کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….
تیرہویں قسط ….
گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ لیکن خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ دو سال بھیڑوں کے ساتھ رہتے ہوئے مانوس ہوچکا تھا لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت سے ملتا ہے، جو خوابوں کی تعبیر بتاتی ہے کہ خواب میں بتایا خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر چلا جاتا ہے اور شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے ملکیِ صادق نامی بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔
خزانہ کے متعلق مدد کرنے کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چند نصیحتیں کرکے چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ کے قہوہ خانہ میں پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔
اسی شہر میں شیشہ کی دکان کا سوداگر پریشانی میں مبتلا تھا، تیس برسوں سے قائم اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے نے صفائی مکمل کی تو شیشے کا سوداگر اسے کھانا کھلانے قریبی ہوٹل لے گیا جہاں لڑکے نے بتایا کہ اسے مصر جانا ہے جس کے لیے وہ صفائی کا کام کرنے کو تیار ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کے لیے مدد کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے پر راضی ہوجاتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے مہینہ بیت جاتا ہے تو وہ اندازہ لگاتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک دکان میں لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ وہاں سفر کرنا اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کے مقدس شہر کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، سوداگر مان جاتا ہے ۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کی اجازت طلب کرتا ہے۔ بوڑھا سوداگر دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہے، لڑکے کو سامان باندھتے ہوئے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھی ۔ اس نے سوچا کی اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ ہاتھ نہ آ سکے گا۔ اُسے یاد آیا کہ سوداگر کے پاس ایک شخص آیاکرتا تھا، جس نے تجارتی سامان کو قافلہ کے ذریعہ لق دق صحرا کے پار پہنچایا تھا۔ وہ گودام جاتا ہے۔ گودام کی عمارت میں انگلستان کا ایک باشندہ بیٹھا پڑھ رہا ہوتا ہے ۔ اس نے پوری زندگی کائناتی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دی تھی۔ اب وہ کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا لیکن اسے کامیابی نہ ملی۔ ایک دوست کی زبانی عرب کے ریگستان میں مقیم ایک بوڑھے عرب کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر انگلستانی باشندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر الفیوم پہنچے کے لیے یہاں آپہنچا۔ اِسی گودام میں اس کی ملاقات اس نوجوان لڑکے سے ہوتی ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا۔گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو خزانے میں کچھ دلچسپی نہ تھی ۔ اسےتو کیمیا گر کی تلاش تھی۔ اتنے میں گودام کے مالک کی آواز آتی ہے کہ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہے۔
قافلہ کا سردار باریش عرب بوڑھا اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلہ میں کوئی دو سو لوگ اور چار سو جانور تھے۔ لڑکا اور انگلستانی باشندہ اونٹ پر سوار ہوئے ۔ بگل بجایا گیا اور پھر قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت پر سفر روک دیاجاتا اور سہہ پہر میں سفر دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا ۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ اِس دوران بعض قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر زیادہ خاموشی سے طے کیا جانے لگا۔
ایک رات انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں لیکن کتابیں کچھ زیادہ ہی دقیق اور گنجلک تھیں۔ لڑکے نے سمجھنے کی جتنی کوشش کی اتنا ہی وہ بھول بھلیّوں میں کھوگیا اور اُسے کچھ پلّے نہ پڑا۔ آخر کار جھنجھلا کر لڑکے نے انگلستانی باشندے کو سب کتابیں واپس کردیں ، پوچھنے پر لڑکے نے بتایا کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا۔ ایسے میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ نخلستان پہنچ گیا ۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر اور حیران ہورہے تھے۔ صحرا کی خاموشی اور خوف کی جگہ اب نخلستان کی گہماگہمی نےلے لی ۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ لڑکے کو جس خیمہ میں جگہ ملی وہاں دوسرے نوجوان بھی تھے۔ اُنہیں لڑکاشہروں کے قصے سناتا رہا اتنے میں نے انگلستانی باشندہ اُسے ڈھونڈتا وہاں پہنچ گیا اور کیمیاگر کی تلاش کے سلسلے میں مدد طلب کی۔ دونوں کیمیاگر کو تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے والوں سے پوچھنے لگا۔ ایک نوجوان عورت پانی بھرنے آئی۔ جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے اُسے ایسا لگا کہ جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہے۔لڑکے نے محسوس کیا کہ وہ اپنی زندگی سے وابستہ دنیا کی واحد عورت کے پاس کھڑا ہے اور لڑکی کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ لڑکی سے پوچھنے پر پتا چلا کہ کیمیاگر صحرا میں رہتا ہے۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش میں فوراً ہی چل پڑا۔ اگلے دن لڑکا پھر لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر پہنچااور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا ۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارےلڑکی سے ملنے جانے لگا اوراسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن صحرا میں جنگ ابھی بھی جاری تھی۔ لڑکی کے کہنے پر لڑکے نے سفر آگے جاری کرنے کا فیصلہ کیا…. اب آگے پڑھیں …………
….(گزشتہ سے پوستہ)
لڑکی کے چلے جانے پر لڑکا اس دن بہت اداس اور ذہنی کشمکش میں رہا۔ اُسے اندلوسیا کے اپنے وہ چرواہے دوست یاد آئے جن کی شادی ہوچکی تھی اور انہیں اپنی بیویوں کو یہ قائل کرنے میں کیسی مشکل پیش آتی تھی کہ انہیں چھوڑ کر دور دراز علاقوں میں جانا ضروری ہے۔ لیکن یہ محبت ہے جو اُنہیں کھینچتی تھی اور اپنوں کے ساتھ رہنے کے لئے مجبور کرتی تھی۔
اگلے روز کی ملاقات میں اُس نے لڑکی کو ان کے بارے میں بتایا ۔ وہ بولی :
‘‘ہمارے قبیلے کے آدمی اکثر کام کے لیے اس صحرا میں ہم سے دور چلے جاتے ہیں اور بعض اوقات ان میں کچھ کبھی واپس نہیں آتے…. ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں لیکن ہم اُس کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے صحرائی قبیلوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ جو لوگ صحرا میں گم ہوجاتے ہیں اور کبھی واپس نہیں آتے وہ دراصل اسی صحرا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کا جسم اس صحرا کی ریت کا، وہاں زمین کے اندر رہنے والے جانوروں کا، ہواؤں اور بادلوں کا حصہ بن جاتا ہے …. اور ان کی روح اس کائنات کی روح میں شامل ہوجاتی ہے۔ وہ یہیں موجود ہوتے ہیں ۔ ہمارے آس پاس کی ہر چیز کا حصہ بن کر اور ہماری یادوں کا بھی ….’’
‘‘اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ صحرا سے کامیاب و کامران واپس لوٹ آتے ہیں۔ جب وہ آتے ہیں تو ان کی عورتوں کی خوشی دیدنی اور قابلِ رشک ہوتی ہے ۔ انہیں دیکھ کر دوسری عورتیں بھی اس امید اور آس سے اپنا دامن بھر کر خوش ہو جاتی ہیں کہ ان کے مرد بھی ایک دن واپس آسکتے ہیں۔
یہ بتانے کے بعد اس نے کہا میں بھی ان عورتوں کو دیکھتی ہوں اور ان کی خوشیاں پر رشک کرتی ہوں۔ اب تم چلے جاؤ گے تو میں بھی دوسری عورتوں کی طرح تمہارے انتظار میں راہ تکوں گی….’’
پھر وہ بولی :
‘‘سنو ! میں ایک صحرائی لڑکی ہوں ۔ مجھے صحرائی ہونے پر فخر ہے ۔ میری بھی یہی خواہش ہوگی کہ میرا شوہر ایک آزاد زندگی گزارے ، رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرنے والا اور آزادی سے اپنی راہیں بنانے والا۔ صحرا کی ان ہواؤں کی طرح جو ریت کے ٹیلوں کو ایک سے دوسری جگہ اُڑاتی پھرتی ہیں۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ تم لوٹ کر نہیں آئے تو میں اِس حقیقت کو اُسی طرح تسلیم کروں گی کہ تم بھی اس صحرا کی ریت ، بادلوں، ہواؤں اور اس کائنات کی روح کا حصہ بن گئے ہو۔’’
***
لڑکا انگلستانی باشندے کی تلاش میں چل دیا۔ وہ اُس سے لڑکی کے متعلق باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسے یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ انگلستانی باشندے نے اپنے خیمہ کے سامنے ایک بڑی سی بھٹی بنا رکھی ہے۔ یہ بھٹی لوہاروں کی عام بھٹی سے الگ کچھ عجیب *سی تھی۔
* قدیم دور میں کیمیا گر اپنے عملیات کے لیے ایک مخصوص بھٹی تیار کرتے تھے جسے Athanor کہا جاتا ہے، اس بھٹی میں نچلاحصہ آگ سلگانے کے لیے مخصوص ہوتا ، درمیانی حصہ میں کیمیائی آلات رکھے جاتے اور اوپری حصہ پر ایک ڈھکن نما شے رکھی ہوتی تھی۔ ماہرین کیمیاوی عملیات کے لیے مختلف آلات استعمال کرتے جن میں چیزوں کو جلانے کے لیےشیشے کی صراحی Flask، عرق کشید کرنے کے ٹونٹی نما برتن قرع انبیق Alembic، تصعید کے لیے شیشہ کی نلی الوثل Aludel، دھات پگھلانے کی کٹھالی یا بوتقہ Crucible اور پیسنے کے لیے ہاون یا کھرل Mortar شامل تھے۔
ان آلات کے ذریعے کیمیاگر عمل تبخیرEvaporation، عمل کشیدFiltration ، عمل تصعید Sublimation، عمل پگھلاؤ،Melting،عمل تکثیفDistillationاورعمل قلماؤ Crystallization جیسے طریقے اپناتے تھے۔
بھٹی کے نیچے لکڑیوں سے آگ سلگائی ہوئی تھی اور اوپر رکھی ہوئی شفاف شيشے کی تنگ گردن صراحی نما بوتل Flask میں کچھ گرم ہورہا تھا۔ انگلستانی باشندے کی ہمت اور لگن قابلِ دید تھی۔ لڑکا انگلستانی باشندے کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک کو محسوس کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اُس نے سوچا کہ انگلستانی باشندے کی آنکھوں میں اپنی کیمیاگری کی کتابوں کے مطالعہ کے دوران بھی اتنی چمک نہیں تھی جتنی آج اِس صحرا میں تجربہ کے دوران نظر آرہی ہے۔
‘‘یہ پہلا مرحلہ ہے۔’’
انگلستانی باشندہ لڑکے کو دیکھتے ہوئے خوشی سے بولا۔ ‘‘پہلے مجھے گندھک الگ کرنا ہے اور اس کام میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔’’
‘‘اِس سے قبل میری ناکامی کی وجہ شاید یہی تھی کہ میں ناکامی کے خوف سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ اب جس یقین سے میں جو کام میں کر رہا ہوں وہ مجھے اِس سے قبل ہی کرنا چاہیے تھا، لیکن ٹھیک ہے جو ہوا سو ہوا۔ میں خوش ہوں مجھے یہ سمجھنے کے لیے بیس سال انتظار نہیں کرنا پڑا ۔’’
وہ بھٹی میں آگ بھڑکانے کے لیے لکڑیاں جھونکتا رہا اور لڑکا اُس کے عمل کو اُس وقت تک دیکھتا رہا جب تک کہ غروبِ آفتاب کی شفق سے پورے صحرا کی رنگت گلابی نہ ہو گئی۔ غروب آفتاب کے اس منظر نے اُس کے اندر گداز کی سی کیفیت پیدا کردی۔ اس منظر نے اس میں یہ خواہش جاگ اُٹھی کے وہ صحرا کے اندر دور تک نکل جائے اور دیکھے کہ صحرا کی خاموشی میں اس کے اپنے سوالوں کے جواب ملتے ہیں یا نہیں ۔
***
کچھ دیر تک وہ صحرا میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ کبھی نخلستان میں دور دور تک پھیلے ہوئے کھجور کے درختوں کے نظاروں کو اپنی آنکھوں میں سموتا، کبھی ریگستانی ہواؤں کی سرگوشی سنتا۔ کبھی اپنے پیروں کے نیچے ریت میں آنے والے چھوٹے چھوٹے پتھر کے وجود کو محسوس کرتا۔
صحرا کی ریت میں اسے اِدھر اُدھر بہت سی سیپیاں بکھری ہوئی بھی ملیں جو اس بات کی گواہی دی رہی تھیں کہ شاید یہ صحرا ایک زمانہ میں سمندررہا ہو گا*’’
* صحارا کا ریگستان افریقہ میں صدیوں سے قائم ہے لیکن یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی صحرا نہیں تھا، اس کے موسم میں مختلف ادوار میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ ساؤتھ ہمپٹن میں نیشنل اوشینوگرافی سینٹر کی تحقیق کے مطابق افریقہ کا یہ صحرا 5 سے 6 ہزار سال پہلے ایک زرخیز خطہ تھا۔ صحارا کا موجودہ موسم 3 ہزار قبل مسیح سے شروع ہوا۔ صحارا کی ریت کے نیچے ایک بہت بڑے دریا Mega Lakeکے آثار موجود ہیں جس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ وہاں کبھی پودے اور جانور رہا کرتے تھے۔یہ دریا مغربی صحارا میں بہتا ہوا اس حصے تک جاتا تھا جسے اب الجیریا کہا جاتا ہے۔اگر یہ دریا اس وقت فعال ہوتا تو دنیا کا بارہواں بڑا دریا ہوتا۔
کچھ دیر بعد تھک کر وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور اُفق کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ جیسے وہ اُس کے طلسم میں ڈوب جانا چاہتا ہو۔
وہ اس تنویمی حالت میں مراقب ہو کر بیٹھ گیا۔ خیالوں کی رو بھٹکنے لگی….
عشق کیا ہے؟ ….
وصل کیا ہے؟ ….
فراق کیا ہے؟ ….
کیا عشق کے لئے فراق ضروری ہے؟
یا عشق کے لیے وصل لازم ضروری ہے؟
یا عشق ملکیت کے تصور سے آزاد ہے….
کیا عشق محض پالینے کا نام ہے، یا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا …. ؟
وہ عشق میں وصل، فراق اور ملکیت کے تصور پر غور کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن کسی میں فرق کرنے سے قاصر رہا۔ اسے اب کہیں جاکر اپنے خوابوں کی لڑکی ملی ہے اور اس سے جدائی کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ صحرا کی ایک لڑکی ہے۔ اگر کوئی چیز ہے جو اس صحرائی لڑکی کو سمجھنے میں اس کی مدد کرسکتی ہے تو وہ خود یہ صحرا ہے۔ اس کاخیال تھا کہ اُسے اپنے تمام سوالوں کا جواب اس صحرا کی خاموشی میں ہی ملے گا۔
وہ بیٹھا ہوا ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُسے اُوپر کی جانب کسی حرکت کا احساس ہوا۔ سر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو اُسے عقابوں کا ایک جوڑا پرواز کرتا ہوا نظر آیا۔
ہوا کے دوش پر اُڑتے ہوئے عقابوں کو وہ دیکھتا رہا ، اگرچہ اُن کی پرواز میں کوئی ترتیب نظر نہیں آرہی تھی لیکن پھر بھی لڑکا اُس میں ایک طرح کی معنویت محسوس کررہا تھا۔ مگر اُس معنویت کے احساس کو الفاظ کا روپ دینا اُس کے بس سے باہر تھا۔ پھر بھی وہ دونوں عقابوں کی پرواز کو بغور دیکھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ شاید کائناتی قوتیں ان عقابوں کی پرواز کے ذریعے ہی وصل وملکیت کے بغیر عشق کا تصور سمجھا سکیں۔
پلک جھپکائے بغیر وہ عقابوں کو محو پرواز دیر دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور اُس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ یہ ایسی کیفیت تھی کہ جس میں دل یہ بھی چاہ رہا تھا کہ وہ جاگا رہے اور یہ بھی کہ وہ سو جائے۔ وہ بیک وقت ہوش میں بھی تھا اور نیند میں بھی…. غنودگی و تنویم کی اس کیفیت میں وہ اپنے آپ سے بولا۔
‘‘میں کائناتی زبان سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں اور میرے نزدیک اِس دنیا کی ہر شے ایک مفہوم رکھتی ہے، یہاں تک کہ عقابوں کی اس اُڑان میں بھی کوئی نہ کوئی پیغام چھپا ہے۔’’
اس نے سوچا کہ یہ ‘‘جذبۂ عشق کی ہی سرشاری ہے، محبت کا ہی کرشمہ ہے کہ اُسے ہر شے کہیں زیادہ با معنی اور بولتی معلوم ہونے لگتی ہے۔’’
اچانک ایک عقاب دوسرے پر جھپٹا۔ تب ہی لڑکے کو ایک جھماکے کے ساتھ ایک عکس نظر آیا اور تیزی سے غائب ہوگیا۔
اس عکس میں اسے نظر آیا کہ شمشیرِ بے نیام سے لیس ایک شہسوار فوج کی ٹکڑی نخلستان میں داخل ہو رہی تھی۔ یہ عکس تو فوراً ہی غائب ہو گیا لیکن لڑکے کو بری طرح جھنجھوڑ گیا۔
اُس نے لوگوں سے سُن رکھا تھا کہ صحرا میں اکثر سراب نظر آتے ہیں۔ صحرا کے سفر کے دوران کئی بار وہ خود بھی صحرا کی ریت میں نظر کے دھوکے والے تجربوں سے گزرچکا ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ دراصل انسان کی وہ دبی ہوئی شدید خواہشیں ہوتی ہیں جو ریگستانی ریت کے اوپر آکر نظر آ جاتی ہیں …. لیکن میری تو ایسی کوئی خواہش نہیں کہ کوئی فوج اِس نخلستان پر حملہ کرے۔
لڑکے نے اُس کشفی عکس ذہن سے جھٹک کر دوبارہ اپنے اُسی مراقبہ میں واپس جانا چاہا اس نے اپنے خیالوں کو مرتکز کرنے اور ریگستان پر پھیلی گلابی شفق پر غور کرنے کی کوشش کرنا چاہی لیکن وہ اپنی اُس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا۔
‘‘کائناتی علامتوں پر غور کرو’’ اُسے بوڑھے بادشاہ کا کہنا اچانک یاد آ گیا۔
لڑکے کو یاد آیا کہ جب اُس نے وہ عکس دیکھا تھا تو اُسے لگ رہا تھا کہ واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔
وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کھجور کے درختوں کی طرف واپس پلٹنے لگا۔ اُسے پھر لگا کہ اِدھر اُدھر بکھری ہوئی نشانیاں اپنی کائناتی زبان میں اُسے کچھ بتا رہی ہیں۔
شاید یہ کہ اِس بار صحرا تو محفوظ تھا لیکن نخلستان کو خطروں نے گھیر لیا ہے….
(جاری ہے)
***
تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی