Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

مائنڈ فُلنیس – 8

 قسط نمبر 8

خیالات ایک حقیقت یا محض ایک خیال

 

آپ کے کالج کے کوریڈور میں آپ کی ایک کلاس میٹ سامنے سے آئی اور تیزی سے گزر گئی اس ٹکراؤ کے دوران مسکراہٹ کا تبادلہ نہ ہوا۔ حالانکہ آپ مسکرائے تھے مگر ادھر سے نوریسپانس۔ اس بات نے آپ کو بڑا ‘‘ہرٹ ’’کیا۔
آپ کے دل میں پہلاخیال کیا آیا….
کتنی مغرور ، گھمنڈی ہے…. یا
کتنی بدتمیز ہے مینرز ہی نہیں ہیں….یا
میری توہین کی ہے۔اب میں اس سے بات نہیں کروں گی ۔
اس سے بھی زیادہ خطرناک یہ کہ ….
شاید مجھے پسند نہیں کرتی….یا
کوئی بھی مجھے پسند نہیں کرتا…. سب مجھے نظر انداز کرتے ہیں….یا
شایدمجھ میں ایسی کوئی بات ہی نہیں۔
یا پھر یہ کہ….
پتا نہیں شاید پریشان ہو …. یا
شایدجلدی میں ہوگی ….یا
شاید مجھے دیکھا نہیں ہوگا
اب حقیقت کیا تھی یہ تو مل کر ہی معلوم ہوسکتا تھا…. جس کے لئے تھوڑا انتظار کیا جاسکتا تھا یا پھر اسی وقت مل لیا جاتا….
مگر اس کا انحصار بھی آپ کی پہلی رائے پر ہے….


اس لیئے ابھی ہم بات کرتے ہیں سب سے پہلے مرحلے کی، جب کسی بھی ہونے والے واقعہ کے لئے ہمارا ذہن خود بخود ایک رائے قائم کرلیتا ہے۔ اس پر عموما ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔وجہ اس کی یہ ہے کہ اس پہلی قائم ہونے والی رائے کا انحصار بھی ہماری اس سوچ اور طرزِفکر پر ہے جو ہم اپنے معمولات زندگی میں اختیار کرتے ہیں۔
یہ طرزِفکر قطعی طور پر وقتی نہیں ہوتی بلکہ ہماری ذات اور ہماری شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار اداکرتی ہے۔
مائینڈ فلنیس ایکسپرٹس ایسی مشقیں اور میڈیٹیشنز تجویز کرتے ہیں جو ہمارے روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن جائیں۔
دھیرے دھیرے ان کے مثبت اثرات ہماری باطن میں منتقل ہوکر ایک مضبوط اور قابلِ تقلید شخصیت کی تعمیر کرسکیں۔
اب مندرجہ بالا تمثیل پرغور کیجئے کہ ایک ہی سچویشن کے بارے میں ایک ہی انسان دو مختلف طرح سے سوچ سکتا ہے۔ اور مزے کی بات دونوں ہی طرح کے خیالات محض قیاس آرائیاں بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیالات ہمارے ذہن میں ہماری سوچ کے مطابق آتے ہیں۔ جن کا حقیقت سے تعلق ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ درحقیقت اس میں خیالات کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ دانا کہتے ہیں ہر آنے والا خیال اپنی جگہ ایک حقیقت رکھتا ہے مگر اس کا انحصار ہماری اُس سوچ پر ہوتا ہے جس کے مطابق ہم اپنے خیال کو معنی پہناتےہیں۔
لبِ لباب یہ ہے کہ خیالات پر ردِعمل کا تعلق ہماری سوچ اور طرزِ فکر سے ہوتا ہے۔ حقیقت سے نہیں۔ ہم خیالات کی اس رو کو اپنی سوچ کے مطابق بہتر اور تعمیری رخ پر موڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ صلاحیت قدرت کا حسین تحفہ ہے جسے ہر انسان کو ودیعت کیا گیا ہے۔ بس اس کے استعمال کا طریقہ آدمی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یا یوں کہیئے کہ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ قدرت کی اس عطا کردہ صلاحیت کا فائدہ کس طرح اٹھاتے ہیں۔
تو پھر بات کرتے ہیں ساون کے الف کی …. مائینڈ فلنیس کے ساون کا الف آپ سے کیا کہتاہے ؟۔

ا : ا سے اجازت دیجئے 


اجازت دیجئے
لیکن کس کو؟….
وہ کیفیت جس سے آپ گزر رہے ہوتے ہیں…. اس کی بنیاد ہوتی ہے وہ سوچ جو اس کیفیات کو تحریک دیتی ہے …. وہ خیالات جن پر آپ کوئی رائے قائم کرلیتے ہیں۔
لہذا جب آپ فوری طور پر اپنے دل کی سننے کے اہل ہوجاتے ہیں تو پھر اس کا پسِ منظر یعنی وہ خیالات بھی آپ کے سامنے واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے آپ غصہ ، اداسی، مایوسی، ضد یا پریشانی محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ مائینڈ فلنیس کا ساون آپ سے کہتا ہے کہ اپنے خیالات کو روکئے مت۔ انہیں آنے دیں۔ ان کو کھل کر برسنے کی اجازت دیں۔
بس یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اپنے خیالات کو صرف نوٹس کرنا ہے۔ مشاہدہ کرنا ہے۔ مگر اس میں الجھنا یا اس پر زیادہ توجہ نہیں دینی ہے….
بس ایک خیال ایک کیفیت کو محسوس کیا اور آپ نے نوٹس کیا کہ یہ غصہ ہے۔ یہ اداسی ہے یا یہ مایوسی ہے۔ جب ہم اپنے دل کی سنتے ہیں کہ دراصل اندر کیا چل رہا ہے …. تو پھر ایک نیا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے۔
سننے کے بعد سب سے مشکل مرحلہ ہے ان خیالات کو قبول کرنا۔ دراصل کسی بھی سچویشن میں پیدا ہونے والی کیفیت میں تغیرات کے ساتھ ساتھ خیالات اور سوچ میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ کسی انتہائی معمولی سی بات پر باس سے ڈانٹ کھا کر اگر آپ نے سوچاکہ شاید میں ہی کسی قابل نہیں تو آپ کے دل میں مایوسی اور اداسی کا احساس اُبھرے گا اور اگر آپ کی سوچ یہ ہو کہ ہوسکتا ہے باس پریشان ہو تو آپ کے دل میں باس کے لئے ہمدردی کی کیفیت پیدا ہوگی۔ کئی بار ہم جاننا ہی نہیں چاہتے کہ دراصل ہمیں ہو کیا رہا ہے۔ ہم کس تکلیف میں ہیں۔ وہ کونسی بات ہے جو چبھ رہی ہے۔ اس لئے اب سب سے اہم یہ ہے کہ اجازت دیجیئے اپنی ان کیفیات کو کھل کر ظاہرہونےکی۔
یہاں لفظ ظاہر استعمال کیا گیا ہے بجائے اظہار کے۔ کیونکہ آپ نے اپنی کیفیت کو صرف خود آپ پر ظاہر ہونے کی اجازت دینی ہے ان کا اظہار سب کے سامنے نہیں کرنا ہے …. لہذا محسوس کیجئے جس کیفیت یا احساس سے بھی آپ گزر رہے ہیں۔ اس دوران ہوسکتا ہے کہ آپ خیالات کی بھرمار سے پریشان ہوجائیں۔


مگر کیوں پریشان ہوں؟….
آپ نے تو اپنے ان خیالات کو محض سننا ہے۔ محسوس کرنا ہے۔ پریشانی اس وقت ہوگی جب آپ ان کو اپنی طرف سے اچھے یا برے کا نام دینے لگیں گے …. یا پھر خود ہی جج بن کر اپنی ہی ذات پر انگلی اٹھانا شروع کردیں۔ ایسا کرنے سے تو آپ مزید ذہنی انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔
اس بات کو اس طرح سمجھئے کہ فرض کیجئے کہ آپ نے اپنے بچے کو کم مارکس لانے پر ڈانٹا۔ ظاہر ہے آپ کی خواہش تھی کہ وہ اچھے نمبروں کامیاب ہو….
مگر غصے میں اپنے بچے کی ناکامی کا سارا الزام آپ نے اپنے شریک حیات پر بھی دھردیا کہ اس کی لاپرواہی کی وجہ سے بچہ فیل یا کم مارکس سے پاس ہوا ہے…. یقینا یہ آپ نے غلط کیا۔
اب جیسے ہی آپ کے ذہن میں خیال آیا کہ آپ سے غلطی ہوگئی ہے اسی وقت آپ میں شرمندگی اور پچھتاوے کی کیفیات ابھرنا شروع ہوجائیں گی۔ لیکن ان کیفیات کو سننا اتنا آسان نہیں۔ مگر ….آپ نے اپنی ان کیفیات کو توجہ سے سننا ہے۔ سمجھنا ہے کہ ایسا کیوں کر ہوا۔ شاید آپ کے غصے کی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کو اپنے دوست کے سامنے اور دیگر رشتے داروں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ جنہیں آپ نے اپنے بیٹے کی ذہانت کے قصے بڑھا چڑھا کر سنائے تھے۔ اور جو غلطی آپ سے ہوئی وہ یہ کہ ذہانت کے قصے محض آپ کی اپنی خواہشات تھیں۔ سچ تو یہ تھا کہ آپ نے کبھی اپنے بیٹے سے پوچھا ہی نہیں کہ اس کا رجحان کس مضمون میں زیادہ ہے۔ یا اس کی پڑھائی کیسی جارہی ہے۔ لاپرواہی آپ کی ہے ۔
جیسے ہی یہ خیال آیا تو آپ کو اپنے رویے پر شرمندگی کے ساتھ ساتھ خود پر بھی شدید غصہ آنے لگا۔ہو سکتا ہے کہ اب آپ کی انا بیچ میں آئے اور آپ اس بات کو ماننے ہی سے انکار کردیں۔ اس صورت میں انکار اقرار کی ایک نئی جنگ کا آغازہوجائے گا۔
اس لئے آپ نے ان خیالات کو صرف ظاہر ہونے دینا ہے مگر اس طرح جیسے کہ کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔ فلم میں لمحہ بہ لمحہ منظر بدلتا ہے ،سچوئشن بدلتی ہے۔ کوئی سین اچھا لگتا ہے تو کوئی بور کر دیتا ہے۔ آپ ان تمام مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں۔ کہانی سے بھی متاثر ہتے ہیں۔ مگر اس سے چپک نہیں جاتے۔ بس دیکھی محظوظ ہوئے۔ جو پسند آیا اس پر داد دی جو پسند نہ آیا اس پر تنقید کی اور بھول گئے اور واپس اپنے معمول پر آگئے۔ یہی آپ نے اپنے خیالات کے ساتھ بھی کرنا ہے۔
آئیے….! اس پر ایک مائینڈ فلنیس کی میڈیٹشن اور سانس کی مشق بھی بتاتے ہیں۔ یہ مشق آپ کو اپنے خیالات کو خود پر ظاہر کرنے اور انہیں فوری طور پر سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے گی اور آپ کے اعصاب کو بھی قوت بخشے گی۔ 

 

 

مشق نمبر 1

 Labeling Thoughts Exercise
اپنے خیالات کو نام دیجئے 

 


ساون کے اس مرحلے کے لئے سانس کی خاص مشق سے آپ کو اپنے خیالات کو پڑھنے میں مدد ملے گی۔ اپنی طرزِفکر کو سمجھنے اور اس کو مثبت اور کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔
آرام دہ نشست پر بیٹھ جایئے۔
کمر کو سیدھا رکھنے کی کوشش کیجئے۔ ٹیک بھی لگا سکتے ہیں۔کسی کشن یا گدے پر بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ فرش پر بیٹھے تو زیادہ بہتر ہے۔
اب اپنی توجہ کو سانس کی آمدورفت پر لے جائیے۔ایک دم سے سانس کو دھیما کرنے کی کوشش مت کیجئے۔اب آہستہ آہستہ آنکھیں بند کیجئے۔
اب آپ اپنے سانس کو محسوس کرنا شروع کیجئے۔ سانس لینے اور باہر نکالنے کے عمل کو کم سے کم تین بار غور سے محسوس کیجئے۔
جب آپ سانس لیتے ہی تو اپنی ناک کی نوک پر ہونے والی اس سنسیشن کو محسوس کیجئے۔ یہی احساس آپ سینے اور پیٹ میں بھی محسوس کریں گے۔آپ کا پیٹ پھولے گا اور اندر جائے گا۔ پیٹ کی اس حرکت کو نوٹ کیجیے اور انجوئےکیجئے۔
اب آپ خود کو بالکل ایزی اورریلیکس محسوسکیجئے۔
آہستہ سے اپنا دھیان ان خیالات کی جانب مرکوز کرنے کی کوشش کیجئے جو اس وقت آپ کے ذہن میں آرہے ہیں اور پوری توجہ کے ساتھ خیال کو محسوس کیجئے ۔
اب اس ایک خیال کے ساتھ دیگر اوٹ پٹانگ خیالات کا مجمع لگنا شروع ہوگیا ہے۔
کوئی بات نہیں۔
انہیں بھی اجازت دیجئے …. قبول کیجئے۔
اب ان خیالات کو نام دینا شروع کیجئے۔
ان پر لیبل لگانا شروع کیجئے …. مثلاً
۔وہ بہت مغرور ، گھمنڈی ہے۔ (لیبل: تنقیدی)
۔کاش میں نے دوستوں سے وعدہ نہ کیا ہوتا۔ (لیبل: پچھتاوا)
۔وہ سب کتنا مزاق بنائیں گے۔ (لیبل: خوف)
اگر اسی طرح فیل ہوتا رہا تو آگے کیا ہوگا۔ (لیبل: بے جاڈر خوف)
۔یہ سب ا س کی ماں کی غلطی ہے۔ وہ اپنے بچے پر بالکل توجہ نہیں دیتی۔ (لیبل: الزام)
۔اب ا س کی بھی کیا غلطی وہ بھی تو سارادن کام میں لگی رہتی ہے۔ شاید میں نے ہی کچھ زیادہ بول دیا۔ (لیبل: ندامت)
۔کاش میں کچھ نہ کہتا۔ (لیبل: پچھتاوا)
۔ٹیوٹر رکھ لیتے ہیں۔وہ پیسے لے گا مگر توجہ سے پڑھا دے گا بچے کی پوزیشن بھی ڈاؤن ہونے سے بچ جائے گی۔ (لیبل: منصوبہ بندی)
اگر کوئی خیال زیادہ سوار ہونے لگے تو فوراً اپنی توجہ سانس پر مرکوز کردیجئے۔
بار بار آپ کے ذہن میں آئے اسے کوئی مزاحیہ نام بھی دے سکتے ہیں۔
یہاں ہم آپ کو اپنے ایک دوست کی مثال دیتے ہیں ۔
جب ان سے یہ مشق کرنے کو کہا تو انہوں نے مشق کے دوران بار بار آنے والے اس تکلیف دہ خیال کو ٹام اینڈ جیری شو کا نام دے دیا۔اس کے ساتھ ہی ان کو جیری کی شرارتیں یاد آنے لگیں۔ ان کا کہنا ہے اب خیال انہیں زیادہ پریشان نہیں کرتا۔ بلکہ ٹام اینڈ جیری کارٹون میرے سامنے ہوتا ہے اور میں اس سے بہت محظوظ ہوتا ہوں۔
ہمارے ایک دوست کو ان کے ایک دوست کی یاد بہت ستاتی وہ آنکھیں بند کرتے تو دوست کا چہرہ سامنے ہوتا۔ انہیں سمجھانا مشکل ہوگیا تھا اس لئے انہوں نے اسے رد کرنے کے بجائے بلیو مون کا نام دے دیا۔ جب دوست کا خیال آیا اسے بلیو مون سے لیبل کرتے۔ حالانکہ بلیو مون تو شازو نادر ہی آسمان کو رعنائی بخشتا ہے۔
بہرحال یہ مائینڈفلنیس مشق اور لیبلنگ تھاٹس دس منٹ تک کرنی ہے۔ اگر آپ اس سے زیادہ وقت دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔
اب آپ آنکھیں کھول لیجئے۔ اور دو سے تین سیکنڈ تک اپنی سانس کی آمدورفت پر دھیان دیجئے۔
جو خیال آیا جو نام دیا اب اس پر مزید مت سوچئے اور ایک گہری مائنڈ فلنیس مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کام میں لگ جائیے۔ اس مشق کو ہفتے میں دو بار ضرور کیجئے۔

 

 

مشق نمبر 2

Half Smile Exercise
مُسکان سے دوستی کیجئے 


حضرات زیادہ خوش نہ ہوں۔ ہم جس مُسکان سے دوستی کی بات کررہے ہیں وہ کوئی خاتون نہیں بلکہ آپ کی اپنی آدھی مسکراہٹ ہے جو آپ کے چہرے کو خوبصورت بنائے گی اور ایک جاذبیت بھی عطا کرے گی۔ یہ اس مسکان کے ظاہری خواص ہیں۔ جب کہ باطنی خواص ان گنت ہیں۔ مائینڈ فلنیس ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ اپنے چہرے خالی نہ رکھئے۔ اسے ایک ہلکی سی آدھی مسکراہٹ سے سجالیجئے۔
اب پریکٹس کے طور پر آپ ایسا بھی کرسکتے ہیں کہ ایک مسکراتا ہوا سمبل 🙂  اپنی چھت پر سجالیں کہ جیسے ہی آنکھ کھلے آپ کی نگاہ اس سے ٹکرائے اور قدرتی طور پر ایک ہلکی سے مسکراہٹ آپ کے لبوں پر آجائے۔ بس اب اس مسکراہٹ کو جانے متدیجئے۔
بستر پر لیٹے لیٹے تین گہرے سانس لیجئے۔ سانس لینے کی رفتار نہ تو تیز ہو اور نہ ہی بہت سست۔بس چند سیکنڈ اپنی سانس پر توجہ مرکوز کیجئے۔
اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے زندگی کا ایک اور خوبصورت دن عطا کیا۔اب آپ بستر چھوڑ سکتے ہیں۔


یاد رکھیئے کتنی بھی جلدی کیوں نہ ہو ایک منٹ سے زیادہ وقت نہیں لگے گا صبح صبح کی اس پریکٹس میں۔
یہ تو ہوگئی آپ کی ایک خوبصورت صبح ایک پیاری سی مسکان کے ساتھ۔ اب کوشش کیجئے کہ اس کا ساتھ کبھی نہ چھوٹے۔ جس لمحہ آپ کو احسا س ہو کہ آپ پریشان ہورہے ہیں یا کسی ذہنی دباؤ میں ہیں تین بار گہرے سانس لیجئے اور اس دوران اپنی مسکان کو برقرار رکھنے کی کوشش کیجئے۔
ایکسپرٹس کی رائے ہے کہ تھکاوٹ ہو یا پریشانی آپ کسی بھی وجہ سے ڈسٹرب ہوں فطری طور پر آپ کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔
یہی وہ لمحات ہوتے ہیں جب آپ نے فوری طور پر ہونٹوں پر مسکان لانی ہے اور اسی طرح آدھی مسکراہٹ کے ساتھ تین گہرے سانس لینے ہیں۔
یاد رہے آپ نے اپنی سانس کے ہر مرحلے کو محسوس کرنا ہے۔ اس🙂 کا ساتھ بالکل بھی نہیں چھوڑنا۔ اپنی توجہ اپنی سانس کے آنے جانے پر مرکوز کردینی ہے۔

 

                     (جاری ہے)

تحریر : شاہینہ جمیل

;

 

یہ بھی دیکھیں

مائنڈ فُلنیس – 17

   قسط نمبر 17 ...

مائنڈ فُلنیس – 16

   قسط نمبر 16 ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *