نسل انسانی کی تاریخ میں چشم فلک نے کبھی حق و صداقت کے معرکے دیکھے ہیں تو کبھی کفر و باطل کے انسانیت سوز ہنگامے۔
حق پرستوں سے باطل کے پجاریوں کو ہمیشہ بیر رہا ہے۔ سانحہ کربلا بھی اسی قدیم سلسلے کے دوکرداروں سے دنیا کو روشناس کرتا ہے۔ سانحہ کربلا آج سے چودہ سو سال پہلے رونما ہوا لیکن اس کی یاد ابھی تک زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔ بقول شاعر
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
حریت ، آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو امام حسین ؓکی قربانی کو مشعل راہ پایا۔
رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اسلامی ِتعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائےراشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔
یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لہٰذا مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے۔ امام حسین ؓ ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا کے لیے میدان عمل میں اترے۔
راہ حق پر چلنے والوں کے ساتھ جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جورو جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی کہ خاندانِ رسالت کے ارکان پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کیا جو خود کو مسلمان کہتے تھے، بڑا روح فرسا ہے….
حضرت امام حسین ؓ نے حالات کی عدم موافقت کے باوجود آوازِ حق بلند کرکے پوری نوعِ انسانی کے لیے یہ مثال قائم کردی کہ اہلِ حق کا شیوہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ باطل قوتوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور اپنے لہوکا نذرانہ دے کر حق کی شمع کو روشن رکھیں۔
حضرت امام حسین ؓ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ فرماتے ہیں ؎
شاہ است حسین ؓ، بادشاہ است حسین ؓ
دین است حسین ؓ، دین پناہ است حسین
سردار نہ داد، دست در دست یزید!
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین
***
زندہ قومیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کی قدر کرتی ہیں ، ان قربانیوں کا تذکرہ کرتی ہیں اور اُن کے کردار اور طرزِ فکر سے سبق حاصل کرتی ہیں۔
ہمیں محرم الحرام کے مہینے میں حضرت امام حسینؓ کی یاد مناتے ہوئے یہ ضرور غور کرنا چاہیے کہ حضرت امام حسینؓ کی اور آپؓ کے اہلِ خانہ کی اس قربانی کا مقصد کیا تھا….؟
حضرت امام حسین ؓ کی شہادت حق کی خاطر ڈٹ جانے اور اپنی جان کی پرواہ تک نہ کرنے کا ایک بےمثال سبق ہے۔
صدق خلیل بھی ہے عشق
صبرحسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں
بدر و حنین بھی ہے عشق
ہر سال محرم کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد اس المناک واقعے کی یاد میں غم کی تصویر بن جاتی ہے۔
ہمیں امام حسین ؓ کی اس طرزِ فکر کو سمجھنا بھی ضروری ہے جس کے تحت امام حسین ؓ کی شہادت رہتی دنیا تک کے لئے اَمر ہوگئی۔
امام عالی مقامؒ کی شہادت کے واقعہ میں ہمارے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں ۔
***
حضرت اما م حسین ؓ کا کردار اور آپ ؓ کی طرز فکر۔ وہ آفاقی پیغام ہےجو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو در س عمل اور ولولہ شوق عطا کرتارہےگا۔
سانحہ کربلا میں حسینی ؓ طرز ِفکر اور یزیدی طرزِفکرہمارے سامنے آتی ہے۔
طرزِفکرکے یہ دونوں رخ ہر دور میں سامنے آسکتے ہیں۔ ظلم کاہر نظام اور ہر فعل یزید یت ہے جبکہ علم و معرفت خدا ترسی،انصاف اور انسان دوستی حسینی ؓ طرزِ فکر ہے ۔
امام حسین ؓ شر کے مقابلے میں خیر کے ترجمان ہی نہیں حق کے نگہبان بھی ہیں۔
قتل ِ حسین ؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد
واقعہ کربلا زمین پر حاکمیت الہٰیہ قائم کرنے ، انسانوں کوان کے بنیادی حقوق دلوانے کا معرکہ تھا۔
اس معرکہ میں نواسہ ٔ رسول نے اپنی آل و اولاد کے ساتھ اپنی جان تک قربان کردی اور زبان حال سے اس بات کا اعلان کر دیا۔
سردار نہ داد، دست در دست یزید!
حقا کہ بنائے لا الہٰ است حسین
***
نواسۂ رسول ؐ ، جگر گوشہ بتولؓ، جنتی نوجوانوں کے سردار ، شہیدِ کربلا سیدنا حضرت امام حسین ؓ ابنِ علی وہ عظیم ہستی ہیں جن کے متعلق حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں حضورِ ﷺ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حسنینِ کریمین ؓ حضور ﷺکے سینہ مبارک پر کھیل رہے تھے۔
میں نے عرض کیا ‘‘یارسول اللہ ﷺ!کیا آپ ان دونوں سے اس درجہ محبت کرتےہیں ….؟’’
آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘ کیوں نہیں یہ دونوں دنیا میں میرے پھول ہیں ’’۔
ایک موقع پر حضور ﷺ نے حسنین کریمینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا ‘‘ جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا’’ … [ابنِ ماجہ]
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے سیدنا حضرت امام حسین ؓ کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ نے خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا ؓ سے فرمایا ‘‘کہ ان کا رونا مجھے غمگین کرتا ہے’’۔
ایک موقع پر حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں حسین ؓ سے ہوں۔ جو حسین ؓ سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین ؓ میری اولاد کی اولادہے’’۔ [ترمذی ]
حضرت امام حسینؓ نے فرمایا
- وہ قوم کامیاب نہیں ہو سکتی جو مخلوق کی خوشنودی کے بدلے پروردگار کی ناراضی کا سودا کرے۔
- سب سے بڑا سخی وہ انسان ہے جو کسی ایسے کو عطا کرے جس سے کسی قسم کی توقع نہ ہو ۔
- سب سے بڑا عفو کرنے والا انسان وہ ہے جو قدرت ہونے کے باوجود معاف کر دے ۔
- جو کسی مومن کے کرب و غم کو دور کرے،خدا اس کے دنیا و آخرت کے غم و اندوہ کو دور کرتاہے ۔
- دوست وہ ہے جو تمہیں برائی سے بچائے دشمن وہ ہے جو تمہیں برائیوں کی ترغیب دلائے۔
- میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو لائق ملامت سمجھتا ہوں۔
- جب ہم اﷲ سے کچھ طلب کرتے ہیں تو وہ ہمیں عطا فرماتا ہے اور جب اﷲ کسی امر کا ارادہ کرتا ہے تو ہم اس کی مرضی پر راضی ہوجاتے ہیں۔
- شرف کا انحصار تقویٰ پر ہے۔
- دنیا کا تلخ و شیریں سب خواب ہے۔ اس خواب سے بیداری آخرت میں ہوگی۔
- ایسے شخص پر کبھی ظلم مت کرنا جس کا اﷲ کے سوا کوئی مدد گار نہ ہو۔
- سچائی عزت ہے۔ جھوٹ ذلت ہے۔ راز امانت ہے۔ ہمسائیگی رشتہ داری ہے۔ مددگاری دوستی ہے۔ عمل تجربہ ہے۔ اچھااخلاق عبادت ہے۔ خاموشی زینت ہے۔ کنجوسی ناداری ہے۔ سخاوت مالداری ہے اور نرمی عقلمندی ہے۔
- دنیا اپنے بسنے والوں کو ایک حال سے دوسرے حال میں متغیر کرنے والی ہے۔
- جس نے تمہارا عطیہ قبول کیا اس نے فیاضی میں تمہاری مدد کی۔
- اس سے پہلے کہ تمہارا مال تمہیں کھا جائے تم اسے کھا جاپی لو۔
- علم سیکھنا حصولِ معرفت کا ذریعہ ہے۔
- تم دنوں کا مجموعہ ہو۔ جو دن گزرگیا تمہارا ایک جزو کم ہوگیا۔
- قرآن کا ظاہر خوشنما اور باطن بہت گہرا ہے۔