Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے — 6

فروری 2020ء — قسط نمبر 6

سیکھیے….! جسم کی بو لی


علم حاصل کرنے کے لئے کتابیں پڑھی جاتی ہیں لیکن دنیا کو سمجھنا اور پڑھنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور اس کے لئے انسانوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں باڈی لینگویج روز بروز اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے اس فن کے ذریعے دوسروں کو ایک کھلی کتاب کی مانند پڑھاجاسکتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی حرکات و سکنات کے ذریعے شخصیت اور رویوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔


 

عالمی سطح پر بےشمار زبانیں بولی اور سمجھی جا تی ہیں ان تما م زبانوں کے با وجود دنیا بھر میں صرف باڈی لینگویج ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں اظہا ر کے لئے الفاظ و جملوں کی قطعی ضرورت پیش نہیں آتی ہے۔باڈی لینگویج میں انسان کا پورا جسم زبان بن کر جذبات کی غمازی کرتا ہے۔آدمی کی خاموشی کے با وجود اس کی باڈی لینگویج اس کے جذبات کی تر جمانی کرتی ہے ۔ انسانی شخصیت کے مطالعے میں باڈی لینگوئج اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ کسی کتاب کا پہلا چیپٹر۔کسی شخص کی باڈی لینگوئج اس کی پوری شخصیت اور سوچ کی ڈائریکشن سے آگاہ کر دیتی ہے

 

First Meet
پہلی ملاقات


اکثر آپ کو ایسے لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جو تقریب یا میٹنگ میں آتے ہی سب کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ان لوگوں کو کاروباری انویسٹمنٹ اور جابز جیسی پرکشش آفرز ہوتی ہیں۔
پرِنسٹن یونیورسٹی Princeton کی ایک ٹیم کی ریسرچ کے مطابق لوگ ایک سیکنڈ کے دسویں حصے میں آپ کے فرسٹ امپریشن سے ہی آپ کے قابلِ اعتبار ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ لگا لیتے ہیں ۔
فرسٹ امپریشن کیا ہے….؟ ماہرین کے مطابق ایک فرد دوسرے فرد سے ملنے کے بعد اس کے بارے میں جو رائے یا ذہنی تصور قائم کرتا ہے اسے فرسٹ امپریشن کہا جاتا ہے کہ ایک شخص پہلی ملاقات میں دوسرے شخص کو رد وقبولیت کے کس درجے پر فائز کرتا ہے۔ اس امپریشن کاصحیح یا غلط اور منفی یا مثبت ہونا افراد،وقت اور جگہ سمیت دیگر کئی عوامل پر منحصر ہے۔ آپ کا فرسٹ اِمپریشن آپ کے لیے ترقی کے دروازے کھول سکتا ہے ۔ فرسٹ اِمپریشن ہی آپ کو کسی موقع کو استعمال یا ضائع کرنے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
چاہے آپ جاب انٹرویو دینے جارہے ہوں، انٹرن شپ کیلئےملاقات کررہے ہوں، کسی نیٹ ورک ایونٹ یا اہم میٹنگ میں شرکت کررہے ہوں ، کاروبار کے حوالے سے یا پھر کسی پروڈکٹ کی مارکیٹنگ کے لیے بطور سیلزمین نئے لوگوں سے مل رہے ہوں ، الغرض کسی کا بھی پہلی با ر سامنا کر رہے ہوں، اس پہلی ملاقات میں کسی کو جاننا، سمجھنا ہو ، یا پھر خود کو بہتر ثابت کرنا ہو تو باڈی لینگویج آپ کی بہت مدد کرسکتی ہے۔ اس کے لیے سب سے اہم چیز ہے چہرے کے تاثرات….
ماہرِ نفسیات جین ٹیمپلیٹن اپنے ایک مضمون ‘‘ایک سیلز مین کس طرح جان سکتا ہے کہ اس کے کسٹمر کیا سوچ رہا ہے؟….’’
How Salesmen Can Find Out What’s Really on a Customer’s Mind
میں لکھتی ہیں :

‘‘اگر سیلزمین کی پیشکش کے بعد کسٹمر کا چہرہ نیچے کی جانب اور مخالف سمت پر ہو تو اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کی پیش کش سے متاثر نہیں ہے۔ اگر اس کا چہرہ پُرسکون ہو اور چہرے پر مسکراہٹ ہو اور ٹھوڑی سامنے کی جانب ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ آپ کی پیش کش کے متعلق سوچ رہا ہے۔
اگر وہ چند سیکنڈ آپ کی آنکھوں میں دیکھے اور ایک خفیف سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر نمودار ہوجائے اور اس کے بعد وہ مسکراہٹ پھیل جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ اسے اپنی پروڈکٹ فروخت کرسکتے ہیں’’۔

 

First Expression
چہرے کے پہلے تاثرات

 

قتیل شفائی کا ایک شہرہ آفاق شعر ہے:

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

الفاظ کا اظہار یعنی بولنا اپنی جگہ آگاہی کا بہت ہی موثر ذریعہ ہے لیکن بیشتر انسان اس کے بغیر بھی گفتگو کرلیتے ہیں، باڈی لینگویج (جسمانی حرکات و سکنات) اور فیس ایکسپریشن (چہرے کے تاثرات) اس حوالے سے بڑی ہی موثر زبان اور اظہاریہ ہوتی ہے اور تقریباً سب انسان اس کا مطلب واضح طور پر سمجھ لیتے ہیں۔


خاص طور پر چہرے پر رنگ آنا یا اتار چڑھاؤ، آنکھوں کا پھیلاؤ یا اس کا گھماؤ پھراؤ غرض ہر حرکت ہر جنبش ہر لچک اپنے اندر ایک معنی رکھتی ہے۔اس کے لیے مخاطب کوکوئی ڈکشنری دیکھنی نہیں پڑتی نہ ہی کسی عاقل یا عالم فاضل سے اس کے معنی پوچھنے پڑتے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بدن بولی کسی بھی زبان سے زیادہ بامعنی، واضح اور دو ٹوک ہوتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں بدن بولی سے زیادہ کام لیتی ہیں اور سمجھ دار مرد فوراً ان کی بات یا ان کا مدعا سمجھ لیتے ہیں۔
جس طرح شیر دھاڑے بغیر اور سانپ پھنکارے بغیر نہیں رہ سکتا اس طرح انسان بھی چہرے کے تیور اور تاثرات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بات چیت کے دوران سامنے والے فرد کے چہرے پر ہماری نگاہیں زیادہ مرکوز رہتی ہیں، اس لئے ہم چہرے کے تاثرات سے فرد کے رویّوں کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ مثلاً انتہائی جارحانہ طور پر بات کرنے والا عموماً آپ کو مکمل آنکھیں کھول کر دیکھے گا۔ اس کے ہونٹ مصنوعی طریقے سے بند ہوں گے اور اس کی بھنویں نیچے کی جانب جھکی ہوئی ہوں گی، جبکہ ایسا شخص جو آپ کا حریف تو ہو لیکن تعاون پر بھی آمادہ ہو جھکی ہوئی پلکوں، خفیف مسکراہٹ سے آپ کو مخاطب کرے گا اور اس کے چپرے پر شکنیں نمایاں نہیں ہوں گی۔
اس ضمن میں ایک ریسرچ کے نتائج سے یہ بھی علم ہوا ہے کہ اکثر لوگ ازخود دوسروں کے چہروں کے تاثرات کے پسِ پردہ معنی کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ یہ انہیں انسپائر ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر تاش کے ماہر کھلاڑی تاش کھیلتے ہوئے اپنے مخالف کا چہرہ دیکھ کر ہی اس بات کا اندازہ لگالیتے ہیں کہ سامنے والے کے پاس کون سے پتے ہیں اور وہ جیتے گا یا اُسے شکست ہوگی۔
انسان کے دلی حالات اور کیفیات کا اندازہ لگانے کیلئے کسی کا علم قیافہ میں ماہر ہونا ضروری نہیں ہے عام لوگ بھی دوسروں کی شکل و صورت دیکھ کر اس کی حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
چہرے کے تاثرات کو مزید سمجھنے کے لئے جسمانی حرکات اور چہرے کے تاثرات پر ریسرچ کرنے والے ایک انسٹیٹیوٹ نے ایک سلائیڈ بہت سے لوگوں کو دکھائی جس میں ایک کانفرنس ٹیبل پر دو گروپس کو مخالف اطراف میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے جو آپس میں میٹنگ کر رہے ہیں۔
اس سلائڈ کو دیکھنے سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ وہ افراد جو ٹیبل کے دائیں جانب بیٹھے ہیں وہ مطمئن، پُراعتماد اور پُرسکون ہیں، جبکہ بائیں طرف بیٹھے ہوئے افراد ناخوش، غصیلے ہیں اور دفاعی انداز میں بیٹھے ہیں۔ اس سلائیڈ کو بڑی اسکرین پر دیکھنے کے بعد تمام شرکاء نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ بائیں طرف والا گروپ مخالفین کا گروپ ہے۔

Rich & Poof Face
امیر چہرہ ۔۔۔ غریب چہرہ

 

بہت پرانا محاورہ ہے کہ :

‘‘صورت ببیاں، حالم ما پرس’’ یعنی حالت نہ پوچھو صورت دیکھو۔

باڈی لینگویج کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ظاہری شکل و صورت کو دیکھ کر دلی حالت اور کیفیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے او رمعاشی حالت بھی معلوم کی جاسکتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دل پر جو کچھ گزرتی ہے ان کیفیات کے نقوش اور سائے انسان کے چہرے پر نمایاں ہوجاتے ہیں۔
ٹورنٹو یونیورسٹی کے محقق تھورابونگز ڈوٹر Thora Bjornsdottirنے ایک تحقیقی رپورٹ میں ان عوامل پر روشنی ڈالی ہے جو انسان کی دلی اور معاشی کیفیت کا اندازہ لگانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ انہوں اس طویل تحقیق میں ان افراد کو شامل کیا ۔ جن کی آمدنی سالانہ 60 ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک تھی اور ان سے کم آمدنی والے افراد اور ایسے افراد جو مالی مسائل سے دوچار پائے گئے۔
محققین نے ان تمام لوگوں کے سپاٹ (یعنی غیرجانبدار مسکرائے بغیر)چہروں کی تصاویر لیں اور شرکاء کے ایک اور گروپ سے ان تصاویر کو دیکھنے کے لئے کہا گیا کہ اس بات کی نشاندہی کریں کہ ان میں کون ‘‘امیر یا غریب’’ ہے۔

محققین نے پایا کہ شرکاء تقریبا 53 فیصد درستی کے ساتھ چہروں کو سمجھنے میں کامیاب رہے۔ اس تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مسکراہٹ یا تاثرات کے بغیر چہرہ کا غیرجانبدار اظہار بھی ہمیں دوسروں کے بارے میں اہم معلومات کے حصول میں مدد دیتا ہے۔

Face Reading
چہرہ پڑھنا ۔۔۔  سوچ پڑھنا

 

معروف کوریائی مصنف ایونی ہانگ Euny Hong اپنی نئی کتاب ‘دی پاور آف نن شی۔ دی کورین سیکرٹ ٹو ہیپی نیس اینڈ سکسیس’
The Power of Nunchi:
The Korean Secret to  Happiness and Success


میں لکھتی ہیں کہ چہرے کے تاثرات اور آنکھوں سے دوسرے کے سوچ کا اندازہ لگانا بھی ایک فن ہے۔جس کے ذریعے بہت حد تک یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ سامنے کھڑا آدمی کیا سوچ رہا ہے۔ اس علم کا کوریائی نام نن شیNunchi ہے جس کے معنی ہیں ‘‘آنکھوں سے ناپنا’’۔
یہ علم کئی کورین لوگوں کی خوشی اور کامیابی کا راز ہے۔ کوریا کے لوگ اس علم کے ذریعے دوسرے شخص کے خیالات اور احساسات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد دوسرے شخص کے ساتھ اعتماد، ہم آہنگی اور ربط پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ہزاروں سال سے کوریا کے لوگ اپنے بچوں کو یہ علم لازمی طور پر سکھاتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ اپنے بچوں کو سڑک عبور کرنے کا طریقہ سکھانا۔
اس علم کی ماہر 34 سالہ ڈاکٹر صوفی نیلینڈ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص یہ علم سیکھ سکتا ہے۔ اس کیلئے آپ کو اپنی آنکھوں اور کانوں کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اسے سیکھنے کیلئے سب سے پہلے یہ بات ضروری ہے کہ کسی بھی صورت حال میں بولنے یا عمل کرنے سے پہلے آپ اس صورت حال کو سمجھنے اور پرکھنے کیلئے رضامند ہوں۔
کوریا کے لوگ باقی دنیا کی نسبت براہ راست بولتے ہیں اوربولنے کی بجائے جسمانی اشاروں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
یہ علم راتوں رات نہیں آجاتا تاہم اگر آپ سیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس شخص پر پوری توجہ مرکوز کرنا شروع کریں جس سے آپ بات کررہے ہوں۔
اس دوران اپنے لاشعور کا استعمال کریں، جس کا استعمال اکثر لوگ ترک کر چکے ہیں۔ اس علم میں دوسرے کی باڈی لینگوئج سمجھنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جب آپ کسی سے مل کر گھر واپس آئیں تو اس ملاقات کے متعلق بغور سوچیں۔ اس شخص کے چہرے کے تاثرات، باڈی لینگوئج اور دیگر چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس ملاقات میں خود اپنے رویے پر بھی غور کریں۔
اس مشق سے آپ آہستہ آہستہ لوگوں کی سوچ کا اندازہ لگانے کے قابل ہوتے چلے جائیں گے۔

Eye Contact
نظریں ملانا ….نظریں چُرانا

 


آپ نے ایک جملہ اکثر سنا ہوگا کہ‘‘میری آنکھوں میں دیکھو اور سچ سچ بتاؤ ’’۔ سچ اگلوانے کے لیے یہ ایک فطری طریقہ ہے اور لوگوں کا ماننا بھی ہے کہ براہ راست آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے سے سامنے والا جھوٹ بولنے سے کتراتا ہے۔
اس منطق کو سائنس بھی مانتی ہے کہ جھوٹ بولنے والا آنکھوں سے رابطہ کم رکھتا ہے اور نگاہیں چرانے لگتا ہے۔ ہم لاشعوری طور پر یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھیں ان الفاظ سے کہیں زیادہ معلومات دیتی ہیں جو ہم کہہ رہےہوتے ہیں لہذا ہم کسی کی طرف براہ راست دیکھتے ہوئے جھوٹ بولنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں ایسے کئی افراد ہم سے ملتے ہیں جو بات چیت کے دوران ہماری طرف نہیں دیکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہم سے کچھ چُھپارہے ہیں یا چُھپانا چاہتے ہیں۔ عام طور پر بات چیت کے دوران تیس سے ساٹھ فیصد افراد ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ فطری طور پر ہوتا ہے لیکن اگر وہ مسلسل ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں۔ دوسری صورت میں وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور آپس میں لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
نظریں چرانا بھی ایک رویّہ ہے۔ یہ ایسی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص خود کو غیر آرام دہ محسوس کر رہا ہو یا شرمندگی محسوس کر رہا ہو۔ نظریں چرانے یا بار بار پلکیں جھپکانے سے انسان خود اعتمادی کھو دیتا ہے اور احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
نگاہیں خلوص اور اعتماد کی علامت ہوتی ہیں یہ انتہائی موثر طریقہ ہے کہ کوئی آپ کی باتوں پر پوری طرح دھیان دے اور ان الفاظ کو یاد رکھے، یہ تکنیک انتہائی موثر اور کارگر ہوتی ہے چاہے آپ کہیں پریزنٹیشن دے رہے ہوں، پڑھا رہے ہوں یا بچوں کو کچھ سمجھا رہے ہوں۔یہ بات ایک تحقیق میں بھی ثابت ہوچکی ہے۔
آ ئی کونٹیکٹ اپنے مخاطب کی بات کو سمجھنے اور ایک بہتر ذہنی رابطہ قائم کرنے میں مدد دیتا ہے اور توجہ کے ارتکاز میں مدد دیتا ہے۔جب آپ کسی سے بات کررہے ہوں تو سب سے اہم بات یہی ہے کہ آپ اسے باور کروائیں کہ آپ اس کی بات غور سے سن رہے ہیں۔ اگر آپ کسی سے بات کررہے ہیں اور آپ کی آنکھیں مخاطب کے بجائے ادھر ادھر جارہی ہیں تو اس سے ظاہر ہوتاہے کہ آپ مخاطب میں دلچسپی نہیں لے رہے یاپھر آپ گھبراہٹ میں ہیں۔
مگر یہ بھی نہ ہو کہ آپ کسی کی آنکھوں میں مسلسل دیکھتے رہیں۔ آپ آنکھوں میں دیکھ کربات تو کریں مگر گاہے بگاہے نظریں ہٹاتے رہیں اور پھر سے آئی کانٹیکٹ قائم کریں۔
اس کے علاوہ اگر کسی سے ایسا سوال کردیا جائے جس سے مخاطب غصّے میں آجائے، ایسے میں دو افراد کا آئی کانٹیکٹ بڑھ جاتا ہے اور ان کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ دو افراد کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے یا جھگڑا ہوجائے تو ایسی حالت میں عام طور پر ابرو نیچے ہوجاتے ہیں، ہونٹ کھنچ جاتے ہیں اور تھوڑے آگے کی طرف ہوجاتے ہیں۔ دانت دکھائی نہیں دیتے البتہ چہرہ اور ٹھوڑی تن جاتے ہیں اور دونوں فریق ایک دوسرے سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ ان حالات میں وہ بہ مشکل ہی آنکھیں ایک دوسرے کے چہروں پر سے ہٹاتے ہیں کیونکہ اسے وہ اپنی شکست تصور کرتے ہیں۔
گفتگو کے دوران مثبت آئی کنٹیکٹ اس بات کی علامت ہے کہ وہ شخص آپ کی عزت کے ساتھ ساتھ قدر بھی کرتا ہےخاص کر مغربی ممالک اور امریکا میں ایسا عمل کرنے والے کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔اس سے یہ ابھی اظہار ہوتا ہے کہ آپ سامنے والے کو اپنے مساوی سمجھتے ہیں۔اگر آپ اس سے ہچکچاتے ہیں تو لوگ آپ کو نااہل یا ناقابل اعتماد سمجھیں گے۔
باڈی لینگویجز کے معروف مغربی ماہر جارج پورٹر نے چہرے کے تاثرات پر کئی آرٹیکلز لکھے۔ ان کا کہنا ہے کہ حسد اور بے یقینی، تنے ہوئے ابرو سے ظاہر ہوتی ہے جبکہ کسی سے اختلاف کے وقت آنکھوں کی نچلی پلکیں تھوڑی اوپر ہوجاتی ہیں۔ غصّہ کے وقت جبڑوں کے مسلز بھی تن جاتے ہیں۔

 

 

Cultural Effects
مختلف ثقافت کے اثرات

جسمانی حرکات سے آگاہ ہونا اور اس کا مشاہدہ کرنا آسان ہے مگر ان سے نتیجہ اخذ کرنا ایک مختلف عمل ہے۔
دنیا بھر میں چہرے کے تاثرات کو سمجھنے کے متعلق بائیولوجی جرنل چیلینجز میں شائع ہوئی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ چہرے کے تاثرات کو مختلف طریقوں سے سمجھتے ہیں۔
گلاسگو یونیورسٹی میں کی گئی اس تحقیق میں مشرقی اور مغربی ایشیاء کی اقوام میں آنکھوں اور چہرے کے ذریعے تاثرات کو جاننے کی کوشش کی۔
تحقیق میں شامل گروپوں کے لوگوں کو چہرے کے تاثرات جاننے کےلیے سات مختلف خاکے دیے گئے تھے جن میں خوشی، غم، کسی تاثر کے بغیر، ناراض، ناخوشگواری، خوف زدہ اور حیران ہونے جیسے تاثرات شامل تھے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مغربی ایشیائی لوگوں کے برعکس مشرقی ایشیائی لوگ چہروں کے تاثرات جیسے خوف کو حیرانگی اور ناخوش گواری کو غصہ سمجھتے ہیں۔ ریسرچرز کے مطابق چہروں کے تاثرات کو سمجھنے میں غلطی اس لیے ہوتی ہے کہ مختلف ثقافتوں کے لوگ چہرے کے تاثرات کو جاننے کے لیے چہرے کے مختلف حصوں کو منتخب کرتے ہیں۔
مشرقی ایشیائی لوگ تاثرات کو جاننے کے لیے آنکھوں کی طرف جبکہ مغربی ایشیائی لوگ آنکھوں سمیت پورا چہرہ دیکھتے ہیں۔ریسرچرز کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ چہرے کے تاثرات معلوم کرنے کا طریقہ دنیا کی مختلف ثقافتوں میں مختلف ہے ۔
کسی فرد کے چہرے کے تاثرات، چلنے کے انداز اور جسمانی حرکات و سکنات سے اس کی شخصیت کے بارے میں قیاس کرنا کچھ لوگوں کے لئے مشکل بھی ہوسکتا ہے۔
البتہ آپ دوسروں کے بارے میں جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اس کی جسمانی حرکات و سکنات اور چہرہ شناسی کے ذریعے کرتے ہیں اسے اپنے تک ہی محدود رکھیں اور جائزہ لیں کہ کس طرح آپ زیادہ سے زیادہ سیکھ سکتے ہیں اور کس طرح دوسرے کے رویّوں Attitudes اور جسمانی حرکات سے اس کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ بہتر طور پر پرکھا جاسکتا ہے۔

 

 

(جاری ہے)

 

فروری 2020ء

یہ بھی دیکھیں

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے — 2

اکتوبر 2019ء —  قسط نمبر 2 سیکھیے….! جسم کی بو لی علم حاصل کرنے کے ...

انسان کو کھلی کتاب کی طرح پڑھیے — 1

ستمبر 2019ء —  قسط نمبر 1 سیکھیے….! جسم کی بو لی علم حاصل کرنے کے ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *