دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..

موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….
خواب کے ذریعہ علاج کرنے والا، مغرب کا روحانی معالج
جس نے مغربی سائنسدانوں، محققین اور طبیبوں کو انسان کی باطنی صلاحیتوں پر سوچنے پر مجبور کردیا….

لوگ اس کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے اور وہ خواب میں جاکر اس مسائل کا حل معلوم کرلیتاتھا…. جس مرض کے علاج میں میڈیکل ڈاکٹر ناکام رہ جاتے…. وہ نہ صرف یہ کہ ان مریضوں کا مرض دریافت کرلیتا ، بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی کر ڈالتا…. اس نے روحانی علاج کے ساتھ ساتھ، ماضی اور مستقبل کے واقعات کی نشاندہی بھی کی۔ خوابوں کے اثرات، رنگ و روشنی سے علاج اور انسان کے لطیف باطنی وجود اورا ء پر بھی سائنسدانوں کی توجہ مبتذل کرائی….
اکتوبر 1940ء کی ٹھنڈی اور خشک سہہ پہر کو تقریباًچار بجے کا وقت ہو گا ۔پرائیویٹ ہسپتال میں ایک جوڑا اپنے بیٹی کو لیے داخل ہوا، دونوں میاں بیوی انتہائی حواس باختہ تھے ۔ ماں نے جگر گوشے کو کپڑوں میں لپیٹ کر سینے سے لگایا ہوا تھا ۔باپ سیدھا ریسپشن کی طرف دوڑا۔ باپ کے چہرے پر پریشانی نمایاں تھی اور ماں کے چہرے پر دکھ جس نے آنکھوں کے راستے بہہ نکلنے کا راستہ دیکھ لیا۔
اگلے ہی چند لمحوں میں ڈاکٹروں کا ایک گروپ وہاں آموجود ہوا اور فوراً بچی کو او پی ڈی بیڈ پر لٹا دیا، بچی کے باپ اپنی بیوی کو تسلی دینے لگا….او پی ڈی کے اس چھوٹے کمرے میں ڈاکٹروں کے گرد وہ بچی کی کرب ناک چیخیں گونج رہی تھیں۔ ماں باپ او پی ڈی کے باہر ویٹنگ روم میں پریشان کھڑے تھے۔
یہ ایک برس کی معصوم بچی کچھ گھنٹہ پہلے گرم اُبلتے ہوئے پانی کے ٹب میں گرجانے کی سبب پوری طرح جھلس گئی تھی۔ پیشانی سے پاؤں کے انگوٹھے تک اس کے جسم کی کھال کی تقریباً پچاس فیصد سطح اس حادثہ سے متاثر ہوئی تھی۔ ڈاکٹر اس کی زندگی سے نااُمید تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایک برس کمسن بچی کی جلد بے حد حساس ہوتی ہے اور کیمیکلز اور اینٹی سیپٹک ادویات کا ری ایکشن اس کو کافی نقصان پہنچا سکتا ہے، اگر ٹریٹمنٹ شروع کیا گیا تو اس کمسن بچی کے بچنے کی امید بہت کم ہے اور اگر وہ بچ بھی گئی تو اس کا چہرہ اور جسم کی کھال اسی طرح جھلسی رہے گی اور ہوسکتا ہے کہ یہ اپنی آنکھوں کی بینائی سے بھی محروم ہوجائے۔
ڈاکٹروں کا نا اُمید جواب سن کر بچی کے والدین کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا، وہ اپنے قدموں پر مزید بوجھ نہ ڈال پائے اور ویٹنگ روم کے بنچ پر بیٹھ کر رونے لگے۔ ویٹنگ لاؤنج کے ایک خاموش کونے میں بیٹھے ایک صاحب جو کافی دیر سے یہ سب منظر دیکھ رہے ان کے پاس آئے، اور ان سے کہا کہ میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو آپ کی مدد کرسکتا ہے۔ اس کا نام ایڈگر ہے۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے، ان والدین کو امید کی نئی کرن نظر آئی، ان کی رضامندی پر ان صاحب نے ریسیپشن پر جاکر ٹیلیفون پر نمبر گھمایا اور ساری تفصیل سے آگاہ کرکے مدد کی درخواست کی اور ریسیور رکھ دیا۔
بچی کے والدین اور ڈاکٹروں کو اب اس ٹیلیفون کا انتظار تھا …. بچی کے والدین ہسپتال میں کمرہ سے باہر لکڑی کی ایک بینچ پر سرجھکائے دعاؤں میں مشغول تھے۔ اس ہسپتال سے آٹھ سو میل دور وہ شخص ایڈگر اس بچی کی مدد کے لیے تیاری میں مصروف ہوگیا۔
وہ تھوڑی دیر پہلے ہی سو کر اُٹھاتھا مگر اب وہ خود کو دوبارہ‘‘خواب آورنیند’’ کے لیے تیار کررہا تھا تاکہ اپنے اعلیٰ حسی ادراک اور روحانی صلاحیتوں کے ذریعہ اپنے مریض تک پہنچ سکے۔ ایڈ گر اپنے مریض سے لاعلم تھا اسے صرف اسپتال کا پتہ معلوم تھا۔
ایڈگر اس عمل کے لیے ایک آرام دہ بستر پر بیٹھ گیا پھر اس نے اپنے جوتے ڈھیلے کیے، پھر نیم دراز حالت میں لیٹ گیا۔ اس کی بیوی جو اس کے اس کام میں اس کی مدد کرتی رہتی تھی، اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ ایڈ گرنے اپنے ہاتھ پیشانی پر رکھے اور آنکھیں بند کر لیں اس کی سانسیں آہستہ آہستہ گہری ہوتی چلی گئیں وہ قیلولہ کے انداز میں نیم دراز تھا۔ جب ایڈگر خود کو نیند کے اس دوانیے پر لے آیا جب اس کی پتلیاں حرکت کرنے لگیں تو قریب کھڑی اس کی بیوی نے بلندآواز میں ہسپتال کا پتہ دُہرایا اور کہا‘‘مریض کی حالت دیکھ کر اس کے علاج کا مشورہ دو’’ …. ایڈگر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اجنبی آواز میں بڑ بڑایا اور پھر کئی مرتبہ ہسپتال کے پتہ کو دُہراتارہا۔ کچھ لمحہ خاموشی رہی پھر ایڈ گرنے ایک بھر پور کھنکار کے ساتھ اپنے گلہ کو صاف کیا اور پھر جاگتی ہوئی آواز میں گویا ہوا۔ ‘‘ہاں وہ بچی میرے سامنے لیٹی ہے’’….‘‘اس کی حالت خطرہ میں ہے’’….‘‘اس کی آنکھیں اس حادثہ سے متاثر نہیں ہیں، البتہ اس کے پپوٹے ضرور متاثر ہوئے ہیں….’’
ایڈ گر آہستہ آہستہ مریضہ بچی کی طبی حالت کی منظرکشی کرتارہا، پھر اس نے مریضہ کے جسم کی جھلسی ہوئی کھال کی شفا کے لیے دوائیں تجویز کرنی شروع کیں اس نے کہا‘‘کھال کی صفائی کے لئے فلاں محلول میں فلاں اجزاء ڈال کر استعمال کرو’’…. یہ کہہ کر وہ کچھ دیر خاموش ہوا پھر بولا ‘‘فلاں تیل زخموں کے نشان اور کھال کی درستی کے لیے بہتر رہیں گے۔’’
ایڈگر کی بیوی اس کی دی گئی ہدایت مسلسل نوٹ کر رہی تھی، وہ کچھ لمحے خاموش رہ کر پھر بلندآواز سے بولا۔ ‘‘طبی ماہرین کی ہدایت کے مطابق مختلف وقفوں سے فلاں دوائیں استعمال کرو کیونکہ اکثر حصوں کی کھال مردہ ہوچکی ہے اور جسم کا نظامِ عمل بھی متاثرہوا ہے۔’’
‘‘زخموں کے درد سے چھٹکارہ کا کوئی طریقہ’’….اس کی بیوی نے سوال کیا۔
‘‘ان دواؤں کے استعمال کے بعد درد خود بہ خود ختم ہوجائے گا’’….ایڈگر آہستہ سے بولا، بیوی نے مزید سوالات سے اجتناب کیا، اور اس نے دوڑ کر یہ تفصیل اسپتال کے ڈاکٹروں کو بتائی…. تھوڑی دیر میں ایڈگر بھی اپنی خوابیدہ نیند سے بیدار ہوگیا ۔
ڈاکٹروں نے ایڈگر کے نسخہ کے مطابق جلی ہوئی بچی کا علاج شروع کیا اور اس سے نہایت عمدہ نتیجہ نکلا۔ بچی خطرے سے باہر آگئی لیکن اس کی جلدبُری طرح خراب ہوچکی تھی ۔ بارہ دن بعد ایک بار پھر خواب کے ذریعہ ایڈگر نے مزید دوائیں تجویز کیں۔ ڈاکٹر اس کے نسخہ کے مطابق عمل کرتے رہے، بالآخر بچی مکمل طو رپر صحت یاب ہوگئی پھر جب یہ لڑکی تین برس کی ہوئی تو اس کے والدین نے ایک بار پھر ایڈگر سے رابطہ کیا کیونکہ اس کے بازوؤں پر باقی رہ جانے والے زخموں کے نشان اب بھی واضح تھے ایڈگر نے ایک مرتبہ پھر خواب کے ذریعہ آٹھ سو میل دور رہ کر ایک اور نسخہ تجویز کیا……. خواب کے دوران تجویز کیے جانے والے نسخہ جات اتفاقاً ایڈگر کی ایجاد ثابت ہوئے اور بعدمیں مختلف کیفیات میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیے جانے لگے۔ اس بچی کے لیے کیے جانے والے علاج اور اس کے سود مند نتائج نے دنیا کو ورطۂحیرت میں ڈال دیا اور ایڈگر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔
ایڈگرکیسی کو ورجینیا کے کرشماتی انسان کی حیثیت سے پکارا جاتا ہے۔ حقیقتاً وہ ایک اعلیٰ ترین ماورائے حواس ادراک کا مالک تھا۔ ایڈگر کا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اپنی غیرمعمولی بصیرت کے ذریعہ لوگوں کی بیماری کے اسباب کا پتہ لگالیتا تھا اور ان کا علاج بھی بتادیتا تھا۔ وہ ناصرف ماضی پر گہری نظر رکھتا تھا بلکہ اکثر مستقبل کے واقعات کی بھی پہلے سے نشاندہی کر دیتا تھا۔ اس کی تمام پیشن گوئیاں ہوبہو سچ ثابت ہوئیں۔ قدیم تہذیبوں، خواب کے اثرات، رنگ و روشنی سے علاج پر بھی اس نے کئی تجرباتی کام کیے۔ وہ دور دراز بیٹھے بعض لوگوں کے متعلق صحیح صحیح بتادیتا تھا۔ حتّٰی کہ ان لوگوں سے بھی اپنی ملاقات کا ذکر کرتا تھا جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔
ایڈگراٹھارہ مارچ 1877ء میں امریکی ریاست کنگی کے ایک دور اُفتادہ قصبہ ہاپکسن وائل میں ایک کاشتکارگھر پیدا ہوا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ نومولود مستقل کی ایک غیر معمولی اور اہم شخصیت ثابت ہوگا۔ اس بچے کا نام ایڈگرکیسی رکھا گیا۔ ایڈگر بچپن سے ہی تنہائی پسند اور اپنے آپ میں مگن رہتا تھا ، یہ عادت اس کے ماں باپ کے لئے ایک پریشان کن مسئلہ بنی ہوئی تھی، کئی مرتبہ اسے اکیلے میں ایسی حرکات کرتے ہوئے دیکھا گیا جیسے وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو۔ اس کی باتوں کی آواز بھی سنائی دیتی اور جب اس سے پوچھا جاتا کہ وہ کس سے باتیں کررہا تھا تو وہ ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیتا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا لیکن اس کے ان نادیدہ دوستوں کو کبھی نہیں دیکھا گیا ، ایڈگر جب اپنے مرحوم دادا سے ملاقات کے واقعات سناتا تو لوگ متوحش نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگتے۔
ایڈگر اسکول میں وہ اپنی کلاس میں سب سے زیادہ نااہل لڑکا سمجھا جاتا تھا لیکن اس کا باپ یہ جان کر پریشان ہوگیا کہ وہ جو سبق اسکول میں نہیں پڑھ سکتا تھا گھر میں فرفر پڑھنے لگتا۔ نا صرف یہ بلکہ گھر میں ایڈگر کتاب کے وہ اسباق بھی پڑھ لیتا جو ابھی اسکول میں نہیں پڑھائے گئے تھے۔ اس کے بارے میں ایک اور حیرت انگیز انکشاف یہ ہوا کہ جس لفظ کے اسپیلنگ اسے نہ آتے وہ کتاب دیکھنے کی بجائے چند منٹ اونگھ لیتا اور بیدار ہونے کے بعد لفظ کے ٹھیک ٹھیک ہجے بتا دیتا۔
