Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

علامہ اقبالؒ اور سوشل میڈیا

عہد حاضر کی ایجادات میں سیل فون بھی کمال کی چیز ہے اس کی وجہ سے آپ ہر وقت اپنے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔  سیل فون کے  مثبت استعمال کے ساتھ  اس کے غلط استعمال سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اکابرین سے منسوب مختلف اقوال اور بڑے شعرا خصوصاً، علامہ اقبال کے اشعار  سیل فون پر موصول ہوتے ہیں بعض لوگوں کی جانب سے جب تحقیق کی جاتی ہے تو ان کا منسوب الہہ سے دور  دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔  ہر آدمی میں اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ کھوٹے اور کھرے کو پہچان سکے۔ کئی لوگ بلا سوچے سمجھے اس قسم کے پیغامات آگے بھجواتے رہتے ہیں۔  ظاہر ہے کہ یہ نامناسب عمل ہے ۔انٹرنیٹ اور موبائل فون کی آمد اور پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔

اردو شاعری میں علامہ اقبال کی حیثیت اور مرتبے سے کون واقف نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شاعرِ مشرق  علامہ محمد اقبال کے اشعار کو   لوگوں  میں بہت مقبولیت اور احترام حاصل ہے۔  عوام الناس میں یہ تاثر بھی  ہے کہ اقبال کا کہا غلط نہیں ہو سکتا۔  آج کل یہ سلسلہ چل نکلا ہے کہ کئی افراد اقبال کے اشعار کا ذخیرہ جیب میں لیے پھرتے ہیں۔

علامہ اقبال سے منسوب بیسیوں اشعار اور غزلیات بذریعہ ایس ایم ایس  یا  میسجز  انٹرنیٹ پر نشر  ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض  اشعار ایسے  ہیں جن کو پڑھ کر دل کڑھتا ہے مگر ہزاروں گزارشات کے باوجود انہیں تراشنے والے لوگ اپنی ‘‘شعر پردازی ’’سے باز نہیں آتے۔    

جب ہم اقبال کا مطالعہ کر تے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری کو مختلف النوع افکار سے سجایا ہے ۔ جن میں مرد  مو من،  انسانی عظمت ، حرکت وعمل ، قومی غیرت،  حب الوطنی  اور خودی کا فلسفہ وغیر ہ کافی اہم ہیں۔     لوگوں کو انٹرنیٹ پر کبھی اس نوع کا  کوئی شعر نظر آتا ہے تو بس علامہ اقبال کے نام کا ہیش ٹیگ  #’’اقبال ، #علامہ_اقبال ، #شاعر_مشرق’’ ڈال کر فورا شئیر کرڈالتے ہیں۔

انٹر نیٹ یا سوشل میڈیا کی دُنیا میں اور بالخصوص فیس بُک ،  ٹوئیٹر، واٹس ایپ اور ایس ایم ایس پر علامہ اقبال کے نام سے بہت سے ایسے اشعار گردِش کرتے ہیں جن کا اقبال کے اندازِ فکر اور اندازِ سُخن سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔  ذیل میں ایسے اشعار کی مختلف اقسام اور مثالیں پیشِ کی جارہی ہیں۔  

پہلی  قسم ایسے اشعار کی ہے جو ہیں تو معیاری اور کسی اچھے شاعر کے، مگر اُنہیں غلطی سے علامہ اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

[شاعر۔مولانہ محمد علی جوہر]

اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
اک ضرب یَدّ اللّٰہی، اک سجدہِ شبیری

[شاعر- وقار انبالوی]

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

[شاعر۔مولانہ محمد علی جوہر]

نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر،
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر

پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر،
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

[شاعر۔بہادر شاہ ظفر]

کیا ہنسی آتی ہے مجھ کو حضرت انسان پر
فعل بد خود ہی کریں لعنت کریں شیطان پر

[شاعر۔انشاء اللہ خان]

از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ

[شاعر۔مرزا اسد اللہ خان غالب]

اس دین کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
 اُتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

[شاعر۔صفی لکھنوی]

جن کے آنگن میں امیری کا شجر لگتا ہے
ان کا ہر عیب زمانے کو ہنر لگتا ہے

[شاعر۔انجم رہبر]

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے

[شاعر۔سید محمد مست کلکتوی]

اس کے علاوہ ایک اور مشہور شعر ہے :

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مر د ناداں پر کلام ِ نر م و نازک بے اثر

مندجہ بالا شعر  علّامہ اقبال کا نہیں بلکہ مشہور ہندی شاعر بھرتری ہری کا ہے، علامہ اقبال بھرتری ہری کے بڑے مداح تھے اور انہوں نے انہیں تعظیم دینے کے لیے یہ شعر اپنی تصنیف بالِ جبریل کے پہلے صفحے پر صرف  بطور اقتباس پیش کیا تھا،  کتاب میں شامل  ہونے کی وجہ سے  لوگ اسے  علامہ اقبال  کا شعر ہی سمجھنے لگے ۔

علامہ اقبال  کے نام سے منسوب اشعار میں دوسری قسم ان اشعار کی ہیں جن میں علامہ اقبال کے کئی الفاظ استعمال ہوئے ہیں،   مثلاً علامہ اقبال کے مشہور اشعار میں عموماً عقاب، قوم، خودی ، جوانوں، شاہین، مسجد، خدا، شمع، خورشید، نماز، بندہ مومن، جنون ، شکوہ ، ابلیس، مے خانہ،  عمل۔، حرکت، جیسے الفاظ آتے ہیں۔  بعض بے نام اور نامعلوم  اشعار میں عموماََ  ان جیسے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے تو قاری کو یہی لگتا ہے کہ شعر اقبال کا ہی ہے۔مثلاْ

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے

شاعر- سید صادق حسین

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

[شاعر۔ظفرعلی خان]

جوانو یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا

[شاعر۔اقبال سہیل]

ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

[شاعر۔ابوالمجاہد زاہد]

تیسری  قسم میں ایسے اشعار ہیں جو ہیں تو وزن میں مگر الفاظ کے چناؤ کے لحاظ سے کوئی خاص معیار نہیں رکھتے یا کم از کم  علامہ اقبال کے اسلوب کے قریب نہیں ہیں۔ مگر ان  کے نام سے سوشل میڈیا پر پھیلے ہوئے ہیں۔   مثلاْ :

تِری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت
نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے

………………………………

میں فقیروں سے ہی کرتا ہوں تجارت اکثر
اک پیسے میں لاکهوں کی دعا دیتے ہیں

………………………………

کون یہ کہتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا
وہی نظر آتا ہے جب کچھ نظر نہیں آتا

………………………………

نکالا ہم کو جنت سے، فریب زندگی دے کر
دیا پھر شوق جنت کیوں؟ یہ حیرانی نہیں جاتی

ایک  قسم  ‘‘اے اقبال’’ قسم کے اشعار کا ہے جن میں عموماََ انتہائی بے وزن اور بے تُکی باتوں پر انتہائی ڈھٹائی سے ‘‘اقبال’’ یا ‘‘اے اقبال’’ وغیرہ لگا کر یا اِس کے بغیر ہی اقبال کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اِس قسم کو پہچاننا سب سے آسان ہے کیونکہ اِس میں شامل اشعار دراصل کسی لحاظ سے بھی شعری معیار نہیں رکھتے اور زیادہ تر تو اشعار کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ ممکن ہے  ان میں سے بعض اشعار کسی اور اقبال کے ہوں ۔    مثالیں ملاحظہ ہوں:

ضمیر جاگ ہی جاتا ہے,اگر زندہ ہو اقبال
کبھی گناہ سے پہلے، تو کبھی گناہ کے بعد

………………………………

بات سجدوں کی نہیں خلوصِ نیت کی ہوتی ہے اقبال
اکثر لوگ خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں ہر نماز کے بعد

………………………………

اقبال تیرے عشق نے سب بل دیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی

………………………………

زخمی مری آواز تھی زخمی تھاگیت بھی
اقباؔل حوصلہ تیری دُھن نے مگردیا

………………………………

کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لئے یہاں اقبال
سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر

………………………………

نہ مروت،نہ محبت،نہ خلوص ہے اقبال
میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہو کر

………………………………

دعا تو دل سے مانگی جاتی ہے، زبان سے نہیں اے اقبال
قبول تو اس کی بھی ہوتی ہے ،جس کی زبان نہیں ہوتی

………………………………

خدا کو بھول گئے لوگ فکرِ روزی میں اقبال
تلاش رزق کی ہے رازق کا خیال نہیں

………………………………

نکلی تو لبِ اقبال سے ہے پر جانے کس کی ہے یہ صدا
پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی دل محفل کا تڑپا بھی گئی​

………………………………

 اس مضمون میں دئیے گئے اشعار جیسے سینکڑوں اشعار  سوشل میڈیا پر موجود  ہیں بعض تو علامہ اقبال کے نام سے بنے  کسی آفیشل پیج پر بھی شیئر ہوئے ملتے ہیں۔  کلام اقبال اور پیام اقبال سے محبت کا تقاضا ہے اور اقبال کا حق ہے کہ ہم ایسے اشعار کو علامہ اقبال  سے منسوب نہ کریں جو اقبال نے نہیں کہے۔

اقبال سے منسوب کسی بھی شعر کو سوشل میڈیا پر   شئیر   کرنے سے پہلے  یہ یقین دہانی کرلیں کہ آیا یہ شعر واقعی علامہ اقبال ہی کا ہے، اس کے لیے گوگل پہ سرچ  کرلیں ،  علامہ اقبال کے کلام پر اقبال سائبر لائبریری یا اس طرح کی مستند ویب سائٹ پر جاکر اسے سرچ کیا جائے ۔  ورنہ ایسے اشعار کو آگے بڑھانے سے پرہیز ہی کیا جائے ۔

ذیل میں  اقبال سائبر لائبریری  پر موجود علامہ اقبال کے تمام کلام کے مجموعہ  پر مبنی دوکتب  ‘‘کلیاتِ اقبال  ’’ اور   ‘‘اشاریہ کلام اقبال ’’ کا لنک شئیر کررہے ہیں جس میں علامہ اقبال کا ہر ایک شعر تلاش  کیا جاسکتا ہے۔

→کلیاتِ اقبال
http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/2332.txt   

→اشاریہ کلام اقبال
http://www.iqbalcyberlibrary.net/txt/1247.txt   

 

یہ بھی دیکھیں

پاکستان میں قومی زبان کے چند بڑے خدمت گار

انسان کی ترقی کی بنیاد ہی زبان ہے کیونکہ زبان کے بغیرعلم کا حصول اور ...

حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ

صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین محمد رومی ؒ 604ھ، 1207ء میں بلخ  (افغانستان )کے ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *