Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

پارس ۔ قسط 6

کچھ نہیں بلکہ بہت سارے لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں ۔مرد ہونا طاقت اور اکرام کا سبب ہے۔عورت کا وجود کمزوری اورشرمندگی کی علامت ہے۔ 
ایسا سوچنے والے صرف مرد ہی نہیں ہیں کئی عورتیں بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں۔
بیٹے کی ماں بن کر بعض عورتیں خود کو محفوظ اورمعزز خیال کرتی ہیں، بیٹی کی ماں بن کر خود کوکمزور محسوس کرتی ہیں۔ مردانہ تسلط والے معاشر ے میں کئی مصیبتوں ،دکھوں اورظلمتوں کے درمیان ابھرنے والی ایک کہانی….مرد کی انا اورعونت، عورت کی محرومیاں اوردکھ،پست سوچ کی وجہ سے پھیلنے والے اندھیرے، کمزوروں کا عزم ،علم کی روشنی ،معرفت کے اجالے، اس کہانی کے چند اجزائے ترکیبی ہیں۔
نئی قلم کار آفرین ارجمند نے اپنے معاشرے کا مشاہدہ کرتے ہوئے کئی اہم نکات کو نوٹ کیا ہے۔ آفرین ارجمند کے قلم سے ان کے مشاہدات کس انداز سے بیان ہوئے ہیں اس کا فیصلہ قارئین خود کریں گے۔

چھٹی قسط :

 اماں میری گڑیا…..پارس نے سکینہ کو جھنجھوڑنا شروع کردیا۔
دونوں جیسے ہوش میں آگئے ۔ سونے کے سکے شفیق کی ہاتھ میں تھے وہ اس وقت بھی سکوں کو گھور گھور کر ان کے اصلی ہونے کا یقین کررہا تھا۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر تھا اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی ۔
ہاں ہاں دیتی ہوں۔سکینہ ماتھے سے پسینہ صاف کرتی اٹھی ۔
اور پورا صندوق یکدم پلٹ دیا۔
اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا ۔اس نے بمشکل اپنے حواس قابو کر کے ایک ایک کپڑے کو کھنگالنا شروع کردیا۔ گڑیا تلاش کرتے ہوئے اس کا دھیان چھن کی آواز پر زیادہ تھا مگر ان کپڑوں میں سوائے سیلن کے اورکچھ نہ تھا۔
تیری گڑیا اس میں نہیں پتر ۔ ٹھہر جا میں ڈھونڈ دوں گی۔اس نے جلدی جلدی سارے کپڑے دھوپ میں پھیلاتے ہوئے پارس کو ٹالنے کی کوشش کی۔
وہ ری۔پارس ماں کی بات ان سنی کرکے خوشیسےچلائی۔
کہاں ؟سکینہ نے چونک کر سر اٹھا کر پارس کیطرف دیکھا ۔
وہ ….وہاں ۔اس نے ننھی سی انگلی ایک جانب اٹھا کر اچھلتے ہوئے کہا۔
سکینہ نے پارس کی اٹھی انگلی کی سمت دیکھا ۔ کمرے میں رکھی دیوار سے لگی الماری کا پچھلا حصہ جو کھڑکی سے نظر آرہا تھا ۔اس کے اوردیوار کے درمیان کوئی سفید سی چیز لال رنگ میں لپٹی پھنسی ہوئی تھی ۔
او ہو۔ ہو ….. یہ یہاں پڑی ہے۔ اس نے لمبا سانس کھینچا
مجھ سے اکیلے تو نہیں ہوگا آپ بھی آؤ جی۔سکینہ نے ایک ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑکی سے اندر گھورتے ہوئے شفیق کو مدد کے لئے پکارا۔
اور پھر الماری کو تھوڑا آگے کھسکا کر ڈنڈے سے گڑیا باہر دھکیل دی۔
یہ لے …..سکینہ نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھکہا۔
پارس نے زمین پر پڑی گڑیا جلدی سے اٹھالی ۔
ای….مجھے نہیں چاہیئے۔ اس نے کراہیت سے گڑیا کودور پھینک دیا ۔ کپڑے کی گڑیا کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی مٹی میں اٹی ،گیلی گیلی سی ،کچھ جگہ سے سلائی ادھڑ گئی تھی جہاں سے روئی کے چھوٹے چھوٹے پُھنسڑے باہر نکل رہے تھے۔وہ ہاتھوں کواپنے کپڑوں سے صاف کرتی باہر بھاگ گئی ۔
اے لو….سکینہ نے خفگی سے ایک نظر بھاگتی پارس کوگھورا۔اور پھر کمرے میں دیکھنے لگی جہاں کپڑے،صندوق کا پرا نا سامان بکھر کر کسی کاٹھ کباڑ کا منظر دے رہا تھا۔
اف….خوب ہی وقت ضائع کیا۔ وہ بکھری چیزیں سمیٹتے تھک گئی تھی۔
وقت کہاں ضائع کیاتُونے….؟ذرا دیکھ تو….یہ پارس کی گڑیا ڈھونڈتے ہوئے ہی تو ملے ہیں ناں؟شفیق نے سکوں کو کھنکھناتے ہو ئے کہا ۔
ہاں یہ تو ہے ….سکینہ دھیمے سے بولی ۔
کیا آپ کو یہ سب عجیب سا نہیں لگ رہا۔وہ سنجیدگی سے بولی ۔جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کررہی ہو۔
ہاں لگ تو رہا ہے ۔
اب سمجھ میں آیا کہ ہاشم بابا اسے خاص کیوں کہتے ہیں۔وہ کام کرتے کرتے رک گئی ۔
کیا سمجھ آیا ؟شفیق نے سکینہ کی پوری بات سننے کے باوجود پھر پوچھا
یہی کہ …..مطلب یہ کہ ….سکینہ اپنی بات سمجھانے کے لئے الفاظ ڈھونڈنے لگی۔
شفیق غور سے اس کی بات سننے لگا۔
مطلب یہ کہ وہ میرا وہم نہیں تھا۔ ندی کا بند ٹوٹنے سے پہلے پارس کا پیالہ مانگنا اور پھر سیلاب کا آنا….اس نے کہا تھا۔ وہ بابا کے ساتھ مل کر پانی نکالے گی۔ سکینہ پارس کے الفاظ ذہن میں دہرانے لگی۔
اور آج یوں اچانک گڑیا کے لئے ضد کرنا تاکہ ہمیں یہ سکے مل جائیں ۔
آپ کو نہیں لگتا ؟یہ سب اشارے ہیں ہمارے لئے کہ ہماری پارس بہت خاص ہے ۔
وہ شفیق کا جواب سننے سے پہلے ہی بول پڑی ۔میں تو پہلے ہی سمجھ گئی تھی جی…. کہ میری بیٹی پر ا للہ کے نیک بندوں کی خاص نظرِکرم ہے ۔ان کا فیض ہے اس پر اور آپ خوامخواہ مجھے وہمی سمجھ رہے تھے۔وہ چہککربولی۔
تُو نے صحیح سمجھا تھا ۔شفیق نے سکینہ کی تائید کی ۔
تو جانتی ہے اس بات کا مطلب ؟پھر تو یہ بڑی ذمہداری ہے ہم پر۔ شفیق سنجیدہ ہوگیا۔
دیکھو جی ….!یہ بات ابھی کسی اور کو نہ ہی پتہ چلے تو اچھا ہے ۔سکینہ نے رازدارانہ سے انداز میں کہا
لیکن یہ چھپانا اتنا آسان بھی تو نہیں ۔
ہم کوشش تو کرسکتے ہیں ،جب تک چھپ جائے بہتر ہے ۔یہ پڑھ لکھ لے ،اپنے گھربار کی ہوجائے بس پھر خیرہے۔سکینہ بولی
اس نے کپڑے کی بوسیدہ گڑیا کچرے میں ڈال دی اور خود چیزیں سمیٹ کر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔تھکن کے باوجود اس کے آواز میں ایک نئی توانائی تھی۔ سیلاب سے ہونے والے تباہی کے بعد قدرت کی مدد ملنے پر شفیق اور سکینہ کے چہروں پرپہلی سی رونق لوٹ آئی تھی۔وہ ہاتھ میں پنکھا لے کر زور زورسےجھلنے لگی۔
شفیق نے کمرے سے باہر صحن میں پارس کو غور سے دیکھاجو موسم کی تپش سے بے نیاز کیاری کے پاس بیٹھی کھیل رہی تھی۔
میں سوچ رہا ہوں کہ ہم لوگوں کو کیا بتائیں گے….؟وہ نہیں پوچھیں گے یہ خالص سونے کے سکے کہاں سے آئے؟شفیق نے سکوت توڑا ۔
دیکھوجی…..وہ پنکھا سائیڈ پر رکھ کر بیٹھ گئی۔ سارا گائوں یہ بھی جانتا ہے کہ ہمارے مالی حالات پچھلے پانچ سالوں میں بہت اچھے ہوگئے تھے
کہہ دینا انہیں سالوں میں پارس کے لئے لے کر رکھے تھے۔ سکینہ نے سادہ سا حل بتادیا۔
شفیق اسے بے یقینی سے دیکھنے لگا۔
یقین کرو…. کوئی سوال نہیں کرے گا۔جس نے دئیے ہیں وہی راستہ بھی بنائے گا۔سکینہ اس کے چہرے پر بے یقینی کے آثار دیکھ کرپورے وثوق سے بولی
ہوں…..یہ بھی تُو صحیح کہہ رہی ہے۔اس کا اعتماد تھوڑا بحال ہوا
تو پھر آپ آج ہی سنار چاچا سے مل لو۔
کیوں ناں…..پاس والے گاؤں میں کسی سنار کے ہاتھ بیچ دیں اس طرح بات بھی نہیں کھلے گی۔شفیق نہ جانے کیوں اپنے گاؤں والوں کو بتاتے ہوئے جھجھکرہاتھا ۔
مگر جانا بھی تو آسان نہیں۔ جگہ جگہ دلدلکیچڑہے۔
آپ بہتر ہے کہ سنار چاچا کو اعتماد میں لو اور انہیں کے ہاتھ بیچو۔
اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔مگر پھر بھی وہ گہری سوچ میں تھا۔
اب کیا ہوا؟سکینہ اس کا چہرہ پڑھنے کی کوششکرنے لگی۔
تجھے نہیں لگتا ۔ان سکوں کاملنا ہماری مدد کے ساتھ کوئی آزمائش بھی ہو سکتی ہے ۔
کیسی آزمائش ….؟وہ الجھی
پتہ نہیں ۔شفیق نے کندھے اچکائے۔مجھے نہیں پتہ …..پردل کو ایسا لگتا ہے۔
اچھا آپ ان کو بیچو تو سہی۔ رقم ہاتھ میں آ جائے گی تو اس کا مصرف بھی سامنے آجائے گا۔
ہوں…. جاتا ہوں ، اس نے جانے کی تیاری پکڑلی اور ساتھ ساتھ خیالوں ہی خیالوں میں سنار سے بات کرنے کے لئے الفاظ جمع کرنے لگا۔
سکوں کے بدلے سنار سے ملنے والی رقم اچھی خاصی تھی ۔ شفیق نے چمڑے کے چھوٹے بٹوے میں ڈال کر نیفے میں اڑس لی۔شکر ہے کہ چاچے نے زیادہ سوال نہیں کیے۔وہ شکرادا کرتا جلد سے جلد گھر پہنچا۔
سکینہ بھی دروازے پر ہی اس کی منتظرتھی ۔اس نے بٹوا نکال کر ہوا میں لہرایااور اسی وقت گڈی کھول کر رقم گننے لگا۔
یہ پیسے آرڈر کے مال کے لیے۔ یہ راشن کےاوریہ…..
شفیق نے موٹی سی گڈی الگ کر کے بٹوہ میں واپس ڈال دی اور یہ زمین کے لئے۔اس کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آگئی۔
لے دھیان سے رکھ دے ۔شفیق نے رقم سکینہ کے حوالے کردی۔
میں کل ہی جاؤں گا نمبردار کے پاس ۔
برسوں بعد اس کا خواب پورا ہونے والا تھا۔شفیق دل ہی دل میں دکان کی تعمیر اور سامان کا حسابکرنےلگا ۔
سکینہ شفیق کو اتنا مطمئن اور خوش دیکھ کر خود کو بھی بہت پرسکون محسوس کررہی تھی۔
وہ دونوں طے کرنے سے قاصر تھے کہ یہ سب غیبی مدد تھی یا پھرکوئی آزمائش…..
دونوں یہی باتیں سوچتے نیند کی وادیوں میںکھوگئے۔
ابھی آدھی رات ہی گزری ہوگی شفیق کو نیند میں بے چینی محسوس ہوئی ۔اسے اپنے اطراف ٹھنڈک کااحساس ہورہا تھا۔جیسے ٹھنڈی لہریں اسکے رگ وپے میں اتر رہی ہو ۔
سکینہ کھیس ڈال دے ۔سردی سی لگ رہی ہے مجھے ۔اس نے نیند میں سکینہ کا کندھا ہلاتے ہوئے کروٹ لے لی ۔
کافی دیر گزرنے پر بھی کھیس نہیں ڈلا۔سکینہ شاید گہری نیند میں تھی ۔
اسے کھٹ پٹ سنائی دی ….تو پھر یہ کون ہے؟ شفیق نے آنکھیں کھول دیں۔
اس کے سامنے پارس کھڑکی کے پاس کھڑی باہر جھانک رہی تھی ۔
پتر تُو ادھر کیا کررہی ہے۔شفیق گھبراکر اٹھ بیٹھا وہ جلدی سے پارس کے قریب پہنچ گیا اور اسے گودمیںاٹھا لیا ۔
کیا ہوا پتر ؟اس نے پھرپوچھا۔
بابا چاند ….پارس نے کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف انگلی کردی جہاں ننھے ننھے تاروں کے درمیان چودھویں کا چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔اس لمحے پارس کے چہرے سے ٹپکنے والی روشنی چاند کی چمک سے کہیں زیادہتھی ۔
پھر اسی ٹھنڈک کا احسا س ہوا۔چل سوجا ماں کے پاس ۔ایسے اکیلے اب مت کھڑی ہوناآئندہ۔ اس نے پیار سےتنبیہکی۔
شفیق نے جلدی سے کھڑکی کے پٹ بند کردئیے اور پارس کو بھی کھیس میں اچھی طرح لپیٹ دیا۔
شفیق پارس کا یوں جاگنا کچھ عجیب سا لگا۔سارے دن کی باتیں اس کے ذہن میں گھومنے لگیں ۔اس نے لیٹے لیٹے گردن گھما کر دیکھا۔
پارس ماں سی لپٹی سوچکی تھی۔

 

٭٭٭


منہ اندھیرے مرغ کی بانگ کے ساتھ ہی شفیق ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔
اس نے سکینہ کو جھنجھوڑنا شروع کردیا۔ سکینہ اُٹھسویر ہوگئی ۔
مجھے آج سب سے پہلے نمبردار سے ملنا ہے ۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ گھڑی کی چوتھائی میں زمین پر اپنا کام شروع کردے۔
سکینہ بھی جمائیاں لیتی زبردستی خود کو جگاتی باورچی خانے میں گھس گئی ۔اسے بھی شفیق کی بے قراری کااندازہ تھا۔
نمبردار کو بھی تو اٹھنے د و۔سکینہ اس کو یوں بڑے بڑے نوالے حلق سے اتارتے دیکھ کر بولی ۔
نہیں اُٹھا ہوگا تو جگا دوں گا ۔پر آج یہ کام کرکے ہیآؤں گا۔
ا چھا جی ٹھیک ہے آپ تیار ہو جاؤ، میں پارس کو ناشتہ کرادوں ۔
وہ باہر صحن میں چلی گئی جہاں پارس کیاری کے پاس چبوترے پہ بیٹھی میٹھے پراٹھے کے چھوٹے چھوٹے لقمے لے رہی تھی ۔اس کے سامنے دودھ کا گلاس ایسے ہیرکھا تھا۔
دودھ پی لے پتر ۔سکینہ نے آواز لگائی ۔
اس کی گردن نہ نہ میں ہلنی شروع ہوگئی ۔
پی لے پتر ماں کی بات مان ۔شفیق جوتا پیر میں ڈالتے ہوئے باہر نکل آیا۔
زرا دھیان سے جانا ۔سکینہ نے رقم کا بٹوہ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
وہ زیرِ لب مسکرا دیا۔
ہشش ….ہشش سکینہ کیاری میں لگے دھنیئے، پودینے اور پالک کے پتوں پر سے چڑیوں کو اڑا نے لگی ۔
دیکھو تو ….سارے پتے کھا جاتی ہیں یہ چڑیاں۔
پارس نے اپنے پراٹھے کا ایک ٹکڑا کیاری کے پاس ڈال دیا۔یہ لو چڑیا…. تم یہ کھالو
شفیق ہنس پڑا….. ارے چڑیا پراٹھا نہیں کھاتی۔یہ تُو کھا۔اس نے نوالہ پارس کے منہ میںدےدیا ۔
تو پھر یہ بھوکی رہ جائے گی ۔
نہیں رہے گی ۔اللہ اس کو بھی کھانا دیتا ہے جیسے ہمیں دیتا ہے ۔
اچھا تو یہ بھی کھانا پکاتی ہے …..؟
ارے نہیں دادی اماں۔ یہ کھانا نہیں پکا تی۔یہ دانہ کھاتی ہے جیسے باجرہ ،چھوٹی پتیاں ۔
پر آپ نے تو اسے اڑا دیا۔وہ اب کیسے کھائے گی ۔
ارے یہ سارے پتے کھا جاتی تو میں تیرے لئے مزے کاپالک کیسے بناتی ؟سکینہ اسے بہلانے لگی
پر آپ تو کہتی ہو سب کو مل بانٹ کے کھانا چاہئے ۔
اُف ….شفیق نے سر پکڑلیا۔
دیکھ سکینہ …..اب چڑیا آئے تو اس کو متاڑانا….
ٹھیک ہے ….!خوش ….؟اس نے پارس کی طرف دیکھ کر کہا ۔
میں چلتا ہوں۔ دیر ہورہی ہے…. کہیں نمبردار نہ نکل جائے ۔وہ یہ کہتا تیزی سے باہر نکل گیا۔
اور ننھی پارس پراٹھے کا نوالہ لئے کیاری کے پاس بیٹھ کر چڑیا کا انتظار کرنے لگی ۔

 

٭٭٭


وہ کیچڑ سے بچتا بچاتا تیز قدم اٹھاتے نمبر دار کے گھر کی جانب جارہا تھا۔ راستے میں جمگھٹا دیکھ کر رک گیا ۔
مولوی رفیق اور گاؤں کے دوسر ے لوگ آپس میں سر جوڑے کھڑے تھے۔وہ ان کے قریب ہوگیا
مولوی رفیق اسے دیکھ کر مسکرادئیے ۔ابھی ہم تمہاری طرف ہی آرہے تھے۔
سب خیر ہے مولوی صاحب ؟
ابھی تو خیرہے۔مگر شایدکچھ دنوں بعد نہ رہے جمال پریشانی سے بولا
بدفال نہ نکال ۔اللہ سب خیر کرے گا۔مولوی رفیق نے جمال کو سرزنش کی
کیوں ناں ہم بیٹھ کر بات کریں ۔ہاں بہتر ہے سب برگد کی چھاؤں تلے جگہ بنا کر بیٹھ گئے ۔
جی ….مولوی صاحب آپ بزرگ ہو آپ بات شروع کرو ۔ایک آدمی بولا
بات دراصل یہ ہے کہ گاؤں کی حالت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ فصلیں تباہ تے کھلیان اجڑ گئے، گھروں میں اناج ختم ہوگیا ہے کئی گھروں میں تو فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔
وہ بولتے بولتے کچھ دیر کے لئے رک گئے ، میرا گھر بھی ان میں سے ایک ہے ۔ان کی آواز رندھ گئی
اور تو اور چودھریوں کی بدلی نظریں ۔۔ان کے لہجے میں تلخی گھل گئی۔
زرا توقف دے کر بولے ، کل مجبور ہوکر گیا تھا چودھری سراج کے پاس ۔مگر اس نے بھی اناج کی بوری دگنی قیمت میں دینے کا سودا کیا ہے۔کہتا ہے سیلاب سے میرا بھی نقصان ہوا ہے۔سارا اناج مفت بانٹ دوں گا تو خود کہاں سےکھاؤں گا۔
ہاں….دوسرا بولا، مجھے بتانا تو نہیں چاہیئے پر سچائی یہ ہے کہ بیوی کی چاندی کی بالیاں دے کر تین دن کا راشن لایا تھا ۔وہ بھی ختم …..اب کہاں سے لاؤں؟
افسوس یہ کہ چودھری سراج اس بار کچھ زیادہ ہی کٹھور پن دکھا رہا ہے ۔شوکت گوالے کا لہجہ بھی تیزہوگیا۔
سنا ہے کہ اس کا گودام اناج سے لبالب بھرا ہے ۔
ایک اور اندر کی خبرہے….یہ کہتے ہوئے جمال نے پہلے ادھر ادھر دیکھا پھر مزید قریب ہوکر دھیمی آواز میں بولا:
ندی کابند بھی یونہی اچانک نہیں ٹوٹا ….
سب کو سب کچھ پتہ ہے ،مگر کوئی مائی کا لال سامنے آکر بولنے کو تیار نہیں…..
اس کا حل بھی سوچنا پڑے گا۔رحم دین جو بہت دیر سے خاموش تھا بول پڑا ۔ ابھی تو سب سے پہلے ہمیں اس مشکل کا حل ڈھونڈنا ہے۔ اس وقت کسی کے پاس بھی اتنی رقم نہیں کہ ہم چودھری سے اناج خریدسکیں۔
آخر چند لوگ امداد بھی کتنی کر پائیں گے …..؟
اب تو کرم دین نے بھی نظریں چرالی ہیں۔ جمال نے رحم دین کی طرف ترچھی نظروں سے دیکھتے ہوئےطنز کیا۔
شفیق تُو کچھ بول ۔ رحم دین اس کا طنز نظر انداز کرتے ہوئے بولا:
مجھے تو اس کا ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ اگر کسی بھی طرح پاس والے گاؤں سے اناج اٹھوالیا جائے تو چودھری کا دماغ اپے ٹھکانے آجائے گا اور اس میں سرداراں کے بیٹے کا سسرال بھی ہماری مدد کو تیار ہے۔ شفیق کو خاموش دیکھ کر شوکت گوالے نے اپنیتجویزپیش کی
شفیق خاموشی سے ساری بات سنتا رہا۔ غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ اپنی جیب پر چلا گیا اسے لگا جیسے کوئی بھاری سل اس کے سینے پر رکھی ہو۔
وہ شرمندگی محسوس کرنے لگا۔
شام کو دوبارہ ملنے کا کہہ کر سب لوٹنے لگے۔
شفیق بھی بنا کچھ کہہ نمبردار سے ملنے کا ارادہ ترک کرکے گھر لوٹ آیا۔
دروازہ کھولتے ہی پارس اس کی ٹانگوں سےلپٹگئی۔
بابا میں نے چڑیا کو کھانا دے دیا ۔وہ خوشی سےچلائی….
یہ تو بہت اچھا کیا میری بیٹی نے ۔اس نے پارس کو شفقت بھرے جذبوں کے ساتھ گود میں اُٹھالیا۔
اچھا بتاؤ کیا کھلایا اسے ؟
یہ کھلایا اس نے ۔سکینہ نے جو کچی مٹی کے فرش کی لپائی میں مصروف تھی کیاری کی طرف اشارہ کیا جہاں لگا ہوا ہرا دھنیاء چڑیا کی چونچوں کی نظر ہو چکا تھا۔
وہاں کیاری کے پاس زمین پر پراٹھے کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی پڑے تھے جن پر چیونٹیاں لپٹی ہوئیں تھیں ۔
یہ ان کا حصہ تھا انھوں نے کھالیا۔پارس معصومیت سے اس کے گلے میں بانہیں ڈالے جھولتےہوئے بولی۔
شفیق غور سے ان چیونٹیوں کو دیکھنے لگا جو پراٹھوں کے ننھے ننھے بھوروں پر لپٹی ہوئیں ایک دوسرے سے جڑی ان کوبل تک لے جارہیں تھیں ۔اور پھر اس کی نظریں پارس پر ٹک گئیں۔ اس کے معصوم چہرے سے خوشی کی نکلنے والی کرنیں سورج کی روپیلی کرن سے بھی کہیں زیادہ چمکداراور لطیف تھیں ۔وہ چند لمحوں کے لئے بے سود سا ہوگیا۔ان کرنوں کی ٹھنڈک اسے اپنے دل میں اترتی محسوس ہوئی۔اس کے دماغ میں سیٹیاں سی بجنے لگیں۔بالکل ایسی ہی ٹھنڈک اس نے رات میں محسوس کی تھی۔وہ بہت کچھ سوچنے لگا۔
پارس پتر….! چل اند ر جا۔ اپنا سبق نکال میں آرہی ہوں سننے ۔سکینہ نے پارس کو شفیق سے الگ کیا اور اسے اندر بھیج کر شفیق کی حالت کا جائزہ لینے لگی جو ابھی تک خاموش گنگ بیٹھا تھا۔
خیر تو ہے ۔نمبردار نے منع کردیا کیا؟
ہوں ….وہ چونکا
کیا ہوا؟سکینہ کی سوالیہ نگاہیں اس پر ٹک گئیں۔
میں نہیں گیا۔
نہیں گیا۔ مطلب؟
مطلب وقت نہیں ملا ۔
کیا کہہ رے ہو جی ۔سکینہ نے وضاحت چاہی
شفیق نے راستے میں گاؤں والوں سے ہونے والی ملاقات اور اس کا مقصد بتادیا۔
دونوں سوچ میں ڈوب گئے۔
میں اتنا خود غرض کیسے ہوگیا سکینہ ؟وہ ایک ہاتھ تھوڑی پر رکھے سرجھکائے یونہی بیٹھا رہا۔
ہم یہ کیسے بھول گئے کہ گاؤں میں سب ہی کی حالت خراب ہے ۔شفیق کے لہجے میں اضطراب تھا۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔پتہ نہیں میں صحیح ہوں کہ غلط…..؟ شفیق نے نظریں اٹھا کر سکینہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی۔
اس نے چاہا کہ سکینہ اس کی تائید کرے۔
آپ صحیح ہو ۔ہم واقعی رقم ملنے کی خوشی میں صرف اپنے بارے میں سوچ رہے تھے۔
شفیق کو اس کے جواب سے سکون محسوس ہوا۔
تو پھر ….؟
سوچ لو ….اگر آپ رقم وہاں دے دوگے تو پھر آپ کی د کان کا کیا ہوگا؟سکینہ بھی اس کا دل چھاننے لگی
او خیر ہے۔ آرڈر تو پورا ہو ہی جائے گا ناں ، قرضہ اتر جائے گا یہی کافی ہے ۔باقی رہی دکان ….تو پھر کبھی۔وہ مسکرایا۔
شاید سویرے پارس کی معصوم باتیں بھی ہمیں یہی سمجھا رہی تھی …..ہم جو بھی کھائیں سب مل بانٹ کر کھائیں گے ۔شفیق کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
تو پھر دیر نہ کرو ۔آپ کے ہر فیصلے میں ، میں آپ کے ساتھ ہوں۔اس نے یقیندہانیکرائی۔
جانتا ہوں۔وہ پیار سے بولا
شام کو چوپال میں شفیق نے مولوی صاحب کے ہاتھ میں رقم کا تھیلا رکھتے ہوئے ایک انجانی سی خوشی محسوس کی ۔اسے لگا کہ اس کے چہرے پر سے بھی خوشی کی وہی سورج کی روپیلی کرن سے بھی زیادہ لطیف اور چمک دار کرنیں پھوٹ رہی ہیں جو پارس کے چہرے پر تھیں اور اس کے دل میں اُتر رہیں ہیں ۔
گاؤں والوں نے مزید تھوڑی بہت رقم جمع کرکے پاس والے گاؤں سے اناج سستے داموں اٹھوالیا۔جس میں سرداراں کے بیٹے کی سسرال والوں نے بھی خاصیمدد کی ۔
باقی بچ جانے والی رقم سے گھروں کی لپائی اور مرمت کا کام بھی سب نے مل جل کر کیا۔
پورا گاؤں شفیق کی واہ واہ میں لگا ہوا تھاجس کی بروقت مدد سے گاؤں ایک بہت بڑے المیے سے بچ گیا تھا۔صرف شفیق اور سکینہ جانتے تھے کہ یہ سب پارس کی وجہ سے یا ہاشم بابا کی دعاؤں سے ہوا ہے۔
چودھری سراج کے لئے یہ منہ توڑ جواب ناقابلِ برداشت تھا۔مگر اس وقت وہ خاموش رہنے پر مجبور تھا۔ شفیق کا نام اب اس کی ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل ہوچکا تھا۔

٭٭٭


آہستہ آہستہ یہ کڑاوقت بھی گزر گیا۔اور پھرسے گھروں میں سے چکی کی آوازیں آنے لگیں۔ کھیتوں میں ہل چلنے لگے ۔پھر سے چوپال سجنے لگے۔درختوں کے سائے میں مرد بے فکری سے حقہ پیتے نظر آنے لگے۔زندگی کے مزید پانچ سال بہت سکون سے گزر گئے تھے۔سب مگن تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ محوِپرواز تھے ۔شفیق اور سکینہ پارس میں گم تھے۔ پارس اکثر ان کو اپنے خواب بتاتی جن کی تعبیر بھی انہیں مل جاتی۔ اس کے باوجود وہ اس کے روحانی تشخص کو صیغہ راز میں رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
یہ لے چوتھی اور یہ پانچویں جماعت کی کتابیں،شفیق تحصیل سے کندھے پر تھیلا بھر کر لایا تھا۔ ساری کتابوں کا ڈھیر سکینہ کے آگے لگادیا۔
ارے سب اٹھا لائے ۔
جتنی تیزی سے یہ پڑھنا لکھنا سیکھ رہی ہے اور جتناتیرا پڑھانے کا جنون ہے ۔ میں نے سوچا اکٹھا ہی لے لوں ۔پتہ نہیں کب تُو کہہ دے….
لو جی پارس نے تو سب پڑھ لیا اب چلو امتحان دلانے۔وہ سکینہ کی آواز بنانے کی ناکام کوششکرنےلگا۔
سکینہ ہنسنے لگی ۔ہاں جی یہی تو میرا خواب ہے ۔
اوراب تو میری پارس بھی دس سال کی ہونے والی ہے ۔دیکھنا اسی سال پانچویں کا امتحان دلواؤں گی ۔
میں تو یہی سوچ رہا ہوں ابھی تک اس کی پڑھائی کی بات گھر میں تھی ،گاؤں والوں کو پتہ چلے گا تو پتہ نہیں کیا قیامت ڈھائیں گے ۔
ہاں ….اصل امتحان تو اب ہوگا۔
آج نہیں تو کل ہمیں اس امتحان سے گزرنا ہیہے۔
ہوں….کہیں ایسا نہ ہو تاریخ خود کو دہرائے۔اس نے سکینہ کو اس کا وقت اور گاؤں والوں کی مخالفت یاد دلائی۔
نہیں ….
تاریخ تو خود کو دہرائے گی مگراب کی بار نتیجہ ویسا نہیں ہوگا۔دیکھنا….
سکینہ نے عزم سے کہا۔

 

 

(جاری ہے….)
تحریر: آفرین ارجمند
از روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2014ء

 

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *