Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کراچی میں ماہِ رمضان کی برکتیں..!

کراچی میں ماہِ رمضان کی برکتیں..!

عروس البلاد کراچی پاکستان کا سب سے بڑا اور ایسا شہر ہے جس میں رمضان المبارک شروع ہوتے ہی زندگی کے تمام معمولات بدل جاتے ہیں اور ہرطرف ایک ایسا رنگ نظر آنے لگتا ہے جس میں اسلامی تہذیب و ثقافت اور روایات کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ ماہِ رمضان اس شہر کاسارا ماحول ہی بدل دیتا ہے، مساجد اور عبادت گاہیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، شہر میں موجود شادی ہالوں میں پانچ روزہ، سات روزہ نمازِتراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں تمام بڑی بڑی مساجد بالخصوص نیو میمن مسجدبولٹن مارکیٹ، رحمانیہ مسجد طارق روڈ اور مسجد طوبیٰ ڈیفنس وغیرہ میں محافل شبینہ منعقد کی جاتی ہیں۔ اسی طرح کراچی کے مشہور پارک ‘‘جہانگیر پارک’’ میں بھی تین روزہ تاریخی‘‘نورانی شبینہ’’ جو پچیس تا ستائیس رمضان تک جاری رہتا ہے۔ اس محفل شبینہ کی خاص بات یہ ہے کہ جب تک حضرت علامہ شاہ احمد نورانی حیات تھے ،وہ اس محفل شبینہ کا پچیس رمضان کو پہلا پارہ پڑھ کر باقاعدہ آغاز فرماتے اور ستائیس رمضان کو آخری پارہ سناکر اس پروقار محفل شبینہ کا اختتام فرماتے تھے، یہ روایت آج بھی قائم ہے،  حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کی جگہ ان کے فرزند صاحبزادہ شاہ انس نورانی صدیقی نے لے لی ہے۔

 رمضان میں شہر بھر میں کھانے پینے کی دُکانیں اور ہوٹل احترامِ رمضان میں افطار تک بند رہتے  ہیں، مسجدوں میں خوب رونق رہتی ہے، جو خاص طور پر رمضان کی طاق راتوں میں روح پرور اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کچھ لوگ جو سارا سال نمازِ جمعہ کے علاوہ مسجد میں نظر نہیں آتے، اس با برکت مہینے میں پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ کم عمربچے بھی بہت ذوق و شوق سے مساجدکا رخ کرتے ہیں۔ یوں تو خواتین  کی مسجد میں باجماعت نماز تراویح کی ادائیگی ضروری نہیں، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے شہر کی کچھ مخصوص مساجد میں خواتین کے لیے بھی علیحدہ نمازتراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گھریلو خواتین اپنے اپنے گھروں میں ماہ رمضان المبارک کے دوران تلاوت قرآن مجید، نوافل اور رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کا اہتمام بھی کرتی ہیں۔ دوران رمضان بعض گھروں میں نماز تراویح کے بعد ذکر واذکار کی محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں افطاری کا بندوبست دیگر شہروں کی طرح کراچی کی بھی وہ روایت اور ایسی شناخت ہے جو مسلمانوں کی مساجد اور عبادت گاہوں کو اوروں سے ممتاز اور جدا کرتی ہے۔

مخیر، اہل ثروت حضرات اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے شہر میں جگہ جگہ غریب روزہ داروں کے لیے سحری و افطاری اور کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بس اسٹاپس پر مسافروں کی سہولت کیلئے افطاری کے اسٹال لگائے جاتے ہیں۔

 دوسرے عشرے کے شروع ہوتے ہی چاند رات تک شہر کی مارکیٹں رات دیر گئے تک کھلی رہتی ہیں،جن میں افطار کے بعد رات دیر تک خریداروں کا ہجوم نظر آتاہے۔شہر میں جگہ جگہ بچت بازار لگائے جاتے ہیں،جن پر ہر قسم کی اشیاءمارکیٹ سے قدرے کم ریٹ پر دستیاب ہوتی ہیں اور افطار کے بعد بازاروں میں رات دیر تک خریداروں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ کراچی میں افطار کے بعد کھانے پینے کے شوقین  برنس روڈ، ایم اے جناح روڈ، سیویو،بوٹ بیسن ،سیون اسٹار چورنگی اور چٹخارے دار کھانوں کے ریسٹور ینٹس اور فورڈ اسٹریٹس کا رخ کرتے ہیں۔ جوں جوں عید الفطر قریب آنے لگتی ہے ،ان بازاروں کی رونقیں اور بھی دوبالا ہو جاتی ہیں،یہ بازار تقریباً ساری رات ہی کھلے رہتے ہیں، خاص طور پر ریسٹورنٹس تو صبح سحری تک کھلے ر ہتے ہیں تاکہ کسی کو بھی سحری میں تکلیف نہ ہو۔ بازاروں میں نت نئے خوانچہ فروش دیکھنے کو ملتے ہیں جوٹھیلوں اور خوانچوں پر سموسے، پکوڑے، دہیبڑے، جلیبیاں اور انواع و اقسام کی چاٹ فروخت کر رہے ہوتے ہیں۔ مارکیٹ میں ہر قسم کا پھل دستیاب ہوتا ہے ،جو مہنگائی اور ناجائز منافع خوری کے رجحان کی وجہ سے ایک غریب اور عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہوتا جارہاہے۔ رمضان میں ناجائز منافع خوری کارحجان بہت بڑھ جاتا ہے،جو کہ اس ماہ مبارک میں انتہائی قابل افسوس اور بحیثیت مسلمان باعث شرم بات ہے۔

 

یوں تورمضان کے مبارک دنوں میں ہمیں بلاوجہ بازار جانا سخت ناپسند ہے ،ایک تو اس کی وجہ روزے کی حالت میں طبیعت کا سست ہونا اور دوسرے رمضان کے دنوں میں بازاروں میں جیب کتروں اوراوباش قسم کے لوگوں کی موجودگی ہے ،جو بلاوجہ خواتین کو تنگ بھی کرتے ہیں اور لوگوں کی جیبیں کاٹتے ہیں،اسی وجہ سے ہماری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں ہی عید کی تیاری کرلی جائی اور تمام ضروری اشیاءپہلے سے خرید کر رمضان کے درمیان اور آخر میں مارکیٹ جانے کی کوفت سے بچا جائے،اس حوالے سے ہمارا دوست  بھی ہماراہم خیال ہے ،لیکن کیا کریں کہ ہم دونوں بھی دیگر لوگوں کی طرح اپنی اپنی اللہ رکھیوں(بیویوں) سے مجبور ہیں ،جو کسی نہ کسی بہانے رمضان کے آخر ی دنوں تک خریداری جاری رکھنے کے بہانے ڈھونڈ ہی لیتی ہیں اور ہمیں ان کی وجہ سے بادل ناخواستہ بار باربازارجانا پڑتا ہے۔

 

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں کھلے میدانوں اور چھتوں پر رمضان کا چاند دیکھنے کے لیے اہل محلہ جمع ہوا کرتے تھے اور جب کوئی چاند دیکھ لیتا تھا تو انگلی کے اشارے سے دوسروں کو دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ لوگ چاند دیکھ کر چاند دیکھنے کی دعا پڑھتے اور ایک دوسرے کو رمضان کی مبارکباد دیا کرتے تھے۔ محلے کی مساجد سے چاند کا اعلان کیا جاتا تھا اور سائرن بجائے جاتے تھے۔ گو کہ چاند کے اعلان اور سحر و افطار کے شروع اور ختم ہونے پر سائزن آج بھی بجائے جاتے ہیں ،لیکن میدانوں اور چھتوں پر جمع ہوکر چاند دیکھنے اور ایک دوسرے کو گلے مل کر رمضان کی مبارکباد دینے کا رواج اب تقریباً متروک ہی ہوگیا ہے اور خود چاند دیکھنے کے بجائے اس کی جگہ ٹی وی پر چاند کا اعلان سن کر موبائل میسجز کے ذریعے ایک دوسرے کو مبارکباد دینا اب عام سی بات بن گئی ہے۔

 

گو کہ رفتار زمانہ نے بہت سی انسانی عادتوں،روّیوں اور چیزوں کو تبدیل کردیا ہے لیکن بازاروں سے افطاری منگوانے کے بجائے خواتین کا خود گھروں میں افطاری تیار کرنے کا رواج آج بھی موجود ہے اور ہماری گھریلو خواتین شربت، ملک شیک ، فروٹ چاٹ،کھٹے میٹھے دہی بڑے،آلو پالک کے پکوڑے ، مختلف قسم کے سموسے بازار سے منگوانے کے بجائے گھر ہی پر تیار کرنا ضروری خیال کرتی ہیں۔ عموماًگھروں میں نمازِ عصر کے بعد افطاری بننا شروع ہوجاتی ہے،جس میں بچوں اوربڑوں سب کی پسند کا خیال رکھا جاتا ہے۔ رشتے داروں ، ہمسایوں، محلے کے غریب گھروں اور مساجد میں افطاری اور خاص کھانوں کو بھیجنے کا رواج آج بھی زندہ ہے۔ آج کے دور میں افطاری کے وقت ایک دستر خوان پر ایک ساتھ سب کا روزہ کھولنا کسی انعام اور نعمت باری سے کم نہیں ہے۔ ہوشرباء مہنگائی کی وجہ سے سفید پوش طبقے کی جانب سے افطار پارٹیوں کا سلسلہ کم ضرور ہوگیا ،مگر ابھی ختم نہیں ہواہے،بچوں کو روزہ رکھواکر روزہ کشائی کے دعوت نامے تقسیم کرنا، افطاری کی بڑی بڑی تقریبات منعقد کرنا اور اہل ثروت کی جانب سے شہر کے اعلیٰ ہوٹلوں میں افطار ڈنر (بوفے) دینا شہر کی نئی فروغ پاتی روایات میں سے ہیں۔

پاکستان کے دیگر شہر وں کی طرح ماہ رمضان المبارک میں کراچی شہر پر بھی پیشہ ور بھکاریوں اور گداگروں کی یلغار ہوجاتی ہے، جن سے بازاروں اور سڑکوں پر جان چھڑانا آسان کام نہیں ہے۔ اسی طرح دن بھر گھر کے دروازے پر کسی نہ کسی حاجت مند کا موجود ہونا بھی علامت رمضان  میں شامل ہے۔ رمضان المبارک کے دنوں میں سحری کے اوقات میں محلے کی مساجد سے خوبصورت لحن کی آوازوں میں نعتوں کا پڑھنا اور باربارسحری کے اختتامی وقت کا بتانا ایک معمول ہے۔ حالانکہ پہلے سحری میں جگانے والے آتے تھے جو اعلانات اور ڈھول بجاکر لوگوں کو اٹھانے کا فریضہ سر انجام دیتے تھے، لیکن اب رمضان کے ابتدائی دنوں میں یہ لوگ دور دور تک نظر نہیں آتے،ہاں جہاں آخری عشرہ آتا ہے یہ لوگ نذرانے کے حصول کے لیے یوں نکل آتے ہیں جیسے پوری تندہی سے انہوں نے لوگوں کا سحری میں اٹھانے کا کام کو سرانجام دیا ہو۔

رمضان میں عموماً ہر روزہ دار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ جلدی سو جائے تاکہ صبح سحری میں اٹھنے میں مشکل نہ ہو،لیکن کراچی کی پررونق اور دیر تک جاگتی زندگی میں یہ کام اتنا آسان نہیں۔

ایک زمانہ تھا جب رمضان کے آخری عشرے میں مساجد میں اعتکاف میں بیٹھنے کے لیےایک آدمی بھی نہیں ملتا تھا اور اس فرض کفایہ کی ادائیگی کیلئے بزرگوں کو اعتکاف میں بیٹھنا پڑتا تھا، لیکن گذشتہ دس پندرہ سالوں سے نوجوانوں میں اعتکاف میں بیٹھنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اب مساجد میں ایک نہیں بلکہ کثیر تعداد میں نوجوان جن کی تعداد دو اور تین ہندسوں سے بھی زائد ہوسکتی ہے، اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔ دیگر خواتین کی طرح ہماری والدہ اور بہنیں بھی اعتکاف میں بیٹھتی ہیں۔

 چاند رات کو خواتین اور نوجوان لڑکیوں کا چوڑیاں پہننا ، مہندی لگوانا اور سجنا،سنورنا اور صبح عید کی تیاریاں کرنا بھی اس رات کی خاص روایت ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی کا جدید کراچی آج بھی پاکستان کا ایک ایسا شہر ہے جو اپنی تہذیب و ثقافت،اساس اور روایات کا امین اور ان سے اپنا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہے ۔پاکستان کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے مسلمان بھی بڑے خلوص اور جوش و جذبہ کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتے ہیں،نماز تراویح اور دیگر عبادات کا اہتمام کرتے اور عید مناتے ہیں اوروہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس ماہ مبارکہ میں اللہ ربّ العزت کی نازل کردہ انوار و تجلیات اور اس کی رحمتوں و برکتوں سے مستفید ہوں اور رمضان کی فیض بھری ساعتوں سے اپنے اپنے دامن بھرلیں ۔ہماری دعا ہے کہ اللہ کریم اس ماہ مبارکہ میں تمام مسلمانوں کی عبادات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور بروز حشر اپنے پیارے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر عنایت اور شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔آمین 

کراچی میں اجتماعی افطار کی روح پرور روایت!

رمضان المبارک اپنے ساتھ لامحدود برکتوں کے ثمرات تو لاتا ہی ہے لیکن اس مقدس مہینے میں افطار مذہبی فریضے کے ساتھ ساتھ سماجی روایت، تہوار اور روابط کی حیثیت بھی اختیار کر گئی ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تمام طبقات اپنی اپنی بساط کے مطابق دینی جذبے و شوق سے افطار کا اہتمام برسوں کرتے آرہے ہیں۔افطاری کے وقت خصوصی پکوانوں سے دسترخوان سجائے جاتے ہیں۔ کھجور، سموسے، پکوڑے، شربت، دہی بھلے، چاٹ، پھل اور دیگر اشیاء ہر افطاری کا لازمی جزو ہوتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے افطار ڈنرز کا اہتمام بھی دیرینہ روایت بن چکے ہیں۔ آج کل کے مصروف دور میں افطار خاندان کے تمام افراد کو اکٹھا کرنے کا سبب بھی بنتی ہے۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات اور کھانے پینے کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں ہر تھوڑے دنوں کے بعد اضافے سے ہر فرد پریشان ہے او ر محدود آمدنی میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کررہا ہے ۔ ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز شہرِ کراچی جوپاکستان کے ہر حصے کی نمائندگی کرتا ہے،اگرچہ ان پریشانیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہے لیکن رمضان کے دوران یہاں ماحول ہی مختلف ہو جاتا ہے۔شام ہوتے ہی شہر کی چھوٹی بڑی شاہراہوں، محلّوں اور گلیوں میں بھی ہر طرف اجتماعی افطارکی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔کھجور اور شربت سے لے کر مختلف پکوانوں سے مزین یہ افطاری ہر خاص و عام کے لیے کھلے آسمان تلے بڑی بڑی میزوں پر سجا دی جاتی ہے اور پھر مغرب کی اذان کے ساتھ ہی وہاں موجود ہر فرد اس دعوتِ.عام میں شریک ہوجاتا ہے۔ اس شہر میں رمضان کی ہر شام یہی منظر پیش کرتی ہے۔کہیں یہ کوشش اجتماعی ہے تو کہیں انفرادی لیکن مقصد سب کا ایک ہی ہے کہ اس مبارک مہینے میں مسافروں اور ناداروں کے لیے روزہ کھولنے کا اہتمام کرکے اللہ کی رضا وخوشنودی کا حصول اور برکتوں کا نزول۔کراچی میں ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ ایک ہزار سے زائدمقامات پر مخیر حضرات یا ادارے مسافروں اور ناداروں کے لیے اجتماعی افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر برنس روڈ کی اجتماعی افطار میں مسافروں اور عام لوگوں کے ساتھ ساتھ محلے کے افراد اور دیگر لوگ بھی شرکت کرتے ہیں اور یہ شہر کی سب سے پرانی مشترکہ اجتماعی افطار ہے۔ علاوہ ازیں خیابان سحر، الله والی چورنگی، بہادرآباد، حسن اسکوائر چورنگی، سبیل والی مسجد،میمن مسجدکے علاوہ شہر کے تقریباً تمام ہی بڑے بس اسٹاپس پر مسافروں ، بسوں کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کےلیےاجتماعی افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں شربت بڑی بڑی ٹنکیوں میں بنایا جاتا ہے جبکہ لمبے دسترخوان بچھاکر پھل سموسے، کھجور، پکوڑے اور دیگر اشیاء رکھی جاتی ہیں ۔ بعض مخیر افراد گاڑیوں میں سوار روزہ داروں کو منرلواٹر، جوس کی بوتلیں اور کھجوریں تقسیم کرتے ہیں جبکہ بعض ادارے اور افراد افطاری کےپیکٹس تیارکر واکے راہ چلتے روزہ داروں کو مغرب کی اذان ہوتے ہی تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بعض مقامات پر دودھ کی بوتلیں بھی تقسیم کی جاتی ہیں۔ کراچی کی تقریباً تمام مساجد میں فی سبیل اللہ اجتماعی افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں محلے والے اپنے گھروں سے افطاری لاکر روزہ داروں کو افطار کراتے ہیں۔
رمضان میں افطار کا یہ دسترخوان جہاں بہت سے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتاہے وہاں اس انتظام میں شریک ہونے والے رضاکاروں کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔
بعض غریب رضاکار جو مستحق ہوتے ہیں افطاری کی مختلف چیزیں مثلاً سموسے، پکوڑے وغیرہ اپنے گھروں پر تیار کرتے ہیں، یوں اس ماہ مبارک میں اُن کا روزگار بھی اس اجتماعی افطار کےتوسط سے چل جاتا ہے۔
اکثر مقامات پر مخیر حضرات پسِ پردہ رہ کر اس افطاری کا اہتمام کرتے ہیں ۔
ان کی یہ کوشش جہاں خدمتِ.خلق ہے وہاں لوگوں کو ایک دوسرے کا احترام اور ایک مرکز پرلانے کا درس بھی دے رہی ہے۔
کراچی کی ان اجتماعی افطار نے مسلمانوں کو ایک ٹیبل پر کھڑے ہونے کا موقع دیا ہے کہ اپنے دلوں سے کدورتیں ختم کریں اور محبتیں پیدا کریں۔ ان اجتماعی افطار میں ہر قومیت کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ اجتماعی افطار کا اہتمام کرنے والے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ہماری نیت صرف اللہ کی رضا کا حصول ہے ، ہمارا عزم ہے کہ ہم یہ کام کرتے رہیں گے۔

 

 


یہ بھی دیکھیں

اقراء – خواجہ شمس الدین عظیمی

اِقْرَاء از: خو ...

ایک عالم ہے ثناخواں آپ ﷺ کا

  اللہ کے ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *