موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….
انسانی نفسیات پر چاند کے اثرات
کیا اجرامِ فلکی انسان کی جسمانی اور ذہنی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں
چاند کے بارے میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ چاند کی شعاعیں انسانی سوچ، عمل اور صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں کیونکہ یہ چاندہی کا اثر ہے کہ ہمارے سمندر متلاطم رہتے ہیں اور چودھویں رات کو ان کے مدوجزر میں خاصی شدّت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چاند کی مقناطیسی قوت سےسمندروں میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر بھی پڑتا ہے۔
چاند کے بارے میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ چاند کی شعاعیں انسانی سوچ، عمل اور صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں کیونکہ یہ چاندہی کا اثر ہے کہ ہمارے سمندر متلاطم رہتے ہیں اور چودھویں رات کو ان کے مدوجزر میں خاصی شدّت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چاند کی مقناطیسی قوت سےسمندروں میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر بھی پڑتا ہے۔
انسان ایک مدت سے یہ سمجھتا اور مانتا آیا ہے کہ اجرامِ فلکی اس کی جسمانی اور ذہنی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ کچھ ایسے اہم ثبوت موجو د ہیں جن کی مدد سے ہمیں ارضی مخلوق پر اجرامِ فلکی خصوصاً چاند کے اثرات کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
چاند کے بارے میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ چاند کی شعاعیں انسانی سوچ، عمل اور صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں کیونکہ یہ چاندہی کا اثر ہے کہ ہمارے سمندر متلاطم رہتے ہیں اور چودھویں رات کو ان کے مدوجزر میں خاصی شدّت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ چاند کی مقناطیسی قوت سےسمندروں میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔ چاند کی قوت ثقل یا کشش کا اثر سمندر کی لہروں پر بھی پڑتا ہے۔ اگر آپ سمندر کی کنارے پر ہو، اور آپ کے بالکل اوپر چاند ہو، تو آپ کے پاس سمندر کی لہریں اور بھی تیزی سے آئیں گی۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے کے اثرات نباتات اور حیوانات پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔بعض ماہرین کا کہناہے کہ پورے چاند کے اثرات انسانی نفسیات پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
انسانی زندگی پر چاند کے اثر کا عقیدہ ہزاروں سال پُرانا ہے۔ قدیم یونان کے عظیم ترین فلسفی اور سائنس دان ارسطو اور تاریخ دان پلینی کا کہنا تھا کہ سمندر کی طرح چاند کی مختلف حالتوں کا پودوں، جانوروں اور انسانوں پر اثر پڑتا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ دماغ بھی ایک مائع صورت رکھتا ہے اس لیے پورے چاند کے موقع پر انسانی دماغ میں طلاطم اور مدوجذر پیدا ہوتے ہیں، بعض کا دعویٰ ہے کہ اگر چاند سمندی مدوجزر کو متاثر کرتا ہے توپھر اسے انسانوں پر بھی ضرور اثرانداز ہونا چاہئے کیونکہ انسانی جسم کا بیشتر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ علاوہازیں چاند کی مختلف حالتوں اور نفسیاتی بیماریوں، کسی شخص کی پیدائش کے وقت اور ماہواری کا آپس میں کیا تعلق ہے جس کی طوالت تقریباً قمری مہینے کے برابر ہوتی ہے؟…. عہد وسطٰی میں یہ نظریات رائج تھے کہ پورے چاند کے وقت انسان پر پاگل پن کے دورے پڑ سکتے ہیں، اسی دور میں چاندنی رات میں نمودار ہونے والی مخلوقات ڈریکولا اور انسان نما بھیڑیوں (وروولف) کی قصوں کی بہتات دیکھی جاتی ہے۔
اگرچہ آج کے دور میں اس طرح کے بہت سے نظریات متروک ہو چکے ہیں لیکن انسان ذہن اور مکمل چاند کے تعلق پر سائنسی نظریات کی تردید کے باوجود بعض اعتقادات آج تک قائم ہیں۔
پورا چاند اور پاگل پن
ایک زمانہ میں یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ چاند کی کشش پانی کی طرح انسانی خون کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مکمل چاند کی راتوں میں خون کی دماغ کی جانب گردش بڑھ جاتی ہے، اس لیے پاگل پن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس نظریہ کو خاصی شہرت ملی۔ لفظ لیونیسی Lunacy اسی حالت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، جس کے مطابق چاند کے مختلف مراحل میں کسی شخص کا اپنے دماغ پر اختیار قائم نہیں رہتا۔ اس سے ایسی حرکات سرزد ہوسکتی ہیں جن سے عام حالات میں وہ گریزکرتا ہے۔ برطانیہ کی قانونی کتابوں میں لیونیسی ایکٹ کا سول رائٹس کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا۔
1850ء میں ڈاکٹر جان کو نولی کی کتاب ‘‘فیمیلیئرویوز آف لیونسی اینڈ دی لیونیٹک لائف’’ میں بہت سے ایسے انکشافات کئے گئے کہ لوگ اپنا جرم چھپانے کے لئے دماغی حالت، غصہ، جنون، بیاختیاری جیسی خود ساختہ کیفیات کا سہارا لیکر قانون سے مراعات حاصل کرلیتے ہیں۔ اس لئے پارلیمنٹ نے لیونیسی ایکٹ کو ختم کر کے اسے دماغی صحت کا قانون 1959ء کا نام دیا، جس میں مزید ترامیم 1983ء تک کی جاتی رہیں۔ اب اس قانون کے تحت صرف دماغی مریضوں کو ہی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
گوکہ لیونسی ایکٹ ختم ہوگیا لیکن چاند اور چاندنی کے انسانی ذہنوں پر اثرات کے موضوع پر ریسرچ کرنے والوں نے اپنی کوششوں کو ترک نہیں کردیا۔
بہت سے تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے چاندنی راتوں میں انسانی ذہن بھی متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں بلاوجہ کا اشتعال، خون ریزی، ذہنی میلان کا جرائم کی طرف بڑھنا وغیرہ جیسی کیفیات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس دوران ذہنی بیماریوں میں اضافہ، حادثات، خودکشی، خطرناک ذہنی و اعصابی دورے، تشدد اور منتشرخیالی وغیرہ میں اضافہ بھی نوٹ کیا گیا ہے۔
آرنلڈ لائیبر Arnold Lieberنے امریکی شہر میامی میں 15سال کے دوران ہونے والے قتل اور خودکشی کے 1887 واقعات یکجا کئے اور ان اعدادوشمار کا تفصیلی مطالعہ کرکے وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان واقعات کا تناسب چاند کے دوسرے اور تیسرے ہفتہ میں زیادہ رہا، پہلے اور آخری ہفتہ میں ایسے واقعات نسبتاً کم ہوئے۔ ان کا موازنہ اوہایو اور کلے ویلنیڈ میں ہونے والے قتل اور خودکشی کے واقعات سے کیا گیا تو ملتے جلتے نتائج ہی ظاہر ہوئے، یعنی چاند کے آخری ہفتہ اور پہلے ہفتہ میں ایسے واقعات کم ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر لائیبر نے یہ اعداد وشمار فلاڈیلفیا کے پولیس ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیئے ۔ انہوں نے اس کے ساتھ ایک رپورٹ ‘‘مکمل چاند کے انسانی محرکات پر اثرات’’ کے عنوان سے بھی پیش کی۔ اس رپورٹ اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ چاند کے دوسرے اور تیسرے ہفتہ میں سائیکولوجیکل بے ضابطگیوں کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ اس دوران قتل، خودکشی، اسلحہ کا استعمال، خطرناک انداز سے گاڑی چلانا، بلاوجہ کی چوری، مارپیٹ اور قانون کی دیگر خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر لائیبر کے مطابق اس دوران بہت سے لوگ غیر معقول رویہ اختیار کرلیتے ہیں، خصوصاً وہ لوگ جو تھوڑے بہت جذباتی ہوںیا نفسیاتی مریض ہوں زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر انہوں نے ایک کتاب ‘‘ کیا چاند آپ پر اثر کرتا ہے ’’ تحریر بھی کی ۔
اکثر قدیم کہاوتوں میں چودہویں کے چاند کو انسان کی بے خوابی کے ساتھ بھی منسلک کیا جاتا ہے لیکن سائنس دانوں کی رائے اس بارے میں منقسم ہے۔
لیکن ایک انتہائی کنٹرولڈ تحقیق کا نتیجہ اس قدیم نظریے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے محقق مائیکل اسمتھMichael Smith نے انکشاف کیا ہے کہ چاند کی پوری شکل انسان کی نیند کے قدرتی عمل یا حیاتیاتی گھڑی پراثر انداز ہوتی ہے جس کی وجہ سے پورے چاند کی راتوں میں ہم پر نیم بیداری کی کیفیت طاری رہتی ہے اور اس رات نیند کا دورانیہ عام دنوں کی نسبت 25 منٹ کم رہتا ہے۔
چودہویں کے چاند کے زمین پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو جوار بھاٹے کے علاوہ انسانی نفسیات پر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ چاندراتوں میں نفساتی امراض کے دورے، ڈیپریشن، خودکشی اور قتل کے واقعات ، حادثات اور کئی دوسرے جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہناہے کہ چاندکا سائز چھوٹا ترین ہونے کی وجہ سے اس کے اثرات بھی کم ہوں گے۔
پودوں کی نشونماپر اثرات
تجربات سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ اگر کسی درخت کو چاندنی رات میں کاٹا جائے تواس کے کٹاؤ سے زیادہ چوب رس خارج یا Sapflow ہوگا۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی امریکہ ، جنوبی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیاء کی سخت اور پکی لکڑی کے جنگلات اُترتے چاند کی تاریخوں میں ہی کاٹے جاتے ہیں۔ اگرایسا نہ کیا جائے تو کٹی ہوئی لکڑی پر ڈیتھ واچ بیٹلز deathwatch beetles نامی کیڑوں کا حملہ ہوجاتا ہے اور کاٹی گئی لکڑی کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ یہ کیڑے درخت کی لکڑی میں گہرے سوراخ کردیتے ہیں یوں لکڑی خراب ہو جاتی ہے اور کوڑیوں کے مول فروخت ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ درختوں کی کٹائی کا یہ طریقہ وہاں صدیوں سے قائم ہے۔
چاند کی ماہانہ زندگی چار مراحل میں تقسیم کی جاتی ہے پہلا مرحلہ نیا چاند کہلاتا ہے یہ چاند نظر آنے والی رات سے شروع ہو کر آٹھ راتوں یا سات دن پر مشتمل ہوتا ہے۔ دوسرا مرحلہ پونم کہلاتا ہے، یہ دور نویں رات سے پندھرویں رات تک جب کہ سولہویں رات سے اکیسویں رات کا دور ڈھلتا چاند کہلاتا ہے۔ آخری دور بائیسویں رات سے آخری رات تک ہوتا ہے۔
آج بھی بہت سے کسان کھیتوں میں بیج ڈالتے ہوئے چاند کے ان مرحلوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کسانوں کا یہ یقین صدیوں کے تجربات کے نتیجہ میں مستحکم ہو چکا ہے کہ نئے چاند اور پونم کے دور میں کاشت کیا ہوا بیج جلد اُگتا ہے اور پودے اپنی ابتدائی زندگی میں بہت صحت مند رہتے ہیں۔
بعض لوگوں کا اعتقاد ہے کہ پودوں کی نشوونما چاند کی مختلف حالتوں سے وابستہ ہے۔ لہٰذا، وہ پھولپودے کاشت کرنے، کھاد ڈالنے، اشیائےخورد ونوش محفوظ کرنے سے پہلے کیلنڈر اور جنتریاں دیکھتے ہیں۔ یہ اِس اعتقاد کے تحت کِیا جاتا ہے کہ اگر چاند کی غیرموزوں حالت کے وقت کوئی کام کِیا جائے تو اس کی افادیت پر اس کا خاصا اثر پڑ سکتا ہے۔ اکثر باغبان یہ مانتے ہیں کہ تازہ کھائی جانے والی سبزیوں کو چاند کے بڑھنے کے وقت توڑنا چاہئے جبکہ محفوظ کی جانے والی سبزیوں کو چاند کے گھٹنے کے وقت توڑنا چاہئے۔ بعض تحقیقات پودوں کی نشوونما کو چاند کی مختلف حالتوں میں وقوع پذیری سے منسلک کرتی ہیں۔ تاہم، بہتیرے سائنسدان اس سے پوری طرح قائل نہیں ہیں۔ اُن کے مطابق چاند کا مختلف حالتوں میں نمودار ہونا ایک پیچیدہ اور بےقاعدہ عمل ہے جس کے ہمیشہ یکساں اثرات مرتب نہیں ہوتے اس لئے تحقیقاتی تجربات کی بارہا دہرائی سے یکساں نتائج حاصل کرنا نہایت مشکل ہے۔
کچھ عرصہ قبل کیلیفورنیا میں منعقدہ سائنسی نمائش میں ایک طالبِعلم برایان پرن نے ایک پراجیکٹ بنایا تھا، جس کا نام اُس نے ‘‘بیج اُگنے اور پودوں کی افزائش پر چاند کا اثر ’’ رکھا۔ اس طالبعلم نے چاند کے مراحل کے حساب سے پودے کاشت کئے۔ چاند کے ہرمرحلہ کے شروع ہونے سے دو روز پہلے 6مولی اور 6سویابین کے بیج کاشت کیے گئے۔ نئے چاند کے دوران مولی اور سویابین دونوں کے بیج تیزی سے اُگنے میں دوسرے تیسرے اور چوتھے دورانیوں سے بہتر رہے۔ پہلے مرحلے میں کاشت کئے ہوئے مولی کے پودے پرورش پانے میں باقی مراحل کی نسبت زیادہ کامیاب رہے۔ جبکہ سویابین کے پودے جو مکمل چاند کے دور یا پونم میں کاشت کئے گئے تھے دوسرے پودوں کی نسبت تیزی سے افزائش پاکر 5.4سنٹی میٹر زائد بڑے ہوئے۔ اس تجربہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ چاند پودوں کی افزائش پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ہمارا خیال ہے کہ اگر کوئی دلچسپی لے تو ہمارے دیہی ماحول میں ایسی اور بھی بہت سی مثالیں مل جائیں گی جن میں پرورش حیوانات اور پودوں کی کاشت، جشن و تہوار، رسوم و رواج میں چاند کی شراکت کا اظہار موجود ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ بہت نہیں تو تھوڑا بہت تو تمام مظاہرِفطرت ہمارے اردگرد کے ماحول اور ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جانوروں پر اثرات
چاند اور چاندنی سے صرف انسان ہی نہیں جانور بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ بھیڑیوں کا جنگلوں میں چاندنی راتوں میں اکٹھے ہوکر ایک مخصوص لمبی آواز میں شور کرنا، دیہاتوں اور جنگلوں کے قریب آباد بستیوں میں اکثر سنائی دیتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ شہروں میں بھی کتے بلیاں اور دوسرے جانور ایسی روشن راتوں میں نسبتاً زیادہ شور مچاتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں بعض پالتو پرندے بھی اپنے پنجروں میں بے چینی محسوس کرتے ہیں بعض مچھلیوں اورسمندری جانوروں کے معمولات اور انڈوں بچوں کی پیدائش کا طریقہ کار اس طرح متعین ہے کہ وہ اس مدّوجزر سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں۔ سمندری کچھوؤں کی مادہ ایسی ہی روشن راتوں میں ساحلی ریت پر گھومتی پھرتی دیکھی جا سکتی ہے۔
آئسٹر Oyster ایک سمندری جانور ہے، یہ سمندر کے مد Flood-Tide میں اپنے خول کے دروازے کھول دیتا ہے، اس طرح وہ غذا حاصل کر لیتا ہے، باقی تمام عرصہ اپنے خول کو بند کر رکھتا ہے۔ ڈاکٹر براؤن نے کچھ آئسٹر سمندر سے نکلواکر لیبارٹری میں رکھوائے۔ لیبارٹری میں یہ تاریک ڈبوں میں بند کر کے رکھے گئے جہاں چاند کی کوئی کرن ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔
جس سمندر سے انہیں پکڑا گیا تھا اور لیبارٹری جس جگہ تھی دونوں جگہ کے وقت میں چھ گھنٹے کا فرق تھا۔ اِن آئسٹرز نے اپنی حیاتیاتی گھڑی کا وقت چھ گھنٹے تبدیل کرلیا۔ چنانچہ مد Flood-Tide کے وقت راستہ کھول کر کھانا اور جزر Ebb-Tide کے وقت خول بند رکھنا درحقیقت چاند سے متاثر ہونا ہی ہوا۔
ریڈیو سگنلز پر اثرات
زمین کے قرب و جوار میں موجود ستارے اور سیارے زمینی فضا کو مستقل متاثر کرتے رہتے ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اکثر ریڈیو نشریات اور لاسلکی نظام کے ذریعہ اطلاعات کی فراہمی میں ایسی رکاوٹیں درپیش رہیں کہ اس ذریعہ کو بعض مرتبہ تو فراہمیٔ اطلاعات کے لئے قابل اعتماد ذریعہ سمجھا جانا مشکل ہو گیا۔ لیکن دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات میں وقت زیادہ لگ جاتا تھا۔ مارچ 1951ء میں امریکہ کی ریڈیوکا رپوریشن RCA کے جان نیلسن کو اس کام پر مامور کیا تاکہ وہ یہ معلوم کریں کہ ریڈیو اور وائرلیس کمیونیکیشن سسٹم کے جام ہوجانے کی کیا وجوہات ہیں، مسٹرنیلسن نے بہت جلد معلوم کر لیا کہ یہ سورج پرآنے والے طوفان اور ریڈیائی لہروں کے اخراج کا نتیجہ ہے جو دنیا بھر کے لاسلکی نظام کو متاثر کررہا ہے۔ ان کے خیال میں ان ریڈیائی لہروں میں طوفان خیزتلاطم کی وجہ کچھ اسی طرز کی تھی جیسی کہ چاند کی کشش سمند ر کی سطح پر ہلچل اور مدو جزر کا باعث بنتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب کوئی سیارہ سورج کے قریب آتے وقت عمودی حالت میں ہو تو سورج کی سطح پر ہلچل پیدا ہوسکتی ہے یوں برقی مقناطیسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ریڈیائی نشریات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگریہ زاویہ ساٹھ درجہ یا اس سے کم ہوتو سورج کی سطح پُر سکون رہتی ہے۔ ایک سے زیادہ سیارے اگر مجموعی اثر ڈال رہے ہوں تو یہ تلاطم دگنا یاتین گنا تک بڑھ سکتا ہے۔
نیلسن کے نظریہ نشریات پزیری Theory of Propagationکی ان معلومات کی اشاعت سے عوام میں ہلچل پیدا ہوگئی۔ بعض معترضین نے اس نظریہ کو قبول کرنے سے گریز کیا اور بعض نے بالکل رَد کردیا۔ لیکن نیلسن نے ہمت نہ ہاری، اس نے اپنی جدول میں نظام شمسی کے تمام سیاروں کی پوزیشن کی رفتار اور ایک دوسرے سے فاصلہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ درست معلومات یکجاکیں۔ اس علم کے کئی ماہرین سے مشور ے کئے اور انہیں اس حد تک درست بنالیا کہ اس کی پیش گوئی کے یقینی ہونے کا تناسب95 فیصد ہوگیا۔ اب بڑے یقین سے یہ کہا جانے لگا کہ علم فلکیات کے بنیادی تصورات مفروضہ نہیں ہیں ۔یہ واضح ہوا کہ سیاروں بشمول زمین پر ہونے والی طبعی تبدیلیوں اور اجرام فلکی کی گردش میں باہمی تعلق موجود ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف کو لوریڈو میں فلکیات کے پروفیسر کے۔ ڈیِوڈ کی ریسرچ سے نیلسن کے مشاہدات اور دیگر معلومات کو تقویت پہنچی۔ انہوں نے سیاروں کی گردش سے سورج کی سطح پر برپا ہونے والے طوفانوں اور ریڈیائی لہروں کے پیدا ہونے کے تعلق کو ثابت کردیا اور نیلسن کی تحقیق پر اثباتی ردّعمل کا اظہار کیا۔ انہی راستوں پر کام کرتے ہوئے ورلڈ جیو فزیکل کاؤنسل کے چیئر مین ڈاکٹر روڈولف تما سچک نے کرہ ارض پر آنے والے 134زلزلوں کے دوران اجرام فلکی کی پوزیشنوں کا تعین کرتے ہوئے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ اس دوران مشتری ، یورینس اور نیپچون ایک خاص نہج پر موجود تھے اس لئے ان زلزلوں کے واقع ہونے میں ان سیاروں کی کشش کی لہروں کا عمل دخل ہوسکتا ہے۔
چاند اور مخصوص ایام
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ چاند کی گردش ہمارے بعض جسمانی نظام سے کچھ ایسی مماثلت رکھتی ہے کہ اُنہیں چاند کے اثرات سے جدا نہیں کیا جاسکتا مثلاًخواتین کے مخصوص ایام آج بھی چاند کی گردش سے منسلک سمجھے جاتے ہیں۔ سویڈن کے ایک کیمسٹ ڈاکٹر سوانتے آرہینئس نے گیارہ ہزار خواتین کے کوائف کو تفصیل سے جانچنے کے بعد خواتین کے مخصوص نظام اورچاند کی بدلتی ہوئی حالتوں میں حیرت انگیز تعلق دریافت کیا۔جرمنی کے دیگر ماہرین نے بھی ایسے ہی دس ہزار کوائف کا جائزہ لیکر اس کی تائیدکی۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ زخموں سے خون رسنے اور چاند کی کشش میںکوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ امریکہ کے ڈاکٹر ایڈسن اینڈریوز نے بارہا یہ مشاہدہ کیا کہ چاند کی بعض کیفیتوں کے دوران انسانی جسم سے خون کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اینڈ ریوز نے گلے کے دس ہزار آپریشنوں کا مطالعہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چاند کے دوسرے اور تیسرے ہفتہ کے اختتام پر ہونے والے آپریشنز میں خون کا اخراج زیادہ ہوتا ہے، اس لئے ان کا خیال ہے کہ اس دوران آپریشن سے گریز کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر براؤن کے مطابق سورج ، چاند اور دوسرے سیارے کسی خاص وقت میں کسی ستارے وخاص توانائی کی بہت قلیل سی مقدار سے جاندار اجسام کے حیاتیاتی تعاملات میں ایک زنجیر ی عمل شروع کر دیتے ہیں۔
چاند کی بدلتی تاریخوں کا اثر جنین کی صنفی نشوو نما پر بھی پڑتا ہے،کیلیفورنیا میتھوڈسٹ ہاسپٹل کے کنٹرولر ڈاکٹر کرٹس جیکسن نے چھ سال کے دوران گیارہ ہزار پچیس سے زیادہ بچوں کی پیدائش کی رپورٹس کا مطالعہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بڑھتے چاند کی تاریخوں میں قرار پانے والے حمل میں زیادہ تر لڑکے اور چاند کے گھٹنے کی تاریخوں میں قرار پانیوالے حمل میں زیادہ تر لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جرمنی کے ڈاکٹر بچلر نے بھی چڑھتے چاند میں قرار پانے والے حمل سے پیدا ہونے والے بچوں میں لڑکوں کی زیادہ تعداد نوٹ کی۔
مختلف سائنسی تجربات کے لئے تجربہ گاہوں میں چوہے پنجروں، دڑبوں یا چھوٹے کمروں میں پالے جاتے ہیں جہاں چاند یا سورج کی کوئی کرن نہیں پہنچتی۔ لیکن ماہرین نے نوٹ کیا ہے کہ مکمل چاند والی راتوں میں ان کی اچھل کود اور حرکتیں بہت زیادہ بڑھجاتیہیں۔
چاند اور انسانی زندگی کے درمیان تعلقات کی بابت سچائی جاننے کے لئے خاصی تحقیق کی گئی ہے۔ لیکن اس سے حتمی نتائج اخذ نہیں ہو سکے۔
بعض محققین دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانی سرگرمیوں اور چاند کی مختلف حالتوں میں وقوعپذیری کے مابین کچھ تعلق ہے لیکن بعض کا کہنا ہے کہ ان میں کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض قمری اثرات کی تصدیق ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ بعض جانداروں کی غذائی، تولیدی اور دیگر حیاتیاتی کارگزاریاں مدوجزر سے وابستہ ہیں جس کا انحصار چاند کی کششِثقل پر ہوتا ہے۔ اگرچہ سائنس نے یہ ظاہر کِیا ہے کہ چاند زمین پر مختلف اقسام کی زندگی پر اثرانداز ہوتا ہے لیکن ابھی بھی اس کی حد کا تعیّن کرنا آسان نہیں ہے۔
ہمارا چاند
چاند ہماری زمین سے قریب ترین سیارہ ہے اور چاند پر ہماری زمین کی کشش بھی اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے جیسے چاند ہمارے سمندروں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند کی محوری گردش زمین کے تابع ہے اور چاند زمین کے گرد صرف ایک سمت ظاہر کرتے ہوئے گھومتا ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ چاند کا وجود زمین کے مدار میں گردش کرتے پتھروں ، سیاروں کے ٹکڑوں، دمدار سیاروں کی ریت وغیرہ کے یکجا ہونے سے بناہے اس نظریہ کے حامیوں کا خیال تھا کہ چاند کا میٹریل زمین کے جیو فزیکل میڑیل سے مختلف ہے لیکن چاند پر جانے والے خلانوردوں کے لائے ہوئے چٹانوں کے ٹکڑوں پر ریسرچ سے ثابت کیا گیا ہے کہ چاند زمین کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ شاید اس زمانے میں جب کہ زمین کا میٹیریل پگھلا ہو اتھا کسی طاقتور ستارے یا دمدار سیارے کی طاقتور کشش کے زیرِ اثر زمین کا ایک حصہ علیحدہ ہو گیا۔ اگرچہ بعد میں اس پر خلائی پتھروں کی بارش ہوتی رہی اور اس کے حجم میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ چاند پہلے کبھی زمین سے بہت قریب تھا یعنی صرف 16ہزار میل پھر رفتہ رفتہ یہ زمین سے دور ہوتا گیا، اب اس کا زمین سے فاصلہ دولاکھ اڑتیس ہزار میل ہے اور ہرسال ہماری زمین سے چاند ڈیڑھ انچ مزید دور ہوتا جارہا ہے۔
چاند ہمارے سولر سسٹم کا پانچواں بڑا سیّارہ ہے۔ یوں تو زمین سے چاند اور سورج دیکھنے میں ایک ہی سائز کے لگتے ہیں، لیکن سورج چاند سے 400 گنا زیادہ بڑا ہے۔ چاند زمین کے گرد ایک بیضوی مدار میں گردش کرتاہے۔ جس کی وجہ سے اس کا زمین سے فاصلہ کم یا زیادہ ہوتا رہتاہے ۔ جب وہ زمین کے قریب آجاتا ہے تو ہمیں بہت روشن اور بڑا دکھائی دینے لگتا ہے اور جیسے جیسے زمین سے اس کا فاصلہ بڑھتا ہے وہ چھوٹا ہوتا چلاجاتا ہے۔ چاند زمین کے گرد اپنا چکر تقریباً 29 دن اور 8 گھنٹوں میں مکمل کرتا ہے۔ اس دوران اس کا زمین سے فاصلہ گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چاند کا زمین سے فاصلہ کبھی 221565 میل ہوتا ہے تو کبھی 252546 میل ہوجاتا ہے ،یعنی تقریباً 31 ہزار میل زیادہ۔ چاند پر نہ ہوا ہوتی ہے ور نہ زمین کی طرح کشش ثقل، اگر کسی انسان کا وزن دنیا میں 100 پونڈز ہے، تو چاند پر اس کا وزن صرف 16،6 پونڈ رہ جاۓ گا، اس طرح اگر کوئی چاند پر اچھلنے کی کوشش کرے، تو وہ دنیا کے مقابلے میں 6 گنا زیادہ اونچا اوچھل سکتا ہے، اور 6 گنا زیادہ بھاری وزن اٹھا سکتا ہے۔
چاند کا ہمارے نظام شمسی ، کرہ ارض اور ہماری زندگی، معاشرت ، روایات اور تخلیقی فن وادب سے گہرا تعلق ہے۔ یوں تو کہتے ہیں کہ چاند زمین سے تین لاکھ ستاون ہزار کلومیٹر کی دوری پر آباد ہے، دلوں میں فاصلے نہ ہوں تو زمان و مکاں کوئی معنی نہیں رکھتے، اسی لیے تو انسان اور چاند کا رشتہ بڑا پُرانا ہے۔ کبھی یہ ماں کا چاند ہے، کبھی محبوب کا رُخِ زیبا، کبھی یہ وصل کی مرمریں روشنی کا ہالہ ہے، کبھی ہجر کے موسم میں رتجگوں کا اُجالا۔ ہمارے ہاں چاند میں چرخا کاتنے والی بڑھیا کی کہانی اب بھی عام ہے۔ اسی طرح چین کی ایک لوک کہانی میں چاند میں رہنے والی عورت کا ذکر ملتا ہے ، جس کی یاد میں چینی ہرسال موسم خزاں میں چاند کا تہوار مناتے ہیں۔ کوریا اور جاپان میں چاند کے خرگوش کی کہانی ان کے ادب اور روایت کاحصہ ہے۔ نیوزی لینڈ کے قدیم ادب میں رونا نام کی ایک خوبصورت لڑکی اور چاند کا قصہ موجود ہے۔ یونانی دیومالا میں چاند کو ایک دیوی کا درجہ حاصل ہے۔ اسی طرح ہندومذہب میں بھی سوما دیوتا کا تعلق چاند سے ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہناہے کہ چاندسوائے مردہ سنگلاخ پہاڑوں اور ریگ زاروں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حتی کہ اس کی روشنی بھی اپنی نہیں ہے۔ اسے بھی وہ سورج سے لے کرزمین پر منعکس کرتا ہے۔
لیکن تیز تر سائنسی ترقی اور چاند سے متعلق ٹھوس اور تلخ حقائق کے باوجود، آج بھی دنیا کےکسی معاشرے میں چاند کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ آج بھی چودہویں کے چاند کو چکور کی چاہنے والوں اور اسے ٹکٹکی باندھ کردیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔
اگست 2014ء