Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کشورِ ظلمات ۔ قسط 11

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….

 

’’اندھیرا بھی روشنی ہے‘‘….
یہ حضرت قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے….
جس چیز کو ہم اندھیرا کہتے ہیں اُس میں بھی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اُس دنیا میں بھی زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ حرکت میں ہے…. ہم نے چونکہ اندھیرے کو خوف کی
علامت بنا دیا ہے، اس لئے اندھیرے میں روشن یہ دنیا ہم پر منکشف نہیں ہوتی…. لیکن ایسے واقعات اکثرو بیشتر پیش آتے رہتے ہیں جب کشورِ ظلمات کے مظاہر کے ادراک
کا احساس ہونے لگتا ہے…. سائنسی علوم کے ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں زندگی بیِشمار پیکر میں جلوہ گر ہوسکتی ہے…. سائنسی تحقیق کے مطابق
ایک زندگی وہ ہے جو ’’پروٹین اِن واٹر‘‘ کے فارمولے سے وجود میں آئی ہے۔ ہم انسان جو پروٹین اور پانی سے مرکب ہیں اپنی غذا ہائیڈروجن اور کاربن کے سالمات سے حاصل
کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی مخلوق ’’پروٹین اِن ایمونیا‘‘ کے فارمولے پر تخلیق ہوئی ہو تو اُسے ایسی غذا کی ضرورت ہرگز نہ ہوگی جو انسان استعمال کرتے ہیں…. ممکن ہے وہ فضا
سے انرجی جذب کرکے اپنی زندگی برقرار رکھتی ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کے جسم میں نظام ہضم کے آلات مثلاً معدہ، جگر، گردے، آنتیں وغیرہ بھی موجود نہ ہوں!…. اُن
کے جسم کی ہیئت ہمارے تصور سے بالکل ماوریٰ ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کا جسم وزن سے بالکل آزاد ہو!…. وہ ہوا میں اُڑسکتی ہو!…. اتنی لطیف ہوکہ چشم زدن میں
ہماری نظروں سے غائب ہوجائے!…. وہ مختلف شکلیں اختیار کرسکتی ہو!…. مابعد الحیاتیات کے ماہرین خیال کرتے ہیں کہ کائنات میں ایسی مخلوق کا پایا جانا جانا
بعیدازامکان ہرگز نہیں ہے….
ظلمات کے معنی ہیں….تاریکی…. اور کشور کے معنی دیس یا وطن کے ہیں…. تاریکی کے دیس میں آباد ایک مخلوق سے متعارف کرانے والی یہ کہانی فرضی واقعات پر
مبنی ہے….  کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی….

 

 

(گیارہویں قسط)

’’عمر کا ذہن بہت کمزور ہوگیا ہے…. آہستہ آہستہ اُس کے حافظے میں محفوظ تصویریں ذہن کی اسکرین پر نمودار ہوں گی تو رفتہ رفتہ اُسے سب کچھ یاد آتا جائے گا…. کچھ وقت لگے گا…. اس بات کو یوں سمجھو کہ جب ہم نیند سے بیدار ہوتے ہیں، تو ابتدائی کچھ لمحات میں ہمارا دماغ مائوف سا رہتا ہے…. ہم دیکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں پاتے اور سننے کے باوجود سن نہیں پاتے…. غنودگی کا غلبہ جیسے جیسے کم ہوتا ہے ہمارا ذہن کام کرنے لگتا ہے…. یہ عمل اس قدر تیزی سے انجام پاتا ہے کہ ہم اُس کو نوٹ نہیں کرپاتے…. چونکہ ہم اس کیفیت سے اکثر گزرتے رہتے ہیں لہٰذا ہم اس کا صریحاً انکار بھی نہیں کرسکتے…. بالکل اسی طرح عمر کا معاملہ ہے…. عمر کی نیند کا وقفہ بہت طویل ہوگیا تھا اس لئے اُس پر غنودگی کا غلبہ بھی چند روز میں ختم ہوسکے گا…. چنانچہ اُس کو نارمل حالت تک پہنچنے میں کچھ عرصہ لگ جائے گا‘‘…. ڈاکٹر شاہد نے حرا کو تفصیل سے سمجھایا…. حرا کچھ سمجھنے اور کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں گردن ہلا کر ڈاکٹر شاہد کے کمرے سے نکل آئی….
گوکہ عمر پوری طرح ہوش میں آگیا تھا لیکن ابھی تک اُس کا ذہن گم سُم سا تھا…. پہلی مرتبہ تو وہ حرا کو بھی نہیں پہچان سکا تھا…. اسی لئے حرا کو پریشان دیکھ کر ڈاکٹر شاہد نے اُس کے ساتھ تفصیل سے بات چیت کی کہ کہیں وہ ڈپریشن کا شکار نہ ہوجائے۔
حرا یہاں سے نکل کر گھر واپس جارہی تھی تو راستے میں اُسے مجذوب فقیر اُسی درخت کے ساتھ بیٹھا نظر آیا…. حر انے گاڑی پارک کی اور سڑک کراس کرکے اُس کے سامنے جا پہنچی…. ’’بابا! آپ صحیح کہہ رہے تھے…. عمر واپس آگیا ہے‘‘….۔
فقیر نے اپنی جھکی ہوئی گردن اُٹھائی اور حرا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا…. یعنی گویا یہ کہہ رہا ہے کہ پھر اب تم کیا چاہتی ہو؟….
حرا نے بھی شاید فقیر کی نظروں میں پوشیدہ سوال پڑھ لیا تھا…. فوراً بولی ’’بابا! کیا عمر بالکل ٹھیک ہوجائے گا؟‘‘….۔
’’وہ بالکل ٹھیک ہے…. اُس نے اب تک کا ایک بڑا عرصہ لاشعور میں گزارا ہے….اس لئے اُس کا شعور کمزور ہوگیا ہے…. شعوری حواس میں جیسے جیسے طاقت پیدا ہوتی جائے گی وہ نارمل ہوتا جائے گا…. بیٹی…. تُو اس بات کو یوں سمجھ کہ انسانوں کے حواس دو طرز میں کام کرتے ہیں…. ایک طرز غیب کی ہے اور دوسری طرز ظاہر کی…. ظاہر کو سائیکلوجی کے ماہرین شعور Consious کہتے ہیں اور غیب کو لاشعور Unconsious کانام دیتے ہیں۔ ہر آدمی کا واسطہ مسلسل اِن دونوں طرزوں سے پڑتا رہتا ہے…. دن میں وہ جو بھی اعمال سرانجام دیتا ہے…. وہ سب کے سب ظاہری طرز کے تحت ہوتے ہیں…. جبکہ خواب کے دوران وہ غیب میں داخل ہوجاتا ہے اور اُس کے سارے اعمال غیب کی طرز میں انجام پاتے ہیں…. یعنی اُس کا Unconsious یا لاشعور کام کرنے لگتا ہے….
آدمی دن میں کھاتا پیتا ہے تو خواب کے دوران بھی وہ کھاتا پیتا ہے…. دن میں سفر کرتا ہے تو خواب میں بھی وہ سفر کرتا ہے….
دن میں جب وہ سفر کرتا ہے تو اُسے کافی فاصلہ طے کرناپڑتا ہے…. اور وقت بھی لگتا ہے…. خواب کے دوران سفر میں بھی فاصلہ طے ہوتا ہے او ر وقت بھی خرچ ہوتا ہے لیکن وقت اور فاصلہ یعنی Time & Space کا احساس ختم ہوجاتا ہے…. ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ غیب کی طرز میں انسان کے حواس کی رفتار ہزاروںگنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
عام طور پر لوگ صرف ظاہری زندگی یعنی مادّی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور غیب کے بارے میں کچھ خاص پُریقین نہیں ہوتے…. بعض لوگ غیب کی کچھ چیزوں کا زبانی کلامی تذکرہ تو کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ وہ ان پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ وہ غیب کی حقیقت سے واقف ہونے کی کوشش بھی نہیں کرتے…. یہی وجہ ہے کہ عام طور پر جب کسی کا غیب کی دنیا سے یا غیب کے کسی Object یا کسی کردار سے واسطہ پڑجاتا ہے تو اُن کا شعور بیٹھ جاتا ہے…. عمر نے اتنا عرصہ غیب کی دنیا میں گزارا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے شعور کی رفتار کم ہوگئی ہے اور اُس کا شعور اطلاعات کے اندر معنی پہنانے میں دقّت محسوس کر رہا ہے…. ایسی ہی کیفیت انسان کو اُس وقت بھی پیش آتی ہے، جب وہ اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، اُس وقت اس کیفیت کا غلبہ اِس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جتنا کہ اس وقت عمر پر ہے…. پیدائش کے وقت انسان کا شعور بن رہا ہوتا ہے جبکہ عمر کا شعور قائم ہے بس اُس کی اسپیڈ کچھ کم ہوگئی ہے…. ڈاکٹروں کی تمام کوششوں کا حاصل بھی یہی ہے کہ اُس کے شعور کو بحال کردیا جائے…. وہ اپنی کوششوں میں جلد ہی کامیاب بھی ہوجائیں گے…. تُو گھبرا مت‘‘….
یہ کہنے کے بعد فقیر نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں اور مستغرق ہوگیا….
حرا سکتے کے عالم میں کچھ دیر اپنی جگہ کھڑی رہی…. وہ حیرت زدہ تھی کہ کیا واقعی یہ مجذوب فقیر ہی اُس سے بات کر رہا تھا…. یا کوئی پی ایچ ڈی پروفیسر اُس کو یہ نکتہ سمجھا رہا تھا….
٭٭٭
چوتھے روز عمر کو یاد آگیا کہ حرا کے ساتھ اُس نے شادی کے عہدوپیمان کئے تھے…. وہ حرا کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر ماں جی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ’’ماں جی! میں صحتیاب ہوجائوں تو تُو اپنی بہو لے آنا‘‘….۔
’’میں صدقے، میں واری…. اللہ تجھے سلامت رکھے….توُ ٹھیک ہوجائے گا تو میں اپنے سارے ارمان پورے کروں گی‘‘…. ماںجی نے عمر کی ڈھیروں بلائیں لے ڈالیں….
ڈاکٹروں نے زیادہ بات کرنے سے منع کر رکھا تھا اس لئے سب احتیاط کرتے تھے…. خود عمر کو بھی بہت زیادہ نقاہت محسوس ہو رہی تھی…. ایک روز عمر کو قسطورہ دکھائی دی…. وہ کچھ کہہ رہی تھی…. اُسے آواز بھی آرہی تھی…. لیکن اُس کا ذہن اُن آوازوں کو کوئی مفہوم نہ پہنا سکا….یہ سلسلہ دو تین روز تک جاری رہا….
اگلے روز اُس نے اپنے ذہن میں یہ فیصلہ کیا کہ جب شام کو حرا اُس کو دیکھنے آئے گی تو وہ قسطورہ کے حوالے سے بات کرے گا…. اس سے پہلے کہ شام ہوتی اور وہ اپنے ارادے پر عمل کرتا…. سہ پہر کے وقت تین افراد کمرے میں داخل ہوئے…. اُن کے لباس ایسے تھے جیسے کسی تاریخی فلم کے کردار ہوں…. اُن کا قد عام افراد سے کہیں زیادہ بلند تھا…. شاید 9فٹ تک…. اُن میں دو تو سپاہی معلوم ہوتے تھے اور ایک اُن کا افسر…. وہ افسر عمر کے بیڈ کے سرہانے کھڑا ہوگیا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ایک فائل کھول کر اُس کے صفحات پلٹنے لگا…. ایک صفحے پر رُک کر اُس نے کہا ’’عمر!…. تمہارا نام ہے‘‘….
عمر کے حلق سے کوئی آواز نہ نکل سکی….
’’تمہیںعدالت میں گواہی کے لئے طلب کیا گیا ہے…. ہم معذرت خواہ ہیں کہ تمہیں ناحق زحمت دے رہے ہیں…. لیکن مقدمے کا فیصلہ تمہاری گواہی کے بغیر نہیں ہوسکے گا‘‘….۔
’’گواہی؟…. کس بات کی گواہی؟…. کون سا مقدمہ؟…. تم لوگ ہو کون؟…. کہاں سے آئے ہو؟‘‘….۔
’’ہم زیادہ بات نہیں کرسکتے…. ہم بس تمہیں لے جانے کے لئے آئے ہیں‘‘….۔
’’اگر میں جانے سے انکار کردوں تو؟‘‘…. عمر نے کہا….
اس مرتبہ عمر کی آواز سُن کر اُس کی ماں جی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھیں اور بولیں ’’تجھے کون کہیں جانے کو کہہ رہا ہے تو پڑا رہ چپکے سے…. جب ڈاکٹر صاب اجازت دیں گے…. تب ہی یہاں سے جاسکے گا…. ابھی ہفتہ دس دن تو لگ ہی جائے گا‘‘….
یعنی یہ لوگ ماں جی کو نظر نہیں آرہے ہیں…. اور صرف مجھے دکھائی دے رہے ہیں….عمر نے سوچا پھر بولا ’’کیا تم لوگ انسان نہیں ہو؟‘‘….
’’ہاں تم صحیح سمجھے ہمارا تعلق عالمِ جنات سے ہے…. تمہیں کچھ دیر کے لئے ہمارے ساتھ عالمِ جنات چلنا ہوگا‘‘….
’’آخر کس مقدمے میں، میری گواہی کی ضرورت پڑگئی؟‘‘…. عمر نے پھر سوال کیا…. جو ماں جی نے سُن لیا…. ’’کیا ہوگیا ہے تجھے…. کیوں بڑبڑا رہا ہے…. یہ کمبخت نرس کہاں غائب ہوگئی…. مریض کی خبر لینے والا بھی کوئی ہے یہاں‘‘…. اور وہ نرس کو دیکھنے کے لئے سلیپر میں پیر ڈال کر چادر سر پر لپیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں….
عالمِ جنات کا وہ افسر بولا ’’آپ انکار کریں گے تو بھی ہم آپ کو لے جائیں گے…. اس لئے آپ ہنسی خوشی ہی چل چلیں تو زیادہ بہتر ہوگا…. ہمارے لئے بھی اور آپ کے لئے بھی‘‘….
’’مقدمہ کس کا ہے؟‘‘….
’’عنبر کا‘‘….
’’کیا میرا جانا بہت ضروری ہے…. تم لوگ یہاں پر ہی میر ابیان نہیں لے سکتے‘‘….
’’نہیں‘‘….
’’عدالت نے کل آپ کو طلب کیا ہے…. ہمیں یہی حکم ملا ہے کہ ہم آپ کو عدالت میں پیش کردیں…. ہم اس بات کے بھی پابند ہیں کہ آپ سے زیادہ بات نہ کریں‘‘…. یہ کہہ کر اُس نے دونوں سپاہیوں کو اشارہ کیا اور اُن دونوں نے آگے بڑھ کر عمر کو بازوئوں سے پکڑا اور اُٹھاکر باہر نکل گئے…. افسر اُن کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا…. عمر سخت کمزوری محسوس کر رہا تھا…. قریب تھا کہ وہ کمزوری سے بے ہوش ہوجاتا…. اُس افسر نے اپنی کمر سے بندھی ہوئی ایک بوتل اُس کے ہونٹوں سے لگادی بہت میٹھا اور منفرد ذائقہ کا مشروب اُس کے اندر اُترا تو گویا اُس کی بوجھل اور خمار آلود آنکھیں کھلتی چلی گئیں…. اب وہ پوری طرح ہوش میں تھا…. اُسے حیرت ہوئی کہ کسی کی نظر ان چاروں پر نہیں پڑی…. یعنی اب وہ بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا…. کلینک سے باہر نکلے تو سامنے ایک بگھی کھڑی تھی…. ایک سپاہی اُسے لے کر بگھی کی پچھلی نشست پر بیٹھ گیا…. اگلی نشستوںپر سپاہی اور آفیسر ساتھ ساتھ بیٹھ گئے…. سپاہی نے گھوڑوں کی لگامیں پکڑ کر اشارہ کیا اور گھوڑے بگٹٹ دوڑنے لگے…. دیکھتے دیکھتے گھوڑوں کی رفتار اس قدر تیز ہوگئی کہ اردگرد کے مناظر رنگین دُھند میں تبدیل ہوگئے…. اچانک بگھی کو زبردست جھٹکا لگا اور وہ روشنی کے ایک دائرے میں داخل ہوگئی جو دور سے دیکھنے پر روشن الائو کی مانند نظر آرہا تھا…. اس میں سے جب بگھی اپنے سواروں کے ہمراہ دوسری طرف برآمد ہوئی تو اردگرد نظر آنے والی رنگین دھند ختم ہوگئی…. اور بگھی کی رفتار بھی نارمل ہوگئی…. یہ دو رویہ سڑک تھی…. لیکن کافی دور تک سنسان پڑی تھی…. دائیں بائیں چٹیل میدان تھا…. کسی ذی روح کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا…. سامنے جہاںآسمان اور زمین کے کنارے باہم مل رہے تھے وہاں پتھریلی عمارتوں کے آثار سے محسوس ہو رہے تھے….
کچھ دیر گزری ہوگی کہ بگھی اُن پتھریلی عمارتوں کے قریب جاپہنچی، ایسا لگتا تھا کہ جیسے پہاڑوں کو تراش کر یہ عمارتیں بنائی گئی ہوں….چلتے چلتے یہ سڑک ایک بلند وبالا دروازے پر جاکر ختم ہوگئی…. دروازے کے باہر چند افراد پہرہ دے رہے تھے…. یہ بھی اپنے قد کاٹھ اور لباس سے سپاہی ہی معلوم ہوئے…. عمر کے ساتھ جو سپاہی بیٹھا تھا اُس نے اُتر کر پہرے داروں سے کچھ بات کی…. اور اُنہوں نے دیوہیکل دروازے کو ایک چرخی گھما کر کھول دیا…. دروازہ خودکار سسٹم کے تحت کھلتا چلا گیا…. ورنہ اس قدر بلند و بالا اور وزنی دروازے کو کھولنے کے لئے یقینا بہت سے لوگ درکار ہوں گے….
بگھی دروازے سے اندر داخل ہوئی…. یہ کوئی گنجان آباد شہر تھا…. آبادیاں…. بازار…. منڈی…. اسکول…. یونیورسٹی…. اور کوٹھیاں ومحلاّت…. سب کچھ ہی تو موجود تھا….
بگھی مختلف راستوں سے گزرتی ہوئی ایک عمارت کے سامنے جاکر ٹھہر گئی….
وہ حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا…. سپاہی نے اُس سے اُترنے کی درخواست کی…. بگھی سے اُترتے ہوئے اُس کی نظر قسطورہ پر پڑی…. وہ عقابل خان اور ایک بزرگ صورت ضعیف شخص کی ہمراہ کھڑی تھی….
’’خوش آمدید…. عمر عالمِ جنات میں ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں‘‘…. قسطورہ نے آگے بڑھ کر ایک ہار اُس کے گلے میں ڈال دیا…. ہار میں پروئے ہوئے پھولوں کی مہک بہت سحرانگیز تھی جو اُس کے قلب و روح تک کو سرشار کر رہی تھی….
’’یہ عقابل چاچا ہیں…. انہیں تم اچھی طرح جانتے ہو‘‘…. عمر نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا تو عقابل نے اُسے گلے سے لگالیا….
’’اور یہ میرے دادا ہیں‘‘…. قسطورہ کے کہنے پر وہ اُس کے دادا کی طرف مڑا…. قسطورہ کے دادا نے بھی محبت اور شفقت کے ساتھ عمر کو سینے سے لگالیا…. ان لوگوں کو دیکھ کر عمر کو بہت ڈھارس ہوئی…. اور اُسے اطمینان ہوگیا کہ یہاں اُس کے ساتھ کوئی بُرا سلوک نہیں ہوگا….
٭٭٭
ڈاکٹر شاہد کو جب بتایا گیا کہ عمر کلینک میں موجودنہیں ہے…. سب جگہ تلاش کرلیا…. کہیں نہیں مل سکا…. تو اُنہیں یقین نہیں آیا…. اس لئے کہ عمر میں تو اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ وہ خود سے اُٹھ کر باتھ روم تک جاسکے…. وہ کلینک سے باہر کیسے جاسکتا ہے؟…. اُنہوں نے دوبارہ اچھی طرح تلاش کرنے کو کہا…. دوسری مرتبہ بھی انہیں وہی رپورٹ دی گئی…. پھر ڈاکٹر شاہد نے مناسب سمجھا کہ فیض صاحب کو بھی خبر کردی جائے…. گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں فیض انکل حرا کے ساتھ اُن کے آفس میں بیٹھے تھے…. تفصیل بتانے کے بعد ڈاکٹر شاہد نے عمر کی والدہ کو بھی بلوالیا…. ماں جی بھی سخت پریشان تھیں….
’’ماں جی! آپ بتا رہی تھیں نا کہ عمر کچھ بڑ بڑا رہا تھا…. کیا کہہ رہا تھا یاد کر کے بتائیے‘‘….
’’میں تسبیح پڑھ رہی تھی…. مجھے اُس کی آواز سنائی دی…. میں سمجھی نیند میں بڑبڑا رہا ہے…. میں نے دیکھا تو وہ ایک سمت دیوار کو دیکھ کر کہہ رہا تھا…. اگر میں جانے سے انکار کردوں تو؟‘‘….اس کے کچھ دیر بعد وہ بولا …. کس مقدمے میں، میری گواہی کی ضرورت پڑگئی؟….
میں سمجھی کہیں دوا کا اُلٹا اثر تو نہیں ہوگیا…. میں جلدی سے نرس کو بلانے کے لئے دوڑی…. جب واپس آئی ہوں تو عمر بیڈ پر موجود نہیں تھا‘‘….۔
کافی دیر تک فیض انکل اور حرا ڈاکٹرشاہد کے ساتھ بیٹھے سوچتے رہے کہ عمر کہاں جاسکتا ہے…. شام گہری ہونے لگی تو دونوں وہاں سے اُٹھ آئے….
راستے میں حرا کی نظر برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے فقیر پر پڑی…. وہ کار رُکواکر تیزی سے اُتری…. فقیر آنکھیں بند کئے مستغرق بیٹھا تھا…. فیض انکل بھی اُسے کے پیچھے اُتر گئے تھے…. اُنہوں نے حرا کو اشارہ کیا کہ انہیں مت تنگ کرو نجانے کس عالم میں ہوں…. لیکن حرا نے اُن کی سنی اَن سنی کرتے ہوئے مجذوب فقیر کو آواز دی ….’’بابا….بابا…. سنئے بابا‘‘…. اس طرح دو تین مرتبہ آوازیںدیں تو فقیر نے آنکھیں کھول کر حرا کو اس طرح گھورا جیسے اُسے یہ دخل درمعقولات پسند نہ آئی ہو…. پھر یکدم اُس کی آنکھوں میں موجود سختی نرمی میں تبدیل ہوگئی….
’’بابا! عمر کہاں چلا گیا ہے؟‘‘…. حرا نے سوال کیا
’’چلا گیا ہے؟…. وہ تو آگیا تھا نا‘‘….
’’نہیں وہ ہسپتال سے ہی غائب ہوگیا ہے….۔ ایسا لگتا ہے کوئی اُس کو لینے کے لئے آیا تھا…. وہ اُسے اپنے ساتھ لے گیا‘‘….
’’ایسے کیسے کوئی لے جاسکتا ہے‘‘…. یہ کہہ کر فقیر مجذوب نے آنکھیں بند کرلیں تھوڑی دیر بعد اُس نے کہا ’’وہ آجائے گا، چند روز میں واپس آجائے گا‘‘….
’’کہاں ہے وہ؟…. کیسا ہے؟‘‘….
’’جہاں بھی ہے وہ بہت اچھا ہے…. اب آئے گا توڈاکٹروں کے جھنجھٹ میں بھی نہیں پڑے گا…. بالکل فٹ فاٹ ہوگیا ہے…. ایک مہینے میں تیری اور اُس کی شادی ہوجائے گی‘‘….۔
’’لیکن وہ ہے کہاں؟…. کیوں گیا ہے؟…. کیا کرنے کے لئے؟‘‘….
’’اتنے سوال مت پوچھا کر…. آم کھا پیڑ مت گن…. تفصیل جاننے سے اُلجھن بڑھے گی…. بس یوں سمجھ لو کہ جس طرح ہمارے ہاں ڈاکٹر لوگ آپریشن کرتے ہیں تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیٹ میں بھول جاتے ہیں اُس کو نکالنے کے لئے دوبارہ آپریشن کرنا پڑتا ہے…. اسی طرح کچھ رہ گیا ہوگا اُسے اب مکمل کیا جارہا ہے‘‘…. مجذوب مسکراتے ہوئے بولا

(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

پارس ۔ قسط 5

پانچویں قسط :   ننھی پارس جھولے میں لیٹی   جھنجنے کو اپنے ننھے منے ہاتھوں ...

کشورِ ظلمات ۔ قسط 9

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….     ...

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *