Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. โปรดดู การแก้ข้อผิดพลาดใน WordPress สำหรับข้อมูลเพิ่มเติม (ข้อความนี้ถูกเพิ่มมาในรุ่น 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
ایسٹر آئی لینڈ – روحانی ڈائجسٹـ
วันอังคาร , 3 ธันวาคม 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

ایسٹر آئی لینڈ

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..

 


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

کوئی نہیں جانتا کہ ایسٹر آئی لینڈ جیسے دور دراز ویران آتش فشانی جزیرے کو جہاں پانی اور درخت کی قلت ہے رہنے، کے لیے کیوں منتخب کیا گیا…. وہاں کئی نسلوں کے سرخ، سفید اور سیاہ لوگ کب سے ایک ساتھ مقیم ہیں….آخر ان کے اجداد ایسی کون سی قوت سے واقف تھے جو سخت پہاڑوں کو موم کی طرح کاٹ کر مجسمے تیار کرلیتے تھے اوران ٹنوں وزنی مجسموں کی یہاں کس طرح پہنچایا گیا….
آخر اس جزیرے کی تحریروں اور ہزاروں کلومیٹر دور قدیم تہذیب موہنجوداڑو کی تحریروں میں اتنی مماثلت کیونکر ہے….!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسٹر آئی لینڈ

عجائب اور اسرار سے بھرا چھوٹا سا جزیرہ

 

دنیا کے پراسرار مقامات میں سے ایک اہم مقام ‘‘جزیرہ ایسٹر’’ بھی ہے۔ یہ جزیرہ جنوبی امریکہ کے مغرب میں سمندر کے بیج الگ تھلگ موجود ہیں۔ چلی اور پیرو یہاں سے قریب ترین فاصلے پر موجود ہیں، لیکن یہ فاصلہ بھی چار ہزار کلومیٹر بنتا ہے!
خشک زمین کا قریب ترین علاقہ ایک جزیرہ پٹکارین ہے، جو دو ہزار کلومیٹر دور واقع ہے۔
ایسٹر آئی لینڈ کا رقبہ صرف پچیس کلو میٹر ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہاں کے باسی کب کہاں سے اور کیوں آئے….؟انہیں سمندر میں اتنا دور آنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی….؟ پھر انہوں نے یہ جزیرہ تلاش کیسے کرلیا اور آخر اسی بے آب و گیا اجاڑ خطے پر رہنے کا فیصلہ کیوں کیا….؟
یہ آتش فشانوں کے لاوے سے بننے والا نیم بنجر جزیرہ ہے۔ یہاں پانی کی سخت قلت ہے۔ دنیا کو پہلی مرتبہ اس کے وجود کی خبر1722ء میں ہوئی۔ وہ ایسٹر کا دن تھا، جب ایک ڈچ سیاح جیکب روگیوین (Jacob Roggeveen)یہاں وارد ہوا۔
وہ چاروں اطراف سمندر سے گھرے اس جزیرے پر ملی جلی نسل کے لوگوں کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ یہاں اس کا استقبال گہرے سیاہ، سفید اور سرخ بالوں والے لوگ کر رہے تھے۔
ایسٹر کے دن دریافت ہونے کی مناسبت سے اسے ایسٹر آئی لینڈ کا نام دیا گیا۔ روگیوین کے بعد یہاں کیپٹن کک آیا اور اس کے بعد1914ء میں ایک برطانوی خاتون کیتھرین یہاں آئی، جس نے اس جزیرے کے حالات قلمبند بھی کیے لیکن وہ محفوظ نہیں رہ سکے۔ اس کے باوجود وہ دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس نے بتایا کہ یہ چھوٹا سا جزیرہ عجائب اور اسرار سے بھرا پڑا ہے۔
ابتداء میں جو سیاح اس جزیرے پر پہنچے تو ان کی پہلی توجہ کا مرکز وہاں موجود دیو قامت مجسمے تھے۔ یہ مجسمے دو چار نہیں بلکہ ان کی تعداد تو سینکڑوں میں تھی۔ یہ تمام مجسمے زمین پر یوں بکھرےپڑے تھے جیسے کھلونے ہوں، مگر حیرت کی بات یہ بتائی جاتی ہے کہ ان مجسموں کی تراش خراش اس مقام پر نہیں کی گئی تھی۔ ان کی تراش خراش کسی اور جگہ مکمل کرکے انہیں یہاں لایا گیا تھا۔


یہ کل 887 مجسمے ہیں، جن کا قد 33 فٹ سے 66 فٹ کے درمیان ہے۔ ان میں سے کئی مجسموں کا وزن پچاس ٹن کے لگ بھگ ہے۔ زمین پر پڑے ہوئے ان مجسموں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ منتظر ہیں، کسی کے آرڈر کے….کوئی انہیں حکم دے اور وہ حرکت شروع کردیں۔ ان مجسموں کے لیے ہیٹ بھی بنائے گئے ہوں گے، جو اب بہت دور کہیں دوسری طرف پڑے ہوئے ملے ہیں۔
یہ مجسمے ہی نہیں بلکہ یہاں پتھر کی بنی دیواریں اور مندر کے پختہ پلیٹ فارم ظاہر کرتے ہیں کہ ماضی میں جو لوگ یہاں آباد تھے، وہ پتھر کے کام میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ اتنی مہارت کہ سخت آتش فشانی چٹانوں کو مکھن کی طرح کاٹ کر اور ٹنوں وزنی پتھروں کو تراش کر اور اٹھا کر جزیرے کے چارروں کونوں میں پھیلا دیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مجسمہ بنانے والےلوگ پولی نیشیائی نہیں تھے، کیونکہ ان کے فن کے نمونہ اور ثقافت میں بہت سی غیر پولی نیشن خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسٹر آئی لینڈ پر موجود لوگ اپنے اجداد سے بہت زیادہ متاثر تھے۔
لیکن وہ لوگ کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور انہوں نے ایسٹر آئرلینڈ جیسے ایک دور دراز ویران مقام کو دنیا کی سب سے عظیم مجسموں کی نمائش کے لیے کیوں منتخب کیا….؟ یہ اور اس قسم کے بے شمار ایسے سوال ہیں جنہوں نے بہت سے محققین کو پریشان کر رکھا ہے۔
آج کل ایسٹر آئی لینڈ کے آباد کاروں کی تعداد صرف پانچ ہزار ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں ایسٹر آئی لینڈ پر دو جُدا جُدا گروپ آباد تھے۔ پولی نیشیائی یا چھوٹے کانوں والے اور غیر پولی نیشیائی لمبے کانوں والے جو ایک مجسمے کی علامت کے طور پر اپنے کانوں کو لمبا کیا کرتے تھے۔ آج کل ایسٹر آئی لینڈ پر جو لوگ آباد ہیں ان میں سے زیادہ تر اپنا تعلق چھوٹے کانوں والوں کی نسل سے جوڑتے ہیں…. لیکن چند خاندان ایسے ہیں، جو خود کو لمبے کان والوں کی نسل کا وارث قرار دیتے ہیں اور یہی لوگ مجسمے بنانے والے تھے۔
ایک طویل عرصہ کے دوران جس میں چھوٹے کانوں والوں نے مجسمے بنانے میں بڑے کانوں والوں کی مدد کی، لیکن جلد ہی وہ اس محنت سے تنگ آگئے اور لمبے کانوں والوں سے اپنا تعلق ختم کرلیا۔
ایسٹر آئی لینڈ کے بے شمار مجسموں میں مشترک اور نمایاں لمبے کانوں اور بغیر ٹانگوں کی اشکال ہیں جو پتھر کے بنے مندر کے پلیٹ فارم جو ‘‘تایو’’ کہلاتے ہیں پر نصب کی گئی ہیں۔ آتش فشانی مادہ سے بنے ہوئے زردی.مائل سرمئی پتھر کے یہ مجسمے ایک ہی انداز میں بنائے گئے ہیں۔ یہ ایک آتش فشانی چٹان ہے جسے رانو راراکو نامی آتش فشاں پہاڑ سے یہاں لایا گیا تھا۔ یہ پہاڑ اس جزیرے کے تین آتش فشانی پہاڑوں میں سے ایک ہے۔ آتش فشاں کے دہانے کی دیوار کے باہر اور اندر جہاں یہ مجسمے بنائے گئے تھے، وہاں بہت سے نامکمل مجسمے اور بہت سی پتھر کی بنی سادہ کلہاڑیاں بھی ملی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجسمے بنانے کا یہ کام اچانک روک دیا گیا تھا۔
ناروے کے ایک ماہر انسانیات تھور ہیر ڈل Thor Heyerdahlکی معیت میں1955ء میں ایک سائنسی تحقیقاتی گروپ یہاں آیا اور اپنی دانست میں ان اسرار کو حل کرکے چلا گیا۔ تھور ہیئر ڈل کی زیرِ نگرانی ماہرین آثارقدیمہ نے یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ مجسمے کیسے بنائے جاتے تھے، ان پر کئی تجربات کیے۔ ان تجربات سے معلوم ہوا کہ درمیانی جسامت کے ایک مجسمے کو اس جزیرے پر بسنے والے 1180 افراد مل کر کھینچ سکتے ہیں۔
25 ٹن کے دس فٹ اونچے ایک مجسمے کو لکڑی کے دو شہتیروں کی مدد سے زمین سے اُٹھا کر پلیٹ فارم پر نصب کرنے کے لیے 112 افراد کو 18 دن لگ گئے ہوں گے۔
تھورہیرڈل نے ان پراسرار مجسموں کے متعلق جو کچھ اخذ کیااس میں ایک اہم بات یہ تھی کہ جو لوگ ابتداء میں اس جزیرے پر پہنچے، انہوں نے پتھر تراشنے کے بہت سے چھوٹے چھوٹے اوزار بھی دیکھے اور سینکڑوں ایسے مجسمے بھی دیکھے جو ابھی مکمل نہیں ہوسکے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے مجسمہ سازی کے کام کو اچانک ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہو اور تمام لوگ اپنے اوزار چھوڑ کر چلےگئے ہوں۔

 

یہ جاننے کے لیے کہ ایسٹر آئی لینڈ میں مجسمے کیسے بنائے گئے ، ایک تجربے کے دوران تھور ہیرڈل درمیانی جسامت کے ایک مجسمے پر بیٹھا اُسے نصب کروارہا ہے ۔

 


1960ء کی دہائی میں ایک مصنف ایرک فان ڈینیکنErich Von Daniken یہاں آیا اور اس نے جزیرے کے بارے میں یہ رائے دی کہ عہدِ قدیم میں خلاء سے آنے والے لوگوں نے زمین کے باشندوں پر مہربانیاں کیں اور ان کی یادگار ایسٹر آئی لینڈ کے پراسرار مجسمے ہیں۔
ایرک نے اپنے نظریات ایک کتاب چیریٹس آف دی گاڈز میں پیش کیے، جس نے تہلکہ مچا دیا۔ تھور ہیرڈل کو چیلنج دیا گیا کہ وہ ایرک کے سوالات کے جواب دے۔ اس بحث مباحثے میں جزیرے کی جانب لوگوں کی توجہ بڑھتی چلی گئی۔ گو کہ ایرک کے بیشتر نتائج مفروضہ قرار دیے گئے مگر جزیرے کی پراسراریت میں کمی نہیں آئی۔ مثلاً دنیا کے اس حصے میں واقع جزیرے پر رنگ برنگے کئی نسل کے لوگ کس طرح جمع ہوگئے۔
اس کے متوازی ایک اور خیال بھی جنم لیتا ہے کہ ایسٹر جزیرہ براعظموں اور تہذیبوں سے بہت دور الگ تھلگ واقع ہے، یہاں کے رہنے والے ہماری نسبت سورج، چاند اور ستاروں کے متعلق زیادہ اور باقی دنیا کے متعلق کم واقف ہیں۔ اس جزیرے میں کوئی درخت نظر نہیں آتا کیونکہ یہ جزیرہ کسی آتش فشاں پہاڑ کے دھانے سے نکلے ہوئے جزیرہ نما دیوہیکل پتھر کی مانند ہے ۔ ایک عام خیال کے مطابق یہاں پتھر کے مجسموں کی نقل و حرکت کے لیے درختوں کے بڑے بڑے گول تنے استعمال کیے ہوں گے، لیکن یہ خیال غلط معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہاں کی زمین آتش فشانی چٹان ہونے کی وجہ سے ناقابل کاشت ہے اور درخت اُگنے کا بھی کوئی نام و نشان نہیں۔ پھر بھی اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ درست ہے تو پھر وہاں یہ کام کرنے کے لیے کم از کم دو ہزار افراد کی ضرورت پڑے گی، لیکن دو ہزار افراد کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لیے یہ خطہ مادی لحاظ سے بالکل ناموزوں ہے۔ آج چند ہزار سے زائد لوگ یہاں نہیں بستے۔
قدیم زمانے میں سنگتراشوں کو کسی دوسرے جزیرے سے یہاں تک خوراک اور کپڑا مہیا کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ پھر یہ دیوہیکل مجسمے تراش کر یہاں کس نے اور کیوں بکھیر دیے تھے….؟
کس نے ان کو دور سے اٹھا کر موجودہ جگہ پر لا رکھا تھا….؟ لکڑی کے درخت کہاں سے آئے….؟
درخت کے تنوں سے کس طرح نقل و حرکت کا کام لیا گیا….؟ ہیٹ جو ابھی دیوہیکل مجسموں نے پہننے تھے ایک دوسری پہاڑی پر کیوں تراشے گئے….؟
کیا وجہ ہے کہ تمام مجسمے سمندر کےساحل کے قریب مختلف جگہوں پر پڑے ہوئے پائے گئے۔ حالانکہ ان کو جزیرے کے درمیان ہونا چاہیے تھا….؟
وہ کون سی ایسی مافوق الفطرت طاقت تھی جس کے بل بوتے پر تمام نقل و حرکت موقع پر رونما ہوئی….؟
جزیرہ ایسٹر کے مجسموں کی طرح پراسرار ان کی تحریر بھی ہے۔ ایسٹر آئی لینڈ پر یورپی لوگوں کے قدم پہنچے تو مقامی آبادی 600 نفوس پر مشتمل تھی، جن میں کئی لوگ جزیرے کی مقامی پراسرار تحریر‘‘رونگو رونگو’’ پڑھ سکتے تھے۔ رونگو رونگو جزیرے کی چٹانوں اور تختیوں پر کندہ کی گئی تھی۔ یہ ہیرو غلافی قسم کا طرز تحریر تھا۔ جس میں 500 مختلف انسانی شکلیں اور کچھ دوسرے ڈیزائن استعمال کیے گئے تھے۔
ہسپانوی لوگ اس جزیرے کے لیے بیماریوں اور غلامی کے علاوہ بلا جواز قتل کے تحائف لائے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 600 میں سے صرف 100 افراد باقی بچ سکے۔ مگر تحریریں…. انہیں اب کوئی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ جتنے پڑھے لکھے تھے سب مارے جا چکے تھے۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ رونگو رونگو میں کیا بات کہی گئی تھی….؟

 

‘‘رانگورانگو ’’ اور موہنجوداڑو کے رسم الخط میں بنیادی فرق یہی نظر آتاہے کہ رونگو رونگو کے حروف دوہری لکیر سے لکھے جاتے ہیں جبکہ موہنجوداڑو کے حروف ایک لکیر سے ….!

 

 


لیکن یہ کوئی اتنا بڑا معمہ نہیں جتنا چونکا دینے والا عجوبہ آگے بیان ہوگا۔ ایسٹر آئی لینڈ سے دور بہت دور ایک ایسا طرز تحریر دیکھنے میں آیا ہے، جو انسانی دماغ کو چونکا دیتا ہے۔
یہ مقام ہے پاکستان کی قدیم وادیٔ سندھ۔ ساڑھے چار ہزار برس قبل یہاں پر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیبیں پھل پھول رہی تھیں۔ جہاں انتہائی عمدہ منصوبہ بندی کے تحت عظیم شہرتعمیر کیے گئے۔ جہاں پانی کا بہترین سسٹم قائم تھا۔ 1500 ق م میں شمال سے کئی حملہ آور آئے اور ان ہرے بھرے شہروں کو مردوں کا شہر بنا ڈالا۔ یہ لوگ اپنے دور کے اعتبار سے نہایت ترقی یافتہ تھے۔
ان کا اپنا ایک رسم الخط بھی تھا۔ ان کی ہم عصر قوم سمیری بھی بہت ترقی یافتہ تھی اور ان کا بھی اپنا جداگانہ انداز تحریر تھا، جسے آج پڑھ لیا گیا ہے مگر موہنجوداڑو کے رسم الخط کی گتھی آج تک نہیں کھل سکی ہے۔
ایسٹر آئی لینڈ اور موہنجوداڑو دو انتہائی فاصلے پر واقع ہیں …. تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 4500 سال پہلے ان دو مقامات کے دوران کسی بھی تہذیبی ربط کے بارے میں کوئی گمان کرسکتا ہے….؟
پھرا س حقیقت کی تشریح کس طرح کی جائے کہ اس قدر طویل فاصلے پر موجود ان تہذیبوں کے ہاں ایک ہی رسم الخط بلا مبالغہ محض 19 سے 20 کے فرق سے رائج تھا۔ اگر کوئی اسے ایک خوبصورت اتفاق کہے تو یہ نا انصافی ہوگی۔ ایسٹر آئی لینڈ کی چٹانوں اور تختیوں کے نامعلوم ‘‘رانگورانگو ’’رسم الخط ایک مسلسل عبارت اور موہنجوداڑو کے پراسرار رسم الخط کی ایک مسلسل عبارت بالترتیب یوں ہے کہ موازنےسے پتہ چلتا ہے کہ ان میں بنیادی فرق یہی ہے کہ ایسٹر آئی لینڈ کی اشکال میں دوہری لکیر نظر آرہی ہے۔ جبکہ موہنجوداڑو کی تصاویر ایک لکیر سے بنی ہیں۔ ان دونوں تحریروں میں اتنی نمایاں مشترکہ خصوصیات کیوں موجود ہیں؟ اور دونوں جگہ ایک سی ترتیب کیا معنی رکھتی ہے..؟

 

 

 

 

 

روحانی ڈائجسٹ جون  2012ء 

 

یہ بھی دیکھیں

بازی گر – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

بازی گر ہندوستا …

سونے کا شہر ایل ڈوراڈو – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

سونے کا شہر  El …

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *