Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

دل اپنا دماغ رکھتا ہے

 

میرا دل نہیں مانتا۔ایسا نہیں ہوسکتا۔
آپ میرا یقین کیجئے ….میرا دل کہتا ہے کہ اصل بات کچھ اور ہے۔
نہ جانے زندگی میں کتنی بار آپ کو بھی ایسا کچھ کہنے کی ضرورت پیش آئی ہوگی ۔دل و دماغ کے درمیان کشمکش سے تو ہر کوئی گزرتا ہے۔ کئی بار زندگی میں ایسے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں جب دماغ اور دل مختلف سمتوں پر جانے لگتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کا فیصلہ الگ اور دماغ کا فیصلہ الگ ہوتاہے۔


ارے ایک منٹ رکئے ۔کیا میں نے صحیح کہا کہ دل فیصلہ کرنے کی صلاھیت رکھتا ہے ۔
آپ کہیں گے ۔جی بالکل صحیح کہا مگر دل کا فیصلہ زیادہ تر جذباتی اور غیر حقیقی ہوتا ہے ۔ دماغ کا حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتاہے ۔
جی بالکل صحیح جواب دیا ہے آپ نے ۔
مگر قارئین اکرام دل کے فیصلے کو محض جذباتی اورحقیقت سے دور سمجھنا بھی غلط ہے ۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جتنی بار آپ کے دل نے گواہی دی معاملے کے آخر میں آپ کا دل ہی صحیح اور سچا ثابت ہوا ہوگا۔
یہ دل کیوں بولتا ہے،جب کہ بولنے کاکام زبان کا ہے؟

یہ دل کیوں سوچتا ہے جب کہ سوچنے کا کام دماغ کا ہے….؟
اور یہ دل کیوں گھبراتا ہے جب کہ صحیح غلط کی نشاندہی کا کام شعور کا ہے؟
مائینڈ فلنیس ان سوالوں کا کیا جواب دیتی ہے۔ یہ بتانے سے پہلے کچھ بات کرتے ہیں ان حالیہ تحقیقات کی جو بتا تی ہیں کہ انسانی دل درحقیقت جسم میں نصب پورے جسم کو خون پہچانے والی محض ایک پمپنگ مشین ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ ہے۔ کچھ ایسا جس پر سائنس دانوں نے ابھی تک توجہ نہیں دی یا جسے محض جذباتیت، تصوراتی یا غیر حقیقی سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہیومن اور چائلڈ ڈیولپمنٹ کے محقق اور کتاب Heart-Mind Matrixکے مصنف جوزف پیئرس Joseph Chilton Pearce قلبِ انسانی کے متعلق کہتے ہے کہ
‘‘ہمارا دل ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے۔’’
وہ کردار کیا ہے….؟


اسے سمجھنے کے لئے پہلے آپ کو بتاتے ہیں ان جدید سائنسی تحقیقات اب بتاتی ہیں کہ انسانی دل دماغ کے تابع نہیں ہوتا کیونکہ قدرت نے انسانی دل میں اس کا اپنا ایک چھوٹا سا دماغ فٹ کیا ہوا ہے۔ بقول جوزف پیئرس [*1] ‘‘دل کا کام ایک پمپ سے کہیں زیادہ لامحدود ہے۔ دل کے خلیات میں 40 فیصد نیورون (دماغی خلیات)ہوتے ہیں۔ دل منی ریڈیو سٹیشن کی طرح برقی مقناطیسی تعدد Electromagnetic Frequency پیدا کرتا رہتا ہے جس کے ذریعے وہ ہر ایک خلیہ تک بدلتی دنیا سے اپنے تعلقات کا پیٖغام بھیجتا رہتا ہے۔ یہ پروگرام ایک زاویہ نظر کی تبدیلی paradigm shift کی نمائندگی کرتا ہے جو خلیات کے ساتھ ساتھ سوچ بھی تبدیل کردیتی ہے’’۔

دل اپنا دماغ رکھتا ہے


کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر Dr. J. Andrew Armourایم ڈی، پی ایچ ڈی   کی تحقیقات کے مطابق انسانی دل کے اندر تقریباًچالیس ہزار اعصابی خلیےNerve Cells  پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں۔ مزید برآں دل کے یہ خلیے دماغ کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں۔
دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضا حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔ ڈاکٹر جے اینڈریو آرمر نے تحقیقات کے تحت ایک نئی میڈیکل فیلڈ نیوروکارڈیالوجیNeuro Cardiology کی بنیاد رکھی ہے ۔ یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام Nervous System، انھوں نے دل کے اعصابی نظام کے لیے‘‘دل کے اندر چھوٹا سا دماغ’’ A little Brain in the Heartکی اصطلاح وضع کی ہے۔[*2]

دل کو دھڑکنے کےلیے دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی ،یہی وجہ ہےکہ دل کی پیوندکاری کے آپریشن میں دل اور دماغ کے درمیان تمام رابطے کاٹ دیے جاتے ہیں اور جب دل نئے مریض کے سینے میں لگایا جاتا ہے تو وہ پھر سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے ۔ڈاکٹر آرمر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں
‘‘جدید سائنس ا نسانی دل کے متعلق اب یہ جاننے لگی ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں۔’’ انسانی دل کے پاس اپنا چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جو اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کرلے۔ ان کا کہنا ہے کہ دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی محدود یاداشت Short Term Memory بھی پائی جاتی ہے ۔
دل کے اعصابی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے متعلق جاننے سے علم میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق انسانی دل نہ صرف دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے بلکہ دماغ کی مدد کے بغیر آزادنہ طور پر بھی فرائض ادا کرتا ہے۔

دل کا دماغ سے دو طرفہ رابطہ


1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ اُن کے مطابق کام کرتا ہے،لیکن 1970ءکی دہائی میں امریکی ریاست اوہائیو Ohio کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے معروف موٴقر سائنسی جریدے امریکن فزیالوجسٹ American Psychologist کے مارچ 1978 شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ تحقیق کا عنوان تھا:[*3]
Two-way communication between the heart and the brain
اُنہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضا کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اُسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپنی ہی کوئی منطق ودانش استعمال کرتا ہے۔ مزید برآں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے۔
تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل، الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل انسانی جسم میں سب سےزیادہ طاقتور الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو ایک تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرومیگنٹک فیلڈ، دماغ کی پیداکردہ میگنیٹک فیلڈ سےپانچ سوگنا زیادہ طاقتور ہوتی ہیں۔ ان کو جسم سے کئی فٹ کے فاصلے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔

محققین کہتے ہیں کہ انسانی دماغ اور انسانی جسم دل سے آنے والی معلومات کے مطابق خود کو ڈھال سکتے ہیں اور ایک منفرد تجربۂ زندگی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔کیونکہ دماغ اور بقیہ جسم، دل سے آنے والی اس انفارمیشن کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر اس تجزیہ کے نتائج کو جذبات کی زبان میں دل تک دوبارہ پہنچاتےہیں ۔
دماغ سے آنے والے ان نتائج کے جواب میں انسانی دل پورے جسم کو اعصابی اور کیمیاوی Neural and Hormonalسگنل بھیجتا ہے اور اُن میں تبدیلی لاتا ہے ۔
یہی تبدیلی زندگی سےمتعلق ا ایک خاص قسم کا تجربہ ہماری شخصیت پر شبت کردیتی ہے جو رویوں ،مزاج میں چھلکتا ہے۔

دل کی سننا کتنا ضروری ہے ؟

جدید سائنسی تحقیقات کے موجودہ دلائل یہ سمجھانے کے لئے کافی ہیں کہ دل کی باتوں کو نظر انداز مت کیجئے ۔ دل کی سننا اور ماننا سیکھئے مگر ا س کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے دل کے اندر موجود اس کے چھوٹے سے دماغ کے ساتھ رابطے میں رہیں ۔
قارئینِ اکرام….! یہی مائینڈ فلنیس کا نیکسٹ لیول ہے۔ اب تک آپ نے سیکھا کہ مائینڈفلنیس طرزِ زندگی کے مراقبے اور مشقیں دماغ پر کس طرح سے مثبت اثرات مرتب کرکے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لاتی ہیں۔مشقیں کس طرح حال میں جینے کے فن سے آگاہ کرتی ہیں۔
اب اس لیول میں آپ سیکھنے جارہے ہیں کہ مائینڈ فلنیس میڈیٹیشن اور دیگر مشقیں آپ کا آپ کے دل سے رابطہ کس طرح سے شفاف اور مضبوط بناتی ہیں ۔

 

 

 

(جاری ہے)
مائنڈ فلنیس قسط 39
ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ نومبر 2018ء

مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں:
facebook.com/MindfulnessPakistan

یہ بھی دیکھیں

مائنڈ فُلنیس – 17

   قسط نمبر 17 ...

مائنڈ فُلنیس – 16

   قسط نمبر 16 ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *