بلوں کی ادائیگی کے لئے شکریہ
تیرہواں دن
ہم سب زندگی سے کیا چاہتے ہیں ۔؟
تھوڑازیادہ ۔
‘‘ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ ’’ ا کثر لوگوں سے جب یہ سوال کیا گیا تو ان کے جوابات کا مجموعہ یہ تھا:
زیادہ پیسے…. تاکہ زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کئے جائیں۔
ایک بڑا سا گھر….زیادہ عزت….
زیادہ اچھی ملازمت یا زیادہ کامیابکاروبار….
زیادہ محبت…. زیادہ چھٹیاں ….
زیادہ خوشیاں….
آپ اپنوں کے لیے تھوڑا زیادہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، انہیں زیادہ آسائشیں دینا چاہتے ہیں…. انہیں زیادہ تحفظ دینا چاہتے ہیں …. ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہتے ہیں…. آپ زیادہ طویل زندگی گزارنا چاہتے ہیں ….زیادہ صحت بھی چاہتے ہیں …. زیادہ سفر کرنا چاہتے ہیں …. آپ اپنی اولاد کو یا بہن بھائیوں کو تھوڑا زیادہ دینا چاہتے ہیں …. زیادہ اچھی تعلیم …. زیادہ تفریح کے مواقع…. زیادہ خوشحالی اور کامیابی….
لیکن دے نہیں پاتے ، کیوں….؟
ہماری اکثریت کے لئے اچھی زندگی ایک خواب بن گئی ہے۔ آخر کیوں ….؟ آخر کیوں ہماری اکثریت کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔
عذاب محض یہی نہیں ہے کہ آسمان سے آگ برسادی جائے، زمین کو الٹ دیا جائے یا چہروں کو بگاڑدیا جائے۔ عذاب یہ بھی ہے کہ بھوک اور خوف مسلط ہو جائیں…. رشتوں سے محبت اورجسم سے تندرستی سلب ہوجائے…. عزت اور سکون چھن جائے اور سب سے بڑھ کر خدا کی رحمت اور ہدایت سے محروم ہوجائے۔
خدا کی رحمت اور ہدایت سے محرومی سے بڑا عذاب کوئی اور نہیں۔عذاب چاہے کسی بھی صورت میں ہو انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔ اللہ رب العزت تو رحمت ہی رحمت ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے:
‘‘اللہ تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ۔ اللہ قدردان اور داناہے’’۔ [سورۂ نساء:آیت147]
عذاب ہوتا ہی اس وقت ہے جب نعمتوں کی ناشکری کی جائے۔ شکر گزار شخص تو سکون اور فراوانی میں زندگی گزارتا ہے۔ عذاب کی سب سے بڑی وجہ ناشکری ہے۔ اس کی متعدد مثالیں قرآنِ حکیم میں بیان کی گئی ہیں۔ سورۃ النحل کی آیت نمبر112 میں ارشاد ہے:
‘‘اور اللہ ایک گاؤں کی مثال بیان فرماتا ہے کہ وہاں کے لوگ (ہرطرح) امن اور اطمینان کے ساتھ تھے، ہر طرف سے با فراغت ان کا رزق ان کے پاس چلا آتا تھا، پھر انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو ان کے کرتوتوں کے بدلے میں اللہ نے ان کو مزہ بھی چکھا دیا کہ بھوک اور خوف کو ان کا اوڑھنا بچھونا بنا دیا’’۔ [سورهٔ نحل:آیت 112]
ہماری اکثر ضروریات پیسوں سے ہی پوری ہو سکتی ہیں، لیکن ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے۔ پیسے کیلئے بھائی بھائی کا دشمن ہو جاتا ہے، پیسے کیلئے برسوں پرانی دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی ہیں۔ پیسوں کیلئے انسان انسان کی تذلیل کرتا ہے، پیسوں کیلئے انسان دوسرے انسان کو اس کے جائز حق سے محروم کر دیتا ہے۔ پیسوں کی وجہ سے انسان خود کشی کرتا ہے اور پیسوں کیلئے ہی وہ اپنے اور پرائے کی جان تک لے لیتا ہے۔ یہی پیسہ اور زیادہ آجائے تو انسان صحت مند غذا استعمال کر لے، اپنی اولاد کو بہتر تعلیم دلوادے، اپنوں کی زندگی جوش و خروش اور خوشیوں سے بھر دے، اپنی مرضی کی کتابیں پڑھ لے، اپنی پسند کی دنیا گھوم لے لیکن وہ ایسا نہیں کر پاتا۔
کیوں؟
کیونکہ اس کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے۔
کیا واقعی ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے….؟؟؟
اس بات کو آپ اس مثال سے سمجھیں :
ایک فقیر ایک چوراہے پرایک لکڑی کی پیٹی پر بیٹھ کر آنے جانے والوں سے بھیک مانگا کرتا تھا۔ ایک روز ایک شخص اس سے سوال کرتا ہے کہ اس پیٹی میں کیا ہے۔ فقیر جواب دیتا ہے،’’پتہ نہیں۔ میرے باپ دادا اس پیٹی پر بیٹھ کر اسی طرح بھیک مانگتے رہے ہیں۔ نہ انہوں نے کبھی کھولا اور نہ ہی میں نے کبھی دیکھا کہ اس میں کیا ہے۔‘‘
اس شخص کو حیرت ہوئی ،‘‘پھر تم اسے کھول کر دیکھتے کیوں نہیں ہو…..؟’’
‘‘جاؤ جاؤ اپنا کام کرو۔ مجھے نہیں دیکھنا کہ اس میں کیا ہے۔’’
اس شخص نے جب بے حد اصرار کیا اور ٹلنے کا نام نہیں لیا تو فقیر نے جان چھڑانے کیلئے نا چاہتے ہوئے پیٹی کا تالا توڑ ڈالا۔ تالا توڑتے ہی اس کی چیخ نکل گئی۔ پیٹی سونے سے بھری ہوئی تھی۔
ہمیں لگتا ہے…. ہمیں لگتا ہے کہ پیسہ نہیں ہے۔ پیسہ ہماری دسترس میں ہوتاہے اور ہمارے پاس آنے کیلئے بیتاب ہوتا ہے لیکن ہم ناشکری کر کے اس کا رخ کسی اور جانب موڑ دیتے ہیں۔ ہم خزانے کو تالے میں بند کر کے چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کیلئے ادھر ادھر پریشانی کے عالم میں بھٹکتے رہتے ہیں۔اس تالے کو شکرگزاری کے ذریعے کھولنا شروع کر دیں۔ہم یہ عمل یعنی شکر بار بار کرتے رہیں۔ اللہ نے تو واضح طور پر ارشاد فرما دیا ہے :
‘‘اگر تم شکرگزاری کروگے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گااور اگر تم نا شکری کروگے تو یقیناًمیرا عذاب بہت سخت ہے’’۔[سورهٔ ابراہیم:آیت 7 ]
شکر گزاری دولت ہے اور شکوہ و شکایت افلاس۔ اسے آپ اپنی زندگی کا سنہرا اصول بنالیں۔
آج کی مشق کے بعد آپ کے لئے شکر گزاری کے بہت سارے در خود بخود کھل جائیں گے۔ آپ کو احساس ہوگا کہ ہم کس کس طرح ناشکری کر رہے ہیں اور شکر گزاری کے ذریعے کس طرح قدرت کے قانونِ دو لت کو اپنے لئے استعمال کرسکتے ہیں ۔ آپ کو بہت سے لوگ ایسے بھی ملیں گے جو بتائیں گے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں پھر بھی ان کے حالات تبدیل نہیں ہوتے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو غیر شعوری طور پر اللہ کی ، اس کے بندوں کی یا حالات کی نا شکری کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ اگرکسی کے ہم پر احسانات ہوں اور ہم ان احسانات کے لئے شکریہ کے الفاظ ادا نہ کریں یا ہمیں احساس نہ ہو کہ وہ ہم پر احسانات کر رہا ہے تو یہ بھی ناشکری ہے۔ یہی کچھ ہم پیسوں کے معاملہ میں بھی کرتے ہیں۔ کوئی شکوہ، منفی خیال، حسد یا پریشان کن الفاظ اور خیالات ہمیں مزید غریب کردیتے ہیں۔
ہمیں پاؤلو کوئیلو کے وہ الفاظ یاد رکھنے چاہئیں جو اس نے اپنی مشہور زمانہ ناول الکیمسٹ میں لکھے تھے۔ یہ وہی ناول ہے جسے ‘‘گنیز بک آف ریکارڈ ’’ میں دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں کی فہرست میں شمار کیا ہے ۔
Every blessing ignored becomes a curse. ~Paulo Coelho
‘‘ہر وہ نعمت جسے نظر انداز کیا جائے ،زحمت بن جاتی ہے’’۔ [پاؤلو کوئیلو]
آ ج کے دن کی مشق کی رہنمائی ہمیں اس شخص سے ملتی ہے جو 80 سال کی عمر کو پہنچ گیاتھا۔ بڑھاپا اپنے عروج پر تھا۔ عمر کے ا س حصے میں چلنا پھرنا دوبھر ہو گیا، کھانا پینا دشوار ہوگیا۔ پھر ایک دن اچانک اس کی سانسیں اکھڑنا شروع ہو گئیں۔ اس شخص کو فوراً ہسپتال میں داخل کروا دیاگیا۔ ڈاکٹروں نے ایمرجنسی میں آپریشن کیا جو کامیاب رہا۔
ہسپتال سے ڈسچارج ہوتے وقت ڈاکٹر نے بوڑھے شخص کو بل تھما دیا جس پر ہسپتال میں قیام کے دوران ہوئے تمام اخراجات درج تھے۔بل دیکھ کر بوڑھا شخص رونے لگا…. ڈاکٹر نے کہا:
‘‘اگر بل دینا آپ کے بس میں نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، ہم اس کا متبادل بندوبست بھی کر سکتے ہیں’’۔
بوڑھے شخص نے کہا، ‘‘میرے چار بیٹے ہیں اوریہ بل میرے لئے کوئی بڑی بات نہیں۔ میں اس لئے نہیں رویا کہ میں بل ادا نہیں کر سکتا بلکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ میرے رب نے مجھے 80 سال بےشمار نعمتوں سے نوازا لیکن آج تک میرے ہاتھ میں کوئی بل نہیں تھمایا!!’’
عام لوگوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب انہیں مختلف بلز ادا کرنے ہوتے ہیں تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں ۔ پریشانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ منفی خیالات پورے ذہن پر چھا جاتے ہیں اورمنفی سوچ ناشکری ہے۔
یاد رکھیں….! اب آپ عام انسان نہیں رہے ہیں پچھلے تیرہ مضامین سے آپ یہی سیکھ رہے ہیں کہ ہر طرح کے حالات میں شکر ادا کرنا کتنا ضروری ہے اور ہر طرح کے حالات میں آپ کیسے شکر ادا کرسکتے ہیں۔ عام لوگ جب بھی بجلی، پانی، فون، گیس وغیرہ کا بل دیکھتے ہیں تو جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب آپ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ آپ سیکھ چکے ہیں کہ اس طرح مسائل مزید بڑھ جائیں گے اور حالات اوربھی خراب ہوجائیں گے۔
اب جب بھی آپ کے پاس بل آئے تو سب سے پہلے شکر ادا کریں۔ اکثر لوگوں کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ بل دیکھ کر شکر کیوں اور کیسے ادا کیا جائے۔ بہت آسان ہے۔ سوچیں…. جس چیز کا آپ کو بل ملا ہے اس کے بدلے آپ کو کتنی آسانیاں ملی ہیں۔ فرض کریں آپ کو بجلی کا بل موصول ہوا ہے۔ اگر آپ سے کہاجائے کہ اب آپ کے پاس کبھی بھی بجلی کا بل نہیں آئے گا لیکن بجلی بھی فراہم نہیں کی جائے گی تو آپ کی کیفیت کیا ہوگی۔ اس بجلی سے آپ کی زندگی میں کتنی آسانی ہے۔ آپ ایک بٹن دباتے ہیں اور گھر روشن ہوجاتا ہے۔ کمرہ ٹھنڈا یا گرم ہوجاتا ہے، ٹی وی آن ہوجاتا ہے، فریج، واشنگ مشین، استری اور دیگر بہت سارے کام اس بجلی کی بدولت ہو جاتے ہیں۔ کیا کبھی آپ نے ان تمام چیزوں کیلئے شکر ادا کیا۔
اسی طرح گیس کا بل، انٹر نیٹ کا بل، کیبل ٹی وی کا بل۔ گھر کا کرایہ ہو یا بچوں کے اسکول کی فیس ، کوئی بھی ادائیگی ہو، سوچیں ان بلو ں کی بدولت ہی تو زندگی خوبصورت ہے۔ اگر زندگی سے بل والی چیزں نکال دی جائیں تو ہمارا کیا حال ہو…..؟
سوچیں زندگی میں اللہ نے کتنی ہی مرتبہ آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ بِل ادا کرسکیں۔ تعلیم سے لے کر تفریح تک اور بنیادی ضرورتوں سے لے کر آسائشوں تک آپ ہرہر بِل ادا کرتے رہے، آج ان تمام بلوں کا شکریہ ادا کریں۔ آج گھر یا آفس میں رکھے ہوئے بلوں میں سے دس بل نکالیں اور ان پر لکھیں
‘‘شکریہ …. ادا کردیا گیا ’’
اور اگر آپ کے بل آن لائن آتے ہیں تو انہیں خود کو فارورڈ کریں اور Subject میں لکھیں Thank you for the money
آج کے بعد اپنی عادت بنالیں کہ جب بھی آپ کے پاس بل آئے یا پرانا بل نظر سے گزرے مسکرائیں اور کہیں…. شکریہ! ادا کردیا گیا۔
آج گھر یا آفس میں رکھے ہوئے بلوں میں سے دس بل نکالیں اور ان پر لکھیں ۔۔۔۔۔۔۔بلز Bills۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔یادگار لمحات۔۔۔۔۔۔۔ 2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فوائد و تاثرات: آپ نے یقیناًاُس بڑے بحری جہاز کی کہانی سنی ہوگی جس کا انجن فیل ہوگیا تھا۔ … “Effort is important, but knowing where to make an effort makes all the difference! ” ‘کوشش بہت اہم ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ جاننا ہے کہ کوشش کس سمت میں کی جائے، اس بات کے یقین کے بعد ہی کوئی کوشش ثمر آور ثابت ہوتی ہے۔ (جاری ہے) نومبر 2016ء [تیرہواں دن ]
‘‘شکریہ …. ادا کردیا گیا ’’
کچھ ایسے بلز اگر آپ کے پاس ہوں جن سے آپ کی حسین یادیں جڑی ہوئی ہوں، ان کے متعلق سوچیں یامختصراً لکھ لیں ۔(حج عمرہ زیارت، گھروالوں کے ساتھ ویکیشن، آفس کی جانب سے کسی ملکی یا بین الاقوامی دورے کے بلز وغیرہ)
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________ _____________________________بحری جہاز کا انجن
ایک دفعہ ایک بڑے بحری جہاز کا انجن فیل ہو گیا۔ جہاز کے مالک اس نے یکے بعد دیگرے ماہرین سے انجن فعال کرانے کی کوشش کی مگر ان میں سے کوئی بھی اسے ٹھیک نہ کر سکا۔ ایک کے بعد ایک مکینک آتا، مختلف تجربات کرتا اور معذرت کرکے چلا جاتا۔
اس جہاز کے دو مالکان تھے، دونوں ہی پریشان ہو گئے کیونکہ اگر جہاز وقت پر روانہ نہ ہو سکا تو دونوں کنگال ہو جائیں گے۔ اسی دوران ایک ایسے عمر دراز شخص کو انجن ٹھیک کرنے کیلئے لایا گیا جو بچپن سے ہی یہ کام کر رہا تھا۔
اس کے پاس اوزاروں کا ایک بہت بڑا تھیلا تھا۔اس نے پہنچتے ہی کام شروع کر دیا۔
سب سے پہلے تو اس نے اوپر سے نیچے ، دائیں سے بائیں انجن کا باریک بینی سے معائنہ کیا۔جہاز کے دونوں مالکان بھی وہیں موجود تھے اور حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ یہ مکینک جانتا بھی ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔سب کچھ جانچنے کے بعد بوڑھا آدمی اپنے بیگ کے پاس گیا اور ایک چھوٹا ہتھوڑا نکالااور ایک مخصوص جگہ ہلکی سی ضرب لگائی۔ایسا کرتے ہی انجن میں جان پڑ گئی۔اس نے سکون سے ہتھوڑااپنے بیگ میں رکھااور ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ انجن اب کام کر رہا تھا۔
ایک ہفتے کے بعد جہاز کے مالک کو پچاس ہزار روپے کا بِل موصول ہوا۔
‘‘کیا!’’ مالک چیخ پڑا۔ ‘‘اتنے سے کام کے پچاس ہزار روپے؟ ’’
لہذا مالک نے اسے نوٹ لکھا، ‘‘برائے مہربانی بِل میں تفصیلات واضح کردیں۔’’
اس بار بوڑھے آدمی نے بل دوبارہ بھیجا جس میں تفصیلات کچھ اس طرح سے تھیں:
ہتھوڑے سے ضرب لگانے کے ………………….. 2 روپے
یہ جاننے کیلئے کہ ضرب کہاں لگانی ہے……….49,998 روپے