Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

روحوں کی میڈیم — عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

روحوں کی میڈیم

انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں کی داستان….


وہ دوسری دنیا میں رہنے والوں سے رابطہ قائم کرکے ان سے باتیں کر سکتی تھی۔ سراولیور لاج، آرتھر کائن ڈائل، سل بی ڈیمل جیسے مشہور ریسرچرز بھی اس کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔۔

انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں چند سائنسدانوں اورریسرچرز نے خالص سائنسی انداز میں مادی دنیا پر روحانی اثرات کی تحقیق اور تجربات کے لیے سوسائٹی فور سائیکیکل ریسرچ کی بنیاد ڈالی۔ ہنری سجوک، سر ولیم کروکس، فریڈرک ولیم ہنری مائرز، سر اولیور لاج ، ولیم فلیچر بیرٹ اور ہیری پرائس جیسے نامور سائنسدانوں اور ریسرچرز نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا۔ سینکڑوں واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے ‘‘روح’’ کہتے ہیں، ان نتائج کے بعد تحقیقات کا یہ سلسلہ چل نکلا۔ ان معتبر شخصیات کی مسلسل توجہ سے لیبارٹریز میں سائنسی بنیادوں پر تجربات ہونے لگے۔اس دور میں کئی شخصیات نے روحانی صلاحیتوں کے عملی تجرباتی مظاہروں سے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ جن میں ایک نام آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والی ایلین گیریٹ کا بھی تھا۔ ایلین کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ دوسری دنیا میں رہنے والوں سے رابطہ قائم کرکے ان سے باتیں کر سکتی تھی۔
یہ سات اکتوبر 1930ء کی بات ہے، لندن کی نیشنل لیبارٹری آف سائیکلیکل ریسرچ میں روحانی صلاحیتوں کے عملی تجرباتی مظاہروں کی ایک محفل منعقد ہوئی۔ اس محفل میں یوں تو متعدد لوگوں نے شرکت کی لیکن اس مظاہرہ میں ایک خاتون ایلین گریٹ Eileen Garrett ، اچانک شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔

 


روحانی صلاحیتوں کے عملی مظاہروں کی اس محفل کے انعقاد سے صرف دو دن پہلے ایک برطانوی طیارہ R-101 اپنی پہلی پرواز کے دوران میں شمالی فرانس میں گر کر تباہ ہوچکا تھا۔ اس المناک سانحے میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے ۔اس روز نیشنل لیبارٹری کے نیم تاریک کمرے میں جو لوگ موجود تھے، ان میں سے کسی کا بھی ذہن دو دن پہلےپیش آنے والے واقعے کے بارے میں نہیں سوچ رہا تھا۔ یہ تمام لوگ نیشنل لیبارٹری آف سائیکلیکل ریسرچ کے بانی ہیری پرائس Harry Price کی دعوت پر آئے تھے اور جہاں تک ایلین گیرٹ کو بھی علم نہ تھا کہ آج کی محفل بطورخاص کس مقصد کے لیے کی جارہی ہے۔
اسے تو محض یہ بتایا گیا تھا کہ اسے اس بیٹھک میں اپنی روحانی صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ سائنسی تحقیق و تفتیش کے لیے پیش کرنا ہے ۔ ادھر خود ہیری پرائس کا ارادہ تھا کہ وہ ایلین گریٹ کی مدد سے مشہور مصنف اور شرلاک ہومز ایسے کردار کے خالق سرآرتھ کانن ڈائل Sir Aurthur conan Doyle کی روح سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ سرآرتھ کانن ڈائل کی اور ہیری پرائس کی پرانی چپقلش تھی اور کانن ڈائل کا انتقال چند مہینوں پہلے ہوا تھا۔ اس محفل میں ایک آسٹریلین صحافی آیان کوسٹر Ian Coster بھی موجود تھا۔ اس کی موجودگی کا مقصد محض یہ تھا کہ وہ روحانی صلاحیت کی محفل میں پیش آنے والے واقعات کو بہ نظر غائر دیکھے، اس کا اندازہ لگائے کہ اس بارے میں کسی فریب دہی سے تو کام نہیں لیا جارہا اور اگر مطمئن ہوجائے تو اخبارات میں اس کی تفصیلات شائعکرائے۔
ہیری پرائس کا خیال تھا کہ اگر سر آرتھر کانن ڈائل کی روح سے کوئی شخص رابطہ قائم کرسکتا ہے تو وہ محض ایلین گریٹ کی ذات ہوسکتی ہے۔ وہ کانن ڈائل کی پرانی دوست تھی اور اس کی اس خواہش سے بھی واقف تھی جس کا اس نے اپنی زندگی میں بار بار اظہار کیا تھا۔ کانن ڈائل کو روحوں پر یقین تھا۔ اس کا خیال تھا کہ روحیں دنیا میں پلٹ کر آتی ہیں اور اپنے زندہ لواحقین اور دوستوں سے رابطوں کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ چنانچہ اب ہیری پرائس خود کانن ڈائل اس کی روح سے رابطہ قائم کرنے اور عالمِ بالا کی خبریں معلوم کرنے کے لیے بےتاب تھا۔
روحانی صلاحیت کی اس محفل کا آغاز تین بجے سہہ پہر کے لگ بھگ ہوا۔ چند ہی لمحوں بعد ایلین گیرٹ پر جذب کی گہری کیفیت طاری ہوگئی۔ وہ معمول کے مطابق بعض سوالوں کے جواب دیتی رہی اور بعض روحوں کے پیغام سناتی رہی لیکن ہیری پرائس کی خواہش کے باوجود سرآرتھر کانن ڈائل کی روح کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔
اچانک اس کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے محسوس کیا…. کہ ایلین گیرٹ کے جسم میں تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔ پھر اس نےد و تین مرتبہ ایک نام ‘‘ارون’’ پکارا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آواز بدل گئی۔ اب وہ ایک بھاری مردانہ آواز میں بول رہی تھی۔ آواز کا سانس پھول رہا تھا اور شدید گھبراہٹ کے عالم میں وہ آواز نہایت تیزی سے ایسے بےربط اور ٹوٹے جملے بول رہی تھی جو وہاں بیٹھنے والوں کی سمجھ میں صحیح طرح نہیں آرہے تھے، حد تو یہ ہے کہ ہیری پرائس کی سیکریٹری جو کہ شارٹ ہینڈ کی ماہر تھی اور روحانی صلاحیت کی ہر محفل کا مکمل ریکارڈ رکھتی تھی، اسے بھی تیز رفتاری سے بولے جانے والے ان جملوں کو لکھنے میں قدرے مشکلہورہیتھی۔
لوگوں نے سنا کہ آواز ہیجانی انداز میں کہہ رہی ہے۔ ‘‘بہت زیادہ وزن ہے…. انجنوں کی استطاعت سے کہیں زیادہ…. لمبی پرواز کے لیے موسم خراب ہے…. اگلے حصے کا رخ نیچے کی طرف ہوگیا ہے…. اب اٹھنا ممکن نہیں…. گھوم بھی نہیں سکتے۔ پہاڑوں کی رگڑ بھی لگی ہے….’’ وہ آواز ہذیانی انداز میں بولے چلی جارہی تھی اور ایلین گیرٹ کے لبوں سے یہ ٹوٹے پھوٹے جملے جیسے ابل رہے تھے۔ ‘‘ائراسکریو بہت چھوٹے ہیں…. پیٹرول بہ مشکل پہنچ رہا ہے۔’’ اس مقام پر پہنچ کر آواز چیخنے لگی اور پھر اچانک ہی معدوم ہوگئی۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں پر سکتہ طاری تھا۔ یہ آوازیں سن کر وہاں موجود لوگوں کے ذہن میں اس بارے میں بالکل کوئی شبہ نہیں تھا کہ یہ دو دن پہلے فضائی حادثے میں ہلاک ہونے والے کیپٹن فلائٹ لیفٹننٹ ایچ کار مائیکل ارون H. Carmichael Irwin کی آواز تھی۔
اس واقعے کے تین ہفتے بعد ایلین گیرٹ نے اطلاع دی کہ نہ صرف کیپٹن ارون نے اس سے دوبارہ رابطہ قائم کیا ہےبلکہ ڈائریکٹر شہری ہوا بازی، سراسٹیفن برانکرنے بھی اس سے رابطہ کیا ہے ۔ سر اسٹیفن بھی اس سانحے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ایلین گیرٹ کا کہنا تھا کہ دونوں آوازیں جس بات پر سب سے زیادہ مصر تھیں وہ یہ تھی کہ لوگ یہ جان لیں کہ طیارے کو سانحہ کیونکر پیش آیا۔
سات اکتوبر 1930ء کی سہ پہر اس محفل میں پیش آنے والا یہ واقعہ ایسا نہ تھا جس پر شہری ہوا بازی کے حکام خاموش بیٹھے رہتے،پہلے تو انہوں نے ایلین گیرٹ کے بارے میں تحقیق کرائی جس سے انہیں یقین ہوگیا کہ ایلین جہازوں کے بارے میں ‘‘الف ب’’ سے بھی واقف نہیں۔ جبکہ روحانی صلاحیت کی محفل کے دوران ایلین گریٹ کی زبان سے جو جملے ادا ہوئے تھے وہ محض ہوا بازی سے گہری واقفیت رکھنے والا ہی ادا کرسکتا تھا اور اس سلسلے میں کسی دھوکا دہی کا امکان نہیں تھا۔ رائل ائر شپ ورکس کے ماہرین نے جب ایلین گیرٹ کے بولے ہوئے جملوں کا مطالعہ کیا تو وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس میں متعدد ایسی باتیں کہی گئی تھیں جو ‘‘نہایت خفیہ’’ کے ضمن میں آتی تھیں اور جنہیں ایک طیارے کا کیپٹن تو جان سکتا تھا لیکن ایک ‘‘معمول’’ ان سے واقف نہیں ہوسکتی تھی چنانچہ نہ چاہنے کے باوجود شہری ہوا بازی کے محکمے کو یہ بات تسلیم کرنا پڑی کہ سات اکتوبر کی سہ پہر ایلین گیرٹ کے وسیلے سے جس شخص نے R-101، طیارے کی تباہی کے بارے میں باتیں کیں، وہ کیپٹن ارون کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
اس واقعے کی اخبارات میں بہت شہرت ہوئی اور ایلین جو پہلے ہی خاصی مشہور تھی اب انگلستان بھر میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی اس کی شہرت یورپ کے ملکوں میں بھی پھیل گئی۔
ایلین دور جدید کے ان معمولوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں سائنسی طور پر بہت تحقیق کی گئی اور کئی ماہر سائنس دانوں نے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی کہ وہ واقعی ایک ‘‘معمول’’ ہے یا دوسرے متعدد افراد کی طرح ایک شعبدہ باز ہے۔ ایلین کو اس بارے میں ہونے والے تجربات کے سلسلے میں کبھی کوئی اعتراض نہ ہوا اور اس نے بھی ہمیشہ یہی کوشش کی کہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تحقیق کی جائے تاکہ لوگوں کو اس کے سچے ہونے پر یقین آسکے۔
ایلین 17 مارچ 1893ء کو آئر لینڈ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کی ماں نے ایلین کی پیدائش کے دو ہفتوں بعد خود کو ڈبو کو ہلاک کردیا۔ ایلین کے باپ کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا، چند ہفتوں کے بعد اس نے بھی خود کشی کرلی۔ ایلین کی پرورش اس کے خالو نے کی جو ہندوستان میں ملازمت کا ایک طویل عرصہ گزار کر چند ہی مہینوں پہے آئرلینڈ واپس آئے تھے۔
وہ ابھی بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی تھی کہ ایک روز اچانک اس کے خالو کے انتقال کی خبر آئی۔ ایلین کو اپنے خالو سے باپ کی شفقت اور ماں کی محبت ملی تھی۔ خالو کا انتقال اس کے لے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنے باپ سے محروم ہوگئی ہے ۔ خالو کی تدفین کے دو ہفتے بعد ہی اسے پہلا روحانی تجربہ ہوا۔ اپنی خود نوشت میں اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے اس نے لکھا ہے۔
‘‘ایک شام میرے خالو اچانک میری نگاہوں کے سامنے نمودار ہوگئے۔ وہ معمول سے کہیں زیادہ نوجوان، شاندار اور چاق و چوبند نظر آرہے تھے۔ ان کی داڑھی بڑے سلیقے سے ترشی ہوئی تھی۔ وہ تنے ہوئے کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ وقت آپہنچا ہے کہ تم اب اپنی خالہ کا ساتھ چھوڑ کر اور قصبے کی رہائش ترک کرکے لندن چلی جاؤ۔’’
ایلین کا کہنا ہے کہ وہ پہلا لمحہ تھا جب اسے زندگی اور موت کی حقیقت کے بارے میں تجسس ہوا اور اس بارے میں اس کے ذہن میں سوالات سے اٹھنے لگے۔ اپنے مرحوم خالو کی پیش گوئی کے مطابق وہ جلد ہی لندن چلی گئی۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کی ملاقات برٹش کالج آف سالیکیک سائنس کے ڈائریکٹر ہیوٹ مکنیزی سے ہوئی ۔ اس نے ایلین کو، اپنی مخفی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ مناسب طور پر استعمال کرنے کے طور طریقے سکھائے۔ اسی زمانے میں ایلین کا تعارف شرلاک ہومز اور ڈائل سے ہوا اور سر آرتھر نے بھی کچھ دنوں تک ایلین کے ساتھ مخفی علوم پر تحقیق کی۔ اسی طرح سراولیور لاج بھی ایلین کے کئی پراسرار تجربات میں شریک رہا۔
وہ اپنی مخفی قوتوں میں اضافے کے لیے روزانہ کام کرتی تھی۔ اس نے خیال خوانی یعنی ٹیلی پیتھی اور پیش بینی میں بھی مہارت حاصل کی لیکن اس کی اصل شہرت ‘‘معمول’’ کی تھی۔ روحانی صلاحیتوں کی محفلوں میں جب وہ معمول بنتی تو دو مختلف افراد کی روحوں کی زبان سے وہ لوگوں کے سوالات کے جواب دیتی۔ ان دو میں سے ایک روح اس ہندوستانی کی تھی جو اپنا نام دیو آنی بتاتا تھا اور جو صدیوں پہلے ہندوستان میں سپاہی رہ چکا تھا اور دوسری روح کا کہنا تھا کہ وہ بارہویں صدی میں شاہی طبیبوں میں سے ایک تھا۔ شروع میں ایلین ان دونوں افراد کو اپنا مددگار تصور کرتی تھی لیکن آہستہ آہستہ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ خود ساختہ شخصیتیں ہیں جنہیں ان کے لاشعور نے جنم دیا ہے۔
ایک زمانے میں ایلین نے ان گھروں کے بارے میں بھی کام کیا جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان پر روحوں کا یا بھوت پریت کا قبضہ ہے لیکن ایسے گھروں پر اپنی مخفی صلاحیتیں استعمال کرنے کے بعد ایلین اس نتیجے پر پہنچی کہ چند گھروں کو چھوڑ کر، باقی تمام معاملات روحوں کے نہیں بلکہ شریر بچوں، منتقم المزاج رشتہ.داروں یا جھگڑالو میاں بیوی کی کارستانیوں پر مبنی ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد ایلین نے اس قسم کے معاملات میں دخلاندازیبندکردی۔
1931ء میں امریکن سوسائٹی فار سائیکلیکل ریسرچ نے ایلین کو نیویارک آنے کی دعوت دی۔ یہ اس کی زندگی کے اہم سال تھے۔ ڈیوک یونیورسٹی میں اپنی مخفی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال کے سلسلے میں اس نے متعدد تجربات کا سامنا کیا۔ اس نے نیویارک کے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر لارنس لی شان کی ساتھ 500 گھنٹوں پر مشتمل تجربات میں حصہ لیا۔
ایک دن ڈاکٹر لارنس نے اس کی ہتھیلی پر کپڑے کا ایک چھوٹاسا چوکور ٹکڑا رکھ دیا۔ اس ٹکڑے کے بارے میں اسے کچھ نہیں بتایا گیا، بس اتنا کہا کہ وہ کپڑے کے اس ٹکڑے کو چھو کر بتائے کہ اس کے بارے میں وہ کیا محسوس کرتی ہے۔
ایلین نے اپنی توجہ کپڑے کے اس ٹکڑے پر مرکوز کی اور کچھ دیر بعد یہ بتا دیا کہ یہ ٹکڑا ایک ایسے شخص کی قمیض سے کاٹا گیا ہے جو اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر چلا گیا ہے اور جس کا اتا پتا نہیں مل رہا۔ ایلین نے ڈاکٹر لارنس کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ شخص ایک دوسری ریاست کے کسی علاقے میں مقیم ہے۔
ڈاکٹر لارنس نے ایلین کے بتائے ہوے پتے پر تحقیقات کیں تو اس شخص کا پتا چل گیا پھر اسے واپس اس کے گھر لایا گیا جہاں سے وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر فرار ہوگیاتھا۔
ایلین سے متعلق ایک دلچسپ اور پراسرار واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب وہ 1931ء میں ایک آپریشن تھیٹر میں تھی اور بےہوش ہو چکی تھی۔ اس کے ارد گرد کھڑے ہوئے ڈاکٹروں اور نرسوں نے کسی مرد کی آواز میں چند جملے سنے جو کہ ایلین کی زبان سے یا کسی دوسرے کی زبان سے نہیں نکلے تھے اور پھر بھی وہاؓں موجود تمام لوگوں نے سنے۔ سرجن جو کہ ہندوستان میں رہ چکا تھا اس کا کہنا تھا کہ اس نے ہندوستانی (اردو) میں چند جملے صاف سنے۔ یہ اردو میں کسی سپاہی کی طرف سے دیے جانے والے احکامات تھے۔ سرجن اس واقعے سے اس قدر حیران ہوا کہ اس نے تحریری طور پر اس واقعے کی اطلاع میڈیکل ایسو سی ایشن کو دی۔ اس بارے میں جب ایلین سے پوچھا گیا تو اس کے پاس اس واقعے کی کوئی توجیہہ نہیں تھی۔

 


1933ء اور 1934ء میں جب ایلین ریاست کیلی فورنیا کے دورے پر تھی، اس نے وہاں کے فلم اسٹوڈیوز دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ بہت گرم دن تھے۔ جب ایک فلم اسٹوڈیو کے فلور پر وہ ایک شوٹنگ دیکھنے کے لیے پہنچی۔ اس وقت فلور پر ایک ایسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی جسے مشہور زمانہ فلمی ڈائریکٹر سنسل بی ڈمل ڈائریکٹ کر رہا تھا۔ ایلین نے دیکھا کہ سنسل بی ڈمل کے برابر ایک ضعیف خاتون کھڑی ہوئی مسلسل اس سے کچھ کہہ رہی ہیں لیکن وہ نہ صرف یہ کہ ان کی سن نہیں رہا بلکہ یوں بن رہا ہے جیسے وہ ضعیف خاتون موجود ہی نہ ہوں۔
ایلین کو یہ رویہ ناگوار گزرا لیکن وہ خاموش کھڑی رہی۔ اچانک اسے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، اس نے جلدی سے پلٹ کر دیکھا تو وہی ضعیف خاتون اب اس کے پیچھے کھڑی تھی۔ ایلین نے اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو، انہیں مسکرا کر دیکھا۔ ‘‘وہ میری تو نہیں سنتا۔ آپ ہی اسے سمجھائیں۔’’ ان خاتون نے سنسل بی ڈمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
‘‘لیکن آپ ہیں کون….؟’’
میں اس کی ماں ہوں اپنا تعارف کرانے کے بعد ان خاتون نے ممتا بھرے مشوروں کی بوچھاڑ کردی جو وہ ایلین کے وسیلے سے اپنے بیٹے تک پہنچانا چاہتی تھیں۔
ایلین نے خاتون کو یقین دلایا کہ فلم کی شوٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ ان کے بیٹے سے مل کر یہ تمام پیغامات ضرور اس تک پہنچا دے گی۔ جیسے ہی فلم کی شوٹنگ ختم ہوئی ایلین نے سنسل بی ڈمل کے ڈریسنگ روم پہنچ کر فوراً اس سے رابطہ کیا۔
پہلے تو سنسل، ایلین اسے کوئی عام سی خاتون سمجھا لیکن جب ایلین نے کچھ اور کہے بغیر اسے اس کی ماں کے پیغامات دینے شروع کیے تو سنسل حیران رہ گیا۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور تب ایلین کو معلوم ہوا کہ سنسل کی ماں کا بیس برس پہلے انتقال ہوچکا تھا اور اس گرم دوپہر کو اس نے جس خاتون کو دیکھا تھا اور جس کی باتیں سنی تھیں، وہ ایک بےقرار ماں کی باتیں تھیں جو اپنے بیٹے تک اپنے جذبات منتقل کرنا چاہتی تھی۔ سنسل بی ڈمل اس واقعے کے بعد عمر بھر کے لیے ایلین عقیدت مند بن گیا۔

 


ایلین گیرٹ کا انتقال ستمبر 1970ء میں ہوا آخر وقت اس کی خواہش یہ تھی کہ مخفی علوم اور روحانی قوتوں پر زیادہ سے زیادہ کام ہو اور وہ دن بھی آئیں جب ان علوم پر پڑے ہوئے پردے ہٹ جائیں اور دنیا ان کی حقیقت کو جان سکے۔

 

 

 

 

جہاز R101

R101 جہاز کے کیپٹن فلائٹ لیفٹننٹ ایچ کار مائیکل ارون ، دراصل نیوی سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے ایلین گیرٹ کے ذریعے اسی لب و لہجہ میں بات کی اور وہ فوجی اصطلاحات استعمال کی جن کے متعلق ایلین نہیں جانتی تھی ۔ جبکہ دوسری تصویر سر جان سائمن کی سربراہی میں عدالت کی R101جہاز کی حادثے کی انکوائری کی ہے جو اس محفل کے تین ہفتے بعد ہوئی۔ اس میں جہاز کے کپتان کی طرف سے دی تکنیکی معلومات کے متعلق انکوائری کے دوران اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ ایلین گیرٹ نے جو کچھ بھی اس محفل میں کہا لفظ بلفظ درست ہے۔

 

 

جون 2014ء

 

یہ بھی دیکھیں

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات — عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات کیا  اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی ...

ایک شخصیت دو جسم — عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

ایک شخصیت دو جسم  جڑواں لوگوں کے درمیان ٹیلی پیتھی کے حیرت انگیز ذہنی تعلقات…. ...

Добавить комментарий

Ваш адрес email не будет опубликован. Обязательные поля помечены *