Notice: फंक्शन WP_Scripts::localize को गलत तरीके से कॉल किया गया था। $l10n पैरामीटर एक सरणी होना चाहिए. स्क्रिप्ट में मनमाना डेटा पास करने के लिए, इसके बजाय wp_add_inline_script() फ़ंक्शन का उपयोग करें। कृपया अधिक जानकारी हेतु वर्डप्रेस में डिबगिंग देखें। (इस संदेश 5.7.0 संस्करण में जोड़ा गया.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
حضرت بابا فرید گنج شکرؒ – روحانی ڈائجسٹ
मंगलवार , 4 नवम्बर 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

حضرت بابا فرید گنج شکرؒ

اسپین اور سندھ کے ذریعے برصغیر میں اسلام کا پیغام تقریباً ایک ہی وقت میں پہنچا۔ پھر اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ آج اسپین اور یورپ کے دوسرے ممالک میں اسلامی ثقافت کے آثار مٹ چکے ہیں، جبکہ برصغیر میں اسلام سے وابستگی بہت مستحکم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دلوں پر حکومت کرنے کے لیے محبت، باہمی میل جول اور بھائی چارے کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ نے یہی راستہ اختیار کیا۔ اولیاء کرام، صوفیاء اور درویشوں نے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا۔ برصغیر میں اسلام کی ترویج میں ان کا کردار اہم رہا ہے ۔ ان ہستیوں نے امن و امان، محبت، بھائی چارے اور باہمی میل جول کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں کو عملی نمونہ کے طور پر پیش کیا اور سادہ زندگی گزاری۔
صوفیاء کرام نے لوگوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کا پیغام دیا۔ ان بزرگان دین میں تیرہویں صدی میں سلسلہچشتیہ کے معروف بزرگ اور صوفی شاعر حضرت شیخ فرید الدین مسعود المعروف بابا فرید گنج شکرؒ کا نام بھی بہت نمایاں ہے۔
فرید الدین مسعود 1188 ء (بمطابق 584ھ) کو ملتان کے علاقہ کھیتوال میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد کابل سے ہجرت کرکے لاہور، ملتان اور پھر کھیت وال ضلع ملتان (جو کہ ملتان سے 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ) تشریف لائے۔
ملتان کے حاکم نے آپ کے دادا قاضی شعیب صاحب کو کھیتوال کا قاضی مقرر کیا اور انہیں ایک جاگیر بھی دی۔ ان کے ایک بیٹے شیخ جمال الدین سلیمان کی شادی ملّاوجیہ الدین کی صاحبزادی قرسم خاتون کے ساتھ ہوئی۔ اﷲتعالیٰ کے کرم سے ان کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوئے محمود، مسعود اور متوکل۔ محمود کو اعزالدین کا لقب ملا، متوکل نجیب الدین کہلائے اور مسعود کو فرید الدین کالقب دیا گیا….

بابا فرید  بیت المقدس میں

نوجوانی میں سیاحت کے دوران بابا فرید گنج شکر نے بیت المقدس میں کئی سال قیام کیا۔ بابا فرید اپنا زیادہ تر وقت مسجد اقصیٰ کے ارد گرد جاروب کشی کرتے اور اس قدیم شہر کے اندرون میں واقع ایک غار میں عبادت میں گزارتے تھے۔ یروشلم میں آپ کا قیام حضرت سیدنا ابراہیم ادھم بلخی ؒ کے مزار مبارک کے قریب تھا۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بابا فرید بیت المقدس میں عرصہ تین سال رُکے ۔ گنج شکر کے لقب سے شہرت پانے والے اس مرد قلندر کے نام پہ قائم زاویے آج بھی فلسطین میں ملتے ہیں۔
زمینی سفر کے دوران ہندوستان سے حج کے ارادے سے جانے والے لوگ برسوں مکہ کے راستے میں یروشلم میں قیام کرتے رہے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس مقام پر نماز پڑھیں جہاں بابا فرید نے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ سوئیں جہاں بابا فرید سوئے تھے۔
دھیرے دھیرے بابا فرید کی یادوں سے منسلک جگہ پر ‘‘الزاویۃ الفریدیہ’’ کے نام سے آستانہ بن گیا۔ وہاں ہندوستانی سرائے ‘‘الزاویۃ الہندیہ’’ کے نام سے ایک چھوٹا سا مہمان خانہ بھی جہاں ہندوستانی حاجی قیام کرتے تھے۔   


فرید الدین مسعود نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ فرید الدین ابھی کم سن ہی تھے کہ آپؒ کے والد شیخ جمال الدین خالقِ حقیقی سے جاملے۔ شوہر کے انتقال کے بعد بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قرسم خاتون پر آن پڑی۔
فرید الدین مسعود کی ابتدائی تعلیم بی بی قرسم خاتون کی زیرِنگرانی ہی ہوئی۔ بی بی قرسم خاتون نے بیٹے کی تربیت اس طرح کی کہ بیٹا ولی اور خدا شناس ہوگیا۔
ابتدائی تعلیم کے بعد فرید الدین نے ملتان کے مولوی منہاج الدین ترمذی سے تعلیم حاصل کی۔ دینی و دنیوی تعلیم کے حصول کیلئے بلخ، بخارا، بیت المقدس، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، غزنی، بغداد، بدخشاں اور قندھار کا سفر طے کیا ۔ وہاں کے علماء و مشائخ سے فیض یاب ہوئے۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ سے بیعت کی اور کئی سال ان کی صحبت میں دہلی میں رہے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرشد سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی ؒ جب دہلی تشریف لائے تو فرید الدین سے مل کر بہت متاثر ہوئے اور قطب الدین بختیار کاکی سے فرمایا: ‘‘بختیار! تمہارے دام میں ایک شہباز ہے ۔’’
پھر حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا:
‘‘ فرید ایسا چراغ ہے جس سے بے شمار تاریک مکانوں میں اُجالا ہوگا۔ یہ وہ شہباز ہے جس کے زورِ بازو سے کفرو باطل کی ہوائیں بےاثرہوجائیں گی’’۔
یہ کہہ کر حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے بابا فرید کو اپنے سینے سے لگایا اور بابا فرید کے سینے کو انوار وتجلیات کا خزینہ بنادیا۔ حضرت بختیار کاکیؒ نے اپنی دستار بابا فرید کے سر پر رکھ کر روحانی وراثت منتقل کردی۔
اپنے مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے حکم پر پہلے بابا فرید ہانسی بعد ازاں اجودھن (پاکپتن) تشریف لائے اور رشد و ہدایت میں مصروف رہے۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی شادی اس وقت کے سلطان غیاث الدین بلبن کی بیٹی سے ہوئی۔

بابا فرید  پاکستان کے بانی

حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ‘ نے اجودھن (پاک پتن )میں رشد و ہدایت کی وہ شمع روشن کی جس نے پورے جنوبی پنجاب اور برصغیر کو منور کر دیا۔ آپؒ کی نظر کیمیا اثر نے جہاں گم کردہ راہوں کو دین کے دامن سے وابستہ کیا، وہیں غیر مسلموں کی بڑی تعداد آپ کی تبلیغ کے نتیجے میں دائرہ ٔ اسلام میں داخل ہوکر دینِ مبین کی داعی بنی۔ The preaching of Islamکا مصنف پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ لکھتا ہے ’’ پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے بابا فرید ؒ (پاک پتن) کی تعلیم و تبلیغ کے نتیجے میں اسلام قبول کیا۔ 16 اقوام نے آپ کی تعلیم و تبلیغ سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا’’۔
‘‘تاریخ مشائخ چشت’’کے مؤ لف پروفیسر خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:‘‘حقیقت یہ ہے کہ بابا فرید ؒ نے اپنی روحانی عظمت اور کردار کی بلندی سے سلسلہ ٔ چشتیہ کی شہرت کو چار چاند لگادیے۔ ان کے دور میں سلسلۂ چشتیہ کے اثرات کا دائرہ وسیع تر ہوا۔ اس کے نظام اصلاح و تربیت نے ایک مستقل شکل اختیار کی اور مریدین کا ایسا طبقہ تیار ہوا، جس نے ملک کے گوشے گوشے میں سلسلۂ چشتیہ کی خانقاہیں قائم کردیں’’۔
اسی شمع کی کرنوں سے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءاور حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیریؒ ، قطب جمال الدین ہانسویؒ، حضرت امام الحق سیالکوٹی ؒ اور شیخ منتخب الدین ؒ جیسے فیض یافتہ مشائخ اور بزرگوں نے دہلی، کلیر، سیالکوٹ ، دکن غرض برِصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے میں ہمہ جہت اور تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ دیکھا جائے تو برصغیر میں اسلام کے پیغام کو عام کرنے میں بابافریدؒ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاک پتن سے پاکستان بننے کا سفر شروع ہوا۔

 


خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے وصال کے بعد برصغیر پاک و ہند میں سلسلہ چشتیہ کی سیادت و رہنمائی کی ذمہ داریاں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے سپرد ہوئیں۔ بابا فرید نے دارلحکومت دہلی جانے کے بجائے ‘‘اجودھن’’ نامی قصبے ، جو اب پاکپتن کہلاتاہے کو اپنا روحانی مرکز بنانے کا فیصلہ کیا اور ضلع ملتان میں اپنی جاگیر ہونے کے باوجود اجودھن (پاکپتن) جیسے بیابان میں زندگی گزاری۔
بابا فریدالدین ؒ حسنِ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھے ۔ بابافرید کی زبان میں بہت مٹھاس تھی۔ انہوں نے اپنی زبان کی مٹھاس، تصوف کی تعلیمات، سادگی سے یہاں کے باشندوں پر بہت مثبت اثرات ڈالے اور لوگوں کے دل جیت لئے۔
اخلاقِ کریمانہ اور اوصافِ حمیدہ میں ایسی قوت پنہاں ہے جس سے پتھروں کو موم کیا جاسکتا ہے، اجودھن کی آبادی تو پھر گوشت پوست کے انسانوں پر مشتمل تھی۔بابا فریدؒ کی کوششوں سے محض پچیس سال کے مختصر عرصے میں ایک ایسا معاشرتی انقلاب برپا ہوا جس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے۔

  • 1188ء ملتان کے قریبی گاؤں  کھیتوال میں پیدائش
  • 7 برس کی عمر میں ابتدائی تعلیم  مکمل کی۔ 
  • والدین کے ہمراہ مکہ و مدینہ روانگی ، حج کی سعادت
  • ملتان واپسی  براستہ بیت المقدس، بغداد و قندھار 
  • 1204اعلیٰ  تعلیم کے لیے ملتان    روانہ ہوئے ۔
  • ملتان میں خواجہ بختیار کاکی ؒسے ملاقات  اور بیعت
  • 1207ء  میں قندھار ،بغداد ، یروشلم میں تعلیم 
  • 1209ء تعلیم سے فراغت کے بعد دہلی روانگی
  • خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ  کی خدمت میں  حاضری
  • بعد ازاں خواجہ بختیار کاکی نے خرقہ خلافت سے نوازا
  • دہلی سے ہانسی روانگی اور قیام
  • 1235ء خواجہ بختیار کاکی ؒ کا وصال
  • قطب الدین بختیار کاکیؒ کی جانشینی
  • دہلی میں خانقا کا قیام، ہانسی روانگی
  • ہانسی میں جمال الدین ہانسویؒ کو خلافت دی
  • ہانسی سے براستہ فرید کوٹ، ملتان  روانگی
  • فرید کوٹ میں  نوجوان نظام الدین اولیاء ؒسے ملاقات
  •  اجودھن (پاکپتن)میں  قیام
  •  حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کو اپنا جانشین منتخب کیا
  • 1266ء (5 محرم 666ھ)کو  پاکپتن میں وصال

بابا فرید کی زبان کی مٹھاس ان کے کلام کی صورت میں آج بھی موجود ہے، بابا فریدؒ نے گفتگو اور شاعری عام لوگوں کی زبان میں استعمال کی۔ یہ زبان اردو اور ملتانی پنجابی (سرائیکی) کی ابتدائی شکل قرار دی جا سکتی ہے۔ وگرنہ اس عہد میں پڑھے لکھے لوگوں کی زبان فارسی اور عربی تھی۔
بابا فریدؒ نے عمومی طور پر تین موضوعات کو مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے۔
خدا سے غیرمشروط محبت،
ذہنی وفکری پاکیزگی اور
انسانی اخوت و محبت ….
بابا فرید نے اپنے کلام میں اپنے نقطۂ نظر اور درویشانہ خیال کو انتہائی عمدگی کے ساتھ پیش کیا۔ آپ کے اشعار حق کا پیغام، واضح اور آسان لفظوں میں ہے۔ بابا فریدؒ کے کلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے شعروں میں لوگوں کو اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہونے اور اخلاقی اقدار کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنے کی تلقین بہت موثر انداز میں کی ہے۔ ان کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی، فانی زندگی اور صبر و قناعت کی جانب بہت واضح اشارے ملتے ہیں۔

 

اُردوزبان کی ترویج میں بابا فرید  کا کردار

بابائے اُردومولوی عبدالحق نے اپنے مقالہ ‘‘اُردوزبان کی ابتدائی نشوونمامیں صوفیائے کرام  کا کردار ’’ میں مختلف صوفیاء کے اشعار اقوال اورفرمودات پیش کئے ہیں جنہیں پڑھ کریہ معلوم ہوتاہے کہ اُردوکے آغازوارتقامیں صوفیاکرام نے ہراول دستے کاکام کیاہے۔  اس لیے کہ ان ایام میں ہندوستان میں اُردوہی ایک ایسی زبان تھی جسے لوگ بآسانی سمجھ سکتے تھے۔

صوفیاکرامؒ نے اسلام پھیلانے کے لیے کسی ملک یاکسی قوم کے خلاف تلوار یا زوراور جبرکااستعمال نہیں کیابلکہ انہوں نے ا پنے اپنے دائرہ اثر میں روحانی تزکیے کاکام کیا۔ان ہی صوفیاء کرام میں حضرت بابافریدالدین گنج شکرؒ کا بھی شمارہوتاہے۔  حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے  پنجابی زبان کے ساتھ ساتھ اردو کو بھی  وعظ وتزکیہ کے لئے بخوبی استعمال کیا۔ وہ اپنے وقت کے صوفی شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں جو زبان ملتی ہے وہ ریختہ (اردو زبان ) سے بظاہر کافی مشابہ ہے۔   حضرت بابا فریدؒ کی شاعری کے بہت کم نمونے دستیاب ہوئے ہیں۔ تاہم بعض مستند بیاضوں میں ان کے جو اشعار درج ہیں، وہ ان کے اندر بیان کی اچھی خاصی عکاسی کرتے ہیں۔

تن دھونے سے دل جو ہوتا پوک پیش رو اصفیا کے ہوتے غوث

خاک لانے سے گر خدا پائیں گائے بیلاں بھی واصلاں ہو جائیں

حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے سبب زبانِ ریختہ (اردو)کا دائرہ بھی بہت وسیع ہوا اور اس میں نکھاربھی پیدا ہوا۔

بابا فریدؒ کے ایک ایک شعر میں حکمت و دانش کا پیغام پوشیدہ ہے ۔ گنج شکر ؒ کے خزانے سے شکر کی چند ڈلیاں یعنی آپ کے چند شیریں اشعار

پیش خدمت ہے:

فریدا جنگل جنگل کیا بھویں ؟ وَن کنڈا مَوڑیں
وَسیِ رَب ہِیا لئے ، جنگل کیا ڈھونڈیں

بابا فرید فرماتے ہیں کہ جنگل جنگل گھوم کر وہاں پودوں کے توڑ مڑوڑ کر کسے ڈھونڈ رہا ہے۔ رب تو تیرے دل میں بستا ہے تو جنگل میں کس کو ڈھونڈتا ہے۔

اِک پِھکّا نہ گالائیں ، سبھناں میں سچّا دھنی
ہیاؤ نہ کہیں ٹھاہیں ، مانک سبھ امَولویں

بابا فرید کہتےہیں کہ کسی سے ایک لفظ بھی دل آزاری کا نہ بولو کیونکہ دل میں سچا رب بستا ہے ، کسی کا بھی دل نہ توڑنا کیونکہ یہ دل انمول موتی ہے ۔

جے توں عقل لطیف کالے لکھ نہ لیکھ
آپنے گریوان میں سر نیواں کر دیکھ

اس شعر میں بابا فرید نے ایک بہت بڑے معاشرتی مسئلے پر روشنی ڈالی ہے آپ فرماتے ہیں کہ اے انسان، تجھے اللہ نے عقل سلیم دے کر پیدا فرمایا ہے اس لیے تیرا فرض ہے تو اسے استعمال کر اور برائیوں میں نہ پڑ ، اور دوسروں کی عیب جوئی سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک تاکہ تجھ میں عاجزی پیدا ہو ۔

فریدا خاک نہ نندیے! خاکو جیڈ نہ کوءِ
جِیَوندیاں پَیراں تلے ، مویاں اپر ہوءِ

عمر خیام سے قلندر بابا اولیاء تک ہر صوفی شاعر نے خاک کی طرف توجہ دلائی ہے بابا فرید فرماتے ہیں مٹی کو برا نہ کہو، اس جیسا کوئی نہیں ، یہ تمہیں زندگی کا سامان مہیا کرتی ہے اور مرنے کہ بعد تمہیں اپنے اندر چھپا لیتی ہے۔ یہ مٹی زندگی میں پاؤں کے نیچے ہوتی ہے مرنے کے بعد اوپر آجاتی ہے۔

رکھی سکھی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی
فریدا ویکھ پَرائی چُوپڑی ، نہ تَرسائیں جی

استغنا اور قناعت کا درس دیتے ہوئے بابا فرید فرماتے ہیں کہ انسان کو اپنی کوششوں سے حاصل ہونے والی رزق حلال کی روکھی سوکھی کھا کر خوش ہونا چاہیے ، دوسروں کو دیکھ کر حسد، لالچ اور ناشکری جیسے جذبات اس کے لیے نقصان دہ ہیں ۔

آپ مزید فرماتے ہیں :

فریدا روٹی میری کاٹھ دی ، لاون میری بھکھ
جنھاں کھادی چوپڑی ، گھنے سہن گے دُکھ

محنت کی روکھی سوکھی لکڑی جیسی روٹی بھی بھوک مٹا دیتی ہے، جن لوگوں نے بے ایمانی کی چپڑی روٹی کھائی وہ آگے جاکر دکھ اور مصیبت میں ہی مبتلا ہوئے۔

جاں لوبھ تاں نینہہ کیا لُب تاں کُوڑا نینہہ
کِچر جھٹ لنگھایئے چھپر ٹُٹیّ مینہہ

بابا فرید فرماتے ہیں جہاں لالچ کار فرما ہو ، محبت کا وہاں کیا کام ۔ بوسیدہ چھت کے نیچے موسلادھار بارش میں کہاں اور کیسی پناہ ۔

فریدا اِکناں آٹا اگلا ، اِکناں ناہیں لون
اگے گئے سنجاپسن ، چوٹاں کھاسی کون

بابا فرید فرماتے ہیں ایک وہ ہیں کہ خورو نوش کے انبار دھرے ہیں۔ ایک وہ کہ نمک بھی میسر نہیں۔ ایک دن آئے گا کہ سب کچھ آشکار ہوگا ۔ یہ کہ ملامت اور مصیبت کس کا مقدر ہے۔

بار پرائے بیسنا ، سائیں مجھے نہ دیہہ
جے تُوں ایویں رکھسی ، جیو سریروں لیہہ

بابا فرید فرماتے ہیں مالک ! اپنے سوا کسی کا ٹھکانہ نصیب نہ کر ۔ غیر کادر اگر مقدر ہے تو یہ زندگی واپس ہی لے لے ۔

فریدا چار گوائیاں ہنڈھ کے ، چار گوائیاں سَم
لیکھا رب منگیسا، تُوں آیوں کیہڑے کَم

بابا فرید کہتے ہیں کہ انسان زندگی کے چار پہر تو معاش کمانے میں گزاردیتا اور باقی چار پہر سو کر گزار تا ہے، روز محشر رب یہی پوچھے گا کہ اس کی عطا کردہ زندگی تو نے بے مقصد ہی گزاردی ۔

آپ سنواریں میں مِلیں ، میں مِلیاں سُکھ ہوئِ
جے تُوں میرا ہو رہیں سَبھ جگ تیرا ہوئِ

تو اپنے آپ کو درست کرلو تو میں (یعنی رب) تجھ سے آملوں گا اور میرے ملنے سے ہی تجھے سکون پہنچے گا۔ اگر تُو میرا ہوجائے گا تو سارا زمانہ تیرا ہوجائے گا۔

بِرہا بِرہا آکھیے، برہا توں سُلطان
فریدا جِت تن برہوں نہ اُپچے سو تن جان مَسان

بابا فرماتے ہیں کہ محبوب (اللہ )کی یاد کو ہر وقت اپنے دل میں رکھنا ہی بادشاہت ہے ، جس کے دل میں محبوب ہے وہ ہی سلطان ہے لیکن جس دل میں یہ دولت نہیں وہ دل زندہ نہیں بلکہ مردہ ہے۔

بڈھا ہویا شیخ فرید ، کنبن لگی دیہہ
جے سَو ورھیاں جِیونا ، بھی تن ہوسی کھیہہ

اس شعر میں بابا فرید نے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ سدا جوان ہی رہے گا لیکن ایسا ہوتا نہیں اگر انسان سو برس یا اس سے بھی زیادہ جی لے تو موت پھر بھی آ کر رہتی ہے ۔

فریداکوٹھےمنڈپ ماڑیاں اُساریندے بھی گئے
کوڑا سودا کر گئے ، گورِیں آءِ پئے

بابا فرید فرماتے ہیں کہ انسان کو اپنے مقصد پر دھیان دینا چاہے، جنہوں نے دنیا میں بسنے کے لیے بڑی بڑی عمارتیں ، محلات و حویلیاں تعمیر کیے وہ لوگ کھوٹا سودا کر کے بالآخر قبروں میں جا پڑے ہیں۔

فریدا شکر، کھنڈ، نوات، گُڑ، ماکھیوں، ماجھا دُدھ
سبھے وستو مٹھیاں، رب نہ پجن تُدھ

شکر ، کھانڈ، مصری، گُڑ، شہد اور بھینس کا دودھ دنیا کی سب میٹھی چیزیں ہیں، لیکن یہ سب چیزیں تمہیں خدا تک نہیں پہنچا سکتیں۔

جن لوئن جگ موہیا سے لوئن میں ڈٹھ
کجل ریکھ نہ سیندھیاں سے پنکھی سوئے بٹھ

بابا فرید فرماتے ہیں کہ یہ دنیا اور اس کا حسن وجمال عارضی ہے ، لوگ اپنی زندگیوں میں کیسے کیسے حسین ہوتے ہیں کہ لوگ ان کے دیوانے ہو ہو جاتے ہیں اور وہ اتنے نفیس ہوتے ہیں کہ ذرا سی تکلیف بھی ان سے برداشت نہیں ہوتی لیکن جب موت آتی ہے تو انہی نرم و نازک لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ پرندے و حیوان ان کی قبروں پر بسیرا کرتے ہیں اور یہ کچھکرنہیں سکتے ۔

اٹھ فریدا! وضو ساج صبح نماز گزار
جو سر سائیں نہ نیویں سو سر کپ اتار

اس شعر میں بابا فرید نے عبادت کی فضیلت بیان کی ہے کہ وقت ضائع نہ کرناچاہیے، جو خدا کی حضوری میں حاضر ہو تے ہیں مراتب پا جاتے ہیں اور وہ سر جو اس کے حضور نہیں جھکتا۔ اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔

میں بُھلاوا پگ دا مت میلی ہو جاءِ
گیہلا روح نہ جان ای سِر بھی مِٹی کھاءِ

بابا فرید فرماتے ہیں کہ میں یہ اندیشہ پالتا رہا کہ دنیا کے گردوغبار میں میری پگڑی میلی نہ ہو جائے۔ بے خبر اور انجان ، مجھے معلوم نہ تھا کہ ایک دن سارا پیکر ہی مٹی کی نذر ہو جائے گا۔

تھیو پو اہی دَبھ جے سائیں لوڑیں سبھ
اِک چھِحیّ بیالتاڑیے تاں سائیں دے دَر واڑیے

اے فرید اللہ کی ہمسائیگی کا آرزو مند ہے تو راستے میں پڑی گھاس کی طرح ہو جا۔ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہی گھاس چٹائی بن سکتی ہے۔ ورنہ وہی بے مصرف ۔

فریدا ! میں جانیادکھ مجھ کودکھ سبھا ایہہ جگ
اچے چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ

اس شعر میں بابا فرید سمجھاتے ہیں اس دنیامیں ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ دکھی ہے یہ چیز ناشکری کی طرف لے جاتی ہے ، بابا فرید نے سمجھایا ہے کہ انسان کو صرف اپنی طرف ہی نہیں دوسروں کی طرف بھی دھیان کرنا چاہیے کی وہ کتنے دکھی ہیں اس سے ایک تو دوسروں کے دکھوں کو سمجھنے کا موقع ملے گا دوسرا اللہ کا شکرگزار بندہ بننے میں بھی آسانی ہو گی ۔

فریدا! ہاتھی سوہن انباریاں پچھے کٹک ہزار
جاں سر آوے اپنے تاں کو میت نہ پار

اس شعر میں بابا فرید سمجھاتے ہیں کہ اس دنیا کا اصول ہے کہ جب مصیبت آ جائے تو یہ کسی کا ساتھ نہیں دیتی چاہے کوئی اپنے وقت کا کیسا بھی صاحب اقتدار ہو ، اگراس کے پاس ہاتھی، سونے کے انبار اور ہزاوں کی فوج بھی ہو، لیکن جب جان سر آتی ہے تو کچھ بھی کام نہیں آتا۔ یہ دنیا ہر ایک سے یہی سلوک کرتی آئی ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ مال و دولت پر نازاں ہونے کے بجائے ہر حال میں اپنے مالک کا شکر گزار رہے تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو۔

دِلوں محبت جیں سے ای سچّے آ
جَیں مَن ہور، مکھ ہور، سَے کانڈھے کچّے آ
رتّے عِشق خدائی رنگ دیدار کے
وِسّریا جَیں نام تے بھَوَئیں بھار تھئے

جن کے دلوں میں محبت ہے وہی سچے ہیں۔ جن کے دل اور چہرے اور ہیں، وہ کچے کہلاتے ہیں۔
جو خدا کے عشق میں رنگے ہوتے ہیں وہی دیدارِخدا کرسکتے ہیں۔ جو نامِ خدا بھول گئے وہ زمین پہ بوجھ بن گئے۔

آپ لئے لڑ لاءِ در درویش سے
تِن دَھن جنینْدی ماؤ آئے سَپھل سے

جو درویش کی بارگاہ میں آگیا، خدا نے اُسے اپنے دامن سے باندھ لیا ، اُس کو پیدا کرنے والی ماں مبارکباد کے قابل ہے۔

سبھناں من مانک ، ٹھاہن مُول مچانگوا
جے تَو پِریا دی سِک ہِیاؤ نہ ٹھاہیں کِہیں دا

سب کے دل موتی کی طرح ہیں اسے ہر گز نہ توڑنا، اگر تجھے محبوب کی آرزو ہے تو کسی کا دل مت توڑنا۔

کَون سو اکھّر، کَون گُن ، کَون سو منیا منت
کَون سو ویسو ہَوں کِری جِت وَس آوے کنت

کون سے الفاظ، کون سی خوبی، کون سا موتی و منتر، کون سا بھیس میں اپناؤں جس سے میرا محبوب (خدا)مجھے مل جائے۔

 بابا فرید گنج شکر ؒ کی شاعری اس قدر مقبول ہوئی کہ ان وفات کے دوسو سال بعد سکھوں کے گورو بابا گورو نانک نے بابا فرید کے کئی اشعار کو اپنی کتاب گرنتھ صاحب میں شامل کیا۔
ہر انسان کو جو اس دنیا میں آتا ہے مقررہ وقت کے بعد اس دنیا سے جانا ہوتا ہے ۔ اس نظام فطرت کے تحت ضعیف العمری میں کچھ عرصہ علالت کے بعد آپ اپنے محبوب خداوند تعالیٰ سے جا ملے۔
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی دفات 5 محرم الحرام 679 ہجری 1280 سن عیسوی 92 سال کی عمر میں ہوئی۔
بابا فرید کے خلفاء میں حضرت مولانا بدر الدین اسحاق، خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت علی احمد کلیر صابری ، علاؤالدین موج دریاؒ اور حضرت جلال الدین ہانسوی شامل ہیں، بابا فرید ؒ کا عرس ہر سال پانچ محرم کو پاکپتن میں منایا جاتا ہے۔

یہ بھی دیکھیں

بابا بلھے شاہ کی شاعری کے روحانی پہلو

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی اشاعت کا تذکرہ آتے ہی ذہن ان لا …

فکرِ حسینی ۔ سانحہ کربلا کا پیغام

نواسۂ رسول ؐ ، جگر گوشہ بتولؓ، جنتی نوجوانوں کے سردار ، شہیدِ کربلا سیدنا …

प्रातिक्रिया दे