ایک مرتبہ اسکول میں کھیلتے کھیلتے ایڈگر پشت کے بل گرا جس سے اس کی ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگ گئی۔ کھیل کے ہنگاموں میں کوئی اس کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ ایڈگر جب گھر پہنچا تو تکلیف سے نڈھال ہوا جارہا تھا۔ ماں پریشان تھی کہ کیا کرے کہ ایڈگر پر بے ہوشی طاری ہوگئی، بے ہوشی کے دوران اس کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی اور واضح طور پر اس کی آواز سنائی دینے لگی ، ایڈگر نے بےہوشی کے دوران نا صرف چوٹ کی جگہ کی نشاندہی کی بلکہ ان جڑی بوٹیوں کا نام بھی بتادیا جن سے وہ مخصوص مرہم تیار کیا جاسکتا تھا۔ ایڈگر کا باپ بچپن سے ایڈگر کی اس صلاحیت سے آگاہ تھا چنانچہ اس نے فوراً ہی جڑی بوٹیوں سے مرہم تیار کرکے چوٹ کی جگہ پر لگادیا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد ایڈگر ہوش میں آگیا، اس کا درد رفع ہوچکا تھا اور اب اسے کوئی تکلیف نہیں تھی۔
کچھ عرصہ بعد ایڈگر کے والدین فارم سے شہر منتقل ہوگئے۔ یہاں تھوڑی سی جستجو کے بعد ایڈگر کو بھی ایک بک اسٹور پر کام مل گیا جہاں تنخواہ تو برائے نام تھی لیکن اسے کتابوں کے مطالعے کا موقع مل رہا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ قصبے کے ایک فوٹو گرافر کے معمولی سی تنخواہ پرملازم ہوگیا۔ انہی دنوں اس کی ملاقات قصبہ کے ایک ڈاکٹر لیون سے ہوئی۔ لیون درحقیقت کوئی باقاعدہ ڈاکٹر نہیں تھا اسے ہپناٹزم کا شوق بھی تھا اور خط و کتابت سے ڈاکٹری سکھانے والے ایک ادارے میں داخلہ بھی لے رکھا تھا، اس نے ایڈگر کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے تجربات کیے، ڈاکٹر لیون جانتا تھا کہ تنویمی کیفیت میں مریض خود بھی اپنا علاج تجویز کرسکتے ہیں۔ اس کا یہ طریقہ کامیاب رہا اورایڈگر نے تنویمی کیفیت کے دوران ناصرف کئی مریضوں کا علاج کے مرض کی تشخیص کردی بلکہ علاج کے لیے نسخہ بھی تجویز کردیا۔ لیون نے ایڈگر کو مشورہ دیا کہ اگر وہ پسند کرے تو اس طریقے سے ایسے مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے جنہیں ڈاکٹر جواب دے چکے ہوں۔
پورے قصبے میں اب اس کی اس پراسرار قوت کا تذکرہ ہورہا تھا۔ لیون کے ساتھ مل کر کام کرنے سے پہلے اس نے واضح کردیا کہ وہ اس کام کے لیے کسی سے پیسے نہیں لے گا۔ اس کی خدمات بلا معاوضہ ہوں گی۔ البتہ لیون اپنے لئے بہت معمولی معاوضہ وصول کرسکتا ہے۔ لیون نے اس عمل کو ریڈنگ کا نام دیا تھا اور اس کے لیے ایک دفتر بھی قائم کرلیا تھا۔ ایڈگر اپنے فوٹو اسٹوڈیو سے دن میں دومرتبہ اس دفتر میں پہنچ جاتا اور لیون اسے ٹرانس میں لے کر مختلف مریضوں کے بارے میں ریڈنگ کرلیتا۔ ڈاکٹر اسے فراڈ سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے آزمانے کی خاطر اپنے مریضوں کے لئے ریڈنگ حاصل کی مگر اسے غلط ثابت نہ کرسکے۔
ایک روز ایک مرد اور ایک عورت اپنی کم سن بچی کو لے کر آئے، بچی کی حالت بہت ابتر تھی۔ متعدد ایکسرے لینے کے بعد بھی ڈاکٹر یہ معلوم نہیں کرسکے تھے کہ اسے کیا تکلیف تھی۔ ایڈگر کی ریڈنگ سے یہ انکشاف ہوا کہ بچی نے نائلون کا ایک بٹن نگل لیا تھا، جو اس کی آنت میں پھنس گیا تھا۔ نائلون کا یہ بٹن ایکسرے میں کسی وجہ سے نہیں آسکا تھا۔ ایڈگر کے انکشاف کے بعد آپریشن کے ذریعہ بٹن نکال کر بچی کی جان بچالی گئی۔
ایک روز لیون نے بتایا کہ واشنگٹن کے ایک آدمی کی بیوی جو اسپتال میں داخل ہے، بہت ابتر حالت میں ہے، ڈاکٹروں نے معذوری کا اظہار کردیا ہے۔ اس آدمی نے ٹیلیگرام کے ذریعہ اپنی بیوی کا علاج دریافت کیا ہے۔ ایڈگر اس جگہ زمین پر لیٹ گیا اور تنویمی کیفیت میں بتانے لگا کہ چند روز پہلے اس عورت کا آپریشن ہوا تھا اور اب اندرونی ٹانکے کھل جانے کے باعث خون جاری ہوگیا ہے، اگر یہ خون بند کردیا جائے تو اس کی جان بچ سکتی ہے، اس نے زخم میں اس جگہ کی بھی نشاندہی کردی جہاں سے ٹانکے کھل گئے تھے۔ لیون نے فوراً ہی شہر پہنچ کر اس شخص کو ٹیلیگرام دے دیا لیکن دوسرے روز اسے جواب ملا کہ اس کا ٹیلیگرام ملنے سے ایک گھنٹہ قبل اس عورت کا انتقال ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر نے بھی موت کی یہی وجہ بتائی تھی جس کا انکشاف ایڈگر نے کیا تھا۔
ڈیٹرک نامی ایک شخص کی بیٹی کو تین سال کی عمر میں اسہال کی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس کے بعد اس کی ذہنی نشوونما رُک گئی، اُس وقت لڑکی اگرچہ دس سال کی تھی لیکن اس کا ذہن تین سال کی عمر سے آگے نہیں بڑھ سکاتھا، ڈیٹرک کی موجودگی میں ایڈگر نے ٹرانس کی کیفیت میں بتایا کہ اس بیماری کے دوران لڑکی گھوڑا گاڑی کے پائیدان سے گرگئی تھی جس سے اس کی ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ سرک گیا۔ لڑکی کی ذہنی نشوونما روکنے میں اس کا بڑا دخل تھا اگر یہ مہرہ درست جگہ بٹھا دیا جائے تو لڑکی ٹھیک ہوجائے گی۔ ایڈگر کے بیدار ہوتے ہی ڈیٹرک نے اس کے ہاتھ چوم لئے کیونکہ لڑکی کے گھوڑا گاڑی سے گرنے کا واقعہ انہوں نے کسی کو نہیں بتایا تھا جبکہ ایڈگر نے پوری تفصیل دُہرا دی تھی۔ آپریشن سے ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ ٹھیک ہونے کے چند ہی روز بعد لڑکی میں نمایاں تبدیلیاں نظر آنے لگیں اور کچھ عرصہ میں وہ ذہنی طور پر بھی مکمل تندرست ہوگئی۔ اب تو شہر کے تمام ڈاکٹر اب پیچیدہ کیسز میں ایڈگر کی خدمات سے فائدہ اٹھانے لگے اس مقصد کے لیے ایڈگر کی فوٹو گرافی کی دکان کے ساتھ ایک کمرہ مخصوص کردیا گیا تھا۔
ایڈگر کا اپنا بیٹا ہیوگ لائن بیمار ہوگیا۔ اس نے فوٹو گرافری کے ایک کیمیکل کو آگ لگادی تھی جس کی چمک سے اس کی آنکھوں میں بینائی زائل ہوگئی تھی۔ ایک آنکھ کی پتلی کی اوپر کی جھلی جھلس گئی تھی اور تمام ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ یہ آنکھ نکال دی جائے وگرنہ اس کی وجہ سے دوسری نازک نسیں بھی متاثر ہونگی۔ لیکن ایڈگر نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور اپنے مخصوص علم کے ذریعہ اس کا علاج شروع کردیا اس کے مطابق ہیوگ لائن کو پندرہ روز تک تاریک کمرے میں رکھا جاتا اور دن میں دومرتبہ ایک مخصوص محلول سے تر کی ہوئی کپڑے کی پٹی اس کی آنکھوں پر باندھی جاتی۔
ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ یہ ایک لاحاصل کوشش تھی مگر وہ اس کی ہدایات پر عمل کرتے رہے اور پندرہ روز بعد جب آخری پٹی کھلی تو وہ یہ جان کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ ہیوگ لائن کی بینائی بحال ہوچکی تھی۔
ایک مرتبہ میڈیکل اسکول کی ایک لڑکی نے ایڈگر سے سوال کیا کہ اس کے باپ کی تجوری سے پراسرار طور پر رقوم غائب ہورہی ہیں لیکن چور کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ایڈگر نے چور کا نام اور حلیہ تک بتادیا جو لڑکی کے باپ کا ملازم تھا اس نے فوراً ہی اپنے جرم کا اعتراف کرلیا….!
ایک مرتبہ ایڈگر کی ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوئی جو حال ہی میں کینیڈا سے آیا تھا، اس نے بتایا کہ کینیڈا میں قتل کا ایک کیس پولیس کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے اس کے بیان کے مطابق دو دولتمند بہنیں ایک ہی مکان میں رہائش پذیر تھیں کہ ایک بہن کو پُر اسرار طور پر قتل کردیا گیا۔ دوسری بہن کے بیان کے مطابق وہ فائر کی آواز سن کر اپنے کمرے سے نکلی تو اس کی بہن خون میں لت پت پڑی تھی اور ایک سایہ دوڑتا ہوا کھڑکی سے باہر کود گیا تھا۔ آلۂ قتل یا قاتل کا آج تک کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ اس دوست کی درخواست پر ایڈگر نے ریڈنگ کے دوران یہ انکشاف کیا کہ اس عورت کو دولت کے لالچ میں خود اس کی بہن نے قتل کیا تھا اور پستول مکان کے دائیں طرف گٹر میں پھینک دیا تھا۔ جو اب بھی وہاں موجود ہے۔ ایڈگر نے پستول کا نمبر تک بتادیا۔ کینیڈا پولیس کو اطلاع دی گئی تو یہ سب کچھ درست ثابت ہوا۔ وہ اپنے قصبہ بولنگ گرین واپس آگیا جہاں اس کے ایک سراغرساں دوست نے اس سے رابطہ قائم کیا۔ اسے ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو نیویارک کے ایک تاجر کے گھر سے لاکھوں ڈالر کی مالیت کے بانڈز چرا کر فرار ہوگیا تھا۔ ایڈگر نے اپنی ریڈنگ میں یہ انکشاف کیا کہ یہ بانڈ کسی آدمی نے نہیں ایک عورت نے چرائے تھے سراغرساں نے فون پر نیویارک کے تاجر سے رابطہ قائم کیا تو انکشاف ہوا کہ وہ عورت اس تاجر کی بیوی تھی جو اسے دھوکہ دے کر فرار ہوگئی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں شہ سرخیوں کے ساتھ ایڈگر کے بارے میں خبریں شائع ہوئی تھیں۔ ایڈگر کی شہرت کا دور اب شروع ہوا تھا۔
اب ایڈگر نے اپنے قصبہ ایک معروف ڈاکٹر کیچم کے ساتھ مل کرخدمتِ خلق کے تحت ایک اسپتال کا قیام عزم کیا جس کا مقصد مستحق لوگوں کی مدد کرنا تھا جو ڈاکٹروں کی بھاری فیس ادا کرنے کے قابل نہیں تھے۔ قومی سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اسپتال کی تعمیر کے سلسلہ میں ابتدائی تیاریاں شروع کردی گئیں۔دوستوں کے تعاون سے ایڈگر کے اسپتال کا خواب پورا ہوگیا اور وہ پوری تندہی سے اپنے مقصدِ حیات کی تکمیل میں لگ گیا۔
کہا جاتا ہے کہ ایڈگر نے علاج معالجہ کے علادہ عالمی حالات، سیاست، سائنس اور تاریخی حقائق کی بھی پیشگوئیاں بھی کیں جو بعد میں سچ ثابت ہوئیں۔ایڈگر نے اوراء اور کلر تھراپی پر بھی تجرباتی کام کیا اور اس عمل میں بھی اس نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
ایڈگر کی روحانی صلاحیتیں ہزاروں لوگوں کی مدد کے لئے نہایت کارآمد رہیں مگر بہت سے لوگ اس کی زندگی میں مختلف راستوں سے اس کے لئے مشکلات کا سبب بھی بنتے رہے۔ 1945 ء میں ایڈگر شدید بیمار ہوگیا اور وہ بڑی خاموشی سے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
ہم جس دور میں سائنس لے رہے ہیں وہاں لوگ مافوق الفطرت عوامل سے متعلق سائنسی ثبوت چاہتے ہیں اور عقلی اور سائنسی دلائل کے بغیر روحانی اور ماورائے حواس ادراک کے غیر معمولی کارناموں کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ایسے بیشتر سوالات ‘‘ایڈگر’’ کے عہد میں بھی اُٹھے۔ اس نے حواس خمسہ کے عقب میں چھپے ماورائے حواس ادراک کا جو مظاہرہ کیا، اُس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔
امریکہ کے ساحلی مقام ورجینیا بیچ پر آج بھی ایڈگر کیسی کا قائم کردہ ادارہ اے آر ای فاؤنڈیشن، اسپتال، لائبریری اور یونیورسٹی موجود ہیں، جہاں انسان کی باطنی صلاحیتوں ، خواب، رنگ و روشنی سے علاج، اوراء اور دیگر ماورائی علوم پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس ادارہ کے زیراہتمام ایڈگرکیسی کے علوم پر سینکڑوں کتب شایع ہوچکی ہیں جس سے لوگ خاطرخواہ فوائد حاصل کررہے ہیں۔
ایڈگر کیسی اور اس کے نظریات
امریکی ماہر روحانیت ایڈگر کیسی Edgar Cayce (ورجینیا 18 مارچ 1877 ) نے انیسویں صدی عیسوی میں روحانی صلاحیتوں کے عملی تجرباتی مظاہروں سے اُس وقت کے ڈاکٹروں سائنسدانوں کی توجہ انسان کے باطنی رخ یعنی اورا کی طرف مبذول کروائی۔ جس مرض کے علاج میں میڈیکل ڈاکٹر ناکام رہ جاتے یہ روحانی معالج نہ صرف یہ کہ مرض دریافت کرتے بلکہ اس لاعلاج مریض کا علاج بھی کر ڈالتے۔ ماہرین نے انسان کے اندر موجود اس لطیف توانائی کا نام’ایتھر‘ (Ether)رکھا اور اس لطیف باطنی وجود کو ایتھرک باڈی (Etheric Body)کہا۔ ایڈگرکیسی سمیت اس دور کے روحانی علوم کے ماہرین (مادم بلاوٹسکی، البرٹ مائیکل سن اور ایڈورڈ مورلے وغیرہ) نے اس ایتھری وجود پر مقالے بھی تحریر کئے۔ ایڈگر کیسی نے خوابوں کے اثرات، رنگ و روشنی سے علاج اور ماضی اور مستقبل کے واقعات کی نشاندہی بھی کی۔
ایڈگر کیسی کے مطابق معدوم شہر اٹلانٹس کے لوگ جدید دور سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اہرام مصر، ا سٹون ہینج، ایسٹر آئی لینڈ کے مجسمے وغیرہ انہی کی تعمیرات تھے۔ یہ لوگ ٹیلی پیتھی میں بھی مہارت رکھتے تھے ان کے پاس توانائی کا منبع ایک کرسٹل نما پتھر تھا جسے Tuaoi کہتے تھے یہ انعکاسی پتھر سورج کی روشنیوں کو جذب کر کے دوبارہ منعکس کرنے پر قادر تھا ( جب ایڈگر کیسی اٹلانٹس کی سولر انرجی کا ذکر کر رہا تھا تو اس وقت سولر انرجی کے استعمال کی ابتداء نہیں ہوئی تھی)۔ اٹلانٹس کی غرقابی اسی کرسٹل نما انعکاسی پتھر کے حد سے زیادہ استعمال سے ہوئی کرسٹل کی مدد سے لامحدود توانائی حاصل کرنے کی کوشش میں کرسٹل کی توانائی کا شدت سے اخراج ہوا اور یہ براعظم تباہ ہو گیا۔ یہ ہوائی جہاز کی ایجاد بھی کر چکے تھے جسے وہ Vilixi کہتے تھے۔
نومبر 2012ء۔
روحانی ڈائجسٹ Online Magazine for Mind Body & Soul
