Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. โปรดดู การแก้ข้อผิดพลาดใน WordPress สำหรับข้อมูลเพิ่มเติม (ข้อความนี้ถูกเพิ่มมาในรุ่น 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
مائنڈ سائنس – 2 – روحانی ڈائجسٹـ
วันพฤหัสบดี , 12 ธันวาคม 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

مائنڈ سائنس – 2

مائنڈ سائنس   (2)

انسان کو قدرت سے ملنے والی بے شمار صلاحیتوں کا علم
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  

 

وقت میں برکت کا کیا مطلب ہے؟ ذہن کی رفتار کو کیسے بڑھایا جائے؟
سچے خواب ، چھٹی حس کی صلاحیت حاصل کی جاسکتی ہے؟
مائنڈ سائنس کے ذریعہ ٹیلی پیتھی سیکھی جاسکتی ہے؟

اس دنیا میں کون ہوگا جو اپنی زندگی میں کام یابی اورترقی کا خواہش مند نہ ہو۔ کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے، کوئی انجینئر، کوئی چارٹڈ .اکاؤنٹینٹ ، کوئی بزنس ایڈمنسٹریٹر ۔ کسی کو فوجی بننے کا شوق ہے کسی کو پائلٹ بننے کا۔ کوئی صحافی بننا چاہتا ہے تو کسی کو فن کار بننے کا شوق ہے ۔ کوئی کھلاڑی بننا چاہتاہے ۔
کامیابی صرف کسی ایک مقصد کوحاصل کرنے کا ہی نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ مثال کے طور پر ایم بی اے کرلینے والے ایک نوجوان کے سامنے اُس وقت سب سے بڑا مقصد یہ ہوتاہے کہ اسے کسی اچھے ادارہ میں ملازمت مل جائے۔ اپنی پسند کی ملازمت مل جانے کے بعد یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اب جلد سے جلد اگلی پوزیشن پر ترقی ہو ۔ اختیارات ، تنخواہ اور مراعات میں اضافہ ہو۔ اگلی پوزیشن پر ترقی مل جانے کے کچھ عرصہ بعد اس سے اگلی پوزیشن پر جانے کی طلب شدت پکڑ لیتی ہے۔
کسی کھلاڑی کی سب سے بڑی تمنا قومی ٹیم میں شمولیت ہوتی ہے۔ قومی ٹیم میں شمولیت ہوجانے پر اس کھلاڑی کی تمنا ہوتی ہے کہ پہلے سے قائم ریکارڈ توڑ کر اپنا ریکارڈ قائم کیا جائے۔ کچھ عرصہ بعد یہ کھلاڑی چاہتاہے کہ وہ قومی ٹیم کا کپتان بنے، قومی ٹیم کا کپتان بننے کے بعد وہ چاہتاہے کہ وہ میچز جیتتا رہے ، میچز جیتنے کے بعد وہ چاہتا ہے کہ وہ سیریز جیتے والا کپتان کہلائے۔
کیا اس طرح کی خواہشات رکھنا غلط ہے؟
کیا ایسا سوچنا لالچ یا ہوس میں شمار ہوگا۔ کیا یہ عمل قناعت کے خلاف ہے؟
زیادہ سے زیادہ جدوجہد کرتے رہنا اور ایک مقصد کے حصول کے بعد اس سے اگلی منزل کی جستجو کرنا لالچ یا ہوس نہیں۔ نہ ہی یہ عمل قناعت کے خلاف ہے۔
قناعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کچھ میسر ہے بندہ اس پر ہی رک جائے۔ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنے مقصد یا مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش وجدوجہد کرتے ہوئے۔نتیجہ اﷲ پر چھوڑ دے۔ خیال رہے کہ کوشش یا جدوجہد کامطلب صرف محنت کرنا نہیں ہے بلکہ کوشش وجدوجہد کا مطلب ہے صحیح سمت اور صحیح انداز میں محنت کرنا۔
مائنڈ سائنس کے ذریعہ ذہنی صلاحیتوں کے صحیح استعمال سے انسان اپنی کوششوں کو صحیح سمت اور صحیح انداز میں رکھنے کے قابل ہوتاہے۔ ذہنی صلاحیتوں کے درست استعمال سے ایک شخص اپنی کوششوں (Input)سے زیادہ سے زیادہ نتائج(Output)حاصل کرسکتاہے۔
زندگی کے سفر میں کامیابیوں کے خواہش مند ہر مرد اور خاتون کو سب سے پہلے خود پر اپنا مقصد واضح کرنا چاہیے۔ اپنے مقصد کی سچائی کے بارے میں اسے مکمل طور پر یکسوہونا چاہیے۔
جس شخص کو اپنے مقصد کی سچائی پر یقین ہوتاہے وہ فضاء کی وسعتوں میں پرواز کرتے ہوئے جیٹ طیارے کی طرح ہوتاہے۔ وہ لوگ جو اپنے مقصد کے صحیح یا غلط ہونے، جائز یا ناجائز ہونے پر ذہنی اُلجھنوں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کا سفر اس گاڑی کی طرح ہوتاہے جو بار بار پنکچر ہوجانے کی وجہ سے رُکتی رہتی ہے۔
کامیابیوں کے حصول کے لیے سفر شروع کرتے ہوئے سب سے پہلی شرط مقصد کا تعین اور اس کی سچائی پر یقین ہے۔
اگر آپ خوب دولت کمانا چاہتے ہیں یا کسی بڑے عہدہ تک ترقی کے خواہاں ہیں، اسپورٹس یا فن کی دنیا میں ناموری چاہتے ہیں یا اپنے رشتہ داروں اور حلقہ ٔ احباب میں ہر دل عزیز ہونے کے خواہش مند ہیں تو سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیجیے کہ ان میں سے کوئی بھی مقصد غلط یا برا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دولت مند بننے کی خواہش اور اس کے لیے کوشش کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ سرکاری یا نجی ملازمت میں ترقی کی خواہش اور اس کے لیے کوشش کرنا ہرگز غلط نہیں ہے۔ اپنی معاش کی بہتری کے لیے سخت محنت کرنا اور شہروں شہروں اور ملکوں ملکوں کا سفر کرنا بھی جدوجہد میں شمار ہوگا۔
دولت کمانا برا نہیں ہے بلکہ دولت کمانے کے لیے ناجائز اور حرام ذرائع اختیار کرنا براہے۔
حصولِ دولت کی خاطر دوسروں کا استحصال کرنا اور کم زوروں پر ظلم کرنا غلط ہے۔ دولت کے حصول کے بعد تکبر میں مبتلا ہونا غلط ہے۔
اوپر کی سطور میں ہم نے ذکر کیا کہ کامیابیوں کے حصول کے لیے سفر شروع کرتے ہوئے سب سے پہلی شرط مقصد کا تعین اور اس کی سچائی پر یقین ہے۔ اس شرط کے تحت دولت کمانے یا کسی بھی مقصد میں کامیابیوں کے متمنی شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسد، کینہ ، بغض، ظلم جیسے منفی جذبات سے خود کو آلودہ نہ ہونے دے ، تکبر سے خود کو محفوظ رکھے۔ اس شرط کی تکمیل کے ساتھ کائنات میں پھیلی ہوئی قیمتی اطلاعات اور قوتوں سے استفادہ کا طریقہ سیکھنے پر توجہ دے۔
ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ اور ان سے استفادہ کے لیے ایک اہم شرط دو نہایت قیمتی بلکہ انمول چیزوں کی قدردانی ہے ۔
آپ کی زندگی کی سب سے قیمتی بلکہ انمول چیزیں کیا ہیں:
یہ ‘‘صحت اور وقت’’ہیں….
یہ کہنا مشکل ہے کہ صحت اور وقت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اولّیت کسے دی جائے۔ ان دونوں میں سے پہلا نمبر صحت کو دیاجائے یا وقت کو، بہرحال یہ بات طے ہے کہ ان دونوں کے ساتھ ہمارا اپنا رویہ ہی ان سے ہمارے استفادہ کا تعین کرتاہے۔ ہم جتنی زیادہ قدر و منزلت اپنی صحت اور اپنے وقت کی کریں گے، ہمیں اتنا ہی بہتر ریسپانس ملے گا۔ اپنے وقت اور صحت کی قدر کی توقعات ہمیں دوسروں سے نہیں رکھنا چاہئیں بلکہ اپنے وقت اور صحت کی قدر ہمیں خود کرنا ہوگی۔

صحت
ایک صحت مند متناسب بدن ، چاق وچوبند پھرتیلے شخص کو عموماً سب ہی ستائش کی نظروں سے دیکھتےہیں۔ آنکھوں میں چمک، چہرہ پر تازگی وبشاشت صحت وفعالیت کی علامات ہیں۔ اس کے برعکس آنکھوں میں زردی اور چہرہ پر پژمردگی ، ڈھلکے ہوئے شانے ، کم زور بدن، نحیف چال صحت سے غفلت برتنے کی علامات ہیں۔
صحت مند شخص اپنے اندر کشش رکھتاہے۔ صحت سے غفلت برتنے والوں کو لوگوں سے پذیرائی میں دشواریاں ہوتی ہیں۔
مائنڈ سائنس سے استفادہ کرنے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کام یابی کی بنیادی شرائط میں صحت شامل ہے۔ میری اس تحریر کے قارئین مائنڈ سائنس کے طالب علم کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ صحت کا مطلب صرف جسمانی لحاظ سے صحت مند ہونا نہیں ہے ۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ صحت مند ہونے کا مطلب ہے جسمانی ، ذہنی، جذباتی اور روحانی لحاظ سے صحت مندی۔ یہاں ایک اہم بات اور سمجھ لینا چاہیے وہ یہ کہ بعض اقسام کی ایبنارملٹی کا مطلب بیماروں اور کم زوروں کی صف میں شامل ہونا نہیں ہے۔
مثال کے طور پر کسی نوجوان کی نظر کم زور ہوگئی ہے اور اسے چشمہ لگانے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اب چشمہ لگاکر اس ایبنارملٹی یعنی نظر کی کم زوری کے اثرات سے بچاجاسکتاہے۔ ایسا شخص چند شعبوں کو چھوڑ کر دنیا کے تمام پرفیشنزکو اختیار کرسکتاہے ۔ ایک نکتہ یہ کہ کسی شخص کو ذیابیطس یا کولسیٹرول کی زیادتی کا مسئلہ ہے۔ صحت کی حالت میں ایک واضح اور قابلِ ذکر نقص پیدا ہوجانے کے باوجود ان تکالیف میں مبتلا افراد بعض احتیاطوں کے ساتھ نارمل لوگوں کی طرح زندگی کے چیلنجز کو قبول کرسکتے ہیں۔ ایسی بعض تکالیف میں متبلا لوگوں کو خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین اپنے آپ کو بیمار یا کم زور (Unfit)نہیں سمجھنا چاہیے۔
قارئین کرام….! مائنڈ سائنس میں اصل اہمیت صحت مندانہ طرزِ زندگی اختیار کرنے کی ہے۔ مکمل طور پر صحت مند افراد ہوں یا بعض تکالیف میں مبتلا افراد دونوں طرح کے لوگ صحت مند طرزِ زندگی اختیار کرتے ہوئے اپنی ذہنی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔

وقت
ایک خاص دولت دنیا کے ہر انسان کو دی گئی ہے۔ یہ وہ عظیم دولت ہے جو قدرت نے ہر شخص کو یکساں طور پر عطا کی ہے۔ یہ دولت ‘‘وقت ’’ ہے۔
وقت عطیہ خداوندی ہے۔ یہ ہرانسان کو خواہ وہ غریب ہو یا امیر ،کم زورہو یا طاقت ور، مرد ہو یا عورت سب کو یکساں طور پر عطا کیا گیا ہے۔ وقت کو مناسب طور پر برتنے کے لیے ہر انسان کو فہم وفراست عطاکردی گئی ہے۔ اس عظیم ترین الٰہی نعمت کو کس طرح استعمال کیاجائے، اس کا اختیار انسان کو دے دیا گیاہے۔ اب یہ ہر انسان پر ،مجھ پر آپ پر منحصر ہے کہ اﷲ کی طرف سے عطاکیے گئے وقت کا کتنا اور کس طرح استعمال کیاجائے۔
ہم اس زمین پر وقت کا حساب سیکنڈ،منٹ، گھنٹوں،دنوں ،ہفتوں ،مہینوں ، برسوں اور صدیوں کے ذریعہ کرتے ہیں۔ وقت کے یہ پیمانے اس زمین پر وقت کا شمار رکھنے کے لیے ہیں۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ وقت کے استفادے سے ان پیمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یاد رکھیے….! وقت کا شمار اور وقت سے استفادہ دو علیحدہ علیحدہ امور ہیں۔
ایک خاندان کے ایک ہی عمر کے دوبچے قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے ایک مدرسہ میں داخل کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بچہ مکمل انہماک و تو جہ اوربھرپورذوق وشوق کے ساتھ سبق یاد کرتاہواڈھائی سال میں پورا قرآن حفظ کرلیتا ہے جبکہ اسی مدت میں اس کا ہم عمر، ہم سبق دوسرا بچہ نصف قرآن بھی حفظ نہیں کر پاتا۔ دونوں بچوں کا تعلیمی ادارہ ایک ، استاد ایک، گھر یلوماحول ایک ، لیکن ان دونوں بچوں کے حاصلات (Achievement)میں نمایاں فرق ہے۔
وقت کے ایک ہی دو رانیہ میں ایک جیسے ماحول میں کام کرنے والے مختلف لوگوں کی جانب سے زیادہ یا کم نتائج لینا وقت سے استفادہ کے انداز پر منحصر ہے۔
ہر انسان کم یا زیادہ جتنا چاہے ،وقت سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ایک شخص ایک ہفتہ کاکام ایک دن میں بھی کرسکتاہے توایک شخص ایک دن کا کام کرنے میں ہفتہ یامہینہ بھر لگاسکتاہے۔ اس زمین پربسنے والے ان دونوں افراد کے لیے دن چوبیس گھنٹوں کا ہی ہے۔ دونوں ایک ہی شہر ایک جیسی آب وہوا میں رہنے والے ہیں البتہ دونوں کے ذہنی رویوں اوروقت سے استفادہ کرنے کے انداز میں فرق ہے۔

 

الجھنا نہیں ہے
وقت سے بہتر طور پر استفادہ کرنے والا آدمی دوسروں کی وجہ سے اپنا وقت ضائع ہونے کی صورت میں ان سے الجھتا نہیں ہے۔ ایسے معاملات پر طیش میں آجانا دوسروں سے الجھ پڑنا اپنی کئی صلاحیتوں کو اور سب سے بڑھ کر اپنے وقت کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے۔

 

غلطی پر غلطی نہیں کرنی

جو لوگ وقت ضائع کرتے ہیں وہ بہت بڑی غلطی کرتے ہیں لیکن جو لوگ کھوئے ہوے وقت کے غم میں مبتلا رہ کر آئندہ وقت کو استعمال میں نہیں لاتے وہ غلطی پر غلطی کرتے ہیں ۔
وقت کا تعلق احساس سے ہے یا شماریات سے….؟: وقت گذر نے کی رفتار کا تعلق کہیں شماریات سے ہے تو کہیں صرف احساس سے ۔ مثال کے طور پر زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر تقریباً تیئس گھنٹے اور چَھپّن منٹ میں مکمل کرتی ہے۔ یہ قدرت کے مقررکردہ پیمانے ہیں۔ان پیمانوں کے ساتھ ساتھ وقت کا گزرنا انسانی احساس سے بھی منسلک ہے۔
عام طورپر خوشی ومسرت کے لمحات میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا جبکہ انتظاریا تکالیف دہ لمحات میں چند منٹ کا وقفہ بہت طویل محسوس ہوتاہے۔
ان دو مثالوں سے وقت کا احساس کے ساتھ نسبتی تعلق ظاہر ہوتاہے ۔سائنس دانوں نے طویل عرصہ تحقیق وجستجو کے بعد دریافت کیا ہے کہ وقت درحقیقت ایک نسبتی چیز ہے۔
اس زمین پر رہتے ہوئے ہم وقت کا ادراک زمین کی اپنی حرکت سے کرتے ہیں۔
اگر کسی ستارے یا سیارے کی رفتار زمین کی رفتار سے کم ہے تو وہاں وقت زمین کے وقت سے بھی سست رفتاری سے گزرتا ہے۔ اگر کسی ستارے یا کسی آسمان کی حرکت زمین سے کئی گنا تیز ہے تو وہاں وقت زمین کی نسبت بہت تیز رفتار ی سے گزرتا ہے۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وقت کا تعلق دراصل رفتار سے ہے۔ جوں جوں رفتار بڑھتی جائے گی وقت گھٹتا جائے گا۔رفتار کا یہ بڑھنا جسمانی، ذہنی یا روحانی طور سے بھی ہوسکتاہے۔
انسان کواﷲ تعالیٰ نے یہ صلاحیت عطافرمائی ہے کہ وہ اس زمین پر رہتے ہوئے بیک وقت مختلف ٹائم زون کی کیفیات کو محسوس کرسکے۔ اس صلاحیت کی بخشش میں بھی قدرت نے خاص عام کی تخصیص نہیں کی۔ یہ صلاحیت بڑی فیاضی کے ساتھ سب انسانوں کو بخشی گئی ہے ۔ ضرورت صرف اسے سمجھنے اور کام میں لانے کی ہے۔
اس کی سب سے عام اور کثیر الوقوع مثال خواب ہے۔ خواب ہر انسان دیکھتاہے، بعض اوقات کسی کو ایسے خواب نظر آتے ہیں جن میں وہ دوردراز مقامات کا سفر کرتاہے۔ اُسے محسوس ہوتاہے کہ بہت سا وقت گزرگیا ہے۔ آنکھ کھلنے پر پتہ چلتاہے کہ چند ساعتیں ہی گزری ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو خواب میں نظر آنے والی باتیں جلد یا بدیر حقیت میں بعینہ اس طرح پیش آتی ہیں۔ یہ لاشعوری کیفیات سے ایک مثال ہے، جہاں تیز رفتار ی کے باعث وقت گھٹ گیا۔
مادی طورپر رفتار بڑھا کر وقت گھٹانے کی عام مثالیں جیٹ ہوائی جہاز ،خلائی جہاز وغیرہ ہیں۔جیسے جیسے رفتاربڑھتی جائے گی ویسے ویسے فاصلہ طے کرنے میں درکار وقت گھٹ جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک کام اور ہوگا۔ وہ یہ کہ ایک مخصوص حد کے بعد رفتار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ وزن میں کمی ہونا شروع ہوجائے گی حتیٰ کہ ایک خاص رفتار حاصل ہوجانے پر مادی وجود روشنی میں تبدیل ہوجائے گا۔
اپنی شعوری زندگی میں ذہن کی رفتار بڑھا کر بالکل اسی طرح نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جیسے کہ تیز رفتار ہوئی جہاز سے سفر کرکے کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کیا جاتاہے۔ اسلامی تاریخ سے اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امام جعفر صادق ،امام بخاری ،امام غزالی اور کئی دوسرے اسکالر ز کا علمی کنٹری بیوشن ہے۔
حضرت اما م جعفرصادق سلام اللہ علیہ (702 تا 765ء)کی عمر 63 سال تھی۔ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد آپ نے اپنی صلاحیتوں کو علم پھیلانے میں صرف کیا۔ اس دوران انہوں ے علم الحدیث، علم الکلام، کیمیا، طب ،فلسفہ اوردیگر علوم پر کئی کتابیں لکھیں۔
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ (810ء تا 870ء) نے 60برس عمر پائی۔ دورطالب عمری میں ہی انہوں نے مشہور عالموں کی کتابیں اور 15ہزار سے زائد احادیث حفظ کرلیں تھیں۔علم حدیث کے شوق میں انہوں نے اس دورمیں شام، مصر اور جزیرہ کا دومرتبہ اور بصرے کا چارمرتبہ سفر کیا۔ چھ سال مکہ میں گزارے۔ احادیث کے علاوہ انہوں نے تاریخ، تفسیر اورفقہ پر بھی کئی کئی جلدوں میں کتابیں تصنیف کیں۔
مشہور مورخ علامہ طبری(839 تا 923ء) نے بہت زیادہ کتابیں رقم کیں، ان کی مشہورکتاب تاریخ طبری سات ضخیم جلدوں میں ہے۔ کہا جاتاہے کہ یہ سات جلدیں ان کی اصل تصنیف کا محض خلاصہ ہیں۔ اصل تصنیف اس سے 10گنا بڑی تھی گویا اس کے 60، 70ہزار صفحات تھے۔ طبری نے اور بھی کئی کتابیں لکھیں۔
ابو ریحان البیرونی (973تا 1048ء) (عمر 75 سال)نے ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔
بوعلی سینا (980 تا 1037ء) کا شمار عظیم سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 56برس عمر پائی۔ ان کی زندگی کے تقربیاً 15سال سفر میں گزرے۔ بو علی سینا نے فلسفہ ، منطق ،ریاضی ،فزکس ،کیمیا ،ارضیات اور طب کے موضاعات پر کئی ضمیم کتب لکھیں جو آج بھی انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مورخ و جغرافیہ دان مسعودی (896 تا 956ء) کی عمر 60 برس ہوئی۔ آپ نے کم و بیش 37 کتابیں تحریر کیں۔ ان میں ایک کتاب مروج الذہب 15 جلدوں پر اور کتاب الاخبار الزمان 30 جلدوں پر مشتمل تھی۔
امام غزالی (1058 تا 1111ء) 53 برس اس دنیا میں رہے، آپ نے تقریباً 25سال کی مدت میں سینکڑوں کتابیں لکھیں۔ جن میں سے اکثر کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔ آپ کی معروف تصانیف کی تعداد 69 بتائی جاتی ہے۔
ایک اور کثیر التصانیف بزرگ امام ابن الجوزی ؒ (1116 تا 1201ء) ہیں، ان کی کتابوں کی تعداد 340سے زیادہ بتائی جاتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی اکثر کتابیں 10سے 20جلدوں پر مشتمل تھیں۔
ابن عربیؒ (1165 تا 1240ء)کی عمر 75 برس ہوئی، اس دوران آپ نے حجازسے لے کر مراکش،حلب اورایران عراق سے لے کرترکی،مصراور یروشلم تک سفر میں بھی وقت گزارا۔ ابن عربی نے آٹھ سو سے زائد کتابیں لکھیں۔ آج ابنِ عربیؒ کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں ، ان کی صرف ایک کتاب الفتوحات المکیہ کے مجموعی صفحات کی تعدادپندرہ ہزار ہے۔
حصن حصین کے مصنف امام جزری (1350 تا 1429ء) کی عمر 79 برس تھی۔ آپ نے علم قرأت، علم حدیث، فقہ، تاریخ اسلام پر 90 سے زائد کتابیں لکھیں۔
علامہ جلال الدین سیوطی(1445 تا 1505ء) کی وفات 60سال کی عمر میں ہوئی، اپنی زندگی میں انہوں نے 561کتابیں لکھیں ۔ اان کے زمانے میں اہم مانے جانے والا کوئی موضوع ایسا نہیں جس پر انہوں نے کوئی کتاب نہ لکھی ہو۔
خلیفۂ دوم امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اﷲتعالیٰ کے حضور اپنے وقت میں برکت کی دعا کیا کرتے تھے۔
وقت میں برکت کا کیا مطلب لیا جائے؟….
ہم سمجھتے ہیں کہ وقت میں برکت کا ایک مطلب ذہن کی رفتار کا بڑھنا بھی ہے۔ رفتار بڑھنے سے فاصلے سمٹنے لگتے ہیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں موجود کتاب کے علم کے حامل ایک انسان کی جانب سے پلک جھپکنے میں ملکہ بلقیس کا تخت لاحاضر کردینا بھی وزن گھٹ جانے اور فاصلے سمٹ جانے کی ایک مثال ہے۔
ہمیں وقت کی قدرکرنا سیکھنا چاہیے۔ وقت کی قدر صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بیکار بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی نہ کسی کام میں مصروف رہے۔ صحیح معنوں میں وقت کی قدر کرنا یہ ہے کہ وقت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیاجائے۔ وقت کا حق پہچاناجائے اور یہ حق اداکرنا سیکھا جائے۔
مائنڈ سائنس سے استفادہ کرتے ہوئے ذہن کی رفتار بڑھائی جاسکتی ہے۔ ذہن کی رفتار بڑھنے سے انسان بیداری کی حالت میں رہتے ہوئے لاشعوری حواس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکتاہے۔

 

سچے خواب اور ٹیلی پیتھی

لاشعوری حواس سے استفادہ کا ایک انداز تو یہ ہے کہ ذہن کی رفتار بڑھاکر اس سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے۔ اپنی یادداشت بہتر بنائی جائے، بصیر ت و دانش حاصل ہو، سوچ میں گہرائی آئے۔ معاملات کو سمجھنے ان کا تجزیہ کرنے اور صحیح وقت پر درست اقدام کی صلاحیت بیدا ر ہو۔ لاشعوری حواس سے استفادہ کا ایک انداز یہ ہے کہ لاشعوری اور کیفیات کی صحیح تفہیم حاصل ہو۔ سچے خواب، بیدار ی میں محسوسات جسے عرفِ عام میں چھٹی حس بھی کہا جاتاہے، انتقالِ خیال (ٹیلی پیتھی) کی صلاحیتوں کو اُبھارا جائے۔
یہاں میں اپنے قارئین کی خدمت میں ایک نکتہ یا ایک راز یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ شعوری حالت میں ذہن میں آنے والا ہر خیال اور کیا جانے والا ہر کام آدمی کے لاشعور میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ لاشعوری حواس (مثلاً خواب، گہری غنودگی ) میں آنے والے خیالات یا تحریکات بالعموم آدمی کے شعور میں محفوظ نہیں رہ پاتیں ۔ بعض لوگوں میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ ان کی اکثر لاشعوری تحریکات ان کے شعور یا ان کے حافظہ میں بھی واضح ہوجاتی ہیں۔ میں اپنے قارئین سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مناسب مشق کے ذریعہ بھی اس صلاحیت کو بیدار کیا جاسکتا ہے اور پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔
سچے خواب دیکھنے کی صلاحیت قدرت نے سب انسانوں کو عطا کی ہے۔ لاشعوری حواس پر توجہ مرکوز کرکے سچے خواب یاد رکھنے یا انہیں سمجھنے کی صلاحیت کو نمایاں کیا جاسکتاہے ۔ محی الدین ابنِ عربیؒ نے لکھا ہے کہ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لےتو اس میں بےپناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے۔
تاریخ کے صفحات پر ایسے کتنے ہی خوابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مستقبل کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان خوابوں میں خواب دیکھنے والے کے مستقبل کا انکشاف ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ خواب پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سچے خوابوں کے حوالے سے ایک بڑی مثال حضرت یوسفؑ کے اپنے خواب اور ان کی خدمت میں بیان کردہ عام و خاص افراد کے خواب ہیں ۔
مشہور مسلم سائنس دان بو علی سینا کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انہیں علمی طور پر کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا اور اس کا حل ان کے سامنے نہ آرہا ہوتا تو وہ مسجد چلے جاتے اور صلوٰۃ کے بعد اس مسئلہ پر غور و فکر کرتے(اس عمل کو مراقبہ بھی کہا جاسکتا ہے)، اس دوران انہیں اپنے مسئلہ کا حل مل جاتا ۔ کبھی ایسا ہوتا کہ وہ کسی مسئلہ پر سوچتے سوچتے نیند کے عالم میں چلے جاتے اور انہیں خواب میں اس مسئلہ کا حل معلوم ہو جاتا۔
مغرب میں کئی مفکر اور سائنس دانوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے یہ اعتراف کیا کہ انہیں اپنی دریافت کا خیال خواب سے ہی آیا تھا۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان فریڈرک پینٹنگ نے ذیابیطس کے علاج کے لیے انسولین استعمال کرنے کی رہنمائی خواب میں حاصل کی تھی۔ مشہور کیمیا دان فریڈرک کیکیولے نے بینزین کے کاربونک اسٹرکچر کی ساخت خواب کے ذریعے دریافت کی تھی۔ سلائی مشین کی تیاری میں بھی خواب کا بڑا دخل تھا۔
ٹیلی پیتھی یا انتقال خیال ایک ایسی صلاحیت ہے جو کم یا زیادہ ہر انسان میں ہر مرد وعورت میں موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح چھٹی حس کا معاملہ ہے۔ یہ صلاحیت بھی کم یا زیادہ ہر مرد اور عورت میں ہوتی ہے لیکن ہم عموماً اپنی ان صلاحیتوں پر توجہ نہیں دیتے۔ ان صلاحیتوں پر توجہ نہ دینے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں ان صلاحیتوں کے استعمال کا کوئی موقع نہیں مل پاتا۔ یہ قدرت کا اصول ہے کہ جن صلاحیتوں کو جتنا استعمال کیا جائے ان میں اتنا ہی اضافہ ہوتا رہتاہے ۔ جن صلاحیتوں کو کم استعمال کیا جائے یا بالکل استعمال نہ کیا جائے وہ رفتہ رفتہ متروک ہوکر غیر موثر ہوتی جاتی ہیں۔
سچے خواب ، چھٹی حس، یا انتقال خیال (ٹیلی پیتھی) کی صلاحیتوں کو ہم اس زمرہ میں شامل کرسکتے ہیں۔
جو لوگ ان صلاحیتوں کو اُبھارنا چاہیں اور ان صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیں اُن کے لیے مائنڈ سائنس بہت معاون ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

 

 

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *