ایسا ہی حیرت انگیز واقعہ پیش آیا تھا، ہوا یہ تھا کہ آسمان سے اُبلی ہوئی مچھلیاں برسی تھیں۔ ہمبولٹ نے اس کو قریبی آتشفشاں پھٹنے کا سبب بتایاتھا۔
ایرڈور جو ساؤتھ ویلز کا علاقہ ہے، 11فروری 1859ء کو یہاں بھی کثیر تعداد میں مچھلیوں کی برسات ہوئی۔ یہ سائز میں پانچ انچ کے برابر تھیں۔ ان کے تمام نمونے برطانوی میوزیم کے سربراہ ڈاکٹر گرے کو بھیجے گئے۔ انہوں نے ان کا تجزیہ کر کے بتایا کہ یہ مچھلیاں جوان ہیں اور وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتے تھے کہ یہ مچھلیاں آسمان سے برسی ہیں۔ چارلس فورٹ !مینڈک اور مچھلیوں کی برسات جن کا پسندیدہ موضوع ہے، کے مطابق اوپری فضا میں خسوخاشاک پر مشتمل ایک سمندر موجود ہے جو زمین سے مختلف اشیاء کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور پھر وقفے وقفے سے زمین پر پھینک دیتا ہے۔ لیکن یہ نظریات چارلس فورٹ کی طرف سے پیش کیے گئے تمام نظریات کے مقابلے میں زیادہ حیران کن اور ناقابلِ یقین ہیں۔


مے لینڈ کے علاقے میں ایک کسان نے ایک گڑھا کھودا جو بارش کے بعد پانی سے بھر گیا۔ بارش کے بعد یہ گڑھا دو مختلف قسم کی مچھلیوں سے بھر گیا جو تقریباً سات انچ لمبی تھیں۔ چارلس فورٹ لکھتا ہے کہ یہ ٹیلی پورٹیشن جیسا عمل ہے، جس میں کسی Active Agent کی بدولت کوئی ایک نمونہ پہلے ایک جگہ نمودار ہوتا ہے اور پھر دوسری جگہ نمودار ہوتا ہے۔
نیو پونڈز کے حوالے سے چارلس فورٹ کے نظریات اور مشاہدات قدیم طلسماتی نظریات سے مطابقت رکھتے ہیں، جن کے مطابق ہر خالی جگہ پر اس کے ماحول کے مطابق خود بخود چیزیں بھرنی شروع ہوجاتی ہیں۔ Neoplatonism کے مطابق جو کچھ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول بنا لیں۔ وہ چیز خود کھنچ کر آپ کے پاس آجائے گی۔
ارکنساس کے ہزاروں پرندوں کی اجتماعی ہلاکت اور مچھلیوں اور مینڈکوں کی برسات کی اصل وجہ ابھی تک اسرار کے پردوں میں ہے۔ کیا سائنسدان ان پراسرار حقائق منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوجائیں گے….؟؟
۔

[یہ مضمون روحانی ڈائجسٹ، جنوری 2012ء کی اشاعت میں شامل ہے]

یہ بھی دیکھیں

جنات سے ملاقات

چند مشہور شخصیات کےجنات اور ماورائی مخلوق سے ملاقات کے واقعات زندگی میں کبھی کبھی ...

جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی سے سوال و جواب

جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی سے کچھ سوال ...

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *