Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

جاپان کا آسیبی جنگل – اوکیگاہارا

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

اوکیگاہارا  – جاپان کا آسیبی جنگل 

کیا واقعی لوگوں کو اپنی جانب پکارتاہے؟….

 

 آخر اس جنگل میں لوگ لاپتہ کیوں ہوجاتے ہیں….؟
یہاں لوگوں کو بھوت، آوارہ روحیں اور دیگر مافوق الفطرت چیزیں کیوں دکھائی دیتی ہیں….؟
اور پھر سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ آخر بہت سے جاپانی لوگ دور دراز کا سفر طے کرکے اسی جنگل میں کیوں جاتے ہیں اور پھر زندہ واپس نہیں آتے….؟
وہ کون سی نادیدہ اور پر اسرار طاقت ہے جو کچھ لوگوں کو کھینچ کر اس جنگل تک لے جاتی ہےاور پھر وہ دوبارہ کبھی زندہ دکھائی نہیں دیتے….؟
اوکیگا ہارا کا جنگل آسیب زدہ ہے یا نہیں، یہ بات توطے ہے کہ یہاں یقیناً کچھ نہ کچھ تو ایسا ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔

جاپان کے مشہور زمانہ آتش فشانی پہاڑ ماؤنٹ فیوجی کی وادی میں پھیلے اس وسیع و عریض جنگل کو عام طور پر درختوں کا سمندر کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح سمندر میں اترنے کے بعد اس کا کنارا دکھائی نہیں دیتا، بالکل اسی طرح اس جنگل میں ایک مرتبہ داخل ہونے کے بعد، اگر راستے پر نشانیاں نہ لگائی جائیں ، تو کچھ ہی دیر بعد واپسی ناممکن کی حد تک مشکل ہوجاتی ہے اور میل ہا میل چلنے کے بعد بھی باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ یہ جنگل اس قدر گھنا اور مہیب ہے کہ اسے دیکھ کر ایک لہلہاتے ہوئے سبز سمندر کا گمان ہوتا ہے۔ اس جنگل کا مقامی زبان میں نام اوکیگا ہارا (جاپانی میں 青木ヶ原اور انگریزی میں Aokigahara)ہے۔ دور سے دیکھنے میں اوکیگا ہارا کا جنگل اور اس کے پسَِمنظر میں فیوجی پہاڑ کی چوٹی نہایت خوبصورت اور دلفریب لگتی ہے اور آنکھوں اور کیمروں کے لیے بھی ایک دلکش نظارہ پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر اس جنگل کے قریب جایا جائے یا اس کے اندر داخل ہوا جائے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ باہر سے دلفریب و دلکش نظر آنے والا یہ قدرتی منظر اندر سے اس قدر پُر ہیبت اور دہشت ناک ہے کہ اسے دیکھ کر جسم کے تمام رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی تیرتی محسوس ہوتی ہے۔
ماؤنٹ فیوجی کی ترائی اور اس سے ملحقہ وادیوں پر محیط اس جنگل میں جابجا چھوٹی بڑی چٹانیں، پہاڑیاں اور لاتعداد غار ہیں جو تقریباً پورا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ اس جنگل کی خاص بات یہ نہیں کہ یہ بے حد گھٹا اور وسیع و عریض ہے، بلکہ خاص بات اس کا آسیب زدہ مشہور ہونا ہے۔ یہ بات وہاں کے مقامی باشندے اور وہ لوگ، جو اس جنگل میں جا چکے ہیں، تواتر سے کہتے آرہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ جنگل زمین پر مانوق الفطرت واقعات و مظاہر کی بہت بڑی آماجگاہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس جنگل کا شمار دنیا کے انتہائی آسیب زدہ مقامات میں کیا جاتا ہے۔ اس جنگل کے حوالے سے دنیا میں بالعموم اور جاپان میں بالخصوص، طرح طرح کی ناقابل یقین اور محیر العقول داستانیں اور واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ ہزاروں سال قدیم اس جنگل سے متعلق سینہ بہ سینہ چلی آرہی جاپانی روایتوں اور داستانوں کے مطابق اوکیگا ہارا میں قدیم بلاؤں، عفریتوں، بھوتوں اور شہروں میں رہنے والے بدکردار انسانوں کی بھٹکتی روحوں کا بسیرا ہے۔ اس جنگل میں منڈلاتی یہ مبینہ روحیں، بھوت اور بلائیں کچھ خاص لوگوں کو پکار کر بلاتی ہیں اور پھر ان کا خاتمہ کردیتی ہیں۔
سائنسی محققین اور ماہرینِ نفسیات ان روایتوں کو توہمات کے ذمرے میں لے جاتے ہیں.ان کے مطابق ہلاک ہونے والے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر اس جنگل میں جا کر خودکشی کرلیتے ہیں، لیکن مقامی جاپانیوں کے اعتقاد کے مطابق یہ لوگ درحقیقت اس آسیبی جنگل کے بھوتوں اور بدروحوں کے زیر اثر آچکے ہوتے ہیں جو انہیں ان کے گھروں سے یہاں لا کر ہلاک کردیتی ہیں۔

 

اوکیگاہارا جنگل کا ایک منظر

ایسا نہیں ہے کہ محض قدیم روایتوں اور قصے کہانیوں کی بناء پر ہی یہ جنگل خوف کی علامت بن گیا، بلکہ یہاں مسلسل پیش آنے والے روح فرسا واقعات نے بھی اوکیگاہارا کو دنیا کا ایک خوفناک مقام بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ اکثر و بیشتر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایڈونچر کے شوقین بعض لوگ اس جنگل میں مہم جوئی کے لیے جاتے ہیں اور پھر لا پتہ ہوجاتے ہیں۔ رضا کار اور امدادی ٹیمیں انہیں حتیٰ المقدور تلاش کرتی ہیں مگر ان کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں گئے۔ پھر کچھ عرصے بعد ان کی لاشیں درختوں سے لٹکتی ہوئی یا کسی گڑھے یا غار میں مسخ شدہ حالت میں پڑی ملتی ہیں۔ ا س جنگل کا فرش ماؤنٹ فیوجی کے آتش فشاں سے نکلنے والے لاوے سے ڈھکا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی زمین اس قدر سخت ہوگئی ہے کہ اسے کدال یا پھاؤڑے جیسے دستی اوزاروں سے کھودا نہیں جاسکتا۔ جاپانی حکومت نے اس جنگل میں لوگوں کو بھٹکنے سے بچانے کے لئے کئی مقامات پر نشانیاں اور خبردار کرنے والے بورڈز آویزاں کر رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ رضاکاروں نے بھی غیر سرکاری طور پر بہت سے راستوں کا تعین کردیا ہے جن کے ذریعے اس جنگل میں گھس کر واپس باہر نکلا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ سب بندوبست محدود پیمانے پر ہی ہے۔ جنگل کا زیادہ تر حصہ اب بھی کسی نشانی یا ہدایاتی بورڈز سے خالی ہے جس کی وجہ سے اس جنگل میں لاپتہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں آج تک کوئی انسان نہیں پہنچا ہے۔ زیادہ تر مہم جو یا سیاح اس جنگل میں زیادہ سے زیادہ ایک کلو میٹر تک ہی اندر جاپاتے ہیں کیونکہ اس کے بعد جنگل میں کچھ ایسے مناظر اور ماحول کا آغاز ہوجاتا ہے کہ وہ مزید آگے جانے والے بیشتر لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے وہاں پر بھوتوں اور دیگر مافوق الفطرت اجسام کو منڈلاتے ہوئے، اچانک ظاہر اور غائب ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔اوکیگا ہارا میں داخل ہونے کے بعد اگر ماؤنٹ فیوجی کی طرف آگے بڑھا جائے تو تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ طے ہونے پر جنگل قبل از تہذیب دور کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ یہاں ایسی کوئی چیز یا علامت دکھائی نہیں دیتی جو انسانوں یا جدید دنیا سے تعلق رکھتی ہو۔ جوں جوں آگے بڑھتے جائیں گے، اس جنگل کی ہیبت ناکی اور دہشت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہاں جابجا انسانی لاشوں کی باقیات ڈھانچے اور ہڈیاں بکھری دکھائی دیتی ہیں۔ یہ باقیات انتہائی سالخوردہ اور بویسدہ حالت میں ہیں، جنہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گویا ان لوگوں کو کسی انتہائی طاقتور اور وحشی جانور یا عفریت نے چبا کر اگل دیا ہو۔

جنگل کے مختلف مقامات پر ایسے ہیبتناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں

 

مقامی لوگوں اور عینی شاہد کی جانب سے یہ بات پورے وثوق و یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ اس جنگل میں جانے والے سیاحوں اور مہم جو حضرات کا کسی غیر مرئی مخلوقات سے اکثر آمنا سامنا ہوتا رہتا ہے۔ وہ اس حوالے سے بہت کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے بعض تو اپنے دعوؤں کی سچائی ثابت کرنے کے لیے آسیبی جنگل کے بھوتوں اور بدروحوں کی کیمروں سے بنائی گئی مبہم تصویریں بھی پیش کرتے ہیں۔
اوکیگا ہارا کے بارے میں ایک کہانی یہ بھی بہت زیادہ مشہور ہے کہ اس جنگل میں سمت بتانے والے جدید مقناطیسی آلات اور کمپاس وغیرہ ناکارہ ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں مسافر جنگل میں کھو جاتے ہیں۔
سائنسی ریسرچرز یہاں لوگوں کی ہلاکتوں کو خودکشی کا نام دیتے ہیں ۔ اگر یہ بات واقعی درست ہے تو اس جنگل کو خودکشی کرنے والوں کا سب سے پسندیدہ ترین مقام قراردینا چاہیے کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہر مہینے کم از کم دو افراداوکیگا ہارا جنگل میں جا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں اور رضاکاروں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد اس سے بہت زیادہ ہوسکتی ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کی لاشیں کبھی بھی مل نہیں پاتیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ چند برسوں میں پندرہ سو سے زائد افراد نے اس جنگل میں خود کشی کی ہے۔ 1998ء میں تہتّر لاشیں پائی گئی تھیں، 2002ء میں یہاں سے اٹھہتر افراد کی لاشیں ملی تھیں جنہوں نے ممکنہ طور پر خودکشی کی تھی۔ عموماْخودکشی کرنے والوں کی دو تہائی تعداد مردوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ 2007ء میں یہاں خود کشی کرنے والے افراد میں مردوں کا مجموعی تناسب اکہتّرفیصد تھا۔ اس جنگل میں خود کشی کرنے والوں کی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہوچکی ہیں۔ تاہم تیس سال سے کم عمر کے جاپانیوں کی اچھی خاصی تعداد بھی خود کشی کرنے والوں میں شامل ہے۔ حیرت انگیز طور پر ادھیڑ عمر کے بہت کم افراد خودکشی کرتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات جاپان میں ریکارڈ ہوتے ہیں ، لیکن کیا جاپان میں ہر ہلاکت کا واقعہ خودکشی ہی ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جاپان کے اخبار میں ایک تینتیس سالہ شخص کی موت کا ذکر اس طرح تھا کہ بھوکا پیاسا کمرے میں مردہ پایا گیا۔پولیس کی تفتیش سامنےآئی کہ ایک سال پہلے تک جس کمپنی میں یہ شخص کام کرتا تھا۔وہ کمپنی دیوالیہ ہوگئی اور اس شخص کے پاس کوئی جاب نہیں تھی جمع پونجی بھی خرچ ہو چکی تھی۔ پڑوسیوں کا کہنا تھا کہ آتے جاتے اگر کسی سے اس کی ملاقات ہو جائے تو وہ ان سے سلام و دعا کیا کرتا تھا۔پولیس کی رپورٹ کے مطابق یہ شخص نہایت خوددار تھا۔اور شرم کی وجہ سے کسی سے کچھ نہ مانگا اور نہ ہی حکومتی امداد کے لئے کسی حکومتی ادارے سےرابطہ کیا۔ جاپان میں ہلاکتیں کیسی بھی ہوں تفتیش میں کوئی نہ کوئی وجوہات نکال ہی لی جاتی ہے، خود کشی کی زیادہ وجوہات اعصابی یا ذہنی دباؤ بتا ئی جاتی ہے یا پھر معاشی اور معاشرتی مسائل بھی خود کشی کی اہم وجوہات بتائے جاتے ہیں۔ماہر نفسیات اس ضمن میں کہتے ہیں کہ معاشرے میں جذب نہ ہوسکنے والے لوگ زیادہ تر خود کشی کا رحجان رکھتے ہیں۔ لیکن ہر ہلاکت کو خودکشی میں ڈالنے سے جاپان میں خودکشی کا گراف تو اوپر ہے مگر جرائم کا گراف نیچے…. بہرحال یہ ہمارا موضوع نہیں، مگر یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر بعض جاپانی خودکشی کا رحجان رکھتے ہیں تو آخراکثر لوگ خودکشی کے لیے دور دراز کا سفر طے کرکے اسی جنگل میں کیوں جاتے ہیں….؟ خودکشی کے بے شمار طریقے ہیں اور یہ کہیں بھی کی جاسکتی ہے تو پھر لوگوں کا اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے اس جنگل میں ہی جانا کیا معنی رکھتا ہے….تاہم جاپانی حکام اور ماہرین اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

لوگوں کو خودکشی کرنے کے ارادے سے باز رکھنے کےلیے جنگل کے مختلف مقامات پر آویزاں سائن بورڈز

خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکام کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اس جنگل کے مختلف مقامات پر سائن بورڈز کی تعداد میں اضافہ کریں۔ ان سائن بورڈز پر ایسی عبارت درج کی گئی ہیں جن میں خودکشی کرنے کے ارادے سے جانے والے لوگوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ اس ضمن میں بورڈز پر مختلف ٹیلی فون نمبرز درج کیے گئے ہیں، جن پر رابطہ کرکے خودکشی کے خواہش مند افراد اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں مشورے اور مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ 1970ء سے جاپانی حکومت اس جنگل میں ہر سال ایک سرچ آپریشن کا انعقاد کر رہی ہیں۔ اس سالانہ آپریشن میں پولیس، رضاکار اور صحافی حصہ لیتے ہیں اور جنگل کے مختلف حصوں میں جا کر وہاں کا جائزہ لیتے اور لاشوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب پولیس کے دستے باقاعدگی سے اس آسیبی جنگل میں گشت کرتے ہیں اور ہر اس شخص کو جس پر انہیں خودکشی کے ارادے کا ذرا سا بھی شک ہوتا ہے، حراست میں لے کر نفسیاتی بحالی کے مرکز میں بھیج دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہاں خودکشی کے واقعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کوئی مہینہ ایسا نہیں جاتا کہ جب اس جنگل کے کسی نہ کسی حصے سے کوئی لاش برآمد نہ ہو۔ اگرچہ پولیس اور حکام یہی کہتے ہیں کہ مرنے والے نے خود ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے، تاہم مقامی لوگ اور دیگر روایت پسند جاپانی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو یہ مان لینا چاہیے کہ یہ جنگل آسیب زدہ ہے جس کے مکین (جن بھوت، بدروحیں وغیرہ) زندہ انسانوں کو اپنی جانب پکارتے ہیں اور جو شخص ان کی آواز کے زیراثر ہوکر اس جانب چلا آتا ہے تو وہ اسے ہلاک کردیتے ہیں اور پھر مرنے والے لوگ بھی اس جنگل کے بھوتوں اور آوارہ بدروحوں کی برادری میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس جنگل میں جانے والے کئی افراد یہ دعوے بھی کرتے پائے گئے ہیں کہ انہوں نے یہاں خودکشی کرنے والے ان لوگوں کے بھوتوں کو منڈلاتے ہوئے دیکھا ہے جنہیں وہ جانتے تھے اور جن کی لاشیں دفنائی یا جلائی جا چکی ہیں۔ اس چیز سے قطع نظر کہ اوکیگا ہارا کا جنگل آسیب زدہ ہے یا نہیں، یہ بات توطے ہے کہ یہاں یقیناً کچھ نہ کچھ تو ایسا ہے جو سمجھ میں نہیں آتا۔ آخر اس جنگل میں لوگ لاپتہ کیوں ہوجاتے ہیں….؟ یہاں لوگوں کو بھوت، آوارہ روحیں اور دیگر مافوق الفطرت چیزیں کیوں دکھائی دیتی ہیں….؟

جنگل کے اندر تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ کے بعد جاناخطرے سے خالی نہیں لیکن پھر بھی جاپانی لوگ دور دراز کا سفر طے کرکے اسی جنگل میں کیوں جاتے ہیں؟


اور پھر سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ آخر بہت سے جاپانی لوگ دور دراز کا سفر طے کرکے اسی جنگل میں کیوں جاتے ہیں اور پھر زندہ واپس نہیں آتے….؟
وہ کون سی نادیدہ اور پر اسرار طاقت ہے جو کچھ لوگوں کو کھینچ کر اس جنگل تک لے جاتی ہےاور پھر وہ دوبارہ کبھی زندہ دکھائی نہیں دیتے….؟

 

 

جنوری 2013ء

یہ بھی دیکھیں

جنات سے ملاقات

چند مشہور شخصیا ...

جنات، آسیب، ہمزاد اور ماورائی مخلوقات سے متعلق خواجہ شمس الدین عظیمی سے سوال و جواب

جنات، آسیب، ہمز ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *