Gratitude Meditation
مراقبۂ شکر
Gratitude Meditation
مراقبۂ شکر
مراقبہ کی اہمیت سے آج کون واقف نہیں، یہ ذہنی و جسمانی مشق کا بہت قدیم طریقہ ہے۔ مراقبہ ذہنی یکسوئی اور سکون حاصل کرنے اور روحانی حواس کو بیدار و متحرک کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ مشرق میں تو مراقبہ اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کا صدیوں پرانا معمول ہے۔ صوفیاء ارتکاز توجہ لاشعوری کیفیات کے ادراک، باطنی یا روحانی صلاحیتوں کی بیداری کے لیے دیگر مجاہدات اور ریاضتوں کے ساتھ ساتھ مراقبہ کا اہتمام بھی کرتے تھے۔
مراقبے کے ذریعے انسانی ذہن کائناتی شعوری کے ساتھ ہم آہنگ Tune ہوسکتا ہے۔ گویا انسانی ذہن ایک وصول کنندہ Receiver ہے۔ کائنات میں مختلف نشریات مسلسل جاری و ساری ہیں۔ انسانی ذہن مراقبہ کے ذریعے ان نشریات کو بہتر طور پر وصول کرنے اور اُنہیں سمجھنے کے قابل ہوسکتا ہے۔
اپنے کثیرالجہتی مفید اثرات کی وجہ سے مراقبہ صدیوں سے مشرق کی کئی تہذیبوں میں معروف اور رائج رہا ہے۔ اب امریکا اور یورپ میں بھی سائنس دان، ماہرینِ نفسیات، نیورولوجسٹ اور دیگر شعبوں کے طبی ماہرین انسانی ذہن اور صحت پر مراقبے کے اثرات پر تحقیقات کررہے ہیں۔
ان تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ مراقبہ سے ذہنی اور جسمانی دونوں طرح کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ مراقبہ کے روحانی فوائد کے علاوہ روزانہ مراقبہ کرنے سے انسان کی ذہنی، جسمانی صحت اور کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔
مراقبہ کئی نفسیاتی مسائل مثلاً اسٹریس، ٹینشن، ڈپریشن، خوف، احساسِ کمتری، شک اور وسوسوںوغیرہ سے نجات پانے میں بھی مددگار ہے۔ مراقبہ کی وجہ سے جذبات پر کنٹرول ، غصہ، جذباتی ہیجان جیسے منفی جذبات میں کمی آتی ہے، بیماریوں کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام کو تقویت ملتی ہے۔ مراقبہ بلڈ پریشر، بےخوابی کے مسائل ، دل کی تقویت، سانس کی بہتری، قلب، نظام ِدوران ِخون اور اینڈوکرائن نظام کے لیے بھی مفید ہے اور اس سے مزاجی کیفیت پر خوش گوار اثر پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ میڈیٹیشن یعنی مراقبہ کرنے والوں میں کشش بہت بڑھ جاتی ہے۔
مختلف تعلیمی و تحقیقی اداروں میں ہونے والی ریسرچ سے واضح ہوا ہے کہ مراقبہ کا عمل انسانی دماغ کے کئی حصوں میں مختلف تبدیلیوں کا ذریعہ بنتا ہے۔ مراقبے کی وجہ سے دماغ کے سیکھنے، سمجھنے، ذہانت اور بصیرت جیسے معاملات سے متعلق حصوں کی تحریکات بڑھ جاتی ہیں ۔ روزانہ مراقبہ کرنے سے ارتکاز توجہ کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔تخلیقی صلاحیت Creativityبھی بیدار ہوتی ہے اس کے علاوہ وجدان Intuitionکی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ مراقبہ کی وجہ سے آدمی اپنی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کے قابل ہوسکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس کی پروفیسر کتھیرائن میکلین اور ساتھی ایڈوائزر کلیفورڈ سورن کی مشترکہ تحقیق میں مراقبہ کرنے والوں کا تجزیہ کیا گیا۔ مختلف ٹیسٹ کے بعد ماہرین نے دیکھا کہ مراقبہ کرنے والوں نے مراقبہ نہ کرنے والوں کی نسبت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ غرض جسم کے معاملات ہوں یا ذہن کے، مادی فوائد ہوں یا روحانی مراقبہ ہر جگہ کسی نہ کسی طرح مفید ومعاون ہوسکتا ہے۔
اب ہم بات کرتے ہٰیں شُکر گزاری کی ….
شکر ادا کرنا یا شکر گزاری ایک ایسا عمل ہے جس کا درس ہزاروں سال سے دیا جارہا ہے، شکر کرۂ ارض پر پھیلی ہر ایک تہذیب و ثقافت اور ہر ایک مذہب کی تعلیمات کا حصہ رہا ہے۔
شکرگزاری ، تَشَکُّر ، ممنونیت، احسان مندی، سپاس گزاری جسے انگریزی میں Gratitude کہتے ہیں، بظاہر یہ چھوٹا سا مثبت عمل ہے مگر یہ ناصرف جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے کرشماتی ثابت ہوتا ہے بلکہ روز مرہ کے معاملات اور تعلقات پر بھی اپنے اثرات ثبت کرتا ہے۔
شکر گزاری ایک انتہائی طاقت ور مثبت طرز فکر ہے جو ایک مقناطیس کی طرح کام کرتی ہے۔ شکر گزاری کا یہ مقناطیس مثبت چیزوں ، نعمتوں کو اٹریکٹ کرتا ہے، جس سے زندگی میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔
ماہرین کی ریسرچ سے یہ پتا چلتا ہے کہ شکر گزار ہونا آپ کی خوشیوں کے احساس کو بڑھاتا ہے۔ شکر بہتر اور پرسکون نیند کی وجہ بنتا ہے۔ جسم کو طاقت اور اعتماد فراہم کرتا ہے۔ اضطراب Anxiety اور اداسی Depression کی علامات کے تدارک میں معاون ہوتا ہے۔ ایک انوکھی بات یہ ہے کہ جسمانی درد میں بھی حیرت انگیز کمی کا باعث بنتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس میں شکرگزاری پر تحقیق کرنے والے ریسرچر رابرٹ ایمونز Robert Emmons نے شکر گزاری کے موضوع پر کئی کتابیں لکھی ہیں ، جن میں شکر گزاری کارآمدہے Gratitude Works، شکر گزاری کے الفاظ Words of Gratitude، شکر گزاری کی نفسیات Psychology of Gratitude، خدا کا شکر Gratitude to God ، شکریہ Thanks اور شکرگزاری کی چھوٹی کتاب The Little Book of Gratitude شامل ہیں ۔ رابرٹ ایمونز نے اپنا ایک ریسرچ پیپر Gratitude as a Psychotherapeutic Intervention.پیش کیا کہ کس طرح شکر گزاری بیماروں کے لئے ایک ہیلنگ پاور کے طور پر بھی حیران کن کام کرتی ہے۔
رابرٹ ایمونز کا کہنا ہے کہ شکرگزار بننا بلڈ پریشر کو کم کر سکتا ہے ، قوت مدافعت کو بہتر بنا سکتا ہے اور زیادہ موثر نیند کی فراہم کرتا ہے۔ شکرگزار ہونا افسردگی ، اضطراب اور دیگر ذہنی بیماریوں کے خطرے کو کم کرتا ہے ، اور خودکشی کی روک تھام میں اہم عنصر ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق شکرگزاری اسٹریس کے ہارمون (کارٹیسول ) کے لیول کو 23 فیصد کم کرتا ہے، شکرگزاری کرنے والے مریضوں میں دل کی سوزش میں 7 فیصد کمی واقع ہوئی۔ شکرگزار سرگرمیوں ( نعمتوں کی گنتی اور شکرگزاری کے خط )سے چھ ماہ کی مدت کے دوران ڈپریش میں مبتلا مریضوں میں خطرے کو 41 فیصد کم کیا۔ شکر گزار مریضوں میں ڈاسٹلک بلڈ پریشر 16 فیصد کم اور کم شکر گزار افراد میں سسٹولک بلڈ پریشر 10 فیصد کم پایا گیا۔ تشکر آمیز خط لکھنے پر ناکام خودکشی کرنے والے 88 فیصد مریضوں میں ناامیدی کے احساسات کم ہوگئے اور ان میں سے 94 فیصد میں امید کی سطح میں اضافہ ہوا۔ شکرگزار ی کرنے والے دائمی درد کے ایسے مریض جو بے خوابی اور ڈپریشن میں مبتلا تھے ان میں نیند کے معیار میں 10 فیصد بہتری پائی گئی ۔
ماہرین نے شکر گزاری کو جسمانی اور نفسیاتی فوائد سمیت خوشی سے بھی کافی حد تک منسلک کیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق شکر گزار افراد دیگر کی نسبت 25 فیصد زیادہ خوش ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ڈیوس کے رابرٹ ایمونز اور میامی یونیورسٹی کے مائیکل میک کولوف نے شکر گزاری پر تحقیق کرنے کے لیے دوگروپ تشکیل دئیے ایک گروپ سے ہفتے کے دوران پیش آنے والی ایسے واقعات کے بارے میں لکھنے کے لیے کہا گیا جن پر وہ شکر گزار ہیں اور دوسرے گروپ کو ایسی چیزوں کے بارے میں لکھوایا گیا جو انہیں ناپسند ہوں۔ 10 ہفتوں کے بعد ، جن لوگوں نے شکریہ کے بارے میں لکھا وہ زیادہ پرامید تھے اور اپنی زندگی کے بارے میں بہتر محسوس کرتے دکھائی دئیے۔
امریکہ کی ییل Yale یونیورسٹی میں نفسیات اور کاگنیٹو Cognitiveسائنس کی پروفیسر لاؤری سینٹوس Laurie R. Santos نے اپنی کلاس ‘‘سائیکالوجی اینڈ دا گُڈ لائیف’’ کے شاگردوں کو ہفتے کے ساتوں روز ہر رات ہر اُس چیز کی فہرست بنانے کو کہا ہے جس کے لیے وہ شکر گزار ہیں۔ یہ شکرگزاری کی فہرست کہلائے گی۔
پروفیسر سینٹوس نے کہا کہ ‘‘یہ سننے میں کافی سادہ لگتا ہے مگر تحقیقی میں ہم نے دیکھا ہے کہ وہ طلبا جو باقاعدگی سے اس مشق کو کرتے ہیں وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔’’
امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق شکر گزاری کا احساس دل کی صحت کو بہتر بنانے کا سب سے آسان نسخہ ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دل کے ایسے مریض جو اپنی زندگی کی مثبت چیزوں پر شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں ان کی ذہنی اور جسمانی صحت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آتی ہے۔اس تحقیق کے دوران ایسے مریضوں کا جائزہ لیا گیا جنہیں دل کے دورہ پڑچکا تھا۔محققین کے مطابق مریضوں کے اندر شکر گزاری کی کیفیت ان کے مزاج، نیند کو بہتر بناتی ہے اور وہ تھکاوٹ اور ورم کی کیفیت سے کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ شکر گزاری کی کیفیت کو تحریر کرنا دل کی صحر کے لیے مفید ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ ان کے بقول ایک شکر گزار دل ہی زیادہ صحت مند ہوتا ہے اور اس کے لیے شکر گزاری کے جذبات کو تحریر کرنا ایک موثر اور آسان طریقہ ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے جنیفر لرنر، کیلیفورنیا یونیورسٹی کے یے لی، نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے ڈیوڈ ڈی اسٹینو اور لیاہ ڈکٖنز کی مشترکہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کی جن لوگوں میں شکرگزاری کی عادت پختہ ہوتی ہے وہ معاشی میدان میں زیادہ صبر وتحمل اور بہتر ول پاور کا استعمال کرتے ہیں۔
امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق لوگوں کا شکریہ ادا کرنا ویسے تو اچھے آداب کی علامت ہے ساتھ ہی آپ کے تعلقات میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔ اگر کسی کے کوئی کام کرنے پر آپ اس کے شکر گزار ہوئے تو آپ نے ایک ایسے شخص کو اپنا دوست بنا لیا جو کسی بھی مصیبت میں آپ کے کام آنے سے نہیں کترائے گا۔
شکر گزاری کی عادت جسمانی صحت میں بھی بہتری لاتی ہے۔ یہ ایک طرف تو دماغی طور پر انسان کو پرسکون کرتی ہے دوسری جانب ماہرین کی ایک تحقیق کےمطابق جسمانی صحت پر بھی مثبت اثرات ڈالتی ہے اور انسان کو مختلف اقسام کی تکالیف سے نجات دلاتی ہے۔ شکر گزاری کی عادت دماغ سے منفی جذبات کو کم کرکے اعصاب کو پرسکون کرتی ہے ۔ جب لوگ اپنی زندگی میں موجود چیزوں کے لیے شکر گزار بنتے ہیں تو ان کے اندر سے غصہ اور چڑچڑاہٹ کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جب بھی آپ کے اندر منفی جذبات پیدا ہوں اپنے آپ کو دستیاب چیزوں پر نظر ڈالیں اور سوچیں دنیا کے کتنے ہی لوگ ان سے محروم ہیں ان باتوں پرعمل کر کے آپ بہترین زندگی گزار سکتے ہیں۔
شکر مندی کا احساس اصل میں امید کی توانائی ہے ۔جوہمارے اندر نئی قوت اور مشکل حالات میں ممجتمع اور مثبت طرز فکر کا حامل رہنے کی جرات پیدا کرتی ہے ۔
دانا کہتے ہیں کہ احساسِ تشکر سے لبریز دل ہمیشہ خوش اور مطمئن رہتے ہیں ۔ایسے افراد زندگی کے معاملات میں ایک کامیاب اور مثبت شخصیت کے روپ میں سامنے آتے ہیں ۔افسوس کی بات یہ ہے غمِ روز گار نے ذہنوں کو کچھ اس طرح جکڑ لیا ہے کہ شکرانے اور احسان مندی کی تعلیمات ہونے کے باوجود دورِ حاضر کی اکثریت نہ چاہ کر بھی ان سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ شاید اسی لئے لوگوں اکثریت اصل خوشی سے کوسوں دور ہے۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخریہ شکرمندی کا احساس دل میں زندہ کیسے رکھا جائے۔ اسے اپنی فطرت کا حصہ کیسے بنایاجائے ؟
تو جناب شکرانہ اور احسان مندی درحقیقت ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہیں ۔انھیں بس اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جب ہم کسی بات یا احساس کو بار بار دہراتے ہیں تو وہ بات ذہن میں بیٹھ جاتی ہے ۔ وہ احساس پھر سے زندہ ہوجاتا ہے۔
مراقبۂ شکر — Gratitude Meditation
مراقبہ اور شکر گزاری کے جسمانی، روحانی اور ذہنی ثمرات کو دیکھتے ہوئے مغرب میں ماہرین نے مراقبہ کی ایک قسم مراقبہ شکر (Gratitude Meditation) متعارف کرائی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مراقبہ اور شکر گزاری مل کر انسان کی ظاہری و باطنی زندگی اور خوشیوں کو دوآتشہ کردیں گے۔ اپنی زندگی میں موجود مثبت چیزوں پر شکر گزار ہونا اور منفی چیزوں کے اندر بھی مثبت تلاش کرنا اس مراقبے کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
مراقبہ شکر ، مراقبہ کی ایک ایسی قسم ہے جو زندگی کی اہم چیزوں کے لئے شکرگزاری پر توجہ دیتی ہے۔ مراقبہ شکر کوئی نئی مشق نہیں ہے، پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پر لکھی کئی کتابوں کے مصنف وائن ڈائیر Wayne Dyer، جیک کورن فیلڈ Jack Kornfield، رہونڈا بیرن Rhonda Byrn ، ایم جے ریان M. J. Ryan نے شکر اور احسان مندی کے کئی طریقوں پر بات کی ہے۔ رابرٹ ایمونز Robert Emmons، لاؤری سینٹوس Laurie R. Santos ، ڈاکٹر کیتھی کیمپر Dr. Kathi Kemper نے شکرگزاری کےاثرات پر تحقیق کی اور پریما چاڈرن Pema Chodron، جان کباٹ زن Jon Kabat-Zinn، تخ نیات ہانہ Thich Nhat Hanh، ایکھارت ٹولی Eckhart Tolle، کرسٹین نیف Kristin Neff، سارہ آسٹر Sara Auster ، ٹونی روبنز Tony Robbins، دیپک چوپڑا، رچرڈ الپرٹ ، ایلی بوتھروئڈ، جینی لی ٹونر، جیسی روبنسن سمیت مراقبہ اور مائنڈ فلنیس کے کئی ماہرین نے مراقبہ شکر Gratitude Meditation کی کئی مشقیں متعارف کرائی ہیں۔
مراقبۂ شکر اس وقت دنیا کی تیزی سے مقبول ہوتا متبادل طریقہ علاج بن گیا ہے۔
جب بھی کسی لمحہ میں کچھ بھی ناگوار محسوس ہو، کچھ بھی ایسا ہو رہا ہو جس کا سامنا کرنا آسان نہیں تو بس مراقبہ شکر یعنی گریٹی ٹیوٹ میڈیٹیشن کے لیے روزانہ چند منٹ نکالنے ہوں گے۔ یہ مشقیں آپ کو تازہ دم کردیں گی۔
مراقبہ کے لئے پر سکون جگہ کا انتخاب کریں جہاں آپ بغیر کسی مداخلت کے یہ مشق کر سکیں۔شروع میں بہت سی چیزیں آپ کی توجہ ہٹائیں گی جیسے گاڑیوں کا شور،پرندوں کی آوازیا لوگوں کی باتیں۔بہتر یہ ہے کہ آس پاس موجود بجلی کے آلات اور سیل فون بند کردیں اور کمرہ بند کرلیں۔ کانوں میں بھی روئی کا پھایا رکھ لیں۔ جب آپ مراقبے کے عادی ہو جائیں گے توکہیں بھی یہ مشق کر سکتے ہیں۔ مراقبہ کے لیے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں اگر آپ اس میں تکلیف محسوس کرتے ہیں توکسی گدی یا کرسی پر بیٹھ سکتے ہیں،یا دیوار سے ٹیک لگا لیں۔
مراقبے کے دوران آپ کو سانس پر کنٹرول کرنا ہے کیونکہ گہرے سانس جسم اور ذہن کو سکون دیتے ہیں۔پرتاثیر مراقبہ وہی ہے جس میں آپ کی پوری توجہ سانس پر ہو۔ ناک کے ذریعے سانس اندرلیں اورباہر نکالیں۔منہ بند رکھیں لیکن پرسکون انداز میں رہیں۔
کسی چیز پر توجہ دینا پُراثر مراقبے کا اہم حصہ ہے۔ مقصد ذہن سے اس سوچ کو دور کرنا ہے جو دباؤ کا باعث ہے۔ سانس کی آمدورفت کو معمول پر رکھتے ہوئے ، اللہ کی دی ہوئی لاتعداد نعمتوں کو یاد کرنے کی کوشش کیجئے اور کچھ نہیں تو بس محسوس کرنا شروع کر دیجئے۔ اپنے لبوں سے شکرانے کے الفاظ ادا کیجئے اور تہہ دل سے اللہ کی ہر نعمت کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کو سننے، دیکھنے، سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے ، اسی کیفیت میں اب بالکل آرام اور اعتماد کے ساتھ مسکراتے ہوئیے اپنی آنکھیں کھول لیجیے ۔
شکر گزاری کے یہ الفاظ کامیابی کا پیغام ہیں۔ یہ خوشی کا پیغام ہے جسے ہمارا دماغ ایک مثبت عمل کی حیثیت میں قبول کرتا ہے۔ دل کے لیے یہ الفاظ ہم آہنگی اور طمانیت کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے جیسے گریٹی ٹیوٹ میڈٹیشن کی مشق کو دہراتے جاتے ہیں اینڈورفن Endorphin اور سیروٹینین Serotoninکی مقداروں میں توازن بھی آتا جاتا ہے۔ یہ توازن اسٹریس اور ڈپریشن میں کمی اور خود اعتمادی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
مائنڈ فُل نیس — Mindfulness
مراقبہ کے لیے ماحول یا وقت میسر نہ ہوتو آپ مائنڈ فلنیس گریٹی ٹیوٹ کی مشقیں بھی کرسکتے ہیں۔ یوں تو ان مشقوں کو لیٹ کر ،بیٹھ کریا چلتے ہوئے کسی طرح بھی کیا جا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ آپ آرام دہ حالت میں ہوں ۔
آئینے کے سامنے ایک بار روزانہ تو ضرور جاتے ہوں گے۔اس لئے سب سے پہلے ایک چٹ پر شکریہ لکھ کر آئنے پر چسپاں کردیجئے ۔ اب جب آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے سراپے کا جائزہ لیں تو ایک منٹ خود کو دیجئے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھیئے اور اپنے لمس کو محسوس کیجئے۔ سوچئے وہ کون سا عضو ہے جو اگر نہ ہوتا تو آپ کو کیا فرق پڑتا۔
سب سے پہلے تو اسی کا شکر ادا کیجئے کہ اللہ تعالی نے آپ کو آنکھوں کی نعمت اور ان آنکھوں میں روشنی کی بیش قیمت دولت سے سرفراز کیا ہے۔ اپنی آنکھوں کو اپنے چہرے کو غور سے دیکھیں پھر آنکھیں بند کریں اور یہ سوچیں کہ آپ دیکھ نہیں سکتے…. خوبصورت دن، تاروں بھرے آسمان، ٹھنڈی ہواوں سے بھری شام ، ڈوبتے سورج اور خوبصورت درختوں کو آپ دیکھ نہیں سکتے ۔
اب آپ آنکھیں کھولیں اپنی آنکھوں کو غور سے آئینے میں دیکھیں ۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر اس بات پر شکر ادا کریں کے آپ دیکھ سکتے ہیں اور اس وقت جو مسرت اور خوشی آپ محسوس کرتے ہیں وہ ہوتی ہے شکرگزاری کی اصل روح!
کیا آپ نے اپنی آتی جاتی سانس کا شکر ادا کیا؟ کیا آپ نے کبھی سورج ہوا پانی خوراک اور اپنی صحت کا شکر ادا کیا؟کیا آپ نے کبھی اپنی آنکھوں کا شکریہ ادا کیا جن کی بدولت آپ کئی نعمتوں کو دیکھتے ہیں؟ کبھی اپنے ذہن ، اور دوسرے حواس کا شکریہ ادا کیا ؟ کیا آپ نے کبھی اس خوبصورت صبح کا خیر مقدم کیا جو ایک تازہ دم زندگی کی نوید لے کر آئی ہے ؟ کیا آپ نے اپنے آفس میں موجود اسسٹنٹ، ریسپشنیسٹ، آفس کولیگز، آفس میں موجود مشینوں اور دیگر سہولیات کا شکرادا کیا ہے کہ یہ آپ کو میسر ہیں ،کیا آپ ان رشتوں کا شکرگزار ہے جنہوں نے آپ کے لیےوقت اور مال کی قربانی دی ؟ کیا آپ ان لوگوں کے شکر گزار رہے ہیں جو آپ کی گلیاں ، گھر، آفیس ، واش رومز وغیرہ روز آپ کے لیے صاف کرتے ہیں؟ ….
شکر ادا کرنے کے لیے ہمیں کوئی وجہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ حالانکہ وجہیں تو بہت سی ہوتیں ہیں۔ زندگی میں ان گنت مہربانیاں اور نعمتیں ہیں جو ہم پر قدرت ہر لمحہ نچھاور کرتی رہتی ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ نعمتیں گنتے عمر گزر جائے تو ہم گن بھی نہ پائیں۔ تاہم جب بھی آپ کو مایوسی کا احساس ہو تو اپنے ارگرد نظر دوڑائیں اور ان چیزوں کو دیکھ لیں جو آپ کے کام آتی ہیں، خوشی دیتی ہیں یا جن کے بغیر زندگی کا تصور ادھورا لگتا ہے، تو شکر گزاری خودبخود پیدا ہونے لگتی ہے، خود سوچیں اگر ہاتھ نہ ہوتے تو یا ٹانگوں سے محروم ہوتے تو زندگی کیسی ہوتی؟
جو لوگ شکر گزاری کی عادت اپنا لیتے ہیں، ان کے اندر زندگی کے لیے امید بھی بڑھتی ہے۔ اس کے لیے آپ کوئی بھی طریقہ کار اختیار کرسکتے ہیں یا کم از کم اپنے ذہن کے اندر تو ان چیزوں کے لیے شکر گزار ہوں جو زندگی میں آپ کو ملی ہوئی ہیں۔
یوں تو مائنڈ فلنیس کی مشق کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے مگر اسے صبح کے وقت کرنا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے، صبح کے وقت کسی کامیابی کا تصور دماغ پر پورے دن گہرا اور مثبت اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے اپنے حالات و واقعات و جذبات کو چھیڑے بغیر صبح اٹھتے ہی اللہ اور اس کی عطاکردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی عادت ڈالئے۔ آپ خود محسوس کریں گے کہ شکر ادا کرنے سے دل گھبرانے کی کیفیت کم ہوتی جائے گی۔ دل و دماغ کو سکون ملنے لگے گا۔
شکریہ لکھ کر ادا کیجیے — Gratitude Diary
کبھی تو زندگی میں آپ نے خط لکھا ہو گا۔اگر نہیں تو اسکول میں تو ضرور خط لکھنا سیکھا ہوگا۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خط لکھیے۔ اس شخصیت کے نام جس نے آپ کو متاثر کیا۔ یہ شخصیت آپ کے والدین ، دادا دادی نانا نانی یا پھر کوئی استاد بھی ہو سکتاہے۔ اس ہستی کے نام ایک ‘‘خطِ شکرانہ’’ تحریر کیجئے۔ان کی خوبیاں، اچھائیاں، ان کی وہ بات وہ عادت جس سے آپ متاثر ہوئے اسے تحریر کیجئے اور اس ہستی کو احساس دلائیے کہ اس کے اس نیک عمل سے آپ کوکیا فائدہ حاصل ہوا۔ اس ہستی کی خوبیوں اور اچھائیوں کو بہت دل سے نکلے لفظوں میں بیان کیجئے اور لفافہ بند کر کے بھیج دیجئے۔
اگر خط لکھنا یا بھیجنا ممکن نہیں تو ڈائری لکھئے۔ روزانہ زندگی کا شکر ادا کرنے کی عادت ڈالئے۔ کچھ ہے یا کچھ نہیں ۔برا ہے یا بھلا ہے ۔شکر ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو زندگی کی نعمت سے نوازا ہے ۔تو بس اسی کا شکر ادا کرنا بھی ایک بہت اچھا عمل ہے ۔
امریکی مصنفہ سارہ بین بریدناکSarah Ban Breathnachاپنی کتاب سمپل ابنڈنس Simple Abundance (یعنی آسان فراوانی) میں لکھتی ہیں:
‘‘ہر رات سونے سے پہلے سارادن کی کم سے کم پانچ ایسی چیزیں یا واقعات لکھیے جس کے لئے شکر ادا کرنا چاہیے ۔کوئی دن ایسا ہوگا جب آپ شکرانے کی ایک طویل فہرست لکھنے کے لئے بےتاب ہوں گے اور کوئی دن ایسا بھی ہوگا جب آپ کے پاس چند سادہ سے لفظوں کے سوا شاید کچھ اور نہ ہو۔
مہینے کے اختتام تک جیسے جیسے آپ کی یہ ڈائری بھرتی جائے گی ویسے ویسے آپ اپنے اندر ایک نئی تبدیلی محسوس کریں گے۔ اپنے خیالات اور احساسا ت میں ایک نئی تبدیلی جو کسی بھی حال میں آپ کے اندر شکرانے کی کیفیت پیدا کردے گی۔بس یوں سمجھیے کہ آپ کے باطن میں اندرونی بایولوجیکل کلاک کی طرح ایک خود کار شکرانہ کابٹن بھی فکس ہو جائے گا’’۔
کتاب ‘‘شکریہ’’ Thanksمیں مصنف ڈاکٹر رابرٹ ایمونز اپنی تحقیق کا ذکر کرتے ہیں کہ دو گروہوں پر تجربہ کیا گیا۔ ایک کو اپنی ڈائری میں ہفتہ وار پانچ چیزیں تحریر کرنے کو کہا گیا جس کے لئے وہ شکر گزار ہیں اور دوسرے گروہ کو وہ پانچ چیزیں تحریر کرنے کو کہا گیا جس کے لئے وہ شکوہ کناں ہیں۔
پہلے گروہ کو اپنی خوشی، اطمینان، جسمانی اور ذہنی صحت میں اضافے کا اظہار کرتے پایا گیا جبکہ دوسرے گروہ کا تجربہ اس کے الٹ تھا۔
نعمتوں کو شمار کرنا ان کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔ جبکہ شکایات اپنی اہمیت کھونے لگتی ہیں۔
دعا ، ذکر اور سجدہ شکر- Chant and Prayer
اللہ نے بہت زیادہ نعمتیں دی ہیں جن کا شکریہ ادا کرنا تو ہم سب پر فرض ہے لیکن اکثر لوگ اس بارے میں سوچتے بھی نہیں، ہم ہیں کہ بس شکایات لیے خفا خفا سے بیٹھے رہتے ہیں۔
یاد رکھیئے ….!اللہ کا شکر وہ نعمت بھی عطا کرتاہے جو کبھی مانگنے سے نہیں ملی ہوتی۔ ناشکری ایک ناپسندیدہ عمل اور منفی سوچ ہے۔ناشکری کے الفاظ بےچینی اور اضطراب کو بڑھا دیتے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی کیفیت ہوکتنے ہی پریشان یا ٹوٹے ہوئے ہوں۔ بس اپنے لبوں کو حرکت دیجئے اور ایک منٹ تک شکر گزاری کے الفاظ دہرانے کی عادت ڈالئے ۔
دو ستو…. ! یہاں یہ مت سوچئے گا کہ ابھی تو سخت الجھن میں ہوں آخر کس بات کا شکر کروں؟ یہ الفاظ آپ کے اندر بے چینی اور اضطراب کو بڑھا دیں گے۔ ناشکری ویسے بھی ایک نا پسندیدہ عمل اور منفی سوچ ہے۔ اس سے بچنے کے لیے بس زیرِ لب دہرائیے یا دھیمی آواز سے یہ کہتے ہوئے ہونٹوں کو حرکت دیجئےکہ
‘‘الحمدللہ، یااللہ تیرا شکر ہے’’۔
آخر میں سب سے اہم بات اور سب سے اہم عمل، نماز اللہ تعالی کا شکرانہ بھی ہے۔ سب مسلمان جانتے ہیں کہ نماز دین کا ستون ہے۔ مومن کی معراج ہے ۔ نماز باری تعالی کے بیش بہا انعامات کا شکرانہ بھی ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لوگ جو نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں باری تعا لی کو بہت پسند ہیں ۔
ستمبر 2020ء