مائنڈ پاور : Mind Power
اسٹامیٹس موراٹس – Stamatis Moraitis
مائنڈ پاور کے الفاظ سن کر عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی، مستقبل بینی، سائیکوکینیسز ، مائنڈ کنٹرول اور سائیکومیٹری جیسی ماورائی اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کا نام آتا ہے ، جنہیں حاصل کرنے کے لیے ایک طویل صبر آزما ریاضتیں اور برسوں مستقل مزاجی کے ساتھ ارتکازِ توجہ، یکسوئی، شمع بینی اور سانس کی مشقیں کی جاتی ہیں۔ تب کہیں جاکر انسان کے اندر خوابیدہ قوتیں بیدار ہونے لگتی ہیں۔ جس کے بل بوتے پرانسان مافوق الفطرت کارنامے سرانجام دینے لگتا ہے۔ لوگ اسے اتنا ہی مشکل تصور کرتے ہیں جتنا پانی پر چلنا….
مائنڈ پاور پر کام کرنے والے ماہرین نفسیات ، سائنس دان اور نیورولوجسٹ کہتے ہیں کہ…. مائنڈپاور محض مثبت سوچ کا نام ہے۔
دنیا بھر میں آج بھی کئی ایسی شخصیات ہیں، جنہوں نے صرف مثبت سوچ کے ذریعے حیرت انگیز کارنامے کردکھائے۔ ان کارناموں نے سائنس دانوں اور ماہر نفسیات اور طبی معالجین کو حیران کرڈالا۔
اسٹامیٹس موراٹس – Stamatis Moraitis
یہ کہانی ہے یونان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص اسٹامیٹس موراٹسStamatis Moraitis کی جس نے اپنی مثبت سوچ اور فطرت سے قریب طرز زندگی اپنا کر کینسر کے موذی مرض کو شکست دی۔
اسٹامیٹس موراٹس جنوری 1915ء کو یونان اور ترکی کے درمیان واقع ایک جزیرے ائیکاریا Icariaمیں پیدا ہوا، یہ وہ دور تھا جب ائیکاریا ترک کی سلطنت عثمانیہ سے ٹوٹ کر یونان میں شامل ہوچکا تھا۔ موراٹس نے اپنی زندگی کے ابتدائی 25 برس اس جزیرے میں گزارے۔
1940 کی دہائی کی میں جب برطانیا، فرانس، پولینڈ، سمیت یورپ کے جمہوری ممالک اور امریکا نے چین اور روس جیسے سوشلسٹ ممالک کے ساتھ مل کر جاپان ، جرمنی اور اٹلی کی فاشسٹ آمریت کے خلاف دوسری جنگ عظیم لڑی تھی اس جنگ کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی آگئے ، جن میں یوگوسلاویہ ، البانیہ اور یونان بھی شامل تھا۔
موراٹس صحت مند اور تن درست جوان تھا، اس نے فوج میں شمولیت اختیار کی اور یونان کی جانب سے اٹلی سے جنگ میں شریک ہوا۔ چھ سال طویل اس جنگ میں دنیا بھر میں تقریباً 7 کروڑ افراد ہلاک ہوئے ، اس جنگ میں موراٹس بھی زخمی ہوا۔ اس کے بازو پر گولی چیرتی ہوئی گزر گئی تھی۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد معاشی و سیاسی بدحالی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی، نوآبادیاتی نظام نے دم توڑنا شروع کر دیا تھا۔ یونان میں بھی سوشلسٹ گروہ اور جمہوری حکومت کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی۔ اس خانہ جنگی اور لوٹ مار سے پریشان ہو کر موراٹس نے بہتر زندگی کے لیے مغربی ممالک جانے کا فیصلہ کیا ، وہ ترکی کے راستے برطانیا پہنچا اور پھر اپنے بازو کا علاج کروانے کے لیے امریکی اتحادی فوجیوں کے ساتھ بحری بیڑے میں سوار ہوکر امریکا روانہ ہو گیا۔
1945ء میں اسٹامیٹس موراٹس امریکی شہر نیویارک کی جیفرسن بندرگاہ پر اترا، وہ تیس برس کا صحت مند جوان تھا، اسے یہاں رہائش اختیار کرنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔ مواراٹس نے مختلف فیکٹریوں میں سخت محنت مشقت کے کام کیے، لیکن نیویارک شہر اُسے راس نہیں آیا، اونچی اونچی دیوہیکل عمارتیں ، ہر جگہ ٹریفک اور فیکٹریوں کے دھواں ، شہر کی آبادی بہت ہے لیکن یہاں ہر کوئی مصروف نظر آتا ہے، کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں ۔ موراٹس نے خوب محنت کی اور چند برسوں میں اتنی رقم جمع کرلی کہ وہ خود اپنا گھر خرید سکے۔ اس نے امریکی ساحلی ریاست فلوریڈا کے شہر بوئنٹن بیچ میں رہائش اختیار کی۔
یہاں مورائٹس کی ملاقات یونانی نژاد امریکی خاتون الپنکی Elpiniki سے ہوئی۔ دونوں نے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس شادی سے ان کے تین بچے ہوئے۔
اگلے تیس برسوں تک ادھیڑ عمر اسٹامیٹس موراٹس اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کر رہا تھا، تین کمروں کا اپارٹمنٹ اور 1951 ماڈل کی ایک شیرولٹ کار ، اور ایک اچھی نوکری…. اب اس کے تینوں بچے بھی جوان ہوکر اپنی زندگی میں مصروف ہوگئے تھے۔
اسے صحت کے چند مسائل پیش آئے۔ 1976ء کی ایک شام موراٹس جب فیکٹری سے واپس آرہا تھا تو گھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کی سانس پھولنے لگی، اُسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی، اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور وہ چکرا کر وہیں گر گیا۔ موراٹس کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے موراٹس کے سینے اور ریڑھ کی ہڈی کا ایکسرے کیا۔ تشخیص ہوا کہ اسے پھیپھڑوں کا کینسر ہے اور وہ بھی آخری اسٹیج پر….
ڈاکٹروں کا اندازہ تھا کہ جب وہ نیویارک کی فیکٹریوں میں کام کرتا تھا تب ہی فیکٹریوں کے دھویں سے اس کے پھیپڑے متاثر ہوگئے تھے ۔ لیکن وہ تیس برس تک اس مرض کی علامات کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔ اب یہ بیماری بہت بڑھ چکی ہے۔
موراٹس اور اس کی فیملی کے لیے یہ خبر انتہائی دل دہلادینے والی تھی ، موراٹس نے اس بیماری کے علاج کے لیے شہر کے آٹھ نو مشہور ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا کہ اس کے پھیپھڑوں میں کینسر بہت زیادہ پھیل چکا تھا اور اب موراٹس کے پاس زندگی کے صرف چھ سے نو مہینے باقی ہیں ۔ ان نو مہینوں میں اس کا علاج شروع بھی کردیا گیا تب بھی اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں ۔
موراٹس کچھ دن ہسپتال میں ہی رہا۔ لیکن امریکا میں مہنگے علاج معالجہ کے اخراجات اٹھانا اس کےبس میں نہیں تھا، وہاں تو موت بھی مہنگی تھی جہاں صرف تدفین میں ہزاروں ڈالر خرچ ہوجاتے ہیں۔ بالآخر موراٹس اور اس کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ وہ زندگی کے اس مشکل مرحلے پر اپنے آبائی وطن واپس جائیں گے۔
موراٹس چاہتا تھا کہ اب زندگی کے جو دن باقی ہیں وہ اپنے آبائی گھر میں گزارے۔
یونان کے سمندر ایجین کے شمال میں واقع خوبصورت جزیرے ائیکاریا Ikareaکا باسی اپنے آبائی گھر آ کر ذہنی طور پر بہت مطمئن ہو گیا۔
پہلے دن تو وہ بستر پر پڑا رہا اس کی ماں اور بیوی اس کی دیکھ بھال کرتی رہیں۔ رفتہ رفتہ اس کے بچپن کے پرانے دوستوں کو جب اس کی واپسی کا پتہ چلا تو وہ بھی اس سے ملنے آنے لگے۔ اکثر احباب اور رشتہ دار اس کے پاس محفل جمائے بیٹھے رہتے۔ موراٹس کی طبیعت کچھ سنبھلنے لگی تو اس نے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر سبزیاں اور پھل اُگانا شروع کر دیں۔ اب وہ روز صبح سورج نکلنے کے ساتھ اٹھتا ، محلہ کے لوگوں کے ساتھ پہاڑوں کی چہل قدمی اور سیر کرتا، صحت بخش ہوا میں سانس لیتا، پھر دِن بھر وہ باغبانی کے کام میں مشغول رہتا۔ شام کو دوستوں کے ساتھ ڈومینو اور دوسرے بورڈ گیمز کھیلتا۔ موراٹس کے ذہن میں امید اور خوشی کے جذبات پیدا ہونے لگے تھے۔ مثبت سوچ نے بیمار جسم کو صحت بخش پیغامات دیئے اور موراٹس کی بیماری کی شدت معجزانہ طور پر کم ہوتی گئی۔ پتا بھی نہ چلا کہ ڈاکٹروں کے بتائے ہوئے نو ماہ کب کے گزر گئے۔ مہینے سالوں میں بدل گئے ، موراٹس کی صحت پہلے سے بہتر ہوگئی۔ اب اس نے اپنے والدین کے گھر کے ساتھ ایک اور گھر بنالیا تھا تاکہ اس کے بچے جب امریکا سے آئیں تو وہاں ٹہر سکیں ، اس نے ایک زمین لے کر انگور کی کھیتی بھی شروع کردی تھی جس سے وہ ٹھیک ٹھاک پیسہ بھی کمانے لگا تھا۔
سال 2000ء میں اپنی بیماری کی تشخیص کے 25 سال بعد موراٹس اپنے بچوں سے ملنے واپس امریکہ گیا تو پتہ چلا کہ وہ تمام ڈاکٹرز جنہوں نے موراٹس کا کینسر تشخیص کیا تھا ا ور یہ کہا تھا کہ وہ نومہینے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا ، اب وہ ڈاکٹر خود وفات پاچکے تھے۔
موراٹس نے امریکا میں دوبارہ اپنے ٹیسٹ کروائے۔ ڈاکٹرز حیران تھے کہ ایک شخص جو کینسر کی آخری سٹیج پر تھا ، جسے ڈاکٹرز نے زندگی کے گنے چنے مہینے بتائے تھے اور جس نے نہ کوئی دوا لی، نہ کیمو تھراپی اور نہ ہی کوئی دوسرا علاج معالجہ کروایا اب وہ مکمل صحت یاب ہوچکا ہے۔
پھر موراٹس واپس یونان میں اپنے آبائی گھر آگیا۔ اس نے اپنی زندگی کی وہ صحت بخش مثبت روٹین جاری رکھیں۔
موراٹس جسے 50برس کی عمر میں ڈاکٹر نے یہ کہہ دیا تھا کہ وہ نو مہینے سے زیادہ نہیں جی سکتا وہ تقریباً 102 سال زندہ رہا اور اس نے اپنے آبائی گاؤں میں زندگی کی آخری سانس لی۔
سال 2003ء میں مشہور امریکی جرنلسٹ اور ریسرچر ڈین بٹنر Dan Buettner نے موراٹس سے ملاقات کی اور اس کی زندگی پر تحقیق کی کہ آخر کیا وجہ ہےکہ ایک ایسا شخص جو کینسر میں مبتلا تھا اس نے اس موذی مرض کو شکست دی۔ ڈین بٹنر کی یہ تحقیق 2005ء میں نیشنل جیوگرافک میگزین اور 2012ء میں نیویارک ٹائمز میں شایع ہوئی۔
ڈین بٹنر نے 2012ء میں ایک کتاب بلیو زون کے نام سے لکھی جس میں اس نے ائیکاریا جزیرہ کے باشندوں کی صحت مند اور طویل عمر زندگی پر تحقیق پیش کی ۔
ڈین بٹنر کے مطابق یونان کے سمندر ایجین کے شمال میں واقع جزیرہ ائیکاریا ایک ایسا جزیرہ ہے جہاں لوگوں کی عمریں بہت لمبی ہیں اور وہ بہت ہی کم بیمار ہوتے ہیں۔ یہاں امراض قلب ، کینسر اور دوسرے امراض دنیا کے دیگر خطوں سے 20 تا 50 فیصد کم ہیں۔ ائیکاریا کے شہریوں کے لمبی عمر ہونے کے بہت سے وجوہات میں ان کا کھانا پینا بھی ہے، یہ لوگ گوشت کے بجائے مچھلی اور سبزیاں کھانے کے شوقین ہیں، مصالحے اور دوا کے نام پر جنگلی جھاڑیوں، پتیوں اور لکڑیوں کا استعمال کرتے ہیں ان کے ہاں کھانا بنانے کے لئے زیتون کا تیل استعمال کیا جاتا ہے۔ چائے کے لئے یہاں جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتے ہیں جس میں پودینا، تیز پات ، اجوائن اور شہد کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ کم کھاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ کم بیمار پڑتے ہیں۔ یہاں تمباکو نوشی کی شرح بہت کم ہے۔ ساتھ ہی یہ لوگ سماجی تعلقات میں بہت پرجوش ہیں۔ یہاں رہنے والے لوگ کام میں جلدی نہیں دکھاتے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ وقت دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے زیادہ ناراض نہیں ہوتے۔ یہاں لوگ بہت بھرپور نیند سوتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو سیر کرنے کا بہت شوق ہے اور وہ جزیرے پر سیر کرتے رہتے ہیں۔اس طرزِ زندگی کی وجہ سے ان کے ہاں بیماریوں کی شرح بہت ہی کم ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جو مریض اس بات پر پختہ یقین کر لیں کہ وہ صحت مند ہو سکتے ہیں ۔وہ یقیناً اپنی بیماری کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یعنی ان کا یقین جتنا پختہ ہوتا ہے وہ اتنے ہی زیادہ Immune Cells یعنی دفاعی خلیے بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ یہی مائنڈ پاور ہمیں کینسر کے بہت سے مریضوں میں بھی نظر آتی ہے۔ جن کے جسم میں بڑھتے ہوئے ٹیومرز اچانک سکڑنا شروع ہو جاتے ہیں اور مریض کینسر جیسے مرض کو شکست دینے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔
ریسرچرز کے مطابق کینسر کا ٹیومر اپنے اندرNerve Fiber رکھتا ہے۔ یہ ہمارے دماغ اور سنٹرل نروس سسٹم حصہ بن جاتا ہے اور اسے حاصل ہونے والی توانائی کوجذب کرکے خود کو ضرب دیتا رہتا ہے۔ ریسرچرز کا ماننا ہے کہ مریض کی منفی سوچ اور اس موذی بیماری کے بارے میں خدشات، موت کا خوف ان ٹیومرز کی تعداد بڑھانے اور قوتِ مدافت کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ڈاکٹر کارل اسٹونئیر Carl Stonier جنہوں نے کینسر جیسے موزی بیماری کی شفایابی میں جسمانی اور نفسیاتی تعلق پر ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ ڈاکٹر کاکہناہے کہ ‘‘ جب کوئی کینسر پیشنٹ میرے پاس آتا ہے تو میں اس سے باتیں کرتاہوں ۔اس کے لئے ایک خیالی دنیا آباد کرتا ہوں۔اسے انہیں زندگی کے اس خیالی مقام تک لے جاتا ہوں جہاں وہ خود کو سب سے زیادہ مطمئن اور خوش محسوس کرتاہے ۔ اسی طرح کے کم سے کم دو سیشن کرنے کے بعد ڈاکٹر کا رل مریض کو خیالی کنٹرول روم میں لے جاتے ہیں ۔جہاں وہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح وہ اپنی سوچ پر قابو پائیں اور کینسر سیلز کے سگنلز اور پروڈکشن کا بٹن آف کریں۔
امریکی ڈاکٹر اور مصنفہ لیزا رینکن Lissa Rankin اپنی کتاب Mind over medicine میں اسٹامیٹس موراٹس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ہم ڈاکٹرز اپنے کلینک میں دن رات لاتعداد کیسز کا مشاہدہ کرتے ہیں۔وہاں آنے والے مریضوں سے نہ صرف انٹرویو کرتے ہیں بلکہ انہیں صحت مندی کی جانب رواں رکھنے کے لیے کئی طرح کی وضاحت بھی دی جاتی ہے۔
لیزا رینکن کہتی ہیں کہ ہم روز اپنے کلینک میں وہ سب دیکھتے ہیں جسے سائنس واضح نہیں کرسکتی۔ کبھی بھی اچانک سے ایک مریض اپنی بیماری کو شکست دے کر شفایاب ہو جاتا ہے اور کبھی کوئی اسی بیماری کے ہلکے سے اثر سے موت کے دہانے پہنچ جاتاہے ۔
لیزا رینکن کہتی ہیں کہ ایسے ہزار کیسز ریکارڈ میں موجود ہیں جن میں انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریض اچانک سے اپنی بیماری کو شکست دے کر شفایاب ہو جاتے ہیں۔ ان تمام مریضوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ صحت یاب ہو کر رہیں گے۔ انہوں نے اپنی بھر پور ول پاور یعنی قوتِ ارادی اور مثبت سوچ کا استعمال کیا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ خیال کی طاقت مہلک بیماریوں کے خلاف موثر قوت مدافعت کا کام سر انجام دیتی ہے ۔
اسٹامیٹس موراٹس ، ڈین بٹنر، بلیو زون، کارل ٹونیر، لیزا رنکن سے متعلق ۔ مزید تفصیلات کے لیے مندرجہ ذیل ویب سائٹس ملاحظہ فرمائیں:
https://theuijunkie.com/stamatis-moraitis/
https://botanicahealth.co.uk/how-a-man-forgot-to-die/
https://dailymail.co.uk/news/article-12320521/Greek-man-cheats-death-45-years-living-blue-zone.html
https://landarchconcepts.wordpress.com/case-study-3-ikaria-and-stamatis-moriatis/
https://betterbelieveit.net/spotlight-stamatis-moraitis-heals-himself-from-terminal-lung-cancer/
https://pappaspost.com/remembering-stamatis-moraitis-man-who-almost-forgot-die/
https://www.mirror.co.uk/news/uk-news/man-given-months-live-survived-30518537
https://huffpost.com/entry/blue-zones-longer-life-tips_l_651af7dfe4b00421f662db6a
https://www.nytimes.com/2012/10/28/magazine/the-island-where-people-forget-to-die.html
https://thestringer.com.au/the-island-where-people-forget-to-die-59981
https://www.rd.com/article/island-people-forget-to-die/
https://www.canceractive.com/article/the-power-of-the-mind-to-heal-cancer-by-carl-stonier
https://lissarankin.com/6-stories-that-will-make-you-believe-in-the-power-of-your-mind-to-heal-you/
https://lissarankin.com/10-ways-to-live-forever/
https://jamieweilwrites.com/2013/08/12/vaccinate-with-a-shot-of-community/