Notice: फंक्शन WP_Scripts::localize को गलत तरीके से कॉल किया गया था। $l10n पैरामीटर एक सरणी होना चाहिए. स्क्रिप्ट में मनमाना डेटा पास करने के लिए, इसके बजाय wp_add_inline_script() फ़ंक्शन का उपयोग करें। कृपया अधिक जानकारी हेतु वर्डप्रेस में डिबगिंग देखें। (इस संदेश 5.7.0 संस्करण में जोड़ा गया.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
فکرِ حسینی ۔ سانحہ کربلا کا پیغام – روحانی ڈائجسٹ
मंगलवार , 4 नवम्बर 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

فکرِ حسینی ۔ سانحہ کربلا کا پیغام


نواسۂ رسول ؐ ، جگر گوشہ بتولؓ، جنتی نوجوانوں کے سردار ، شہیدِ کربلا سیدنا حضرت امام حسین ؓ ابنِ علی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے متعلق  حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضورِ ﷺ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنینِ کریمین ؓ  حضور  ﷺکے سینہ مبارک پر کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا ‘‘یارسول اﷲ  ﷺ!کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتےہیں ….؟’’

آپ  ﷺ نے فرمایا ‘‘ کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں ’’۔

ایک موقع پر حضور  ﷺ نے حسنین کریمینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا ‘‘ جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا’’ …

[ابنِ ماجہ]

ایک مرتبہ حضور  ﷺ نے سیدنا حضرت امام حسین ؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ  ﷺ نے خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا ؓ سے فرمایا ‘‘کہ ان کا رونا مجھے غمگین کرتا ہے’’۔

ایک موقع پر حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں حسین ؓ سے ہوں۔ جو حسین ؓ سے محبت کرے اﷲ اس سے محبتکرے، حسین ؓ میری اولاد کی اولادہے’’۔ [ترمذی ]

نواسۂ رسول سیدنا حضرت امام حسین ؓ کے زہد و تقویٰ اور عبادت گزاری کی یہ حالت تھی کہ آپ ؓ اکثر شب زندہ دار اور اکثر  روزہ سے ہوتے تھے،  حضرت امام حسین  کی مجالس  وقار متانت کا حسین مرقع اور آپ ؓ  کی گفتگو علم و حکمت اور فصاحت و بلاغت سے بھرپور ہوتی تھی۔ کوئی سائل آپ ؓ کے دروازہ سے خالی ہاتھ واپس نہ جاتا تھا، اپنا مال کثرت کے ساتھ ‘‘راہِ خدا’’ میں خرچ کرتے رہتے تھے۔

آپ ؓ بہت زیادہ حلیم الطبع اور منکسر المزاج تھے،  آپ ؓ  بعض مرتبہ غربا کے گھروں پر خود کھانا پہنچاتے تھے، اگر کسی قرض دار کی کمزور حالت کا پتہ چلتا تو خود اس کا قرض ادا کردیا کرتے تھے۔

***

رسول اﷲ ﷺ کے اسی محبوب نواسے نے دس محرم 61ہجری کے روز کربلا کے تپتے صحر ا میں تشنہ لب اپنے 72جان نثاروں کے ہمراہ اپنی جانوں کو جانِ آفریں کے سپرد کرکے اپنے لہو سے حق وباطل کے درمیان حدِ فاصل کھینچ دی۔

اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جس قدر سانحہ کربلا نے کیا۔ رسول اللہ ﷺ اور خلفائیے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اسلامی ِتعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائےراشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیتبرقرار رہی۔

یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لہٰذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظامِ شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے۔ امام حسین ؓ  محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے۔

حضرت امام حسین ؓ جنہوں  نے حالات کی عدم موافقت کے باوجود آوازِ حق بلند کرکے پوری نوعِانسانی کے لیے یہ مثال قائم کردی کہ  اہلِ حق کا شیوہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ باطل قوتوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور اپنے لہوکا نذرانہ دے کر حق کی شمع کو روشن رکھیں۔

حضرت امام حسین ؓ نے جامِ شہادت نوش کرکے اسلام کے روحانی نظام زندگی پر  بھی آنچ نہ آنے دی اور اسلام میں لادینی نظریات کی مزاحمت کی علامت بن گئے۔  حضرت امام حسین ؓ کے اسی مقام کو دیکھتے ہوئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی  ؒ فرماتے ہیں   ؎

شاہ است حسین ؓ،  بادشاہ است حسین ؓ

دین است حسین ؓ،  دین پناہ است حسین

سردار نہ داد، دست در دست یزید!

حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین

***

امام حسینؓ کی شہادت  سے یہ سبق ملتا ہے کہ پیغمبرانہ طرزِ فکر کا وصف یہ ہے کہ ایسے بندہ کے ہاتھ میں دنیا بھر کے وسائل آجائیں یا کوئی ایسا مرحلہ آجائے کہ اس کی اور قریبی رشتہ داروں کی جان بھی خطرے میں پڑجائے لیکن وہ ہمیشہ اللہ کی پسندیدہ راہ کا انتخاب کرتا ہے اور اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی و منشاء کو فوقیت دیتا ہے ۔

 امام عالی مقامؒ کی شہادت کے واقعہ میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں جس میں پہلا تو یہ ہے کہ حق بات کے لیے طاغوت کا دباؤ ہر گز قبول نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے مشن کو پھیلانے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے میں اپنی اولاد یا اپنی جان بھی قربان کرنا پڑے تو دریغ نہ کیا جائے۔

امام حسین ؓ کے واقعہ شہادت میں حسینی  ؓ طرزِ فکر اور یزیدی طرزِ فکر ہمارے سامنے ہے۔ طرزِفکر کے یہ دونوں رخ قالب بدل کر ہر دور میں سامنے آسکتے ہیں۔ ظلم کا ہر نظام اور ظلم کا ہر فعل یزیدیت ہے جبکہ علم و معرفت خداترسی ، انصاف اور انسان دوستی حسینی  ؓ طرزِ فکر ہے۔ آج بھی اگر ہم اس حسینی  ؓ طرزِ فکر کو اپنالیں تو ہم اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو بے شمار خرابیوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ 

یہ بھی دیکھیں

تسلیم و رضا اور سُنتِ ابراہیمی کی پیروی کا عظیم دِن عید الاضحٰی

’’عید الاضحی ‘‘ کی آمد کے ساتھ ہی کئی یادیں ، جذبے اور ولولے تازہ …

ریفلیکسولوجی – 4

ستمبر 2019ء –  قسط نمبر 4 پچھلے باب میں ہم نے انسانی جسم کے برقی …

प्रातिक्रिया दे