Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کشورِ ظلمات ۔ قسط 12

تاریکی کے دیس میں بسنے والی مخلوق کے اسرار پر مشتمل دلچسپ کہانی….

 

’’اندھیرا بھی روشنی ہے‘‘….
یہ حضرت قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے….
جس چیز کو ہم اندھیرا کہتے ہیں اُس میں بھی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اُس دنیا میں بھی زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ حرکت میں ہے…. ہم نے چونکہ اندھیرے کو خوف کی
علامت بنا دیا ہے، اس لئے اندھیرے میں روشن یہ دنیا ہم پر منکشف نہیں ہوتی…. لیکن ایسے واقعات اکثرو بیشتر پیش آتے رہتے ہیں جب کشورِ ظلمات کے مظاہر کے ادراک
کا احساس ہونے لگتا ہے…. سائنسی علوم کے ماہرین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات میں زندگی بیِشمار پیکر میں جلوہ گر ہوسکتی ہے…. سائنسی تحقیق کے مطابق
ایک زندگی وہ ہے جو ’’پروٹین اِن واٹر‘‘ کے فارمولے سے وجود میں آئی ہے۔ ہم انسان جو پروٹین اور پانی سے مرکب ہیں اپنی غذا ہائیڈروجن اور کاربن کے سالمات سے حاصل
کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی مخلوق ’’پروٹین اِن ایمونیا‘‘ کے فارمولے پر تخلیق ہوئی ہو تو اُسے ایسی غذا کی ضرورت ہرگز نہ ہوگی جو انسان استعمال کرتے ہیں…. ممکن ہے وہ فضا
سے انرجی جذب کرکے اپنی زندگی برقرار رکھتی ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کے جسم میں نظام ہضم کے آلات مثلاً معدہ، جگر، گردے، آنتیں وغیرہ بھی موجود نہ ہوں!…. اُن
کے جسم کی ہیئت ہمارے تصور سے بالکل ماوریٰ ہو!…. ممکن ہے کہ اُن کا جسم وزن سے بالکل آزاد ہو!…. وہ ہوا میں اُڑسکتی ہو!…. اتنی لطیف ہوکہ چشم زدن میں
ہماری نظروں سے غائب ہوجائے!…. وہ مختلف شکلیں اختیار کرسکتی ہو!…. مابعد الحیاتیات کے ماہرین خیال کرتے ہیں کہ کائنات میں ایسی مخلوق کا پایا جانا جانا
بعیدازامکان ہرگز نہیں ہے….
ظلمات کے معنی ہیں….تاریکی…. اور کشور کے معنی دیس یا وطن کے ہیں…. تاریکی کے دیس میں آباد ایک مخلوق سے متعارف کرانے والی یہ کہانی فرضی واقعات پر
مبنی ہے….  کسی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی….

 

 

(بارہویں قسط)

عمر کو عالمِ جنات میں آج دوسرا دن ہو چلا تھا…. وہ قسطورہ کے دادا کے گھر مقیم تھا…. گوکہ وہ عالمِ جنات کی انتظامیہ کا مہمان تھا اور انتظامیہ نے اُس کی رہائش کا بندوبست کررکھا تھا لیکن قسطورہ کے دادا نے عالمِ جنات کی پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے کہا کہ وہ عمر کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں…. عمر نے دیکھا کہ اُس افسر نے بلا حیل و حجت قسطورہ کے دادا کی بات مان لی…. بعد میں قسطورہ نے اُسے بتایا کہ اس کے دادا نے بڑے بڑے جلیل القدر اولیاء اللہ سے فیض پایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر اُن کی بڑی قدرو منزلت کی جاتی ہے…. اُنہوں نے اپنی روحانی طاقت سے یہاں بہت سے مسائل کا خاتمہ کیا ہے اس لئے حکومتی سطح تک بھی ان کی رسائی ہے اور بعض معاملات میں تو مشورہ کرنے کے لئے اعلیٰ عہدیدار ان کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔
قسطورہ کے بات سُن کر عمر حیرت میں پڑگیا….۔ وہ یہ سوچنے لگا کہ اتنے بڑا فرد اُس کا استقبال کرنے کے لئے آیا تھا…. آخر اس کی کیا وجہ ہے؟….۔
صبح ہوتے ہی عدالت کے ہرکارے عمر کو لینے کے لئے آگئے…. قسطورہ بھی عمر کے ساتھ عدالت پہنچی…. اس عدالت کا طریقہ کار بالکل انسانوں کی دنیا کے طریقہ کار کی مانند تھا…. عمر سے آگیا بتیال کے بارے میں چند سوالات پوچھے گئے…. عمر نے ان سوالوں کے جواب میں اپنے اوپر گزری ہوئی مکمل روداد سُنا ڈالی….
قسطورہ کا کزن عنبر کٹہرے میں کھڑا اپنے اوپر عائد کئے گئے الزامات کا جواب دے رہا تھا…. عمر کی گواہی کے بعد اُس کے خلاف کیس خاصا مضبوط ہوگیا تھا…. عنبر کے والد کی حکمرانوں تک رسائی تھی اس لئے اُنہوں نے عنبر کو بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا…. عنبر کا وکیل پینترے بدل بدل کر عمر پر دلیلوں اور سوالوں کی بوچھاڑ کرنے لگا…. ایک لمحے کے لئے تو عمر گڑبڑا سا گیا…. اُس کو کچھ سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے رہا ہے…. اس موقع پر وکیل استغاثہ نے اُٹھ کر عدالت کو بتایا کہ گواہ چونکہ اس دنیا کا باشندہ نہیں ہے اور یہاں کے ماحول سے کچھ خوفزدہ بھی ہے ، چنانچہ وکیل صفائی کو چاہئے لپ ایک ساتھ کئی سوالات کرنے کے بجائے کچھ سوالات کو اگلی سماعت کے لئے رکھ چھوڑیں…. وکیلِ صفائی جواب میں تقریباً شور مچانے لگا، لیکن عدالت نے وکیل استغاثہ کے مؤقف کو تسلیم کرلیا…. اصل مسئلہ آگیا بتیال کے ساتھ عنبر کے تعلق کو ثابت کرنا تھا…. آگیا بتیال شیطنت کے فروغ کے لئے کام کرنے والا ایک وسیع گروہ تھا…. یہ گروہ عالمِ جنات اور عالمِ انسان دونوں میں پھیلا ہوا ہے…. اگر یہ ثابت ہوجاتا کہ عنبر کا تعلق آگیا بتیال سے کس حد تک ہے تو پھر پولیس کو یہ اختیار حاصل ہوجاتا کہ وہ عنبر سے آگیا بتیال کے متعلق مزید تفصیلات اُگلواسکے، لیکن یہ بہت نازک مرحلہ تھا….۔ عنبر کو اسی کیس میں موت کی سزا ہوسکتی تھی…. چنانچہ جہاں آگیا بتیال کا نیٹ ورک بھی اُسے بچانے کے لئے خفیہ طور پر متحرک تھا…. وہیں اُس کی شاطر ماں اور باپ بھی سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف تھے…. عنبر اور عمر کے لئے سیکورٹی بہت سخت تھی…. جہاں ظاہری طور پر بہت زبردست انتظامات کئے گئے تھے وہیں قسطورہ کے دادا عمرام صاحب سے بھی حکومت نے درخواست کی تھی کہ وہ روحانی طور پر اس معاملے کی نگرانی کریں تاکہ آگیا بتیال کی استدراجی قوتوں سے محفوظ رہا جاسکے…. یہی وجہ ہے کہ عمرام نے جب عمر کو اپنے گھر ٹھہرانے کے لئے کہا تو پولیس افسر نے بلا پس و پیش مان لیا….۔
عدالت میں ابھی وکیلِ صفائی کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہوگیا….
عمر سپاہیوں کی سخت حفاظت میں واپس قسطورہ کے دادا کے گھر پہنچا…. یہ گھر کیا تھا ایک بڑی سی حویلی تھی…. حویلی میں اُس کا کمرہ دوسری منزل پر تھا لیکن قسطورہ اُسے لے کر ایک ہال نما بڑے سے کمرے میں پہنچی…. یہاں بہت سے جنات جمع تھے اور قسطورہ کے دادا عمرام کی گفتگو بہت غور سے سن رہے تھے…. عمر اور قسطورہ کو ہال میں داخل ہوئے تو عمرام خاموش ہوکر ان دونوں کو دیکھنے لگے…. چند افراد نے بھی اُن کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا، قسطورہ کے ہمراہ ایک انسان کو دیکھ کر اُن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں…. پھر وہ آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے…. یوں باقی جنات کو اِس محفل میں ایک انسان کی موجودگی کا علم ہوگیا….۔
قسطورہ عمر کو اپنے دادا کے پاس لے گئی…. عمرام نے عمر کو بیٹھنے کا اشارہ کیا…. عمر نے پوچھا ’’آپ کوئی درس دے رہے تھے؟‘‘….۔
اُنہوں نے کہا ’’بھائی ہم کیا کسی کو درس دیں گے…. یہ لوگ ہر ہفتے کی شام کو یہاں اکھٹے ہوجاتے ہیں…. کچھ اپنی کہتے ہیں اور کچھ ہماری سنتے ہیں…. ہمیں اللہ نے اپنے دوستوں کی محبت میں کچھ وقت گزارنے کا شرف عطا کیا…. ہم نے بزرگوں سے جو کچھ بھی سنا اُس میں سے کچھ ہم ان لوگوں کے بھی گوش گزار کردیتے ہیں‘‘….۔ یہ کہنے کے بعد اُنہوں نے حاضرین سے مخاطب ہوکر اپنی گفتگو کا دوبارہ آغاز کیا:
’’جنات کے علاوہ انسان بھی مکلف مخلوق ہے…. انسان کو اللہتعالیٰ نے یہ شرف بخشا ہے کہ اگر وہ کوشش کرے تو وہ اللہتعالیٰ کی نیابت کے مرتبے پر فائز ہوسکتا ہے‘‘….۔
’’معاف کیجئے گا…. میں قطع کلامی کر رہا ہوں…. آپ نے ابھی فرمایا کہ انسان اگر چاہے تو وہ اللہ کی نیابت کے مرتبہ پر فائز ہوسکتا ہے…. جبکہ میںنے تو یہ سنا ہے بلکہ پڑھا بھی ہے کہ ’’انسان کو اللہ نے اپنا نائب بنایا ہے‘‘…. عمر نے کہا
عمرام نے مسکراتے ہوئے عمر کو دیکھا اور بولے ’’قرآن پاک کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آدم اسمائے الہٰیہ کے علوم اور اسرار سے واقف ہے اور ان علوم سے فرشتے واقف نہیں…. اب اگر آدم کی اولاد میں سے کوئی فرد اسمائے الہٰیہ کے علوم سے ناواقف ہے تو وہ ہرگز اشرف المخلوقات کہلائے جانے کا حق دار نہیں‘‘….
عمر گوکہ عالمِ جنات میں بالکل بے دست و پا تھا لیکن اُسے انسانوں کے حوالے سے یہ تبصرے بہت گرااں گزرے…. اُسے تو بچپن سے اسی فخر میں مبتلا کردیا گیا تھا کہ وہ اشرف المخلوقات ہے…. گوکہ اِسی موضوع پر اُس کی قسطورہ کے ساتھ بھی کافی بحث ہوچکی تھی لیکن بچپن میں جو بیج بودیا گیا تھا وہ اب تناور درخت بن چکا تھا…. اُسے اتنی آسانی سے تو نہیں گرایا جاسکتا تھا…. چنانچہ اُس نے پھر ایک سوال داغا ’’جناب قرآن تو ہم انسانوں کے لئے نازل ہوا ہے‘‘….
’’نہیں! تمہارا علم محدود ہے…. قرآن اللہتعالیٰ نے جن و انس کی ہدایت کے لئے اپنے محبوب حضرت محمد رسول اللہﷺ پر نازل فرمایا….۔ اسی قرآن میں ہی اللہتعالیٰ کا ارشاد ہے….
’’ہم نے اپنی امانت سماوات پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کی، سب نے کہا ہم اس کو اُٹھانے کے متحمل نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ امانت اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھائی تو ہم ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور ہمارا وجود نیست و نابود ہوجائے گا‘‘….
مذکورہ ارشادِ باری تعالیٰ پر غوروفکر کریں تو یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے آجاتی ہے کہ آسمان بھی شعور رکھتے ہیں، زمین بھی شعور رکھتی ہے، پہاڑ بھی شعور رکھتے ہیں…. بھئی کسی بات کا اقرار کرنا یا انکار کرنا اس بات کی نشاندہی نہیں کہ اُس میں عقل و شعور موجود ہے؟…. اللہ کے دوستوں کی تعلیمات کے مطابق جس طرح مکلف مخلوق انسان اور جنات سماعت، بصارت اور گویائی رکھتے ہیں، اسی طرح پتھر میں بھی یہ ساری صلاحیتیں موجود ہیں…. اور جس طرح مکلف مخلوق میں سوچنے اور غور کرنے کی صلاحیت ہے اسی طرح پتھر بھی غوروفکر کرسکتا ہے…. یہی وجہ ہے کہ پہاڑوں نے اپنے متعلق غوروفکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ہم اللہتعالیٰ کی امانت کے بوجھ کو اُٹھالیا تو ہم نیست و نابود ہوجائیں گے اور اُنہوں نے اللہتعالیٰ سے معذرت کرلی…. لیکن قرآن پاک کے مطابق انسان نے اس امانت کو قبول کرلیا، بے شک انسان ظالم اور جاہل ہے…. اس کا مطلب یہ ہو اکہ آسمان، زمین اور پہاڑ ظالم اور جاہل نہیں ہیں…. انسان صرف اُس وقت اشرف المخلوقات ہے جب کہ وہ امانتِ الہٰیہ سے واقف ہے…. امانتِ الہٰیہ کیا ہے؟…. یہ کائنات کے تخلیقی فارمولے ہیں…. اسماء سے مراد اللہ کی وہ صفات ہیں جو تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘‘….
عمرام نے اپنی گفتگو مکمل کی تو عمر کی زبان پر ایک اور سوال مچل رہا تھا ’’میں نے سنا ہے کہ جنات شرپسند مخلوق ہے؟‘‘…. عمر نے سوا ل تو کردیا لیکن سوچنے لگا کہیں یہ لوگ میرے سوال سے ناراض نہ ہوجائیں…. عمرام نے عمر کی جانب مسکراتے ہوئے یوں دیکھا جیسے کسی نادان بچے کو کوئی بزرگ دیکھا کرتا ہے…. اور بولے ’’بیٹا! ایسی بات نہیں ہے!‘‘….۔
’’دراصل میں یہ بات اس بنیاد پر کر رہا ہوں کہ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ شیطان نوعِ جنات کا ایک فرد تھا‘‘….۔ عمر نے دوبارہ سوال کیا
’’شیطان کا اصل نام عزازیل تھا…. وہ نوعِ اجنّہ میں سے ہی تھا…. اللہ پاک نے اُسے نظامِ تکوین میں کچھ اختیارات عطا کئے تھے…. قرآن پاک کے مطابق جب اللہتعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کا ارادہ کیا تو فرشتوں نے عرض کی یہ جو مخلوق آپ پیدا کرنے جارہے ہیں اس کے متعلق ہمارے کچھ تحفظات ہیں…. ہمیں خدشہ ہے کہ یہ زمین پر شر اور فساد کا سبب بنے گی…. اللہتعالیٰ نے ملائکہ کے خدشے کو رَد نہیں کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جو ہم جانتے ہیں وہ تم نہیںجانتے…. چنانچہ نوعِ انسان کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی…. حضرت آدم کو علم الاسماء منتقل ہوئے اور جب ان علوم کا مظاہرہ آدم کے ذریعے سے ہوا تو تما م مخلوقات نے آدم کی حاکمیت کو تسلیم کرلیا…. قرآن پاک میں سجدہ کرنے کا تذکرہ ہے…. یہ دراصل اطاعت اور فرمانبرداری کا استعارہ ہے…. جنات میں بلند مرتبہ عزازیل نے اِس موقع پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور آدم کی اشرفیت کو ماننے سے انکار کردیا…. لہٰذا راندئہ درگاہ ہوگیا…. اس نے اللہتعالیٰ سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ اُسے آدم کی نسل کو گمراہ کرنے کے اختیارات دئیے جائیں…. عزازیل کو یہ اجازت مل گئی…. عزازیل نے اپنا ایک گروہ تیار کیا…. اس گروہ میں جنات کے علاوہ انسان بھی شامل ہوتے گئے…. آج تو انسانوں کی ایک بڑی تعداد شیطانی طرزِفکر پر چل رہی ہے….۔ لیکن یہ شیطانی گروہ اللہتعالیٰ کے ایسے بندوں کو گمراہ کرنے سے قاصر رہتا ہے جنہیں اللہتعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور جنہیں اللہتعالیٰ کی امانت کا علم حاصل ہو….۔
آگیا بتیال بھی شرپسند جنات اور انسانوں پر مشتمل ایک گروہ کا نام ہے، جس کا کام انسانوں اور جنات کو گمراہ کرنا ہے…. تاکہ وہ دوسروں کے لئے فساد کا سبب بن سکیں…. عالمِ جنات کی حکومتوں نے کئی جگہ سے گروہِ شیطنت کا کافی حد تک قلع قمع کردیا ہے…. یہاں پر اس قسم کے گروہ سے وابستگی ثابت ہوجائے تو سزائے موت سنادی جاتی ہے….۔
یہاں تم نے دیکھا ہوگا کہ اہلِ سیاست، اہلِ روحانیت کے مشاورت سے نظامِ مملکت چلاتے ہیں…. آج کل عالمِ جنات میں تحقیق و ایجادات کا دور دورہ ہے….۔ یہ سب شر ہے یا خیر…. درحقیقت انسانوں نے ہم جنات کو خوامخواہ میں اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے…. اگر یہ طرزِفکر ختم ہوجائے تو دونوں مخلوقات مل کر خیر کی طرزِفکر کے لئے زیادہ کام کرسکیں گی…. اور یہ کوئی انوکھی یا ناممکن بات بھی نہیں…. حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں انسان اور جنات ایک ساتھ پیغمبرانہ مشن کی ترویج کے لئے کام کرتے تھے…. آج بھی اللہ کے دوستوںکی محفل میں سینکڑوں ہزاروں جنات شریک ہوتے ہیں اور فیض پاتے ہیں‘‘…. عمرام نے اپنی گفتگو ختم کی اور محفل میں موجود جنات وہاں سے رُخصت ہوگئے….۔
عمر قسطورہ کے دادا کی باتیں حیرت کے ساتھ سُن رہا تھا…. اُس نے آخر میں پوچھا ’’حضرت! مجھے اپنی ماں جی بہت یاد آرہی ہیں…. یہاں سے مجھے کب رُخصت ملے گی؟‘‘….۔
’’زیادہ نہیں بس ایک ماہ لگ جائے گا‘‘….۔
’’لیکن ایک ماہ تو بہت زیادہ عرصہ ہے‘‘….
’’دادا! ایک ماہ کا مطلب!…. یہ تو بہت زیادہ نہیں ہوجائے گا‘‘….۔ قسطورہ نے کہا
’’ہاں! یہ تو ہے‘‘…. عمرام نے کچھ سوچتے ہوئے کہا…. کچھ دیر خاموش رہے اور پھر قسطورہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ’’میرا خیال ہے ہمیں عمر کو اعتماد میں لے لینا چاہئے‘‘….
’’ہاں! عمر بات یہ ہے کہ عالمِ جنات اور تمہاری دنیا کے درمیان وقت کا بہت فرق ہے…. جب تم ایک ماہ یہاں گزار کر وہاں پہنچو گے تو وہاں ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہوگا‘‘….۔قسطورہ بولی
ایک سال!…. حضرت مجھ پر رحم فرمائیے…. میری ماں جی بہت بوڑھی ہیں، بیمار بھی رہتی ہیں…. کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میر اروگ لگاکہ دنیا ہی سے رُخصت نہ ہوجائیں…. اور حرا کیا وہ میرا ایک سال تک انتظار کرلے گی‘‘…. عمر کے آنسو نکل آئے….

(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

پارس ۔ قسط 5

پانچویں قسط : & ...

کشورِ ظلمات ۔ قسط 9

تاریکی کے دیس م ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *