Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

آئی ریڈولوجی – Iridology

آئی ریڈولوجی – Iridology

آپ کی آنکھیں آپ کے جسم کا آئینہ ہیں….

 

‘‘آنکھیں بولتی ہیں!’’ یہ جملہ آپ نے کئی مرتبہ سنا اور پڑھا ہوگا۔ سائنسی لحاظ سے یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جسم میں موجود بیماریوں یا تکالیف کا عکس آنکھوں میں ضرور نمایاں ہوجاتا ہے۔ چشم شناسی یا عنبیہ شناسی کے اس علم کو ماہرین نے ‘‘آئی ریڈولوجی’’ کا نام دیا ہے۔

 

 

آنکھیں ہمارے جسم کا نہایت اہم عضو ہیں۔ شاعری میں آنکھ ایسا انسانی عضو ہے جس پر شاید سب سے زیادہ اشعار کہے گئے۔ آنکھیں سینکڑوں سال سے حساس ادیب و شاعروں کی تخیل پردازی کا مرکز رہی ہیں۔ بقول شاعر

آنکھیں نیچی ہوئیں تو حیا بن گئیں
آنکھیں اونچی ہوئیں تو دعا بن گئیں
آنکھیں اٹھ کر جھکی تو ادا بن گئیں
آنکھیں‌جھک کر اٹھی تو قضا بن گئیں

کچھ لوگوں کا تو یہ دعویٰ ہے کہ آنکھیں بولتی ہیں اور باتیں بھی کرتی ہیں۔ بقول جگر مراد آبادی

آنکھوں میں نمی سی ہے چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں
نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

آنکھوں کا مطالعہ نیا نہیں ہے۔
سخت طبیعت افراد کی اولاد بھی اپنے والدین کی جنبشِ ابرو کو ضرور سمجھ لیتی ہے۔
پرانے زمانے کے حکیم و اطبّاء خصوصیت کے ساتھ مریض کی آنکھیں اور نبض چیک کیا کرتے تھے۔ شنید ہے کہ ایک حکیم صاحب نبض شناسی میں یہ طولیٰ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی کی رگِ ظرافت جو پھڑکی انہوں نے تو حکیم صاحب کو اپنے گھر مدعو کیا کہ بیگم صاحبہ کی طبیعت خراب ہے پھر صحن میں کھڑی اپنی بھینس کے پائے میں دھاگہ باندھ کر اس کا دوسرا سِرا مہمان خانے میں موجود حکیم صاحب کو پکڑا کر کہا کہ بھلا بتایئے بیگم صاحبہ کو کیا بیماری ہے؟
حکیم صاحب نے چند لمحے دھاگے کے ارتعاش کو محسوس کیا اور نسخہ لکھنے لگے اتنے کلو بھوسا ، اتنے کلو سرسوں کی کَھلی اور اتنے کلو چارہ اس ترکیب سے بنا کر مریض کو کھلائیں۔حکیم صاحب کی یہ بات سن کر وہ صاحب دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے۔ اب نہ تو ہمارے ہاں ایسے اطبّاء دکھائی دیتے ہیں جو نبض کی حرکت سے بیماری کا پتہ لگا لیا کرتے تھے اور نہ ہی معالج۔ اب آنکھوں کے رنگ سے بیماری کی نوعیت معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آنکھوں کے باتیں کرنے کے طریقہ کار کو تو سائنس تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جسم میں رونما ہونے والی کئی خرابیوں ، پیچیدگیوں یا بیماریوں کا عکس آنکھوں میں نظر آتاہے۔ چشم شناسی یا عنبیہ شناسی کے اس علم نے تشخیص کے میدان میں نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اِس فطری طریقہ ٔ تشخیص کاسائنسی نقطہ ٔنظر سے دوبارہ احیاء ہورہا ہے۔
دنیا اس علم کو آئی ریڈولوجی Iridology کے نام سے جانتی ہے۔ اسے ہم آنکھوں کے مطالعے کا علم بھی کہہ سکتے ہیں۔ آئی ریڈولوجی کیا ہے اور کب وجود میں آئی آئیے جانتے ہیں۔


یہ بات انیسویں صدی کے وسط کی ہے جب جنگ عظیم نہیں ہوئی تھی اور ہنگری اور آسٹریا ایک ہی ملک تھے ۔ وہ 1836ء کی ایک سرد صبح تھی۔ آسٹریا کے شہر ایبرو میں اگنیز فان پیزلے Ignatz von Peczely نامی نوعمر لڑکا اپنے کاندھے پر چادر ڈالے درخت پرچڑھ رہاتھا۔ اس کی نظر ایک شاخ پر محوِاستراحت اُلّو پرمرکوز تھی جسے پکڑنے کے لئے وہ یہ سب کوششیں کر رہا تھا۔ وہ نہایت خاموشی سے اوپر چڑھا اور غفلت میں پڑے اُلّو پر جھٹ سے اپنی چادر ڈال دی ۔ پرندے نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی جس سے اس کا تیر دھار پنجہ اگنیز کے بازو میں چبھ گیا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری۔ اس دھینگا مشتی میں بے چارے پرندے کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ اگنیز نے اُلّو کو چادر میں باندھا اور گھر لے آیا۔ گھر آکر اس نے پرندے کی مرہم پٹی کی ۔ اسی دوران اُس نے دیکھا کہ اُلّو کی آنکھ کی پتلی میں ایک سیاہ دھبہ دکھائی دے رہاہے۔
اگلی صبح اُس نے دیکھا کہ یہ دھبہ سیاہ لکیر کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اگنیز روزانہ اُلّو کے پاؤں کی مرہم پٹی کرتا یہاں تک کہ کچھ ہی عرصے میں اس کا زخم مندمل ہوگیا۔ زخم مندمل ہونے کے بعد اُلّو کی آنکھ کا دھبہ بھی بالکل صاف ہوگیا۔
اگنیز کے لئے یہ دھبّہ غور و فکر کا مرکز بن گیا۔ اب اس نے دوسرے حیوانات کی آنکھوں کا مطالعہ بھی شروع کردیا اس مطالعے سے اس پر ایک نئی حقیقت آشکار ہوئی کہ جانوروں کے جسم میں کوئی خرابی آنکھ کی پتلی پر اپنا اثر چھوڑتی ہے۔
اگنیز پیزلے نے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ اُلّو کے ذریعے ہونے والے تجربہ کو عملی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے خواب پورا نہ ہوا۔ یہ سوچ کر اس نے بالکل مختلف فیلڈ یعنی طب کارخ کیا ۔ 1867ء میں اُس نے ویانا میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ۔معالج بننے کے بعد وہ اپنے مریضوں کے آئرس (آنکھ کی پتلی) میں آنے والی تبدیلیوں کا گہرا مطالعہ کرتا ۔ اُس نے آئرس کے کئی حصوں میں جسم کی کئی فعلیاتی خرابیوں کا گہرا عکس محسوس کیا خصوصاً نظامِ ہاضمہ کا زون دریافت کیا۔
ویانا میں وہ ایک معروف معالج پروفیسر بل روتھ سے ملا اور اسے اپنے تجربات کے متعلق بتایا۔ 1881ء میں اگنیز نے اپنی تحقیق کو کتاب کی صوررت میں پیش کیا ۔ اس طرح دنیا تشخیص کے ایک بالکل نئے اور اچھوتے طریقے سے متعارف ہوئی جسے آگے چل کر آئی ریڈولوجی Iridology کے نام سے پہچانا گیا۔


بیسویں صدی کی ابتداء تک آدھی دنیا اس علم سے انجان تھی۔ اگنیز کی تحقیق ہنگری زبان میں تھی، اس علم پر ایک اور سویڈش معالج نیلز للجاکوئسٹ Nils Liljequistنے بھی تحقیق کی ۔ ان کے ایک شاگرد ڈاکٹر ہنری لین Dr. Henry Lahn نے اس تحقیق کو امریکا میں متعارف کروایا۔ البتہ اس علم کو عالمی طور پر متعارف ڈاکٹر برنارڈ جینسن Bernard Jensen نے کروایا۔ انہوں نے ناصرف اس علم پر تحقیق کی انہوں نے مختلف امراض کے متعلق آنکھوں کے چارٹ اور تحقیق کے لیے ایک آئی بینک بھی بنایا۔
آنکھوں کے اس مطالعے کا طریقہ ٔ کار جدید ہونے کے ساتھ سادہ بھی ہے۔ یہ ایک عام آدمی کے لئے بھی قابلِ استفادہ ہے۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے آنکھ کے چند نمایاں حصوں کے بارے میں بھی مطالعہ کرتے چلتے ہیں۔
اگر آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی آنکھ کامطالعہ کریں تو آنکھ کے بالکل وسط میں ایک سیاہ حصہ نظر آئے گا۔ اس سیاہ حصے کو انگریزی میں پیوپل Pupil اور فارسی میں مردمک کہا جاتا ہے۔ اس سیاہ حصے کے بعد گولائی ہی میں ایک رنگ دار حصہ پایا جاتا ہے اس کارنگ مختلف ہوسکتا ہے۔ اس رنگ کی مناسبت سے لوگوں کو بھوری ،سیاہ یانیلی آنکھوں والا کہا جاتا ہے۔ اس حصے کو عنبیہ یا آئرس Iris کہا جاتا ہے۔ بیماریوں کی تشخیص میں یہی حصہ ہمارا منتہائے فکر ہے۔ آئی ریڈولوجی درحقیقت آئرس ہی کے مطالعے کا نام ہے۔ آنکھ کا تیسرا اور سب سے بڑا حصہ سفید رنگ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے صلبیہ یا اسکلیرا  Sclera کہا جاتا ہے۔ اسے ہم آنکھ کی سفیدی بھی کہتے ہیں۔


آئی ریڈولوجی میں آنکھ کازیرِ مطالعہ حصہ آئرس Iris ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس چھوٹے سے حصے میں جسم کے سو سے زائد اعضاء اور نظاموں کے کنکشن موجود ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ان اعضاء اور نظاموں کے بارے میں غور کریں، یہ تلاش کرتے ہیں کہ اتنے معمولی اور حساس حصے میں پورا جسم کن تاروں سے بندھا ہوا ہے؟؟
جسم کے مختلف نظام کئی طرح کے مائعات اور کیمیائی مادے تیار کرتے ہیں۔ ان کے تحت اطلاعات ایک حصے سے دوسرے حصے میں اور ایک نظام سے دوسرے نظام میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ پورا جسم در حقیقت کیمیائی اور برقی پیغامات کی آمدورفت کامظہر ہے۔ آنے والی اطلاع مواصلاتی خلیئے میں جذب ہوتی ہے یاآگے بڑھ جاتی ہے۔
یہ برقی تبادلے بہت تیز رفتار ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ کی انگلی میں سوئی چبھتی ہے تو جِلد کے نیورانز فوری طور پر اس اطلاع کو خاص نظام کے تحت آگے بڑھاتے ہیں۔ ہر اعصابی خلئے کی دم دوسرے اعصابی خلئے سے جڑی ہوتی ہے اس طرح لمحہ بھر میں سوئی چبھنے کی اطلاع لاکھوں نیورانز سے ہوتی ہوئی دماغ تک پہنچتی ہے اور دماغ فوراً حکم صادر کرتا ہے کہ ہاتھ ہٹالو ۔
یہ جوابی اطلاع پھر واپس لوٹتی ہے اور سوئی چبھنے کے مقام تک پہنچتی ہے اور ہم سوئی سے ہاتھ فوراً ہٹالیتے ہیں۔ اطلاع کی روانگی اور واپسی کا یہ سارا عمل پلک جھپکنے میں پوراہوجاتا ہے۔
سائنس دانوں نے بتایا ہے کہ جسم کے اعصابی نظام (سمپتھیٹک نروس سسٹم) کے تغیرات کا تعلق آئرس سے بھی ہے۔ ہمارے جسم میں آنکھ کے علاوہ کوئی اور ایسا عضو نہیں ہے جو دماغی اطلاعات پر لمحہ بھر میں بہت سے تغیرات سے گزر جائے۔
آنکھ میں لاکھوں برقی کنکشن ہر لمحہ پانچ لاکھ پیغامات کی ترسیل کرتے ہیں۔ آنکھ ہمارے جسم کی 80 فیصد معلومات اور تجربات کو اکٹھا کرکے یادداشت میں پہنچانے کاکام بھی انجام دیتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات سے دریافت ہوا ہے کہ آنکھ میں بہت چھوٹے چھوٹے ریسیپٹرز پائے جاتے ہیں جن کے اندر رنگ بدلنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ماہرین کے مطابق آئرس میں سو سے زائد اعضائے جسمانی کے کنکشن پائے جاتے ہیں ان میں سے ہر زون کی اپنی ایک جگہ ہے۔
ماہرین نے ہماری آسانی کے لئے ایک چارٹ تشکیل دیا ہے جن میں ہر زون کا وقوع Location موجود ہے۔ جب جسم کے کسی حصے یا نظام مثلاً معدے میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو آئرس میں معدے کے زون پر دھبّہ یا کئی دھبّے ( جن کی شکل مختلف ہوسکتی ہے) نمودار ہوجاتے ہیں۔
تشخیص کے دوران معالج فوراً جان لیتا ہے کہ معدے کا فعل درست نہیں۔ چاہے بیماری کی علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں لیکن آنکھیں اس راز کو طشت ازبام کردیتی ہیں۔
واروک یونیورسٹی آف انگلینڈ کے محقق اسٹیو وان ٹولرنے تو یہاں تک کہا ہے کہ ’’جسم کی نہایت خفیف تبدیلیوں کا فوری اثر بھی آئرس میں پہنچ جاتاہے‘‘۔

طریقۂ تشخیص:-

آئی ریڈولوجی کی تحقیق میں بہت سے ماہرین اور سائنس دانوں نے طویل محنت اور جدوجہد کی ہے۔ ان ماہرین کی خدمات اور آئی ریڈولوجی کے ارتقاء کی وجہ سے آئرس جس کامجموعی محیط آدھے انچ کا ہوگا، اس میں سو سے زائد ‘‘زون ’’ دریافت ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے اتنے چھوٹے سے محیط میں اتنے بہت سارے نظاموں کی تلاش نہایت قابلِ توجہ اورحساس بھی ہے۔ اس ضمن میں آسانی کے لئے ماہرین نے مخصوص عدسے Magnifying Glass استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے یہ عدسے آئرس کو چھ گنا بڑے کرکے دکھا سکیں۔ یہ ذہن نشین رہے کہ پیوپل (آنکھ کا درمیانی سیاہ حصہ) اور اسکلیرا (آنکھ کی سفیدی) اس مطالعے میں شامل نہیں۔
جسم میں بیماری یا کسی پیچیدگی کے وقت آئرس میں جو چند علامات یا دھبّے دیکھے جاسکتے ہیں ان کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ تشخیص کے وقت آنکھیں روشنی میں ہونی چاہئیں۔
عام حالات میں اپنے جسم میں کسی خرابی کو تلاش کرنے سے پہلے جو چند علامات جسم میں نمودار ہوسکتی ہیں، ماہرین نے ان کی مختصر تفصیل دی ہے۔ ان کی مدد سے آپ آئرس شناسی کی ابتداء خود سے بھی کرسکتے ہیں۔ یہ علامات ایک جاپانی ماہر کیزوولواتا نے 1970ء میں متعارف کرائیں۔
دن بھر میں اکثر اوقات تھکن کا احساس
گیس اور بدہضمی
چڑچڑاپن
سانس کی بے قاعدگی
ڈپریشن اورپریشانی
کھانوں یا میٹھی چیزوں کی حد سے زیادہ اشتہاء
منشیات وغیرہ کی خواہش
فوڈ الرجی
اگر ان میں ایک دو یا کئی علامات پائی جائیں تو آپ آئرس شناسی کا آغاز کرسکتے ہیں۔
آئرس کا گہرائی سے جائزہ لینے پر بالوں کی طرز کے ریشے دکھائی دیتے ہیں۔ آئرس میں کسی جگہ یا کئی جگہوں پر سیاہ دھبہ، شگاف، لکیر، زرد دھبّہ، پھول دار دھبّہ، انگریزی حرفy شکل اور مسدس Hexagonal دھبے پائے جاسکتے ہیں۔

 

سیاہ دائروی دھبّہ :- 

یہ دھبہ آئرس میں اوپر کی جانب آئرس کی بیرونی حد اور پیوپل کے درمیانی حصے میں پایا جاسکتا ہے۔ یہ عموماًپچوٹری گلینڈ کے زون میں پایا جاتا ہے۔ ا س کامطلب یہ ہے کہ جسم میں ہارمونز اور مائعات کا نظام ڈسٹرب ہے۔ مریض کے پیروں اور ہاتھوں میں سوجن بھی ہوسکتی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ اسٹریس بھی ہوسکتی ہے۔

پھول دار دھبّے :- 

یہ دھبّے سدا بہار پھول کی پتیوں کی طرح آئرس میں پائے جاسکتے ہیں۔ یہ اکثر اوقات جینیاتی بھی ہوتے ہیں۔ ایسے افراد میں ذیابیطس کاخطرہ زیادہ پایا جاتا ہے۔ اگر یہ بیماری نہ پائی جائے تو سردرد ، ہاتھ پیروں میں کپکپاہٹ ، شدید بھوک ، شکر کی اشتہاء ، اختلاجِ قلب ، بلڈ شوگر کی کمی اور ہائپو گلائی کوما کی تکلیف ہوسکتی ہے۔ تاہم کچھ احتیاط اور غذاؤں میں پرہیز سے یہ تکالیف از خود ٹھیک بھی ہوسکتی ہیں۔

انگریزی حرف y شکل :- 

یہ عموماً باریک فائبر کی طرح کا دھبہ ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ آئرس کی آخری حد تک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر یہ آئرس کی اوپری جانب پایا جائے تو عموماً سائنس (Sinns) زون میں پایا جاتا ہے۔
یہ دھبہ سر کے اگلے حصے میں درد ، سونگھنے کی حس میں کمی اور جسم کی جزوی کپکپاہٹ کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ کان کی سوجن ، برانکائٹس ، دمہ ، گردن توڑ بخار یا نمونیا کاسبب بھی بن سکتا ہے۔

عرضی دھبّہ :- 

یہ دھبّہ بھی عموماً سیاہ اور پیوپل کے بائیں جانب قدرے نیچے کی طرف ہوتا ہے جس کی شکل باریک فائبر کی طرح ہوتی ہے۔ یہ عموماً آئرس کے اسپائنل زون میں پایا جاتا ہے۔ اس دھبّے کا حامل فرد حرام مغز یا ریڑھ کی ہڈی کی کسی پیچیدگی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔

مسدّس دھبّہ :- 

یہ شہد کی مکھی کے بنائے گئے موم کے مسدسی گھر کی طرز کے کئی نشانات ہوتے ہیں۔ یہ آئرس میں کسی بھی جگہ ہوسکتے ہیں ۔ خصوصاً پھیپھڑے ، یوٹرس، گردوں اور مثانہ کے زون پر۔ یہ دھبّے موروثی بھی ہوسکتے ہیں۔

زرد دھبّے :- 

اگر یہ دھبّے آئرس کے سیاہ حصے کے سامنے پائے جائیں تو جِلدی فعل میں کوئی خرابی ہوسکتی ہے۔ چند سال پیشتر تک آئی ریڈولوجسٹ سمجھتے تھے کہ ان دھبوں کا تعلق لمفی خرابی سے ہے لیکن اب معلوم ہوچکا ہے کہ ان کا تعلق جِلد سے ہے۔ ان دھبّوں کا تعلق پھیپھڑوں سے ہوسکتا ہے۔ اس طرز کے مریضوں کو سردیوں میں ایگزیما کی شکایت بھی لاحق ہوسکتی ہے۔

روشن ستارہ دھبے:-

دور آسمان پر کسی ستارے کو دیکھیں تواس کی شکل پانچ چھ نوکیلی روشن کرنوں کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اگر آئرس میں پیوپل سے کچھ فاصلے پر اسی طرح کی سیاہ کرنیں پائی جائیں تو اس فرد کے اعضائے جسم میں کم زور اعصاب اور توانائی کی کمی پائی جاسکتی ہے۔ اگر یہ کرنیں ایڈرینل زون میں پائی جائیں تو فرد تھکن اور کم زوری کی شکایت کرتا ہے بعض اوقات بھوک اڑ جاتی ہے۔ اس کی وجوہات میں ڈپریشن بھی شامل ہوسکتا ہے۔

 

 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ۔ دسمبر 2022ء  نظر بد سے حفاظت نمبر کے شمارے سے انتخاب

اس شمارے کی پی ڈی ایف آن لائن ڈاؤن لوڈ کیجیے!

 

یہ بھی دیکھیں

کلر سائیکلوجی ۔ قسط 7

  قسط 7 رشتوں اور تعلقات پر رنگوں کے اثرات  ‘‘ہائے میرا فیورٹ چاکلیٹ کیک’’ ...

مائنڈ فُلنیس – 12

 قسط نمبر 12        مائنڈ فلنیس لمحہ بہ لمحہ زندگی کو جینے کا  ...

प्रातिक्रिया दे

आपका ईमेल पता प्रकाशित नहीं किया जाएगा. आवश्यक फ़ील्ड चिह्नित हैं *