Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

تلاش (کیمیاگر) قسط 15

انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔
کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔ 
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….

پندرھویں قسط ….

گزشتہ قسط کا خلاصہ : یہ کہانی اندلوسیا (اسپین ) کے ایک نوجوان سان تیاگو کی ہے، والدین اُسے راہب بنانا چاہتے تھے مگر وہ سیاحت کے شوق میں چراوہا بن گیا۔ ایک رات وہ بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک ویران گرجا گھر میں گزارتا ہے اور ایک عجیب خواب دیکھتا ہے کہ ‘‘کوئی اسے اہرام مصر لے جاتا ہے اورکہتا ہے کہ تمہیں یہاں خزانہ ملے گا۔’’ خزانے کا مقام دیکھنے سےقبل آنکھ کھل جاتی ہے۔ دو سال سے بھیڑیں ہی اس کی دنیا تھیں لیکن تاجر کی بیٹی سے ملنے کے بعد وہ اس کی دلچسپی کا محور بن گئی تھی۔ وہ شہر طریفا میں ایک خانہ بدوش عورت سے ملتا ہے، جو خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ خزانہ اسے ضرور ملے گا۔ وہ مذاق سمجھ کر شہر کے چوک پر آبیٹھا جہاں اس کی ملاقات خود کو شالیم کا بادشاہ کہنے والے بوڑھے سے ہوتی ہے جو کہتا ہے کہ وہ خزانہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرسکتا ہے ۔ پہلے تو لڑکا اُسے فراڈ سمجھا، لیکن جب وہ بوڑھا اسے وہ باتیں بتاتا ہے جو صرف وہی جانتا تھا تو اسے یقین ہوا۔ بوڑھا سمجھاتا ہے کہ ‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، جب انسان کسی چیز کو پانے کی جستجو کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ’’۔ خزانہ کی مدد کے بدلے بوڑھا بھیڑوں کا دسواں حصہ مانگتا ہے جو لڑکا دے دیتا ہے۔ بوڑھا بتاتا ہے کہ خزانے تک پہنچنے کے لیے غیبی اشاروں کی زبان سمجھنا ہوگی۔ بوڑھا اُسے دو سیاہ سفید پتھر دیتا ہے کہ اگر کبھی تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں سکو تو یہ پتھر ان کو سمجھنے میں مدد کریں گے۔ بوڑھا چلا جاتا ہے اور لڑکا ایک چھوٹے سے بحری جہاز سے افریقہ کے ساحلی شہر طنجہ پہنچتا ہے۔ یہاں کا اجنبی ماحول دیکھ کر وہ فکرمند ہوجاتا ہے ، اسے ایک ہم زبان اجنبی ملتا ہے۔ لڑکا اس سے مدد مانگتا ہے۔ اجنبی رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ لڑکا اجنبی شخص پر بھروسہ کرکے رقم دے دیتا ہے ، لیکن اجنبی بازار کی گہما گہمی میں نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ رقم کھونے پر لڑکا مایوس ہوجاتا ہے لیکن پھر وہ خزانہ کی تلاش کا مصمم ارادہ کرتا ہے۔ اسی شہر میں شیشے کا سوداگر پریشان تھا، اس کی ظروف کی دکان جو کبھی سیاحوں کی توجہ کامرکزتھی، اب بے رونق ہوتی جارہی تھی۔ سارا دن وہ گاہک کے انتظار میں گزاردیتا۔ اچانک دوپہر کو وہ لڑکا اس دکان پر آکر کہتا ہے کہ وہ دکان کی صفائی کرنا چاہتاہے، بدلے میں اسے کھانا چاہیے۔ لڑکے کے کام صفائی کرنے پر سوداگر اسے کھانا کھلاتاہے۔ لڑکا اُسے بتاتا ہے کہ اسے مصر جانا ہے جس کے لیے وہ کام کرنے کو تیار ہے۔ سوداگر کہتا ہے کہ سال بھر کام کرنے سے بھی اتنی رقم جمع نہ ہوگی۔ لڑکا مایوس ہوجاتا ہے۔ تاجر واپس ملک لوٹنے کا کہتا ہے مگر لڑکا دکان میں کام کرنے لگتا ہے۔ لڑکے کو کام کرتے اندازہ ہوتا ہے کہ بھیڑیں خریدنے کے لیے اُسے کم از کم سال بھر کام کرنا پڑے گا۔ زیادہ رقم پانے اور زیادہ گاہک لانے کے لیے وہ سڑک پر ایک شوکیس لگانے کا مشورہ دیتا ہے، پہلے تو تاجر نقصان کا خدشہ ظاہر کرتا ہے مگر پھر مان جاتا ہے ۔کاروبار میں بہتری آنے لگتی ہے۔ ایک دن سوداگر لڑکے سے پوچھتا ہے کہ وہ اہرام کیوں جانا چاہتا ہے ، لڑکا بتا تا ہے کہ یہ اس کا خواب ہے۔ سوداگر بتاتا ہے کہ اس کا بھی خواب تھا کہ وہ مکّہ معظّمہ کا سفرکرے، اس نے دکان کھولی ، رقم جمع کی، لیکن کوئی ایسا شخص نہ مل سکا جو اِس کی غیرموجودگی میں دکان سنبھالے۔ یوں مکّہ جانے کا خواب ، خواب ہی رہ گیا۔ لڑکا دکان کے ساتھ قہوہ کی دُکان کھولنے کا مشورہ دیتا ہے، سوداگر مان جاتا ہے۔ لوگ آنے لگتے ہیں اور کاروبار خوب پھیلنے لگتا ہے ….لڑکے کو کام کرتے گیارہ مہینے ہوتے ہیں تو وہ شیشے کے سوداگر سے وطن واپسی کی اجازت طلب کرتا ہے۔ لڑکے کو سامان باندھتے ہوئے سیاہ و سفید پتھر ملتے ہیں ۔ اِن دونوں پتھروں کو ہاتھ میں لینے سے اہرام پہنچنے کی خواہش پھر جاگ اٹھتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اندلوسیا میں تو کبھی بھی واپسی ممکن ہے لیکن اہرامِ مصر دیکھنے کا موقع دوبارہ نہ آ سکے گا۔ سوداگر کے پاس ایک شخص تجارتی سامان قافلہ کے ذریعہ صحرا لے جانے آیاکرتا تھا، وہ اس کے گودام جاتا ہے، جہاں انگلستان کا ایک باشندہ ملتا ہے۔ جس نے زندگی کائناتی زبان کی جستجو کے لیے وقف کر دی اور اب کیمیا گری سیکھنا چاہتا تھا ۔ عرب کے ریگستان میں مقیم ایک کیمیاگر کا تذکرہ سُن کر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اُسے ملنے کے لیے یہاں آیا ہے۔ انگلستانی باشندہ سے گفتگو کے دوران اوریم اور تھومیم پتھروں ، غیبی اشارہ اورکائناتی زبان کا ذکر سن کر لڑکے کی دوستی ہوگئی۔ گفتگو کے دوران لڑکے کی زبان سے نکلاکہ وہ خزانہ کی تلاش میں ہے، لیکن انگلستانی باشندے کو صرف کیمیاگر کی تلاش تھی۔ صحرائی قافلہ روانگی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ قافلہ کا سردار اعلان کرتا ہے کہ ہر شخص کو اس سفر میں ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔قافلے نے مشرق کی سمت رُخ کرکے سفر شروع کردیا۔ سورج کی تمازت پر سفر رک جاتا اور سہہ پہر میں دوبارہ شروع ہوجاتا۔ انگلستانی باشندہ زیادہ تر اپنی کتابوں میں منہمک رہا جبکہ لڑکا دلچسپی اور خاموشی کے ساتھ صحرا ، قافلہ اور اپنے ارد گر مختلف زبان اور نسل کے لوگوں کا مشاہدہ کرنے اور ریگستانی ہوا کی آوازوں کو سننے میں گزارتا ۔ رات جب الاؤ لگا کر بیٹھے تو ایک سارِبان نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے قاہرہ میں اس کا باغ اور خاندان ایک زلزلہ کی نظر ہوگیا ، لیکن اس کا اللہ پر یقین قائم ہے۔ کبھی راہ چلتے پُراسرار نقاب پوش بدّو ملتے جو خطرہ سے باخبر کرتے ۔ اِس دوران بعض قبیلوں میں جنگ کی خبر سنتے ہی قافلے کی رفتار میں تیزی آ گئی تھی اور سفر زیادہ خاموشی سے طے کیا جانے لگا۔ ایک رات انگلستانی باشندے کولڑکے نے اپنے خواب اور سفر کی پوری کہانی سنائی۔ انگلستانی باشندے نے اسے علم کیمیا کے کائناتی اصول سمجھنے کے لیے کتابیں دیں لیکن کتابیں کچھ زیادہ ہی دقیق اور گنجلک تھیں، لڑکے کے کچھ پلّے نہ پڑا۔ لڑکے نے سب کتابیں یہ کہہ کر واپس کردیں، کہ وہ ان کتابوں سے یہی سیکھا کہ کائنات کی ایک روح ہے اور جو بھی اِس روح کو سمجھ لیتا ہے وہ کائناتی زبان جان لیتا ہے ۔انگلستانی باشندے کو مایوسی ہوئی کہ کتابیں لڑکے کو متاثر نہ کر سکیں۔ قبیلوں میں جنگ کی خبر سن کر سفر تیز ہونے لگا۔ خوف کے اس دور میں ساربان مطمئن رہا، اس نے لڑکے کو بتایا کہ اِس کے لئے سب دن برابر ہیں اور ماضی کی یادوں اورمستقبل کے اندیشوں کے بجائے اگر انسان اپنے حال پر زیادہ توجہ دے تو اس کی زندگی زیادہ خوشحال گزرے گی ۔ آخر کارقافلہ الفیوم نخلستان پہنچ گیا۔ نخلستان میں موجود کیمیاگر قافلے کا منتظر تھا، کائنات کی علامتوں سے اس پر انکشاف ہوگیا تھا کہ اِس قافلے میں ایک ایسا شخص آرہا ہے جسے اُس نے اپنے مخفی علوم کے بعض راز بتانا ہیں لیکن کیمیاگر اُس شخص کو ظاہری طور پر پہچانتا نہ تھا ۔ ادھر لڑکا اور انگلستانی باشندہ نخلستان کے وسیع العریض منظر کو دیکھ کر متاثر اور حیران ہورہے تھے۔ قافلے کے سردار نے اعلان کیا کہ جنگ کے خاتمہ تک قافلہ نخلستان میں مہمان رہے گا ، ٹھہرنے کا سُن کر لڑکا فکرمند ہوجاتا ہے کیونکہ اسے اور بھی آگے جانا تھا۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش کے سلسلے میں اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ دونوں کیمیاگر کو تلاش کرتے رہے لیکن انہیں کامیابی نہ ملی۔ آخر کار لڑکا نخلستان کے ایک کنویں پر پانی بھرنے والوں سے پوچھنے لگا۔ ایک نوجوان عورت پانی بھرنے آئی۔ جیسے ہی لڑکے کی نظر اس کی گہری سیاہ آنکھوں پر پڑی اسی لمحے اُسے ایسا لگا کہ جیسے وقت کی رفتار تھم گئی ہے۔لڑکے نے عشق کے جذبات کو محسوس کیا اور لڑکی کے جذبات بھی مختلف نہیں تھے۔ لڑکی سے پوچھنے پر پتا چلا کہ کیمیاگر صحرا میں رہتا ہے۔ انگلستانی باشندہ کیمیاگر کی تلاش میں فوراً ہی چل پڑا۔ اگلے دن لڑکا پھر لڑکی سے ملنے کی امید میں کنویں پر پہنچااور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیا ۔ اب روز ہی لڑکا کنویں کے کنارےلڑکی سے ملنے جانے لگا اوراسے اپنی زندگی کی کہانی سنادی۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن صحرا میں جنگ ابھی بھی جاری تھی۔ لڑکی کے کہنے پر لڑکے نے سفر آگے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ لڑکی سے بچھڑنے کا سوچ کر لڑکا اداس ہوگیا۔ لیکن لڑکی اسے کہتی ہے کہ وہ اسے آزاد مرد دیکھنا چاہتی ہے اور وہ اس کا انتظار کرے گی۔ لڑکا انگلستانی باشندے کے پاس پہنچتا ہے جو اپنے خیمہ کے سامنے بھٹی بنا کر اس میں تجربات کررہا ہوتا ہے۔ انگلستانی باشندہ بتاتا ہے کہ کیمیاگر نے اسے گندھک الگ کرنے کا کام دیا ہے اور اس کام میں کامیابی کی اولین شرط یہ ہے کہ ناکامی کا خوف بالکل نہ ہو۔ لڑکا اُس کے عمل کو دیکھتا رہا اور پھر صحرا میں نکل گیا۔ کچھ دیر تک وہ صحرا میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا اور پھر ایک پتھر پر مراقب ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ عشق میں وصل، فراق اور ملکیت کے تصور پر غور کرتا رہا، لیکن کسی میں فرق کرنے سے قاصر رہا۔ ابھی اسی سوچ میں غرق تھا کہ اُسے اُوپر عقابوں کا ایک جوڑا پرواز کرتا نظر آیا۔ تنویمی حالت میں عقابوں کو دیکھتے اُس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ اچانک ایک عقاب دوسرے پر جھپٹا۔ تب ہی لڑکے کو جھماکے سے ایک عکس نظر آیا کہ ایک فوج نخلستان میں داخل ہورہی ہے۔ اس عکس نے لڑکے کو جھنجھوڑ دیا۔ اُسے لگا کہ واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے۔ وہ نخلستان کی جانب دوڑگیا۔ لڑکے نے ساربان کو اپنے مکاشفہ کے متعلق بتایا، ساربان نے یقین کرلیا کیوں کہ وہ ایسے لوگوں سے مل چکا تھا جو مستقبل جان لیتے ہیں۔ وہ بھی ایک بزرگ سے ملا تھا جس نے اسے سمجھایا تھا کہ مستقبل کو کھوجنے سے بہتر ہےکہ حال پر غور کرو، حال ہی میں اصل راز پوشیدہ ہے۔ مستقبل صرف قدرت کے ہاتھ میں ہے، البتہ قدرت کبھی کبھی مستقبل کو کسی پر منکشف بھی کردیتی ہے، ساربان لڑکے کو سردار ِقبیلہ کو اطلاع دینےکا کہتا ہے۔ لڑکا ججھکتا ہے لیکن ساربان کے سمجھانے پر سردارِ قبیلہ کے خیمہ جا پہنچتا ہے۔ پہرے دار کے کہنے پر سنہرے لباس پہنے ایک نوجوان عرب باہر آتا ہے اور لڑکا اسے سب کچھ بتادیتا ہے۔وہ ٹھہرنے کا کہہ کر واپس خیمے میں چلا جاتا ہے …. اب آگے پڑھیں …………

….(گزشتہ سے پوستہ)

 

رات کا اندھیرا چھانے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد سردار کے خیمے میں گہماگہمی پیدا ہوگئی ، لڑکے کے سامنے دیکھتے ہی دیکھتے کئی تاجر اور ہتھیاروں سے لیس جنگجو لوگ تیزی سے خیمہ میں داخل ہوئے ، جس سے نسبتاً پُرسکون ماحول میں گرمی پیدا ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ تاجر اور مسلح افراد ایک ایک کر کے باہر نکلے…. جلتے ہوئے الاؤ کی آگ بجھا دی گئی ۔ اب نخلستان بھی صحرا کی طرح پُر حول سنّاٹے کی زد میں آ گیا، سردار کے خیمے کے اندر کی روشنی البتہ باقی تھی۔
تنہائی میں کھڑے کھڑے لڑکا ، اپنی محبوبہ کے تصوّر میں کھویا رہا۔ آخری ملاقات میں دونوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی اُس کو ابھی تک وہ کوئی معنی نہ پہنا سکا تھا۔
گھنٹہ بھر انتظار کے بعد آخر کار، پہرے دار نے اُسے خیمہ کے اندر جانے کی اجازت دی۔ وہ اندر داخل ہوا تو خیمہ کی سجاوٹ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔اُس کے گمان میں بھی نہ تھا یہاں ریگستان کے بیچ ایسا خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔
خیمے کا فرش ایسے بیش قیمت قالینوں سے مزیّن تھا جن پر وہ آج تک نہ چلا تھا، خیمہ کی چھت سے سونے کے بنے شمع دان لٹک رہے تھے جن کی روشنی خیمہ کو منوّر کر رہی تھی۔ سردارانِ قبیلہ انتہائی قیمتی گدّوں پر نصف دائرے کی شکل میں بیٹھے چائے اور قہوہ سے محظوظ ہورہے تھے۔
متعدد غلام حُقّوں میں آگ سلگانے کے انتظام پر مامور تھے۔ خیمے کی فضا حُقّہ کے خوشبودار دھوئیں سے بھری ہوئی تھی۔
اس قبیلے کے کل آٹھ سردار تھے، سب یہاں موجود تھے، لیکن سب سے بڑے سردار کو پہچاننے میں لڑکے کو ذرا بھی دیر نہ لگی۔ وہ ان سب کے درمیان شان سے بیٹھا ہوا تھا۔ اپنے قیمتی سفید اور سنہری لباسِ سے دوسروں سے ممتاز نظر آرہا تھا۔ سردارِ قبیلہ کے برابر میں سفید اور سنہری پوشاک میں وہی عرب جوان بیٹھا تھاجس سے لڑکا کچھ دیر قبل بات کر چکا تھا۔


‘‘یہ اجنبی کون ہے…. جو غیبی علامتوں کی بات کرتا ہے۔ ’’ ایک سردار نے لڑکے کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
‘‘جی ! وہ میں ہوں ….’’ لڑکے نے جواباً کہا اور پوری بات دہرا دی۔
‘‘صحرا ایک اجنبی لڑکے کو یہ غیبی اشارے کیوں بتانے لگا؟…. جبکہ ہم لوگ نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں ’’ دوسرے سردار نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
‘‘میری آنکھیں ابھی تک اُس ریگستان کی عادی نہیں ہوئیں۔’’لڑکے نے جواب دیا۔ ‘‘میں وہ چیزیں یقیناً آسانی سے دیکھ سکتا ہوں جو عادی آنکھوں کو شاید نظر نہ آئیں….’’
اور شاید اِس لیے بھی کہ کائنات کی روح سے بھی میں واقف ہوں لیکن یہ آخری جملہ اس نے دل میں خود اپنے آپ سے کہا۔
ــ‘‘نخلستان کو ہمیشہ ایک غیر جانبدار علاقہ Neutral Territoriesمانا جاتا ہے اُس پر کوئی بھی حملہ نہیں کرسکتا۔ یہ صحرائی قبائل کی روایت اور قانون ہے’’ ایک تیسرے سردار نے لڑکے کی تردید کرتے ہوئے اپنا موقف رکھا۔
لڑکابولا ‘‘ دیکھیں! میں نے جو بھی دیکھا، وہ آپ سب کو بتا دیا…. اگر آپ لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں ہے تو پھر آپ کی مرضی، آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’’
باقی سردار آپس میں بحث کرنے لگے۔ یہ بحث خاصی پُر جوش اور مقامی عربی لہجے میں تھی جو لڑکے کی سمجھ سے بالا تر تھی۔ لڑکے نے پلٹ کر واپس جانا چاہا تو پہرے دار نے اُسے روک دیا اور وہیں ٹہرنے کا کہا۔ اُس سے لڑکے کے دِل میں خوف کی ایک لہر اُبھر آئی۔
وہ سوچنے لگا کہ کہیں اِن لوگوں کو یہ بات بتا کر کوئی غلطی تو سرزد نہیں ہو گئی۔ اسے خیال آیا کہ شاید ساربان کو بتا کر اُس سے غلطی ہوئی لیکن اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔
اچانک درمیان میں بیٹھا بڑا سردار بے خیالی میں مسکرا اُٹھا۔ لڑکے نے یہ دیکھ کر خاصا سکون اور اطمینان محسوس کیا۔ اُس بڑے سردار نے ابھی تک بحث میں حصّہ نہ لیا تھا۔
لڑکے کو کائناتی زبان کا فہم تھا۔ اُس نے محسوس کر لیا کہ خیمہ کے ماحول میں اب اطمینان کی لہر غالب ہوگئی ہے۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ یہاں آکر اُس نے غلطی نہیں کی۔
بحث ختم ہوئی، سب لوگ خاموش ہو گئے۔ بوڑھا سردارِ قبیلہ جو کچھ کہنے والا تھا، اُسے سننے کے لیے سب ہمہ تن گوش ہو گئے۔ بوڑھے سردار کی آواز اُبھری۔ وہ لڑکے سے مخاطب تھا۔ اُس کے انداز میں بےرُخی اور سردمہری نمایاں تھی ….
‘‘کوئی دو ہزار برس پہلے کا قصّہ ہے۔ دور کی ایک سرزمین میں ایک نوجوان شخص ایسا گزرا جسے خوابوں پر یقین تھا، اسے ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا اور پھر اُسے بازار میں فروخت کر دیا گیا۔’’ وہ بوڑھا سردار اب ایسے عربی لہجے میں بول رہا تھا جسے لڑکا سمجھ سکتا تھا۔
‘‘تاجروں نے اُس آدمی کو خرید لیا اور اُسے مصر لے آئے…. یہ تو ہم سب بھی جانتے ہیں کہ جو بھی خوابوں میں یقین رکھتا ہے، وہ اُن کی تعبیر بھی جانتا ہے۔’’
سردار نے اپنی بات جاری رکھی۔
‘‘جب فرعونِ مصر نے ایک خواب دیکھا کہ کچھ گائیں موٹی ہیں اور کچھ دبلی ہیں تو اُس نوجوان نے جس کا میں ذکر کررہا تھا اس خواب کو سمجھ کر مصر کو ایک بڑے قحط سے بچا لیا۔ ’’
‘‘اُس نوجوان کا نام یوسف * تھا اور وہ بھی ایک نئے ملک میں اجنبی تھا ۔’’
تھوڑی دیر کے لیے سردار رُکا۔ لیکن ابھی بھی سردار کا چہرہ سپاٹ اور نگاہوں میں اجنبیت تھی۔ لڑکے کو سردار کی آنکھوں میں اب بھی دوستی کی چمک اور اس کے چہرے پر دوستانہ تاثرات نظر نہیں آرہے تھے۔
‘‘ہم لوگ ہمیشہ سے روایتوں کی پاسداری کرتے چلے آرہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ انہی روایات پر عمل کر کے اُس زمانے میں مصر قحط سے محفوظ رہسکا تھا۔ اُسی کے نتیجہ میں مصر کی قوم ایک امیرترین قوم بن کر اُبھری۔’’
‘‘ہماری یہ روایتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ زندگی کیسے گزاری جائے، دنیا سے کس نہج پر تعلق قائم کیا جائے۔ صحرا میں سفر کیسے کیا جائے، یہاں تک کہ بچوں کی شادیاں کس طرح کی جائیں۔
انہی روایتوں پر عمل کرتے ہوئے ہی ہم نے نخلستان کو سب کے لیے ایک غیر جانب دار علاقہ قرار دیا ہے۔ نخلستان دوست اور دشمن دونوں کے علاقوں میں ہو سکتے ہیں۔ اگر اِس روایت پر عمل نہ کیا جائے اور معاہدہ قائم نہ رہے تو پھر ہر علاقہ غیر محفوظ ہے۔’’

 

* حضرت یوسف علیہ السّلام کا زمانہ کم وبیش دو ہزار سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ قرآن اور تورات میں موجود حضرت یوسف ؑکے قصے میں اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ خواب مستقبل کی نشاندہی کا ذریعہ ہیں۔ عام طور پر خواب کو حافظے میں جمع خیالات اور بے معنی تصوّرات کہا جاتا ہے لیکن خواب کے تجربات اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ خواب محض خیالات کا عکس ہیں۔ خواب ایسی ایجنسی ہے جس کی معرفت انسان کو غیب کا کشف حاصل ہوتا ہے اور رُویاء کی صلاحیت انسان کو مادی سطح سے ماوراء باتوں کی اطلاع فراہم کرتی ہے۔ 


سردار کی گفتگو کے دوران خیمے میں موجود سب افراد پر سکوت سا طاری تھا۔
‘‘ہماری روایتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ صحرا اگر کوئی پیغام دے تو اُس پر اعتبار کرنا چاہیے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارا زیادہ تر عِلم اِس صحرا کا ہی مرہونِمنّت ہے۔’’
سردار نے اپنی بات ختم کرنے کے بعد کوئی اشارہ کیا اور سب لوگ مؤدب ہوکر کھڑے ہو گئے۔ پنچائت کی یہ نشست ختم ہو چکی تھی۔
حُقّوں کی آگ بجھا دی گئی اور محافظ تن کر کھڑے ہو گئے۔ لڑکا بھی جانے کے لیے اُٹھنے لگا تو بوڑھا سرداراُس سے پھر مخاطب ہوا۔
‘‘کل ہم لوگ اِس معاہدہ کو ختم کرنے کا اعلان کر رہے ہیں جس کے تحت کسی بھی شخص کو نخلستان میں ہتھیار لے کر چلنے کی اجازت نہ تھی۔ کل کا پورا دن ہم دشمن کی آمد کے منتظر رہیں گے اور سورج غروب ہوتے ہی تمام مرد حضرات اپنے ہتھیار میرے پاس جمع کرا دیں گے۔ دشمن کے ہر دس افراد کے مارے جانے پر تمہیں سونے کا ایک ٹکڑا بطور انعام ملے گا۔’’
‘‘لیکن خیال رہے کہ …. ہتھیار اُس وقت تک نہیں اُٹھائے جائیں گے جب تک جنگ نہ ہو۔ ہتھیاروں کی فطرت ایسی ہی متلوّن مزاج ہے جیسی صحرا کی۔ اگر اُنہیں استعمال نہ کیا جائے تو اگلی بار یہ دھوکہ دے سکتے ہیں۔ یاد رکھو کہ کل دن کے ختم ہونے تک اگر کوئی ایک ہتھیار بھی استعمال نہ کیا جاسکا تو ان کا استعمال تمہارے ہی اوپر ہوگا۔’’


لڑکا سردار کے خیمہ سے باہر آیا تو رات ہوچکی تھی البتہ پورے چاند کی روشنی نخلستان کو روشن کیے ہوئے تھی۔ اب لڑکے کا رُخ اپنے خیمہ کی طرف تھا جو یہاں سے کوئی بیس منٹ کی دوری پر تھا۔
جو کچھ ہو چکا تھا وہ خطرہ سے خالی نہ تھا۔ کائنات کی روح تک وہ پہنچا تو تھا لیکن یہاں تک پہنچنے کی قیمت بڑی بھاری ادا کرنی پڑ سکتی تھی۔ خود اُس کی جان بھی جا سکتی تھی۔ شرط بڑی خطرناک تھی، لیکن اب وہ اِن خطروں کا عادی ہو چکا تھا۔ جب اُس نے بھیڑوں کو بیچ کر اپنی تقدیر کھوجنے کےسفر کا فیصلہ کیا تھا وہ بھی ایک بڑی خطرناک شرط تھی۔
اُسے ساربان کے الفاظ یاد آئے۔ اُس نے کہاتھا کہ :
‘‘آج اور کل میں کوئی فرق نہیں۔ موت آج آئے یا کل دونوں برابر ہی ہیں۔’’
یہاں ہر نیا دن محض یا تو اِس لیے ہے کہ دنیا کو کچھ دیا جائے یا اِس لیے کہ دنیا پر اپنا نقش چھوڑ کرواپسی کا اعلان ہو جائے۔ سب باتوں کا انحصار اِس پر ہے کہ قدرت نے دن کے بارے میں لکھا کیا ہے۔‘‘مکتوب’’….
وہ چاند کی روشنی میں اپنے خیمے کی جانب اکیلا محو ِسفر تھا۔ اُسے اپنے فیصلے پر کوئی ملال کوئی پشیمانی نہیں تھی۔ اُس نے سوچا کہ کل اگر میں مارا بھی جاؤں تو میں یہ سمجھوں گا کہ قدرت کی منشا ہی نہیں تھی کہ میرا مستقبل تبدیل ہو۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ میں دنیا سے بالکل خالی ہاتھ جاؤں گا۔ میں نے کوشش کی، آبنائے پار کر کے اِس علاقہ میں آیا۔ شیشے کی اُس دکان پر کام کر کے خاصا تجربہ حاصل کیا۔ ایک صحرا کی تنہائی اور سکوت سے واقف ہوا ۔ اس لڑکی کی آنکھوں کی گہرائی نے بھی نئے تجربہ ، نئے جذبوں سے آگاہ کروایا۔
اُسے یاد آیا کہ اندلوسیا کو خیر باد کہنے کے بعد سے اُس کا ہر دن عزم و استقامت سے بھر پور گزرا ہے۔ اگر وہ کل کو مر بھی گیا تو وہ فخریہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے دوسرے چرواہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دنیا دیکھ لی ہے اور اُن سے کہیں زیادہ تجربہ اور علم سے اُس نے اپنا دامن بھر لیا ہے۔
اچانک ایک کڑاکے دار آواز ہوئی اور ہوا کا ایک اتنا تیز جھونکا آیا کہ وہ زمین پر گِر پڑا۔ اتنی تیز ہوا کا تجربہ اُسے آج تک نہ ہوا تھا۔ ریت کا ایک طوفان تھا۔ پورا علاقہ گرد و غبار سے بھر گیا تھا۔ چاند بھی اِس گہرے غبار میں نظر نہ آ رہا تھا۔ اچانک اُسے ایک انتہائی سفید گھوڑا نظر آیا جو بڑے خوف ناک انداز میں ہنہناتا چراغ پاہو کر اُس کے سامنے دو پاؤں پر کھڑا تھا۔
جب گرد و غبّار ختم ہوا تو لڑکا یہ دیکھ کر خوف سے لرز گیا کہ گھوڑے پر ایک سیاہ لباس پہنے سوار کھڑا تھا، اس کے بائیں بازو پر ایک ‘‘شکرا’’ پر پھیلائے بیٹھا تھا، سیاہ لباس کے ساتھ ساتھ وہ ایک سیاہ عمامہ باندھے تھا ، اس نے اپنا پورا چہرا سربند رومال نما مفلر میں لپیٹا ہوا تھا۔ اس کی دو آنکھوں کے سوائے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
بظاہر تو وہ صحرا کے ان خانہ بدوش پیغام رساں بدؤوں جیسا لگتا تھا لیکن اُس کی ہیت ان سے کہیں زیادہ طاقتور اور رعب و جلال والی تھی۔

 

اجنبی شہسوار نے گھوڑے کی زِین سے لٹکی میان سے ایک بہت بڑی خمدار تلوار نکال کر سونتی تو اُس کے پھل کی چمک روشن رات میں بھی آنکھوں کو خیرہ کر گئی۔ وہ انتہائی کرخت آواز میں بولا۔
‘‘عقابوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر اس کی نشانیوں میں معنی نکالنے کی ہمّت کس نے کی؟ اُس اجنبی شہسوار کی آواز اتنی بلند تھی کہ شاید نخلستان کے سب پچاس ہزار درختوں سے ٹکرا کر وہ اِس پورے علاقے میں گونج گئی۔’’

‘‘‘میں نے…. یہ میں ہوں…. جس نے یہ ہمّت کی ہے۔’’ لڑکے نے کہا۔
لڑکے کے ذہن میں ہسپانوی جنگجو سان تیاگو ماتا مورس کی سفید گھوڑے پر سوار اُس تصویر کے خدوخال روشن ہو گئے جو وہ بچپن سے اپنے گھر میں لٹکی ہوئی دیکھتا رہا تھا۔ سامنے کھڑا شخص بالکل ویسا ہی لگرہاتھا۔
‘‘میں نے یہ ہمّت کی تھی۔’’ لڑکے نے دوبارہ کہتے ہوئے اپنا سر خم کر لیا یہ سوچ کر کہ شاید تلوار کا وار اب ہونے ہی والا ہے۔
‘‘میں مستقبل کو دیکھ پایا ہوں اور میں نے سوچا کہ اس طرح ہزاروں جانیں محفوظ ہوجائیںگی۔’’
تلوار لڑکے کی گردن پہ گری تو نہیں البتہ آہستہ آہستہ نیچے آتی گئی اور اُس کی پیشانی سے آ کر لگ گئی تلوار کی ہلکی سی چبھن سے خون کا ایک چھوٹا سا قطرہ بھی نکل پڑا۔ شہسوار بالکل ساکن رہا اور لڑکا بھی ، جیسے اُسے زمین نے جکڑ لیا ہو۔ بھاگ جانے کا خیال تک اس کے دل میں نہ آیا۔ بلکہ اس کے دل میں عجیب سی خوشی اور اطمینان کااحساس تھا۔
اُس نے سوچا کہ وقت نے بھی کیا کیا دکھایا ہے۔ مقدّر کی جستجو میں موت کے کتنا قریب پہنچ گیا تھا اور پھر سلمیٰ سے ملاقات۔ اُسے اس بات کی زیادہ خوشی تھی کہ اس نے کائنات کی زبان کو سمجھ لیا ہے اور علامت دیکھ کر اُس نے بالکل صحیح معنیٰ سمجھ لیے تھے۔
اس نے جو سوچا وہ سچ ہوا …. اُس وقت دشمن اس کے روبرو تھا البتّہ اُسے موت کا خوف نہ تھا کیونکہ اُس کے نتیجہ میں وہ بھی اس کائناتی روح کا حصہ بن جائے گا، جیسا کہ صحرائی لڑکی نے کہا تھا۔ ایک دن اس کا یہ دشمن بھی اِس کائناتی روح کا حصہ ہوگا ، کیونکہ جب نخلستان پر حملہ آور ہو گا تو اُس کا انجام بھی تو وہی ہونے والا تھا۔
اجنبی شہسوار تلوار کی نوک لڑکے کی پیشانی سے لگائے رہا ‘‘تم نے ان عقابوں کی اُڑان کی علامات کو پڑھنے کی کوشش کیوںکی….؟’’
‘‘میں نے اِتنا ہی پڑھا جتنا عقابوں نے مجھے بتایا۔ شاید وہ نخلستان کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ اور ہاں کل جب تم نخلستان پر حملہ کرو گے تو تم لوگ ضرور مارے جاؤ گے کیونکہ تمہارے مقابلہ میں وہاں آدمی بہتزیادہ ہیں۔’’

تلوار کی نوک کا دباؤ بدستور قائم تھا۔
‘‘قدرت کی لکھے ہوئے کو بدلنے والے تم کون ہوتے ہو….’’
‘‘قدرت ہی نے فوجیوں کو پیدا کیا ہے اور وہی ان عقابوں کی خالق بھی ہے۔ اُسی نے مجھے کائناتی زبان کا فہم عطا کیا۔ سب کچھ اُسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔’’ لڑکے نے ساربان کی کہی باتوں کو یاد کرتے ہوئے جواب دیا۔
‘‘اجنبی شہسوار نے تلوار جب لڑکے کی پیشانی سے ہٹائی تو اطمینان کی لہر اُس کے بدن میں دوڑ گئی لیکن وہ اب بھی وہاں سے بھاگ جانے کی کوشش نہ کر سکا۔
‘‘مستقبل کی باتیں ظاہر کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔’’ اس اجنبی نے لڑکے سے کہا ‘‘جو لکھا جا چکا اُسے بدلا نہیں جا سکتا۔’’
لڑکا بولا ‘‘میں نے بس ایک فوج دیکھی تھی…. جنگ کا انجام نہیں جانتا ۔’’
اجنبی شہسوار اِس جواب سے مطمئن نظر آ رہا تھا، لیکن تلوار ہاتھ میں اُسی طرح سونتے رہا۔
اجنبی شہسوار بولا ‘‘ایک اجنبی دیس کا مسافر اِس غیر علاقے میں کیا کرنے آیا ہے….؟’’
‘‘میں تو وہی کر رہا ہوں جو میرے مقدّر میں لکھا ہے اور یہ ایسی چیزیں نہیں جو تمہاری سمجھ میںآجائیں….’’
شہسوار نے تلوار میان میں رکھ لی۔ لڑکے کی گھبراہٹ اطمینان میں بدل رہی تھی۔
‘‘میں تمہاری ہمّت کا امتحان لے رہا تھا۔’’ اجنبی بولا۔ ‘‘ہمّت ہی وہ اصل صفت ہے جو کائناتی روح کی تفہیم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔’’
لڑکا یہ سن کر متعجب ہو اُٹھا، کیونکہ یہ اجنبی ایسی باتیں بتا رہا تھا جو کم ہی لوگ جانتے ہیں۔
‘‘اپنے مقدر کی تلاش میں تم اتنا دور تک آ چکے ہو، اپنی کوششیں درمیان میں نہ چھوڑ دینا….’’ اجنبی نے اپنی بات جاری رکھی۔
‘‘صحرا سے محبت ضرور کرو لیکن اُس کی ہربات پر بھروسہ نہ کرو کیونکہ صحرا بھی قدرت کی طرح ہر ایک کا امتحان لیتا ہے۔ ہر قدم پر رکاوٹیں کھڑی کر کے یہ ایک طرح سے للکارتا ہے اور جو بہک جاتے ہیں اُن کو ختم بھی کر دیتا ہے۔’’


اجنبی شہسوار کی یہ باتیں سن کر لڑکے کو شالیم کے بوڑھے بادشاہ کی یاد آنے لگی۔ وہ بھی ایسے ہی بات کرتا تھا۔
‘‘کل اگر فوج حملہ کر دے اور تمہارا سر تمہارے کاندھوں پر سلامت رہے تو پھر مغرب بعد مجھے ضرور تلاش کرنا….’’ اجنبی نے لڑکے سے کہا۔ جس ہاتھ میں ابھی تک تلوار تھی اب اُس میں چابُک تھی۔
گھوڑے نے اگلی ٹانگیں پھر بلند کیں اور نظروں سے غائب ہونے لگا۔ آنکھوں کو اندھا کر دینے والی دھول نے ایک بار پھر لڑکے کو ماحول کو دھندلا دیا ۔
‘‘تم رہتے کہاں ہو؟’’ لڑکا زور سے چلّایا۔
چابک تھامے ہاتھ جنوب کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔لڑکے کو خوشی ہورہی تھی کہ اسے آج کیمیاگر سے ملاقات کا شرف حاصل ہو چکا تھا۔

 

(جاری ہے)
***

تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی

 

فروری  2019ء

یہ بھی دیکھیں

تلاش (کیمیاگر) قسط 10

دسویں قسط ̷ ...

تلاش (کیمیاگر) قسط 9

نویں قسط … ...

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *