کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….
گیارہویں قسط
گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دو سال ان بھیڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے مانوس ہوچکا تھا لیکن تاجر کی بیٹی سے ملاقات کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی ۔ وہ شہر طریفا میں خوابوں کی تعبیر بتانے والی ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملتا ہے، جو بتاتی ہے کہ خواب میں بتایا خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر چلا جاتا ہے اور شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے ملکیِ صادق نامی بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔
خزانہ کے متعلق مدد کرنے کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرکے چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ کے قہوہ خانہ میں پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔
اسی شہر میں شیشہ کی دکان کا سوداگر پریشانی میں مبتلا تھا، تیس برسوں سے قائم اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے نے صفائی مکمل کی تو شیشے کا سوداگر اسے کھانا کھلانے قریبی ہوٹل لے گیا جہاں لڑکے نے بتایا کہ اسے مصر جانا ہے جس کے لیے وہ صفائی کا کام کرنے کو تیار ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کے لیے مدد کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے مہینہ بیت جاتا ہے تو وہ اندازہ لگاتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک دکان میں لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ وہاں سفر کرنا اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کے مقدس شہر کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، سوداگر مان جاتا ہے ۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کی اجازت طلب کرتا ہے۔ بوڑھا سوداگر دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہے، لڑکے کو سامان باندھتے ہوئے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھی ۔ اس نے سوچا کی اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ اُسے یاد آیا کہ سوداگر کے پاس ایک شخص آیاکرتا تھا، جس نے تجارتی سامان کو قافلہ کے ذریعہ لق دق صحرا کے پار پہنچایا تھا۔ وہ گودام جاتا ہے۔ گودام کی عمارت میں انگلستان کا ایک باشندہ بیٹھا پڑھ رہا ہوتا ہے ۔ اس نئ پوری زندگی کائناتی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دی تھی اب وہ کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ ایک دوست کی زبانی عرب کے ریگستان میں مقیم ایک بوڑھے عرب کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر انگلستانی باشندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الفیوم پہنچے کے لیے یہاں آپہنچا۔ اِسی گودام میں اس کی ملاقات اس نوجوان لڑکے سے ہوتی ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو خزانے میں کچھ دلچسپی نہ تھی ۔ اسےتو کیمیا گر کی تلاش تھی۔ اتنے میں گودام کے مالک کی آواز آتی ہے کہ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے۔
قافلہ کا سردار باریش عرب بوڑھا اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلہ میں کوئی دو سو لوگ اور چار سو جانور تھے۔ لڑکا اور انگلستانی باشندہ اونٹ پر سوار ہوئے ۔ بگل بجایا گیا اور پھر قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت پر سفر روک دیاجاتا اور سہہ پہر میں سفر دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا ۔ لڑکا سوچتا رہا ‘‘جب میں نے بھیڑوں سے ، بوڑھے بادشاہ سے اور شیشوں کی دُکان سے بہت سی باتیں سیکھی ہیں تو اسی طرح میں اِس صحرا سے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتا ہوں ’’۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ اِس دوران بعض قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر زیادہ خاموشی سے طے کیا جانے لگا۔ ایک رات انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں لیکن کتابیں کچھ زیادہ ہی دقیق اور گنجلک تھیں۔ لڑکے نے سمجھنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی وہ بھول بھلیّوں میں کھوگیا اور اُسے کچھ پلّے نہ پڑا۔ آخر کار جھنجھلا کر لڑکے نے انگلستانی باشندے کو سب کتابیں واپس کردیں ، پوچھنے پر لڑکے نے بتایا کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا۔ ایسے میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ نخلستان پہنچ گیا ۔
نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں اور نشانیوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے کے ساتھ ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر اور حیران ہورہے تھے۔ …. اب آگے پڑھیں ………….
….(گزشتہ سے پوستہ)
اب وہ نخلستان کے بچوں کے درمیان گھرے ہوئے تھے، قافلے میں آنے والے اجنبیوں اور جانوروں کو شوق و تجسس کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ نخلستان کے لوگوں کا ہجوم بھی اکھٹا ہوگیا۔ نخلستان کے مرد قافلے والوں سے قبیلوں میں پھوٹ پڑنے والی جنگ کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کہ آیا کسی نے صحرا میں کہیں جنگ دیکھی ہے۔ نخلستان کی عورتیں تاجروں کے ساتھ لائے ہوئے دلکش کپڑے اور خوبصورت پتھروں کو دیکھنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھیں۔
صحرا کی خاموشی اب ایک خواب بن چکی تھی۔ قافلے اور نخلستان کے لوگ مسلسل بےتکان بولے جا رہے تھے۔ قہقہے اور بلند آوازیں پھوٹ پڑی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کسی اور ہی دنیا میں کچھ وقت گزار کر انسانوں کو اچانک اِنہیں جیسے لوگوں کے بیچ ڈال دیا گیا ہو۔ سب لوگ خوشی محسوس کررہے تھے ۔
انہیں دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ایک دن قبل صحرا سے گزرتے ہوئے خوف کے مارے انتہائی خاموشی اور احتیاتی تدابیر اختیار کیے ہوئے تھے۔
ساربان نے لڑکے کو بتا دیا تھا کہ ‘‘نخلستان میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ جنگ کے دِنوں میں نخلستان کو ہمیشہ غیر جانب دار ریاست Neutral Territories کی حیثیت سے تمام قبیلوں میں تسلیم کیا جاتا ہے، کیونکہ اُن کی زیادہ تر آبادی عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ریگستان میں نخلستان کہیں بھی ہوسکتے تھے لیکن قبیلوں کی آپسی جنگیں صرف ریگستانی حصوں میں ہوتی تھیں اور نخلستانوں کو جنگ کے وقت متحاربین سے الگ جائے پناہ اور ریفیوجی Refugeکیمپ کے طور پر محفوظ رکھا جاتا تھا۔
لوگوں کے اس بے ہنگم ہجوم کو ایک جگہ اکھٹا کرنے میں قافلے کے سردار کو خاصی دقّت لگی۔ اُسے اُنہیں بعض ہدایتیں دینا تھیں۔
قافلے کے سردار نے بآوازِ بلند اعلان سنایا:
‘‘پہلی بات تو یہ ہے کہ قافلہ اُس وقت تک یہیں الفیوم *کے نخلستان میں مقیم رہے گا جب تک کہ قبیلوں میں چھڑی جنگ ختم نہیں ہو جاتی۔
چونکہ اب سے ہم لوگ یہاں مہمان ہیں، اِس لئے ہم مقامی لوگوں کے ساتھ یہیں رہیں گے۔ مقامی روایت کے مطابق مہمانوں کو رہائش کے لئے سب سے اچھی جگہ دی جاتی ہے۔ یہی نخلستان کی مہمان نوازی کا انداز ہے۔
* الفیوم ، مصر کا ایک رہائشی علاقہ جو محافظہ فیوم میں واقع ہے۔ فیوم کی مجموعی آبادی 349,883 افراد پر مشتمل ہے اور 23 میٹر سطح دریا سے بلندی پر واقع ہے۔ القصر Luxor سے قاہرہ تک دریائے نیل کے کنارے کئی تاریخی آثار موجود ہیں۔ جن میں عبیدوس Abydos کے قدیم شہر سے آگے بڑھیں تو دریائے نیل سے ایک نہر نکل کر قاہرہ اور ممفس کے جنوب مغرب میں واقع جھیل فایوم Fayum تک جاتی ہے۔ اس نہر کانام ’’نہرِ یوسف‘‘ ہے۔ اس کے حوالے سے یہ روایت مشہور ہے کہ یہ نہر حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کو قحط سے نجات دلوانے کے لئے کھدوائی تھی۔ الفیوم ابتداء میں قاہرہ سے پچاس میل جنوب کی جانب ایک وسیع نشیبی میدان تھا۔ طغیانی کے زمانے میں اس میں دریائے نیل کا پانی جمع ہوجاتا تھا۔ مغربی مورخین کے مطابق حضرت نے اس کو مزید گہرا کروایا اور پھر دو سو میل جنوب کے فاصلے پر دریائے نیل سے نہر نکالی اور اُسے جھیل میں لاگرایا۔ اس طرح فایوم کے اردگرد کا وسیع غیرآباد علاقہ جو پچیس ہزار ایکڑ رقبہ پر مشتمل تھا، آباد ہوگیا۔
پھر قافلے کے سردار نے تمام مسافروں اور خود اُس کے اپنے محافظوں کو حکم دیا کہ:
‘‘یہاں کی روایتوں اور قانون کا خیال رکھتے ہوئے سب لوگ اپنے اپنے ہتھیار نخلستان کے قبیلہ کے سردار کے متعیّن کردہ فرد کے حوالہ کر دیں گے ۔ ’’
‘‘اصل میں یہ جنگ کے اصول ہیں۔’’ قافلے کے سردار نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ‘‘نخلستان کے اندر ہتھیار اُٹھانا سخت منع ہے اور نہ ہی نخلستان کے علاقوں میں کسی سپاہی یا فوج کی ٹکڑیوں کو پناہ دی جاتی ہے۔’’
لڑکے کو اِس دوران یہ دیکھ کر بڑا تعجب اور حیرانی ہوئی جب انگلستانی باشندے نے اپنے تھیلے سے ایک خوبصورت چمکتا ہوا ریوالور نکال کر اُس آدمی کے حوالہ کیا جو ہتھیار جمع کر رہا تھا ۔
‘‘تم یہ ریوالور کیوں لائے ہو۔’’ لڑکے نے انگلستانی باشندے سے پوچھا۔
‘‘اِس سے لوگوں پر بھروسہ اور اعتماد کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔’’ انگلستانی باشندے نے جواب دیا۔
vvv
جنگ بندی تک نخلستان میں ٹھہرنے کا سُن کر لڑکے کا ذہن پھر خزانہ کے خیال میں بھٹکنے لگا، اُسے تو ابھی اور آگے سفر کرنا تھا۔ جیسے جیسے وہ اپنے خواب کے قریب آرہا ہے اور اس کی امید بندھ رہی ہے۔ ویسے ویسے نئی نئی رکاوٹیں بھی سامنے آ تی جارہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شالیم کے بوڑھے بادشاہ کا بتایا ہوا ‘‘ابتدائی قسمت ’’ Beginner’s Luckکا اصول اب کارفرما نہیں رہا۔
لڑکے کو اس بوڑھے بادشاہ کا قول یاد آیا۔
‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور سعی کرتا ہے تو در اصل قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ، تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوتی ہے کہ تمہاری یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کائنات انسان کے لئے مسخّر کر دی گئی ہے۔’’
اُس نے سوچا کہ اپنے خواب کو پورا کرنے اور حصولِ مقصد کی جدو جہد میں ہر مقام پر راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں سے اُس کے صبر و استقامت اور ہمّت کا امتحان ہوتا رہا ہے اور اب تک میں نے نہ تو عجلت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور نہ ہی تحمل کا دامن چھوڑا ہے۔ اگر اب میں نے جذبات میں آکر جلدبازی اور بے صبری کا مظاہرہ کیا تو امکان غالب ہے کہ وہ علامتیں اور نشانیاں جو قدرت نے راستہ میں چھوڑ رکھی ہیں، اُنہیں پہچاننا مشکل ہو جائے۔
‘‘یہ علامتیں اُس کے راستہ میں قدرت نے رکھی ہیں۔ ’’ا سے خود اپنے اس خیال پر حیرت ہوئی ۔
اب تک تو وہ یہی سوچتا تھا کہ یہ علامات اور نشانیاں محض اِس دنیا کی چیزیں ہیں۔ بالکل ایسی ہی چیزیں جیسے کھانا پینا اور سونا یا محبت کی جستجو ، کاروبار اور روزی کی تلاش، لیکن ابھی تک اُس کے ذہن میں یہ بات نہ آئی تھی کہ یہ نشانیاں ایک طرح سے قدرت کی جانب سے اشارے ہیں۔
‘‘عجلت پسندی اور بے صبرا پن ٹھیک نہیں ’’ اُس نے اپنے آپ سے کہا۔ اسے خیال آیا کہ ساربان نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ
‘‘جب کھانے کا وقت ہو تو صرف کھانے کے بارے میں سوچو اور اور جب آگے بڑھنے کا وقت ہو تو آگے بڑھنے پر دھیان دو۔’’
vvv
پہلے دن تو سب بشمول انگلستانی باشندے کے سب تھکے ہارے تھے، فوراً ہی سو گئے۔
لڑکے کو جس خیمہ میں جگہ ملی وہ انگلستانی باشندے سے کافی دور تھا اور اُس کے ساتھ پانچ دوسرے ہم عمر نوجوان بھی تھے۔ یہ نوجوان صحرا کے باسی تھے اور اُنہیں لڑکے سے بڑے بڑے شہروں کے قصے اور داستانیں سننے میں بڑا لطف آیا۔
لڑکے نے اُنہیں اپنی زندگی کے وہ تجربات اور واقعات سنائے جب وہ چرواہا تھا پھر وہ شیشے کے سوداگر کی دکان کے واقعات سنانے ہی جا رہا تھا کہ انگلستانی باشندہ اُسے تلاش کرتا وہاں پہنچ گیا۔
’’میں تمہیں صبح سے تلاش کر رہا ہوں۔’’ اُس نے لڑکے کو اپنے ساتھ خیمہ سے باہر لیے جاتے ہوئے کہا۔
‘‘سنو! کیمیاگر کی تلاش میں مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ ہمیں پہلے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کہاں رہتا ہے۔’’
پہلے تو اُنہوں نے خود ہی کیمیاگر تلاش کرنے کی کوشش کی۔اُن کے خیال میں کیمیاگر نخلستان کے دوسرے عام لوگوں سے بالکل مختلف دکھتا ہوگا۔ اُس کا رہن سہن بھی ان مقامی صحرائی لوگوں جیسا نہیں ہو گا بلکہ ضرور اس نے اپنے خیمہ میں بھٹی جلائی ہوئی ہوگی اور وہ ہمہ وقت کسی تجربہ میں مصروف رہتا ہو گا۔ اِسی تصوّر کی روشنی میں اُنہوں نے خاصا تلاش کیا۔کیمیاگر تو اُنہیں نہ ملا البتّہ اِس دوران یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ یہ نخلستان تو اُن کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ وسیع ہے اور یہاں تو لگاتار سیکڑوں خیمے تنے ہوئے ہیں۔
‘‘آج کا تو پورا دن ہی بے کار ہو گیا….’’ انگلستانی باشندہ لڑکے کے ساتھ ایک کنویں کے قریب بیٹھتے ہوئے بولا۔
‘‘ ہمیں اس کے بارے میں کسی سے پوچھ لینا چاہیے’’ لڑکے نے تجویز پیش کی ۔
لیکن شاید انگلستانی باشندہ نہیں چاہتا تھا کہ اُس کا نخلستان آنے کا مقصد کسی اور پر آشکار ہو، اس لیے کسی سے اس بارے میں پوچھتے ہوئے جھجھک رہا تھا۔ لڑکے کی بات سن کر پہلے تو وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا لیکن بعد میں تیار ہو گیا ۔
لڑکا چونکہ اس انگلستانی باشندے کے مقابلہ میں عربی زیادہ بہتر بولنا جانتا تھا ، چنانچہ یہ طے ہوا کہ لوگوں سے پوچھنے کا کام وہی کرے گا۔
لڑکے نے اُس عورت سے پوچھنے کا فیصلہ کیا جو ابھی ابھی بکری کی کھال کا مشکیزہ لیے کنویں پر پانی بھرنے آئی تھی۔
‘‘صبح بخیر محترمہ ! کیا آپ بتا سکیں گی کہ یہاں نخلستان میں کیمیاگر کہاں رہتا ہے…. ؟
عورت یہ کہتے ہوئے کہ ‘‘ایسے کسی آدمی کے متعلق تو اُس نے کبھی نہیں سُنا ’’ تیزی سے آگے بڑھ گئی، لیکن جانے سے پہلے اُس نے لڑکے کو اتنا ضرور انتباہ کیا کہ
‘‘کسی سیاہ لباس پہنی عورت سے کبھی بات نہیں کرنا ۔ جو کوئی عورت سیاہ لباس پہنے ہو سمجھو کہ وہ شادی شدہ ہے۔اور ہمارے یہاں کے رواج ہے کہ کوئی شادی شدہ عورت کسی غیر محرم شخص سے بات نہیں کرسکتی۔ اِس نخلستان کی روایات اور قانون کا احترام کرو۔ ’’
یہ بات سن کر انگلستانی باشندے کو خاصی مایوسی ہوئی۔ اُسے لگا کہ اُس نے اتنا لمبا سفر بے کار ہی کیا تھا۔ لڑکے کو بھی اپنے دوست کو مایوس دیکھ کر افسوس ہوریا تھا۔ اُس نے سوچا کہ بوڑھے بادشاہ کی یہ بات تو غلط نہیں ہو سکتی کہ جب کوئی اپنے مقدّر کے حصول کی کوشش کرتا ہے تو کائنات کی تمام قوّتیں اُس کی معاونت کرتی ہیں۔
لڑکے نے انگلستانی باشندے کوتسلی دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘ دیکھو! جس طرح میں نے آج تک کسی کیمیا گر کے بارے میں نہیں سناتھا ، ہوسکتا ہے کہ یہاں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں ۔ ’’
یہ سن کر انگلستانی باشندہ کی آنکھوں میں یکایک چمک پیدا ہوئی اور بولا:
‘‘ہاں ممکن ہے کہ یہاں کے لوگ یہ نہ جانتے ہوں کہ کیمیاگر کسے کہتے ہیں۔ چلو یہ معلوم کرتے ہیں کہ یہاں کے لوگ بیماریوں کا علاج کس سے کراتے ہیں۔’’
کنویں سے پانی بھرنے سیاہ لباس پہنے متعدد خواتین آئیں لیکن لڑکے کی کسی سے بات کرنے کی ہمّت نہ ہوئی۔ حالانکہ انگلستانی باشندے نے کئی بار اُسے ٹہوکا کہ کسی سے بات کرلو شاید کوئی بتا دے۔ اِس دوران انہیں ایک مرد نظر آیا۔ لڑکے نے فوراً آگے بڑھ کر پوچھا۔
‘‘یہاں جب کوئی بیمار ہو جاتا ہے تو آپ لوگ کس سے علاج کراتے ہیں ؟….’’
‘‘بیماروں سے شفا تو اللہ ہی دیتا ہے۔’’ وہ آدمی بولا۔ اجنبیوں اور غیر عرب کو دیکھ کر وہ ذرا گھبرارہا تھا۔ لڑکے کے مزید پوچھنے پر وہ بولا:
‘‘شاید آپ لوگ کسی جادو ٹونہ کرنے والے کو تلاش کر رہے ہیں۔’’ یہ کہہ کر اُس نے انہیں سمجھانے کے لیے قرآن کی بعض آیات پڑھیں اور آگے بڑھ گیا۔
اِس دوران ایک اور آدمی نظر آیا۔ وہ ذرا ضعیف سا تھا اور ایک چھوٹی سی بالٹی لئے ہوئے آرہا تھا۔ لڑکے نے اُس سے بھی یہی سوال دہرایا۔
‘‘ایسے کسی آدمی کی تلاش کس لئے کر رہے ہو؟’’ اس عرب باشندے نے پوچھا۔
‘‘میرے ساتھی نے ایسے آدمی سے ملنے کے لئے مہینوں کا سفر کیا طے کیاہے۔’’ لڑکا بولا۔
بوڑھے عرب باشندے نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر بولا کہ‘‘اگر ایسا کوئی آدمی یہاں نخلستان میں موجود ہے تو وہ کوئی انتہائی طاقتور انسان ہی ہوگا اور اُس سے ملنا انتہائی مشکل کام ہے۔شاید قبیلہ کا سردار بھی اُس کی اجازت کے بغیر اُس سے ملاقات نہیں کر سکتا۔’’
‘‘تمہارے لیے بہتر ہے کہ جنگ ختم ہو تے ہی فوراًقافلے کے ساتھ واپس چلے جاؤ اور نخلستان کے معمولات میں دخل نہ دو۔’’
بوڑھا عرب باشندہ یہ کہتے ہوئے چلا گیا لیکن انگلستانی باشندے کو یقین ہو چلا تھا کہ ایسا شخص ضرور یہیں موجود ہے۔
بالآخر ایک نوجوان عورت پانی بھرنے آئی۔ اُس کا لباس سیاہ نہ تھا اور شانے پر پانی کا برتن رکھا ہوا تھا ۔ سر نقاب سے ڈھکا ہوا اور چہرہ کھلا ہوا تھا۔ لڑکا اس غرض سے آگے بڑھا تاکہ اس سے کیمیاگر کے متعلق سوال پوچھ سکے ، جیسے ہی اس نے لڑکی کو قریب سے دیکھا۔اس کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی’’۔
یہ وہ لمحہ تھا ! اُسے ایسا لگا کہ جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہے اور کئی جذبے سمٹ کر اس کے اندر موجزن ہوگئے ہیں۔
پھر اس کی نظر اس کے لبوں پر پڑی جو خاموشی اور تبسم کی درمیانی پس و پیش سے مرصع تھے۔
اُس پر کائناتی زبان کا سب سے اہم ترین عنصر، اہم ترین حروف آشکار ہورہا تھا ….
وہ حروف جسے دنیا میں موجود ہر شے سمجھ لیتی ہے اور کوئی دل اس حروف سے ناواقف نہیں رہ سکا تھا۔ وہ حروف ہے محبت یعنی جذبۂ عشق جو شاید انسانیت سے پہلے پیدا ہوا تھا اور اِس صحرا سے بھیقدیم تھا۔
یہ ایک ایسی طاقت ہے جو دو نگاہوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے ۔ یہ کشش عجیب و غریب بھی تھی اور یکساں بھی۔کنویں کے قریب کی یہ واردات اُسی کشش کا شاخسانہ تھی۔
وہ مسکرائی اور لڑکے کو یوں لگا کہ وہ نشانی جس کا وہ عرصہ سے منتظر تھا، اُس کے سامنے موجود ہے۔
(جاری ہے)
***
تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی