Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

روحانی ڈاک – اپریل 2019ء


 ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑

Image Map

 

 


***

 حیرت انگیز عمل جس نے ذاتی مکان کا مالک بنادیا

سوال: میری شادی کے چند ماہ بعد ہی ہمارے آبائی مکان کا بٹوارا ہوگیا۔ اس کے بعد تقریباً بیس سال میں نے کرائے کے مکانوں میں گزارے ہیں۔ میں ایک پرائیوٹ ادارے میں ملازمت کرتا ہوں ، آمدنی کچھ زیادہ نہیں۔ بچوں کے پڑھائی اور دیگر اخراجات کے سبب ہر ماہ گھر کا کرایہ نکالنا بھی کسی آزمائش سے کم نہ ہوتا تھا۔ آئے دن مالک مکان کرایہ بڑھانے اور گھر خالی کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب میں نے نیو کراچی میں دوکمروں کے ایک کوارٹر میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ اس علاقے میں بجلی اور پانی کی سہولتیں بھی بہت کم تھیں۔ شب و روز مشکلات میں گزررہے تھے۔
اس علاقے میں ہماری رشتے کی ایک خالہ بھی رہا کرتی تھیں ان کی کوئی اولاد یا قریبی رشتے دار نہ تھااور ضعیف ہونے کے سبب اکثر بیمار رہا کرتیں۔ مکان قریب ہونے کی وجہ سے میں گھر میں پکنے والا کھانا اور دو روٹیاں روز انہیں دے آتا۔ وہ مجھے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازتیں۔
ہماری یہ خالہ فارغ اوقات میں یا تو عبادت میں مصروف رہتیں یا پھر میں ان کے ہاتھوں میں روحانی ڈائجسٹ دیکھا کرتا۔ خالہ میری مالی پریشانیوں سے بھی خوب واقف تھیں۔ ایک دن جب میں کھانا دینے ان کے گھر گیا تو خالہ نے مجھے ایک پرچی نکال کر دی جسے روحانی ڈائجسٹ کے کسی شمارے سے کاٹا گیا تھا اور اس پر ذاتی مکان کے حصول کے لیے ایک عمل درج تھا۔ میں نے خالہ سے کہا ‘‘خالہ میں اتنی کم تنخواہ میں کس مشکل سے گھر کی دال روٹی چلا رہا ہوں یہ میں ہی جانتا ہوں۔ آج کل کے دور میں مکان لینا میرے بس کی بات کہاں ’’….؟ یہ سوچنا بھی فضول ہے ، سو ایسے کسی عمل کے لیے میرے پاس وقت نہیں۔ لیکن خالہ نے بہت اصرار کیا اور قرآنی وظائف کے ذریعے لوگوں کی بہت سی مشکلات حل ہونے کے واقعات سنائے تو میں نے خالہ سے وہ پرچی لے لی اور اس پر عمل بھی شروع کردیا۔
اب حیران کردینے والی بات بتاتا ہوں۔ یہ عمل کرتے دوسرا مہینہ تھا کہ ایک دن ہمارے سیٹھ صاحب نے مجھے اپنے آفس میں طلب کیا ، میں ڈرتا ڈرتا ان کے سامنے حاضر ہوا کیونکہ وہ اکثر غلطیوں پر سرزنش کرنے کے لیے ہی اسٹاف کو اپنے آفس میں طلب کیا کرتے تھے۔ خلاف توقع سیٹھ صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ تم کہا ں رہتے ہوں اور تمہارا مکان ذاتی ہے یا کرائے کا۔ میں نے اپنی رہائش سے متعلق ساری تفصیل سیٹھ صاحب کے گوش گزار کردی۔ میری بات سن کر انہوں نے کچھ چابیاں میرے حوالے کیں اور کہا کہ شام کو دفتر سے واپس جاتے ہوئے یہ فلیٹ دیکھ لینا، اب سے تم اس فلیٹ میں رہا کرو اور مجھے کوئی کرایہ دینے کی ضرورت بھی نہیں۔ وہ فلیٹ گلشن اقبال میں واقع ہے۔ وہ علاقہ جو میں نے صرف فلموں اور ڈراموں میں دیکھا تھا آج اس علاقے میں مجھے رہائش مل گئی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ میں اس دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان ہوں۔ میں نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا اپنی خالہ کو ڈھیروںدعائیں دیں۔
وہ عمل جس کے سبب میری زندگی کی سب سے بڑی مشکل حل ہوئی تھی میں نے آج بھی اسے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ میری گزارش ہے کہ روحانی ڈائجسٹ میں ذاتی مکان کے لیے دیا جانے والا خاص عمل پھر شائع کردیا جائے ہوسکتا ہے کہ اس کی برکتوں سے میرے جیسے نجانے کتنے افراد کے دن پھر جائیں۔ آمین۔

جواب:اللہ تعالیٰ کا بے انتہاء شکر۔ اللہ کے کلام کی برکت سے آپ کی مشکلات حل ہوگئیں۔ الحمد للہ۔اللہ سے دعا ہے کہ آپ کو مزید برکتیں ملتی رہیں۔ آمین۔
آپ کی فرمائش پر ذاتی مکان کے حصول کے لیے وظیفہ دوبارہ شائع کیا جارہا ہے:
عشاء کی نماز کے بعد 101 مرتبہ سورہ الحدید 57کی آیت 24 میں سے : 

فان اللہ ھو الغنی الحمید

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ سے اپنے لیےوسائل اور آسانیوں کی دعاکریں۔ کوشش کرتے رہیں ، انشاء اللہ ذاتی مکان کے اسباب فراہم ہوجائیں گے۔
یہ عمل نوے روز تک جاری رکھیں۔

 


***

ماں باپ کی باہمی لڑائیاں، اولاد کے لیے کتنی مضر ہیں….؟

سوال: تہم سات بہن بھائی ہیں۔ چار بہنیں تین بھائی۔ہمارے والدین میں آپس میں کبھی نہیں بنی۔ والد صاحب غصے کے تیز ہیں۔ موقع بے موقع امی کو ڈانٹتے رہے۔ کبھی ان پر ہاتھ بھی اٹھایا۔امی بھی ہمارے والد کو ترکی بہ ترکی جواب دیتی رہیں۔
اس دوران بچے بھی پیدا ہوتے رہے اور لڑائی جھگڑے اورباہمی بے عزتیوں کے اس ماحول میں پرورش پاتے رہے۔والدین کی یہ شدید لڑائیاں تو کچھ کم ہوگئیں لیکن اب بہن بھائی ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ ایسا لگتا ہے کہ سب ایک دوسرے کی شکل سے بیزار ہیں۔ ساتوں بہن بھائی کی آپس میں بات چیت بھی نہیں ہے۔ بس کوئی ضروری بات ہوئی توسپاٹ لہجے میں جلدی سے کرلیتے ہیں۔ اگر چار پانچ منٹ تک بات ہوجائے تو اس کاانجام بحث اورلڑائی کی شکل میں ہی نکلتاہے۔ دوبہنوں کی شادی ہوچکیہے۔
دو سال پہلے بھائی کی شادی ہوئی۔ اس کی بیوی نے سسرال کا یہ ماحول دیکھا تو الگ ہوجانے کی ٹھان لی۔ وہ ہر روز ہمارے بھائی سے ہم سب کی خاص طورپربہنوں کی شکایتیں لگاتی تھی۔ اپنی بیوی کی باتیں سن سن کر ہمارے بھائی پر انکشاف ہوا کہ یہ گھر رہنے کے قابل نہیں۔ چند ہفتوں بعد وہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر کرایہ کے مکان میں شفٹہوگیا۔
چند ماہ پہلے دوسرے بھائی کی شادی ہوئی۔ اس نے تو شادی سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ الگ رہے گا۔ شادی کے تیسرے ہفتے ہی وہ ایک فلیٹ میں شفٹہوگیا۔
اب اس گھر میں والدین کے ساتھ ہم دوبہنیں اور ایک بھائی رہتے ہیں۔ والد صاحب ہمارے چھوٹے بھائی کو نکما اورکام چور کہتے ہیں۔ جواب میں وہ بھی والد صاحب کو بہت کچھ کہہ دیتاہے۔
ایک سنگین مسئلہ یہ ہے کہ بہن بھائیوں میں سےکوئی والد صاحب کی حمات کرے تو والدہ اس سے ناراض ہوجاتی ہیں۔کوئی والدہ کی حمات کرے تو والد صاحب اسے اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔ماں باپ کے ان جھگڑوں میں ہمارے چھوٹے بھائی نے ہمیشہ ماں کی سائیڈ لی ہے اس لیے والد صاحب اس سے ناراض ہی رہتے ہیں۔نہ صرف یہ کہ اسے برا بھلا کہتے ہیں بلکہ دوسروں کے سامنے بھی اس کی برائیاں کرتے ہیں۔ ہماری ایک بہن والد صاحب کی بہت زیادہ سائیڈ لیتی ہیں۔ان سے ہماری امی سخت ناراض ہیں اورانہیں برابھلا کہتی رہتی ہیں۔
ماں باپ کے خراب تعلقات اوربہن بھائیوں کے باہمی جھگڑوں کی وجہ سے محلے والے ہمیں طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہیں اوررشتہ داروں میں ہمارا مذاق اڑایا جاتاہے۔

 

جواب: آ پ کے گھریلو ماحول کی خرابی کی بنیاد غلط سوچ ہے۔ اس سوچ کا تعلق عورت کوکمتر ،حقیر سمجھنے اور اپنی ذمہ داریوں سے فرار سے ہے۔
میرا اندازہ ہے کہ آ پ کے والد صاحب اپنی شادی کے فوراً بعد سے ہی اپنی بیگم کے ساتھ عزت واحترام سے پیش نہیں آئےہوں گے۔بہت سے مرد گھر میں رعب جمانے کے لیے اپنی عورت کے ساتھ سخت رویہ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ محبت ،پابندیوں اور سختیوں میں نہیں بلکہ احترام اورآزادیوں میں پھلتیپھولتی ہے۔
والدین کی باہمی لڑائیاں اورایک دوسرے پر الزام تراشیاں گھر کے ماحول میں گھٹن کا سبب بنتی ہیں۔ ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے شرمندگی، بیزاری اوراحساس کمتری میں مبتلا ہوسکتےہیں۔
قوت ارادی ،اعتماد اوربرداشت کی کمی کی وجہ سے ایسے گھرانوں کے اکثر لڑکے لڑکیاں محنت سے بھی کترانے ہیں اور شکایتی اور ناراض رویہ اختیارکرلیتےہیں۔
ماں باپ کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے احساس کمتری اور کم ہمتی میں مبتلا ہوجانے والے بعض بچوں میں ایک تکلیف دہ بات اور دیکھی گئی ہے، وہ یہ کہ اپنے بہن بھائیوں میں سے کسی کو آگے بڑھتا دیکھیں تو خوش ہونے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اپنے دل میں اس کے خلاف بغض پالنےلگتےہیں۔
انسانی شخصیت کو کمزور کردینے والے ایسے عوامل سے چھٹکارا پانے کے لیے ماحول میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ ماحول کی تبدیلی کے لیے اہل خانہ کے رویوں میں اور مخالف باتوں پر ردعمل کے انداز میں تبدیلیاں درکار ہیں۔
آپ کے والدین کئی دہائیوں سے ایک دوسرے سے سخت ناراض اورشاکی ہیں۔ ان کی باہمی شکایتیں دورکرنا تو اب بہت مشکل ہے لیکن انہیں اولاد کی طرف سے اطمینان دلایا جاسکتاہے۔جو میاں بیوی آپس میں لڑتے رہتے ہیں ان میں سے اکثر اپنے بڑھاپے میں اپنی اولاد کی طرف سے خوف زدہ رہتے ہیں۔انہیں ڈر ہوتا ہے کہ ضعیفی کے دور میں ان کےبچے ان سے لاتعلق ہوجائیں گے۔
اس خوف اورگھراہٹ میں بوڑھے والدین کئی غلط فیصلے بھی کرڈالتے ہیں۔ ایسے والدین کی اولاد اگر گھر کاماحول کچھ بہتر بنانا چاہے تو اولین قدم کے طورپر اپنے والدین کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اولاد ان کا احترام کرتی ہے اور ان کی خدمت کرنا چاہتی ہے۔
آپ کے والد اوروالدہ نے اولاد کو حامی اورمخالف گروپوں میں تقسیم کرلیا ہے ۔ مجھے اندازہ ہے کہ ایسے ماحول کی اصلاح آسان نہیں ہے لیکن تیس چالیس سال پرانی تلخیوں کے اثرات دور کرنا بھی تو آسان نہیں ہوتا۔ تاہم اچھائی کی کوشش ہر وقت اور ہر حال میں کرنی چاہیے۔
رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ قریش گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے والدین کاتصورکرکے دم کردیں اور ان کے مزاج میں نرمی اوراصلاح کی توفیق ملنے کی دعا کریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔

 


***

نشہ کی عادت چھڑانے کے لیے دعا…

سوال: اپنے والد کے انتقال کے بعد میرا بیٹا بُری صحبت میں پڑگیا۔ اسے نشے کی لت لگ گئی۔ میں نے بڑی مشکل سے اس کا علاج کرایا لیکن کچھ عرصہ ہی سکون سے گزرا ۔اس کے بعد اس نے پھر ہیروین پینا شروع کردی۔ گزشتہ دوسال میں تین بار ہسپتال سے علاج کروایا ہے لیکن گھر آنے کے کے کچھ عرصہ بعد وہ پھر نشہ شروع کردیتاہے۔
آپ ایسی دعا بتائیں کہ میرے بیٹے کی نشہ کی عادت ختم ہو۔ ۔

جواب:رات کے وقت یا صبح سویرے جب آپ کا بیٹاسورہا ہو ،اس کے سرہانے بیٹھ کر اکتالیس مرتبہ سورہ مائدہ (5)کی آیت 90
گیارہ گیارہ مرتبہ درو دشریف کے ساتھ پڑھ کراس کے چہرے پر دم کردیں اور نشہ کی عادت سے نجات کی توفیق اورہمت ملنے کی دعاکریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس ر وزتک جاری رکھیں۔

 


***

رشتے داروں کے حسد نے چلتا ہوا کاروبار تباہ کردیا!

سوال: میرے شوہر بہت ذہین شخص ہیں، انہیں کاروباری معاملات میں بھی کافی مہارت ہے۔ انہوں نے چھوٹی عمر سے محنت کرکے اپنے پورے کنبے کو سنبھالا ، بہنوں کی شادیاں کی اور بھائیوں کے روزگار کا بندوبست کیا۔
جب میرے شوہر سارے بہن بھائیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوگئے تو انہوں نے اپنے بہن ، بھائیوں کے اخراجات دینے بند کردیے اور اپنے بچوں کو لیے سیونگز کرنا شروع کردیں۔ یہ بات میری نندوں اور دیوروں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ جب وہ ہمارے بچوں کو اعلیٰ اسکول میں تعلیم حاصل کرتے، میرے اچھے کپڑوں اور زیورات یا ہماری طرز رہائش کو دیکھتے تو لوگوں کے سامنے طرح طرح کی باتیں کرتے۔ وہ کہتے کہ ہمارے بڑے بھائی نے باپ کے کاروبار پر قبضہ کرکے ہم سب کو دربدر کردیا ہے جبکہ حقیقت میں یہ کاروبار میرے میاں کا جمایا ہوا تھا۔ بھائیوں اور بہنوں کے رویے سے میرے شوہر کافی اُداس رہتے تھےلیکن پھر بھی سب سے ہنس کر ملا کرتے اور وقت پڑنے پر کچھ مدد بھی کیا کرتے۔
ایک دن جب میرے شوہر اپنا کارخانہ بندکرکے واپس گھر آئے تو رات گئے ان کے موبائل پر فون آیا کہ کارخانے میں آگ لگ گئی ہے۔ میرے شوہر یہ خبر سنتے ہی کارخانے چلے گئے ، فائر بریگیڈز کی گاڑیاں آئیں اور آگ پر قابو پالیا گیا لیکن جب تک یہ آگ بجھتی اس نے میرے شوہر کا لاکھوں روپے کا خام اور تیار شدہ مال جل چکا تھا۔ اس آگ میں وہ مال بھی جل گیا جس کی پیمنٹ شوہر وصول کرچکے تھے۔
اس حادثے کے بعد اب ہم بری طرح قرض میں جکڑ چکے ہیں۔ مشینیں اس حالت میں نہیں کہ فوراًدوبارہ کام شروع کیا جاسکے۔ اب میرے شوہر کا کوئی بھائی یا بہن ہماری مدد کرنا تو دور بلکہ تمام خاندان ہماری اس تباہی پر خوشیاں منارہا ہے۔اس صورتحال نے میرے شوہر کو بری طرح توڑ کر رکھ دیا ہے۔
برائے کرم ! کوئی ایسی دعا تجویز کیجیے کہ ہم اس مشکل ترین دور سے نکل جائیں۔ 

جواب: احاسد شخص دوسروں کے پاس نعمتیں اور خوشیاں دیکھ کر جلتا ہے اور چاہتا ہے کہ نعمتیں اور خوشیاں اس شخص سے چھن جائیں۔ حاسد دوسرے کو خوش دیکھ کر خود غمگین ہوتا ہے اور دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہے۔
حسد اور نظر بد سے بچنے کے لیے صدقہ خیرات مسلسل کرتے رہنا چاہیے۔ مصیبتوں اور پریشانیوں میں صدقہ ڈھال بن جاتا ہے۔
اپنے شوہر سے کہیں کہ وہ صبح کام پر جاتے وقت اور شام کو گھر واپسی پر
سات سات مرتبہ سورہ الفلق اور سورہ الناس، تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں اور اپنی سواری پر بھی دم کردیا کریں۔آپ کے شوہر کام والی جگہ پر جاکر ظہر کے بعد اکتالیس مرتبہ :

بِسْمِ اللہِ الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ Oالَّذِیْ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَّھُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ O
فَاللہُ خَیْرٌ حَفِظًا وَّھُوَ اَ رْحَمَ الرّٰحِمِیْنَOمَاشَا ءَاﷲُ لَاحُوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ وَالْحَمْدُ للہِ رَبُّ الْعٰلَمِیْن


سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پہلے پانی پر دم کرلیں، پھر کام والی جگہ کے چاروں کونوں رُخ کرتے ہوئے دم کردیں۔ اس کے بعد یہ دم کیا ہوا پانی چاروں کونوں میں چھڑک دیں۔
آپ دونوں وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یاحفیظ یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔

 


***

وظیفے کی برکت سے بگڑا ہوا لڑکا راہ راست پر آگیا۔ 

سوال: میرے تین بچے ہیں۔ایک بیٹا اوردو بیٹیاں ہیں۔ میرے شوہر گزشتہ دس سال سے روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں۔ ہرسال تین چار ہفتوں کے لیے پاکستان آتے ہیں۔
میرا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھتاہے۔ اس کے دوست امیر گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس گاڑیاں ہیں۔ بیٹا گھر سے یونیورسٹی جاتا اورسارادن امیر لڑکوں کی گاڑیوں میں گھومتا رہتا۔ پڑھائی پرکوئی توجہ نہیں تھی۔ جیب خرچ دس ہزار روپے مہینہ اس کے والد اسے دیتے تاکہ اسے پڑھائی میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو لیکن بیٹا دس دن میں پیسے ختم کردیتاتھا۔ بقایا بیس دن روزانہ مجھ سے بدتمیزی کرکے پیسےلےجاتاتھا۔ اس کی وجہ سے گھر اوربچیوں کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ میں نے پیار محبت اورغصہ سے بھی سمجھایا لیکن اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی تھی۔ وہ اکثر اپنےباپ کے لیے بھی نازیبا الفاظ استعمال کرتاتھا۔ میرے شوہر کو بیٹے کی ان بری عادتوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ انہیں پتہ چل جاتا تو بہت بری بات ہوتی کہ وہ باپ جس نے اپنی اولاد کے لیے ساری زندگی دیار غیر میں گزاردی ، آج اس کی اولاد ا س کے لیے ایسے جملے کہتی ہے۔ میں نے شدید پریشانی کے عالم میں آپ کو خط لکھا اور اپنے مسئلے سے آگاہ کیا۔ جواب میں آپ نے مجھے جو وظیفہ بتایا اسے شروع کیے صرف بائیس دن ہی گزرے تھے کہ ایک دن میرا بیٹا روتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔ اس نے بتایا کہ اسے پتہ چل گیا کہ جن لڑکوں کے ساتھ وہ اپنا وقت گزار رہا تھا وہ اس سے مخلص نہ تھے بلکہ اسے حقیر سمجھتے تھے۔ دراصل میرے بیٹے نے ان لڑکوں کی کسی غلط بات پر ٹوکا تھا، جواب میں ان لڑکوں نے میرے بیٹے کو خوب بُرا کہا، اسے غربت کے طعنے دئیے اور نجانے کیا کچھ الٹا سیدھا بکتے رہے۔ اس لڑائی کے بعد میرا بیٹا اپنے رویے پر مجھ سے کافی شرمندہ ہوا، اور اب مجھ سے بہت تمیز سے پیش آتا ہے میں چاہتی ہوں کہ جو وظیفہ آپ نے مجھے بذریعہ خط ارسال کیا تھا وہ آپ روحانی ڈائجسٹ میں بھی شائع کردیں تاکہ میرے جیسی دوسری کئی پریشان ماؤں کا بھلا ہوجائے۔ ۔

جواب: رات سونے سے پہلے سورہ شوریٰ(42) کی آیت 28:
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے بیٹے کا تصور کرکے دم کردیں اور فرمانبرداری،سعادت مندی کی دعا کریں۔
یہ عمل کم ازکم چالیس روزتک جاری رکھیں۔ ناغہ کے دن شمارکرکے بعد میں پورے کرلیں۔
اس کے علاوہ صبح یا شام تین سومرتبہ

اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ O

اول آخر گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پلائیں اوردعاکریں کہ بیٹے کا پڑھائی میں دل لگے اوراسے تعلیمی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے اداکرنے کی توفیق ملنے کی دعاکریں۔

 

 


***

نئے پارٹنرز کی نیت خراب ہوگئی….

سوال: پندرہ سال پہلے میرے میاں نے لیدر گارمنٹ کا کارخانہ لگایا تھا۔دن رات محنت کی۔کام کے اچھے معیار اوربروقت ڈیلیوری کی وجہ سے میاں کو جلد ہی بڑے آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔دس سال پہلے میری شادی کے بعد مارکیٹ کے ایک بڑے بزنس مین نے پارٹنرشپ کی آفر کی جو میرے میاں نے اپنے لیے ایک اعزاز سمجھ کر قبول کرلی اورلیدر گارمنٹ کی ایکسپورٹ شروع کی ….اس میں بہت کامیابی ہوئی۔
کاروبار کو اچھا چلتاہوا دیکھتے ہوئے میاں کے پارٹنر نے بتایا کہ دو بڑے کاروباری افراد ہمارے پارٹنر بننا چاہتے ہیں۔پھر کچھ دنوں میں ایگرمنٹ کے ذریعے مزید دو بزنس مین اس کاروبار میں شریک ہوگئے۔ یورپ کے کئی ممالک میں بھی ایکسپورٹ کرنا شروع کردیا۔
اب ان نئے دوپارٹنر نے طرح طرح کے مطالبے شروع کردیئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ان کی مرضی کے اور لوگوں کو بھی بزنس میں شامل کیاجائے۔میاں کے پارٹنر کا کہنا ہے کہ ان دونوں نئے پارٹنر کی نیت خراب ہوگئی ہے اوریہ یورپ کی مارکیٹ پر اپنا قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ان نئے پارٹنر کے ساتھ جھگڑے روز بروز بڑھتے جارہے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے قانونی کاروائی کی دھمکی بھی دے دی ہے۔میرے میاں کے حصے میں کارخانے کی ذمہ داری ہے اوران کے پارٹنرز کے ذمے مال ایکسپورٹ کرنے کی ذمہ داری ہے۔
میرے میاں کے پہلے پاٹنر ان دونوں نئے پاٹنرز سے بہت خوف زدہ ہیں ۔میرے میاں کسی قسم کی قانونی کاروائی میں نہیں پڑنا چاہتے ۔وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ نظر آجائے کہ ان دونوں پاٹنرز سے عزت کے ساتھ معاملات طے ہوجائیں۔ 

جواب: عشاء کی نماز کے بعد101مرتبہ سورہ یونس (10)کی آیت 85-86
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کردعاکریں۔ یہ عمل چالیس روزتک جاری رکھیں۔
آپ کے شوہر وضو بےوضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء یا حفیظ یاسلام کا ورد کرتے رہیں۔
حسب استطاعت صدقہ کرتے رہیں۔ 

 

 


***

ڈکٹیٹر ساس 

سوال: میری شادی کو پانچ سال ہوچکے ہیں۔ میری ساس نے کبھی مجھے اپنا نہیں سمجھا۔مجھے دوسروں کے سامنے ہمیشہ حقیر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
میرے والد متوسط طبقے سےتعلق رکھتے ہیں۔ میرے شوہر کی آمدنی ماشاء اللہ بہت اچھی ہے۔ میری ساس ہمیشہ مجھے غربت کا طعنہ دیتی ہیں۔ کبھی کہتی ہیں کہ جہیز میں فلاں چیز کی کمی تھی۔ کبھی کہتی ہیں فلاں چیز میعاری نہیں۔ یہ جملے سنتے ہوئے مجھے بہت اذیت ہوتی ہے۔
میرے شوہر مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ میرا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میری ساس رکاوٹ بن جاتی ہیں۔گھر میں کوئی بھی چیز ان کی اجازت کے بغیر مجھے نہیں مل سکتی۔
اپنی ساس کی اجازت کے بغیر اپنے میکے بھی نہیں جا سکتی،کبھی اجازت مل جاتی ہے، اکثر کوئی نہ کوئی بات بنا کر منع کردیتی ہیں۔
کسی تقریب میں جانا ہوتو کپڑے و میک اپ بھی ساس کی مرضی کے مطابق ہونا لازمی ہے۔ میرے شوہر مجھے سمجھاتے ہیں کہ میں کچھ عرصہ برداشت اورتعاون کروں۔
میری دوبیٹیاں اورایک بیٹاہے۔ ان کے اسکول میں داخلے سے لے کر گھر کے روٹین تک بچوں کا ہر کام ساس کی مرضی سے ہواہے۔
شادی کےان پانچ سالوں میں مسلسل برداشت کرتے کرتے اب میری ہمت جواب دے چکی ہے۔

جواب: رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورۂ الملک (67)کی پہلی دو آیات

تَبَارَكَ الَّـذِىْ بِيَدِهِ الْمُلْك وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ O اَلَّـذِىْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ O 

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے حالات کی بہتری اور پرسکون ازدواجی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔
یہ عمل نوے روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمارکرکے بعد میں پورے کرلیں۔ 

 

 


***

لاپرواشوہر کی دھمکیاں 

سوال: میری شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں۔میری دوبیٹیاں ہیں۔میرا شوہر شروع دن سے ہی لاپروا اورغیر ذمہ دار ہے۔ میری دونوں بیٹیوں کی ڈیلیوری بھی میری والدہ کے گھر ہوئی ہے۔
دوسال پہلے میرا شوہر مجھے میری والدہ کے گھر چھوڑ گیااورکسی قسم کارابطہ نہیں رکھا۔ میں زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوں ۔میں نے ایک ادارے سے ٹیلرنگ کا کام سیکھا ۔بعدمیں اسی ادارے نے مجھے Contractپرکام دینا شروع کردیا۔ اس طرح مالی حالات میں بہتری آئی۔ اب شوہر کوبھی میری یاد آگئی۔اس نے مجھے فون کرکے کہا کہ وہ ملنا چاہتا ہے۔
میں نے کہا کہ کہ اب اس کی کیا ضرورت ہے تو اس نے کہا کہ دراصل مجھے دس ہزار روپے کی ضرورت ہے تم مجھے تین دن کے اندر پیسوں کا بندوبست کرکے دو نہیں تو میں دونوں بیٹیوں کو تم سے چھین لوں گا۔ میں نے کہا کہ میرے پاس اتنی بڑی رقم کہاں ہے اورنہ ہی میں کسی سے ادھار لےسکتی ہوں۔
اپنے شوہر کو پیسے دیتے ہوئے میں اس لیے بھی ڈرتی ہوں کہ اگر ایک بار میں نے اُسے پیسے دے دیئے توپیسے مانگنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
میں نے اُسے پیسے نہیں دیئے تو میرے ظالم اور لالچی شوہر نے میرے ادارے کے چکر لگانا شروع کردیئے ۔وہاں آکر پیسوں کا تقاضہ کرنے لگا۔۔  

جواب:عشاء کی نماز کے بعد مصلے پربیٹھے بیٹھے اکتالیس مرتبہ سورہ حدید(53) کی آیت 3:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰىO


گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کرتصورکریں کہ آپ خانہ کعبہ کے سامنے ہیں۔ جب یہ تصور قائم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے حضوراپنا مسئلہ پیش کردیں اوراس کے جلدازجلدحل کے لیے دعاکریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روزتک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔

 


***

شوہر کی غیر عورتوں میں دلچسپی ختم کرنے کے لیے کیا کیا جائے…..؟

خط: میری شادی کو چار سال ہوچکے ہیں، میرے دو بیٹے ہیں۔ میرا سسرال مالی طور پر بھی کافی مستحکم ہے۔ جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی تو مجھے پتہ چلا کہ میرے شوہر خواتین کے ساتھ بہت زیادہ گھل مل جانے والے شخص ہیں۔ ہم کسی تقریب میں جاتے تو یہ وہاں غیرعورتوں سے باتیں شروع کردیتے تھے۔ کچھ عورتیں ان سے ہنسی خوشی بات کرلیا کرتیں تو کچھ بہت برا مناتیں اور مجھ سے ان کی شکایت کرتیں۔ کچھ دن بعد مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کا چند عورتوں سے باہر بھی میل جول ہے۔ میں نے ساس سسر سے شکایت کی ، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
میں ایک بن ماں باپ کی لڑکی ہوں، صرف ایک بڑی بہن کے علاوہ میرا دنیا میں کوئی نہیں۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شوہر مجھے بار بار چھوڑ دینے یا دوسری شادی کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں جو کررہا ہوں مجھے کرنے دو۔
اب ان کی دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ گھر میں بھی غیرعورتوں سے باتیں کرتے ہیں جبکہ میں کمرے میں بیٹھی روتی رہتی ہوں۔ میری سمجھ نہیں آتا کہ آخر میں کیاکروں….؟

وظیفہ: صبح کے وقت وضو کرکے اکیس مرتبہ :

 لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ O اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ O لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ 

 سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے شوہر کو پلائیں اور ان کی اصلاح کے لیے دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاریرکھیں۔
ناغہ کے دن بعد میں پورے کرلیں۔ 

 

 


***

سائے نظرآتے ہیں….

سوال: تقریباً تیس سال پہلے ہمارے والد نے انوسٹمنٹ کی غرض سے ایک مکان خریدا۔والد کا خیال تھا کہ کچھ عرصہ بعد اسے بیچ دیں گے۔اس وقت والد نے اپنے ایک کزن کو جو بہت غریب اور بے اولاد تھے،عارضی طورپر اس مکان میں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس وقت والد کا کاروبار بہت اچھا تھا ۔شہر میں ان کی کافی جائیداد تھی۔ چند تین سال بعد والد نے یہ مکان بیچنے کا ارادہ کیا اور اپنے کزن سے مکان خالی کرنے کو کہا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہیں چار پانچ سال اس مکان میں رہنے دیا جائے۔ہمارے والد نے انہیں کہا کہ چار پانچ سال تو نہیں البتہ مزید ایک سال آپ یہاں اور رہ لیں۔یہ بات سن کر وہ کہنے لگے چلو دیکھیں گے تم یہ مکان بیجتے ہویا خود یہاں آکر رہتے ہو….ان کی یہ بات ہمارے والد کو بہت عجیبسی لگی۔
اس بات کے چند ہفتوں بعد ہی ہمارے والد کا کاروبار کم ہونے لگا۔ ایک سودے میں انہیں بہت زیادہ نقصان ہوا۔ وہ نقصان بھرنے کے لیے انہیں اپنے کئی پلاٹ بیچنے پڑے۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور بڑا نقصان ہوا ۔اس نقصان کو بھرنے کے لیے ہمیں اپنا قدیمی رہائشی مکان بیچنا پڑا اور ہم لوگ واقعی اس مکان میں آگئے جسے والد نے انوسٹمنٹ کے لیےخریدا تھا۔
اس مکان میں رہائش اختیار کرنے کے بعد ہمیں کئی دوسرے مسائل کابھی سامنا کرنا پڑا۔
یہاں آنے کے بعد میرےایک بچے کو سانس کا مرض ہوگیا۔ایک بھائی کو ڈپریشن ہونے لگا۔ایک بھائی کو دمہ کی بیماری لگ گئی۔
کچھ عرصہ بعد چھت سے اور سیڑھوں سے لوگوں کے بھاگنے ،دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ کبھی زینےپر کوئی سایہ سا چلتا نظر آتا۔کبھی بڑا سا سانپ رینگتا ہوا نظر آتا۔
کاروباری نقصانات کے بعد گھر کے تین افراد کی بیماری کے بعد اس نئی صورت حال سے ہم سب سخت پریشان تھے ۔بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے والد کے کزن ہمارے مکان میں بیٹھ کر عمل کیا کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ اس مکان میں تو پہلے ہی سے اثرات تھے۔ ان صاحب کے آنے کے بعد ان اثرات میں مزید اضافہ ہوگیا ۔
یہ سب باتیں ہمیں مکان میں شفٹ ہونے کے بعد معلوم ہوئیں۔
ہم تین بھائی شادی شدہ ہیں۔ پچھلے چھ ماہ سے دو بھائیوں نے اپنی اپنی رہائش الگ کرلی ہے۔ الگ ہونے کے بعد وہ دونوں خوش ہیں ۔ایک بھائی کی بیٹی کو سانس کی تکلیف بھی خود ہی ٹھیک ہوگئی ہے۔
کئی لوگ کہتے ہیں کہ اب آپ لوگ بھی یہ مکان چھوڑکر کہیں اور شفٹ ہوجائیں لیکن فی الحال ہم یہ مکان چھوڑ کر کسی دوسری جگہ مکان خریدنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔سمجھ میں نہیں آرہاکہ کیاکیاجائے۔ ۔
۔

جواب: حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ کا ایک قول ہے کہ ….
‘‘جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔’’
انسانی وجود خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگوں میں خیر کے جذبات حاوی ہوتے ہیں کچھ میں شر کے جذبات غالب ہوتے ہیں۔ بعض لوگں میں کسی وقت خیر اور کسی وقت شر غالب ہوتا رہتا ہے۔
جن لوگوں میں شر کے جذبات زیادہ حاوی ہوتے ہیں وہ اپنی ضرورت کے وقت کسی کے سامنے عاجزی و انکساری کا پیکر بن کر اس کے پیر پکڑنے کو بھی تیار رہتے ہیں جب ضرورت پوری ہوجائے یا فیصلہ ان کے ہاتھوں میں آجائے تو ایسے کم ظرف لوگ آنکھیں پھیرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔
آدمی اپنے وجود میں شر کے جذبات پر قابو پائے اور خیر کے جذبات کو بڑھاوا دے۔ یہ عمل تزکیہ نفس کہلاتا ہے۔
اپنے کام نکل جانے کے بعد آنکھیں پھیرنے والے افراد کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ بعض لوگ خود پر کیے جانے والے حسن سلوک کو فراموش کرکے چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض اپنے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کی برائیاں بیان کرنے لگتے ہی جبکہ بعض بد طینت افراد اپنے ساتھ اچھائی کرنے والے کو نقصان پہنچانے کے در پے بھی جاتے ہیں۔
حسن سلوک کی کئی اقسام ہیں۔ کبھی محض مسکراہٹ، نرم لہجہ اور اچھا رویہ حسن سلوک کہلاتا ہے۔ کبھی کسی کی مشکل میں عملی طور پر کام آنا حسن سلوک کے زمرے میں آتا ہے۔ کبھی صائب مشوروں کے ذریعے حوصلہ افزائی اور رہنمائی حسن سلوک بن جاتی ہے۔حسن سلوک مالی تعاون یا جائیداد کی سپردگی کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔
کرایہ دار، رشتہ دار یا کسی دوست کا کسی جائیداد پر قبضہ کرلینا حسن سلوک کے منفی جواب کی مثالیں ہیں۔
آپ کے والد نے ایک صاحب کے ساتھ اچھائی کی، جواب میں انہیں نقصان اور تکالیف کا سامنا کرناپڑا۔
اندازہ ہوتا ہے کہ منفی، سفلی عملیات کے ذریعے یہ مکان آپ کے والد اور اہل خانہ کے لیے ‘‘بھاری’’ کردیا گیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ آپ لوگ یہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کریں۔
یہاں رہائش کے دوران حاسدوں کے شر اور بدعملیات کے اثرات سے حفاظت کے لیے صبح اور شام اکیس اکیس مرتبہ سورہ فلق، سورہ الناس گیارہ گیارہ مرتبہ سورہ فاتحہ، اول آخر سات سات مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے سب گھر والوں کو پلائیں۔
ایک سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی سے سورہ الزلزال لکھ کر یا پرنٹ نکلوا کر کسی کمرے میں آویزاں کردیں۔
حسب استطاعت صدقہ کرتے رہیں۔

 


***

شوہر کی طرف سے ازدواجی حقوق سے محروم عورت کیا کرے؟

سوال: میری شادی 2017 ء میں ہوئی۔ میرے والدین متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جب ان کا رشتہ آیا تو میرے والدین ان لوگوں کے بنگلے ، گاڑی کی چکاچوند اور روپے پیسے کی ریل پیل سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے لڑکے کی تھوڑی سی بھی جانچ پڑتال کرنا مناسب نہ سمجھا اور چند ہی ماہ میں میری شادی یہاں کردی گئی۔
شادی کے کچھ دن بعد تک میرے شوہر یہ بہانہ کرتے رہے کہ ان کی طبیعت شدید خراب ہے اس وجہ سے ان کا ذہن میری طرف مائل نہیں ہورہا۔ اسی دوران مجھے پتہ چلا کہ چند سال پہلے بھی میرے شوہر کی ایک شادی ہوچکی ہے جو چند ماہ بعد ختمہوگئیتھی۔
مجھ سے شادی کے بعد چند دن تک وہ طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرتے رہے ، پھر چند ہفتوں کے لیے بیرون ملک چلے گئے ، واپس آنے پر بھی ان کے رویے میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔
کچھ دن بعد مجھ پر یہ واضح ہوگیا کہ میرے شوہر شادی شدہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہیں، مجھ سے شادی انہوں نے صرف اس لیے کی کہ انہیں سوشل سرکل میں اپنے گرتے ہوئے امیج کو بحال کرنے کی ضرورت تھی۔
لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت خوبصورت ہوں لیکن اپنے شوہر کی اس بے التفاتی کی وجہ سے میں مرجھا کر رہ گئی ہوں۔
میرے شوہر مجھ پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگاتے، جتنے پیسے مانگتی ہوں فوراً دے دیتے ہیں۔ میں نے اپنے ماں باپ اور بھائیوں سے اس بارے میں کئی بار بات کی لیکن اُن کا کہنا ہے کہ تمہیں اس سے اچھا رشتہ نہیں مل سکتا تھا اور مجھے اپنے شوہر کو علاج کی جانب مائل کرنا چاہیے۔
شوہر سے جب بھی اس موضوع پر بات کروں تو وہ بات پلٹ دیتے ہیں ، زیادہ زور دینے پر ناراض ہوجاتے ہیں۔ میرے سسرال میں تقریباً تمام لوگ ہی شوہر کے اس نقص سے واقف ہیں، لیکن سب خاموش رہتے ہیں۔
آج میں ایک عجیب دوراہے پر کھڑی ہوں میرے اہل خانہ میرا مسئلہ سمجھنے کو تیار نہیں اور میرے شوہر اپنا مسئلہ سننے کو تیار نہیں۔ اپنی ایک سہیلی کے کہنے پر آپ سے رابطہ کررہی ہوں ۔
مجھے سمجھ نہیں آتا کہ شوہر کی طرف سے ازدواجی حقوق سے محروم ایک جوان عورت آخرکیاکرے….؟ 

جواب: آپ کے شوہر کو طبی اور نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ آپ کے والدین کو یہ معاملہ آپ کے ساس سسر کے سامنے رکھنا چاہیے اور انہیں آپ کے شوہر کے مناسب ڈاکٹری، حکیمی یا ہومیو پیتھک علاج کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علاج پر قائل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
بعض لوگ حسد، نظربد، سحر کی وجہ سے بھی ازدواجی تعلقات کے قیام سے معذور ہوجاتے ہیں۔ ازدواجی تعلقات پر حسد یا سحر کے اثرات سے نجات کے لیے اللہ کے کلام سے مدد لی جائے۔
صبح اور شام گیارہ گیارہ مرتبہ سورۂ فلق اور سورۂ الناس اور سات مرتبہ سورہ الاعراف (7) کی آیت 189 میں سے :

هُوَ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْـهَا زَوْجَهَا لِـيَسْكُنَ اِلَيْـهَا ۖ  

تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے میاں بیوی دونوں پی لیں۔ رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورۂ روم (30) کی آیت 21 میں سے :

وَمِنْ اٰيَاتِهٓ ٖ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُـوٓا اِلَيْـهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّّرَحْـمَةً  
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ شوہر کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ ان کی حفاظت ہو اور انہیں صحت عطا ہو۔

 

 

 


***

دل سے قبول کرلو….!

سوال: میری شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں۔ میری عمر اڑتیس سال ہے۔ شروع ہی سے شوہر اور سسرال والوں کا رویہ میرے ساتھ اچھا نہ تھا۔ اسی ٹیشن زدہ ماحول میں میں امید سے ہوگئی۔اللہ نے مجھے ایک بیٹا دیا۔جب یہ بیٹا دوماہ کا ہوا تو میرے دیور کا انتقال ہوگیا۔ میرے دیور کی دولڑکیاں اورایکلڑکاہے۔
میرے سسرال والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ میرے شوہر اپنی بیوہ بھابھی سے شادی کرلیں تاکہ بیوہ اوربچوں کی کفالت ہوسکے۔ اس فیصلہ سے میری دیورانی بھی خوش تھی ۔اس کا معاملہ بھی میرے ساتھ دوسرے گھر والوں جیسا ہی تھا۔
میں نے اپنے شوہر کو خدا رسول کے واسطے دیئے۔ ہاتھ جوڑے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔جب میں نے دیکھا کہ یہ لوگ نہیں مانتے تو میں اپنے بیٹے کو لے کر اپنے والدین کے گھر آگئی۔ عدت کے بعد میرے شوہر نے اپنی بیوہ بھابھی سے گھر میں ہی نکاحکرلیا تھا۔
نکاح کے تین ماہ بعد انہوں نے زورزبردستی مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا مجبوراً مجھے ہی کچھ دنوں بعد ان کے گھر واپس آنا پڑا۔میں نے تو ان حالات سے سمجھوتہ کرلیا ہے لیکن میرے سسرال والوں نے مجھے ابھی بھی دل سے قبول نہیں کیا۔
میں سب کچھ اپنے بیٹے کے لیے برداشت کررہی ہوں۔
کوئی دعا بتائیں کہ میرے شوہر اوراس کے گھر والے میرے ساتھ اچھا سلوک کریں۔

جواب: پانچ وقت نماز کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد ایک تسبیح

یااللہ یارحیم یاکریم

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیجیے کہ آپ کے شوہر، ان کی دوسری بیوی اور سسرال والوں کو آپ کے ساتھ حقوق کی اچھی طرح ادائی اور آپ کے ساتھ حسن سلوک کی توفیق عطا ہو۔

 

 


***

 

کاروباری حریف نے ’’جھوٹے مقدمے‘‘ میں پھنسادیا 

سوال:میرے شوہر کی شہر کے ایک چلتے ہوئے بازار میں ٹائرز کی دکان ہے۔ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے اور مارکیٹ میں میرے شوہر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ماشاء اللہ میرے شوہر طبیعتاً انتہائی نیک ، حلیم اور شفیق انسان ہیں۔
انہوں نے آج سے دس سال پہلے اپنی دکان میں کام کرنے والے ایک لڑکے کو اپنی برابر والی دکان لے کر دی، اور کاروبار شروع کروانے میں اس کی بہت مدد کی۔ لیکن اس احسان فراموش لڑکے نے مارکیٹ میں اپنے پیر جماتے ہی میرے شوہر کے گاہگوں کو بد دل کرنا اور اپنی جانب راغب کرنا شروع کردیا۔ جب اس سے بات نہ بنی تو مختلف ہتھکنڈوں سے ہمارے کاروبار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے ایک مقدمہ دائر کردیا کہ یہ اس کی دکان ہے جس پر میرے شوہر نے زبردستی قبضہ جما رکھا ہے۔ اس کے جواب میں میرے شوہر نے بھی ایک وکیل کیا۔ اب عدالت میں مقدمے کی تاریخیں پڑرہی ہیں۔
میرے شوہر اس معاملے میں کافی پریشان ہیں کیونکہ یہ دکان میرے سسر نے بہت محنت سے بنائی تھی جسے میرے شوہر نے کافی ترقی دی۔ میرے شوہر بہت سیدھے سادے آدمی ہیں وہ اپنے اس جعلساز حریف کی اوچھی حرکتوں سے بہتپریشانہیں۔  ۔

جواب:اپنے شوہر سے کہیں کہ وہ فجر اور عشاءکے بعد 101مرتبہ سورۂ یوسف (12)کی آیت 67 میں سے :

اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّـٰهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ  

یاور
سورہ الملک (67)کی پہلی آیت ۔

تَبَارَكَ الَّـذِىْ بِيَدِهِ الْمُلْك وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ O

گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز یا نوے روز تک جاری رکھیں۔ اللہ کے کلام کی برکت سے ان شاء اللہ جھوٹے مقدمے سے جلد گلو خلاصی ہوجائے گی اور احسان فراموش جھوٹے مدعی کے شر سے ان شاء اللہ حفاظت ہوگی۔
حسبِ استطاعت صدقہ کردیں۔

 


***

والد کے غصے اور عیاش مزاجی نے بیٹے کو نفسیاتی مریض بنادیا۔ 

سوال:میری شادی پچیس سال پہلے ایک دور کے رشتے دار سے ہوئی تھی۔ میرے شوہر اپنے علاقے کے ایک بڑے زمیندار ہیں۔ ان کا کافی رعب و دبدبہہے۔
مجھے نہیں یاد کہ پچھلے پچیس سالوں میں میرے شوہر نے مجھ سے کبھی پیار اور محبت سے بات کی ہو۔ گھر کے ملازموں کے ساتھ تو ان کا رویہ اور بھی سنگدلانہ تھا۔ کسی بھی ملازم سے ناراض ہوجاتے تو اسے گندی گندی گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بازاری عورتوں سے ملنا ، رقص و سرور کی محفلوں کا انعقاد بھی روز مرہ کا معمول تھا، ان گندی محفلوں میں شراب نوشی کے بعد اخلاق کی تمام حدیں پار کردی جاتیں۔
میں نے اپنے بچوں کو اس ماحول کے اثرات سے بچانے کی پوری کوشش کی۔ شکر ہے کہ میرے بچے شراب یا کسی اور نشے سے تو دور ہی رہے لیکن والد کے غصے اور عیاش مزاجی کی مسلسل مزاحمت نے انہیں نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ خاص طور پر میرا بڑا بیٹا بہت نروس اور گھبراہٹ میں رہتا ہے۔
میرے شوہر جب اسے اس حالت میں دیکھتے ہیں تو بجائے ہمدردی کے دو بول بولنے کے اُلٹا اسے کوسنا شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیروں کے گھر یہ بکری پتہ نہیں کیسے پیدا ہوگئی ہے۔
میں اپنے اس بیٹے کے لیے بہت پریشان ہوں ، میرا تعلق ایک ایسے طبقے سے ہے کہ اگر میں اپنے اس لڑکے کو کسی نفسیاتی معالج کو دکھاؤں تو پورے خاندان میں اسے پاگل مشہور کردیا جائے گا۔
ڈاکٹر صاحب !میرے اس بیٹے کے لیے کوئی روحانی علاج تجویز فرمادیں۔ برائے کرم نام نہ شائع کیجیے گا۔ ۔

جواب:بیٹے کو نفسیاتی معالج کو دکھانا بہتر رہے گا۔ صبح و شام گیارہ گیارہ مرتبہ :

لَا إلٰہَ إلَّا اللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ، سُبْحَانَ اللہِ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ شَرِّ عِبَادَكَ 

تین تین مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے اپنے بیٹے کو پلائیں اور اس پر دم بھی کردیں۔ اپنے بیٹے سے کہیں کہ وہ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسماء ::

 يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ يَا قَوِيُّ يَا عَزِيزُ

کا ورد کرتا رہے۔

 


***

 

ماسی کی بیٹی

سوال:میں ایک غریب اوربے سہارا عورت ہوں۔کم عمری میں شادی ہوگئی تھی۔میری ایک بیٹی ہے۔ میرا شوہر نشہ کرتاتھا اورمجھے مارتا پیٹتا بھی تھا۔ کئی سال پہلے اس نے دوسری شادی کرلی اور مجھ سے اوراپنی بیٹی سے لاتعلق ہوگیا۔اس وقت میری بیٹی کی عمر دس سال تھی۔ میں نہ تو زیادہ پڑھی لکھی تھی اور نہ ہی مجھے کوئی ہنر آتاتھا۔ والدین تھے نہیں ….غریب بھائیوں نے دوتین مہینے تو خبر گیری کی پھر وہ بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔
سرپر پڑی تو میں نے گزراوقات کے لیے گھروں میں کام شروع کردیا۔ میرا ایک خواب تھا کہ میری بیٹی اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ تنگ دستی کے باوجود میں اپنی بیٹی کو اسکول بھیجتی رہی۔آہستہ آہستہ میں نے کھانا بنانا بھی سیکھ لیا اور گھروں میں کھانا پکانے لگی۔ اس سے میری آمدنی میں خاصا اضافہ ہو گیا اوربیٹی کی اسکول کی فیس دنیا آسان ہوگیا۔
میری بیٹی نے میٹرک میں اے گریڈ لیا۔ انٹر میں اس کے نمبر اوربھی اچھے آئے ۔میں گھروں میں کام کرتی رہی اور اپنی بیٹی کو پڑھاتی رہی۔میری بیٹی اب ایک اچھی یونیورسٹی میں گریجویشن کے آخری سال میں ہے۔ یونیورسٹی میں بھی وہ ہر امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہورہی ہے لیکن اپنی ان کامیابیوں کے باوجود اب وہ بہت اداس اورمایوس رہنے لگی ہے۔اس کی اداسی کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی دوستنہیںہے۔
یونیورسٹی میں داخلے کے بعدکئی لڑکیوں اورلڑکوں سے اس کی سلام دعا ہوئی لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ یہ تو ایک ماسی کی بیٹی ہے تو ان لوگوں نے اس سےدوردور رہنا شروع کردیا چونکہ پڑھائی میں بہت اچھی ہے اس لیے نوٹس لینے اوردوسری تعلیمی ضروریات کے لیے لڑکیاں اس کے پاس آتی ہیں۔اس کی قابلیت کی خوب تعریفیں بھی کرتی ہیں۔ میری بیٹی خوشی خوشی ان لڑکیوں کے کئی کام کردیتی ہے۔ کام مکمل ہوجانے کے بعد وہ لڑکیاں اس سے لاتعلقی اختیارکرلیتی ہیں۔ ایسا کئی بار ہوچکاہے۔
ادھر میرے ساتھ بھی عجیب معاملہ ہے۔ میں بہت خوشی خوشی لوگوں کو بتاتی ہوں کہ میری بیٹی ایک اچھی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے تو بجائے خوش ہونے کےاکثر عورتیں مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں
اوہو….اچھا بھئی….
میرا خیال تھا کہ میری بیٹی اچھی تعلیم حاصل کرے گی تو لوگوں میں ہماری عزت بڑھے گی ۔لوگ میری بیٹی کی حوصلہ افزائی کریں گے لیکن یہاں تو ایسا کچھ نہیں ہورہا اور مجھے لوگوں کی طرف سے لاتعلقی اورطنزیہ مسکراہٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب….ً! ان حالات میں ہمیں کیا کرناچاہے….؟

جواب: ایک عورت کا تن تنہا گھر داری کی ذمہداریاں سنبھالنا اور اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور تعلیم کا اہتمام کرنا نہایت مشکل کام ہے۔
آپ مبارک باد کی حق دار ہیں کہ اپنے شوہر کی غیر ذمہ درانہ حرکتوں کے باوجود آپ نے اپنی بیٹی کی اچھی تعلیم کے لیے بہت زیادہ ایثار کیا۔
میری دعاہے کہ آپ کی بیٹی کو مزید کامیابیاں ملیں۔ اس کا نصیب اچھا ہو۔اسے عملی زندگی میں اعلیٰ مقام اورازدواجی زندگی میں ڈھیر وں خوشیاں ملیں۔آمین
آپ کی بیٹی کو یونیورسٹی میں ہم جماعتوں کی لاتعلقی کا اورآپ کو اپنی بیگم صاحباؤں کی طنزیہ مسکراہٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔یہ لاتعلقی اورطنزیہ مسکراہٹیں دراصل ان لوگوں کی اپنی تنگ دلی کا مظاہرہ ہیں۔
ایک غریب اوروہ بھی سنگل پیرنٹ عورت کی بیٹی ایک اچھی یونیورسٹی میں پڑھنے لگے ،طبقاتی سوچ سے مغلوب بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات تسلیم کرنا آسان نہیں ہے۔ بعض لوگوں کے طرزعمل کتنے عجیب ہوتے ہیں ۔کئی لوگ غریب کے بچے کو آگے پڑھنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتے بلکہ اس کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن یہی بچہ اپنی محنت سے معاشرے میں کوئی مقام بنا لے توپھر اس سے اپنا تعلق جوڑنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔
فی الحال آپ خاموش رہیں۔جن گھروں میں آپ کام کرتی رہیں وہاں بیگم صاحباؤں کو اپنی بیٹی کی باتیں نہ بتایا کریں۔
کئی دولت مندوں کے وسائل بہت زیادہ لیکن دوسروں کے لیے ان کے دل بہت تنگ ہوتے ہیں۔ یہ تنگ دلی کسی وقت جلاپے اور حسد میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔

 


***

 

 


***

 

 

 


***

 

 


***

 


***

 


***

 


***

 

 

 

یہ بھی دیکھیں

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے

شوہر کے جیل سے رہا ہونے کے بعد، بیوی کے بدلے ہوئے رویے سوال:   میں ...

روحانی ڈاک – ستمبر 2020ء

   ↑ مزید تفصیلات کے لیے موضوعات  پر کلک کریں↑   ***   اولاد نرینہ کے لیے ...

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *