سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات
بچوں کی تربیت کیسے کی جائے….؟
جب ہم اپنی اولاد کا ذکر کرتے ہیں تو ارادی یا غیر ارادی طور پر یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ کبھی ہم بھی بچے تھے۔
ہر بالغ انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اولاد کی نعمت سے نوازے…. اولاد ہونا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور کرم ہے۔ اس نعمت سے صرف والدین ہی خوش نہیں ہوتے، خاندان اور معاشرے میں بھی خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے…. اولاد ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کے لئے پیغمبروں نے بھی اللہ تعالیٰ سے التجا اور دعا کی ہے….
حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی:
رَبِّ هَبْ لِىْ مِنْ لَّـدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ اِنَّكَ سَـمِيْعُ الـدُّعَآءِ o
‘‘میرے رب تو اپنے پاس سے مجھے طیب اولاد عطا فرما بے شک تو دعا کا سننے والا ہے’’ (سورۂ آلِ عمران آیت 38)
اللہ تعالیٰ نے اولاد کے حقوق متعین کئے ہیں اور بار با رارشاد فرمایا ہے ‘‘رزق دینے والا میں ہوں’’….
اولاد کی تربیت کے حوالے سے سلسلۂ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء ؒ کا ارشاد ہے:
‘‘قیامت کے روز والدین سے اللہ تعالیٰ یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے اپنی اولاد کو کیا کھلایا ہے…. کیا پلایا ہے…. اور کیسا لباس پہنایا ہے….
اللہ تعالیٰ یہ پوچھیں گے کہ تم نے اولاد کی تربیت کیسی کی؟’’….
اولاد کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کو بات بات پر ڈانٹنے، جھڑکنے اور بُرا بھلا کہنے سے گریز کیا جائے…. اُن کی شرارتوں، کوتاہیوں پر بیزار ہونے اور غصے کا اظہار کرنے کے بجائے….محبت کے ساتھ اُنہیں سمجھائیے کہ وہ اچھی باتیں اختیار کریں….
والدین اپنی اولاد سے جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب اچھی صفات ماں باپ کے اندر موجود ہوں….
جب ایک عورت شوہر کے ساتھ خوش رہے گی اور اُس کی اطاعت و فرماں برداری کرے گی…. تو بچے بھی فرماں بردار ہوں گے…. اور جب شوہر اپنی اہلیہ کے جذبات و احساسات کا خیال کرے گا اور ان کی غلطیوں کو نظر انداز کرے گا، اُس کے اندر عفوودرگزر کا جذبہ ہوگا تو ایسے ماحول میں پروان چڑھنے والی اولاد بھی والدین کی سعادت مند ہوگی۔ اُس کے اندر معافی کی صفات پیدا ہوجائیں گی….
ایک مرتبہ اقرع بن حابس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئے…. حضورصلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم اُ س وقت حضرت حسنؓ کو پیار کر رہے ہیں…. اقرع کو دیکھ کر تعجب ہوا…. اور بولے
‘‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ بھی بچوں کو پیار کرتے ہیں!…. میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا’’….
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے اقرع کی طرف دیکھا اور فرمایا:
‘‘اگر خدا نے تیرے دل سے رحمت و شفقت کو نکال دیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟’’….
فاروق اعظمؓ کے دور میں حضرت عامرؓ ایک بار حضرت عمرؓ سے ملنے کے لئے آئے۔ اُ س وقت حضرت عمرؓ لیٹے ہوئے تھے اور بچے اُن کے سینے پر اُچھل کود کر رہے تھے…. حضرت عامرؓ کو یہ بات اچھی نہیں لگی….
امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ اعلیٰ درجے کے مردم شناس تھے۔حضرت عامرؓ کی ناگواری کو محسوس کرکے اُن سے پوچھا….
‘‘آپ کا اپنے بچوں کے ساتھ کیا برتاؤ اور رویّہ ہے؟’’….حضرت عامرؓ بولے ‘‘جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو گھر والوں پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ سب خوف کے مارے دُم سادھ کر چپہوجاتےہیں’’….
حضرت عمرؓ نے بڑے افسوس کے ساتھفرمایا….
‘‘عامر! آپ اُمت محمدیہ کے فرزند ہوتے ہوئے یہ بھی نہیں جانتے کہ مسلمان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح نرمی اور محبت کا سلوک کرنا چاہئے’’….
سلسلۂ عظیمیہ اپنے اراکین کو تاکید کرتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اپنی اولاد کو اچھی تربیت اور انہیں زیور علم سے آراستہ کرنے کا اہتمام کیجیے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘مومنوں بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے’’….
جہنم کی آگ سے بچنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ اولاد کی دینی و دنیاوی لحاظ سے تربیت و تعلیم اچھی ہو….
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کا ارشاد ہے:
‘‘باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دے سکتا ہے اُس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تربیت ہے’’….
یاد رکھئے!…. صالح اولاد ہماری روایات، تہذیب، دینی تعلیمات اور توحید کے پیغام کو زندہ رکھنے کا ذریعہ ہے….
بچوں کو نبیوں کے قصے اور اولیاء اللہ کے واقعات سنائیے…. تمام مصروفیات کے باوجود بچوں کے لئے وقت نکالیں….خوش الحانی کے ساتھ اُنہیں قرآن پڑھ کر سنائیں….رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کی سیرت ِطیبہ اُن کے سامنے بیان کیجیے….
ماں اور باپ دونوں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں سے غریبوں کو پیسے دلوائیں…. کھانا کھلوائیں…. بہن بھائیوں میں چیزیں تقسیم کروائیں…. تقریبات میں بہن بھائیوں سے آپس میں تحفوں کا تبادلہ کروائیں….
بچوں کے ساتھ کرخت آواز میں نہ بولیں ۔
والدین کے اوپر فرض ہے کہ اولاد کے ساتھ برابری کا سلوک کریں….
ایک بار حضرت نعمانؓ کے والد حضرت بشیرؓ اپنے بیٹے کے ساتھ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا….
‘‘یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم میرے پاس ایک خادم تھا…. میں نے وہ خادم اپنے اس لڑکے کو بخش دیا’’….
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے پوچھا….
‘‘کیا تم نے اپنے ہر لڑکے کو ایک ایک خادم بخشاہے؟’’….
بشیرؓ بولے….‘‘نہیں!’’….
حضورصلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے فرمایا ‘‘اس خادم کو تم واپس لے لو…. اور فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے ساتھ مساوات کا سلوک کرو’’….۔
ہر ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچے سے یا اپنے بچے کے سامنے جھوٹ نہ بولیں…. بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں، وہی کچھ بولتے ہیں، وہی کچھ کرتے ہیں جو ماں باپ کرتے ہیں….
حضرت عبداللہ ابن عامرؓ بیان کرتے ہیں ‘‘میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہاں آؤمیں تجھےچیزدوں گی’’….
یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے بھی سن لی اور پوچھا ‘‘تم بچے کو کیا چیز دینا چاہتی ہو’’؟…. والدہ بولیں…. ‘‘میں اس کو کھجور دینا چاہتی ہوں’’…. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ‘‘اگر تم اپنے بچے کو چیز دینے کا بہانہ کرکے بلاتیں اور بچے کو کچھ نہ دیتیں تو تمہارے اعمال نامے میں جھوٹ لکھ دیا جاتا’’ ….
ہمارے معاشرے میں یہ بات عام طور سے دیکھی جاتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ رائج ہوگئی ہے کہ لڑکی کی پیدائش پر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی خوشی لڑکے کی پیدائش پر ہوتی ہے….
حدیث شریف میں ہے….
‘‘جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ اُس گھر میں فرشتے بھیجتا ہے….وہ کہتے ہیں
اے گھر والو!…. تم پر سلامتی ہو…. اور یہ کہہ کر وہ لڑکی کو اپنے پَروں کے سائے میں لے لیتے ہیں…. اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں…. یہ کمزور جان ہے…. جوایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے…. جو اس لڑکی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک اللہ کی مدد اس کے شاملِ حال رہے گی’’….
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کا ارشاد ہے‘‘جس شخص نے تین لڑکیوں یا تین بہنوں کی سرپرستی کی، اُنہیں تعلیم دلائی، تہذیب سکھائی…. بہترین تربیت کی، اُن کے ساتھ رحم کا سلوک کیا….۔ یہاں تک کہ اللہ اُن کو بے نیاز کردے (یعنی وہ اپنے گھر کی ہوجائیں)…. تو ایسے شخص کے لئے اللہ نے جنت واجب کردی ہے’’….
مجلس میں موجود ایک آدمی بولا….
‘‘یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!…. اگر دو لڑکیاں ہوں’’؟….
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ‘‘دو لڑکیوں کی پرورش کا بھی یہی صلہ ہے’’….
ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں….کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایاجائے اور اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرکے آزمائش میں کامیاب ہو….تو یہ لڑکیاں اُس کے لئے قیامت کے روز جہنم کی آگ کے سامنے ڈھال بن جائیں گی’’….
بچے نازک پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔بچپن سے ہی اولاد کی مناسب تربیت کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے جس طرح پودوں کی افزائش کے لئے مناسب وقت پر تمام مراحل کو ترتیب و تصحیح کے ساتھ مرحلہ وار سرانجام دینا ، پودے کی بہترین افزائش کے لئے ناگزیر ہے ۔ بچوں کی تربیت و پرورش بہت احتیاط و توجہ کی متقاضی ہے جس میں بعض اوقات معمولی کوتاہی بھی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
جون 2020ء