Notice: Function WP_Scripts::localize was called incorrectly. The $l10n parameter must be an array. To pass arbitrary data to scripts, use the wp_add_inline_script() function instead. โปรดดู การแก้ข้อผิดพลาดใน WordPress สำหรับข้อมูลเพิ่มเติม (ข้อความนี้ถูกเพิ่มมาในรุ่น 5.7.0.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
مائنڈ سائنس – 4 – روحانی ڈائجسٹـ
วันพุธ , 11 ธันวาคม 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

مائنڈ سائنس – 4

مائنڈ سائنس   (4)

انسان کو قدرت سے ملنے والی بے شمار صلاحیتوں کا علم
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  

 

آپ اپنے Ideasکو کس طرح Materializeکرسکتے ہیں؟
مائنڈ کنڑول کے ذریعہ قوتِ فیصلہ اور عمل کی تحریک Motivation میں اضافہ کیاجاسکتاہے!
مائنڈ سائنس کے ذریعہ اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کیجیے!

بچپن یا نوجوانی میں حصول علم کا دور ہو، ملازمت یا کاروبار کے ذریعے حصول معاش کا زمانہ ہو ، خواتین کی گھریلو ذمہ داریوں کے ادوار ہوں مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہر مقام پر ہوتی ہے ۔ قوت ارادی محض یہ نہیں کہ کوئی بڑا مقصد سامنے رکھ کر اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے کام کا آغاز کر دیا جائے۔ قوت ارادی کی تعریف(Definition)اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ یہی معاملہ قوتارادی میں اضافے کی کوششوں کا بھی ہے۔ قوت ارادی میں اضافے کے لیے دیگر کئی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی محاسبے اور اپنی اصلاح کا عمل بھی مسلسل جاری رہنا چاہیے ۔ اپنی خامیوں کو سمجھنے اور اپنی اصلاح کے لیے ادراک اعتراف اور اصلاح (تین الف یا R.A.C )پر توجہ دیتے رہنا بہت مفید ہوتا ہے۔
[حوالہ: مائنڈ سائنس ۔ روحانی ڈائجسٹ ،جون2024ء ،] دنیا میں ہر شخص ترقی کرنا چاہتا ہے ۔ اس ترقی کا ایک ذریعہ ملازمت یا کاروبار کے ذریعے آگے بڑھنا ہے۔ معاشی خوش حالی حاصل کرنے اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرنا بہت اچھی بات ہے۔ معاشی خوش حالی کی کوششوں کے ساتھ ہر شخص کو معاشرے میں اپنے لیے ایک بہتر اور باعزت مقام حاصل کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔ یہاں یہ نقطہ واضح رہے کہ دنیا میں ایک معتبر اور باعزت مقام حاصل کرنے کے لیے دولت لازمی ضرورت نہیں ہے ۔
پاکستان میں اور دنیا بھر میں ایسے ہزاروں لاکھوں افراد ہمیشہ موجود رہے ہیں جنہوں نے مالی لحاظ سے دولت مند نہ ہونے کے باوجود دنیا میں اپنے لیے بہت عزت دار مقام بنائے ۔ آپ نے کئی بہت دولت مند افراد ایسے بھی دیکھے ہوں گے یا ان کے بارے میں سنا یا پڑھا ہوگا کہ دولت مند ہونے کے باوجود معاشرے میں ان کا اعتبار نہ تھا اور انہیں باعزت مقام حاصل نہ تھا۔
یہاں یہ نقطہ بیان کرنے کا مقصد اپنے قارئین خصوصاً نوجوان قارئین کو یہ بتانا ہے کہ دولت کمانے کی کوششوں کے ساتھ خاندان میں ، اپنے حلقہ احباب میں ، پروفیشنل سرکل میں ، معاشرے میں اپنی اچھی ساکھ بنانے اور اپنے لئے احترام میں اضافے کا اہتمام بھی کرتے رہنا چاہئے ۔
ذاتی احترام میں اضافہ کے لئے اپنے حلقئہ احباب ، اپنے پروفیشنل سرکل اور جہاں تک ہوسکے معاشرے کے مختلف شعبوں میں اپنا بھروسہ اور اپنی اچھی ساکھ بنانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ مائنڈ سائنس کی کئی مشقیں اپنی شخصیت کا اچھا تاثر قائم کرنے میں بہت مددگار ہیں ۔

 

اچھا نظر آنا ۔۔۔ اچھا ہونا 

ہر خاندان ، ہر برادری ، ہر ادارے ، ہر معاشرے کے چند اچھے رواج اور کچھ آداب ہوتے ہیں۔ جو لوگ ان آداب کا خیال رکھتے ہیں انہیں اچھا سمجھا جاتا ہے ۔ ہر فرد کو گھریلو ، معاشرتی اور دیگر اداروں کے آداب کو جاننا چاہئے اور ان کا خیال رکھنا چاہئے ۔ معاشرتی ادب آداب (Manners and Etiquettes) سیکھنا ، ان پر عمل پیرا ہونا اچھی بات ہے ۔ اس طرز عمل سے متعلقہ افراد کو اپنائیت اور مسرت کا احساس ہوتا ہے ۔ ادب آداب سیکھے اور سکھائے جاتے ہیں ۔ ادب آداب کے ذریعے اچھے اخلاق کا اظہار کیا جاتا ہے ۔
یہاں یہ واضح رہے کہ دوسروں کو امپریس کرنے یا ان کا احترام ظاہر کرنے کے لئے خوش اخلاقی کا وقتی طور پر اظہار بہت عام ہے ۔ اسے دکھاوے کی عزت افزائی یا پوائنٹ اسکورنگ کا عمل کہا جا سکتا ہے ۔ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کہیں سماجی رکھ رکھاؤ کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ کسی خاندان کے بعض افراد میں باہمی رنجشیں پائی جاتی ہیں۔ ایسے لوگ بعض اوقات اپنے گھر کی کئی باتیں اور اپنی یا اپنی اولاد کی کئی خوشیاں اپنے سگے بہن بھائیوں سے بھی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے خاندان کے لوگ شادی بیاہ میں یا کسی بچے کے عقیقہ یا سالگرہ کی تقریب میں ملیں تو بالعموم بہت خوش اخلاقی سے ملتے ہیں۔ اس طرز عمل کو میں (ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی)سماجی ضرورت کے تحت ظاہری خوش اخلاقی کا نام دیتا ہوں۔
کسی جگہ خوش اخلاقی کا اظہار افراد یا اداروں کی کاروباری یا پروفیشنل ضرورت ہوتی ہے۔ گاہک (Customer) کے ساتھ کاروباری فرد کا اچھا طرز عمل ، کسی ادارے کے ملازمین کا اپنے خریداروں کے سامنے خوش اخلاقی کا مظاہرہ دراصل کاروباری یا پروفیشنل خوش اخلاقی ہے۔ ہوائی جہاز کے مسافروں سے فضائی میزبانوں کا بہت مسکراکر ملنا، انہیں Sirیا Madam کہہ کر مخاطب کرنا، مسافروں کو عزت و احترام کے ساتھ چائے، پانی، کھانا پیش کرنا ، دوران سفر پروفیشنل خوش اخلاقی کی ایک عام مثال ہے۔جہاز سے باہر آنے کے بعد مسافروں سے فضائی میزبان مسکرا کر ملنا تو ایک طرف ان سے بات تکنہیں کرتے۔
کسی کے سامنے مصلحتاً اچھا نظر آنا اور مخلصانہ طور پر حقیقتاً اچھا ہونا دو الگ الگ معاملات ہیں ۔
روحانی طرز فکر آدمی میں مثبت سوچ (Positive Thinking)اور اچھے اخلاق (Moral) پروان چڑھانے میں مددگار ہوتی ہے ۔ روحانی فکر آدمی کو روشن نظر و وسیع القلب بننے پر اور مہربانی کرنے اور سخاوت پر مائل کرتی ہے ۔ روحانی فکر کا حامل شخص مائنڈ سائنس کی مشقوں کے ذریعے یہ سیکھتا ہے کہ مصلحتاً وقتی خوش اخلاقی اختیار کرنےکے بجائے اچھائیوں کو اپنی فکر کا ، اپنی شخصیت کا حصہ کیسے بنایا جائے ۔
دوسرے الفاظ میں یہ نکتہ اس طرح بیان کیا جائے گا کہ صرف ظاہری طور پر اچھا نظر آنے کے بجائےباطنی طور پر اچھے بن جاؤ ۔ اچھی سوچ کو اپنے دل میں بسا لو ۔ اچھی نیت والے بن کر حقیقی خوش اخلاق بن جاؤ۔
آپ نے جہاں دیدہ ، تجربہ کار بزرگوں کے حوالے سے یہ سنا یا کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ حقیقی خوشی مادی چیزوں میں نہیں ہے ۔ حقیقی خوشی کا سر چشمہ انسان کے باطن میں ہے ۔ گویا اصلی اور پائیدار خوشی انسان کو ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے ملتی ہے ۔
یہی معاملہ اخلاق کا بھی ہے ۔ دکھاوے کے اخلاق یا ظاہری ادب آداب سے آدمی کو وقتی فائدے تو مل سکتے ہیں لیکن دکھاوے کے آداب آدمی کی سوچ ، اس کی اصل شخصیت کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ سچی اور پائیدار خوشی کی طرح حقیقی اخلاق کا سر چشمہ بھی آدمی کے باطن میں ہوتا ہے ۔ ایسا آدمی اچھے کام محض اچھا نظر آنے کے لئے نہیں کرتا ۔ وہ اچھے کام اس لئے کرتا ہے کیونکہ وہ اچھائی کو پسند کرتا ہے اور خود بھی اچھا بننے کے لئے کوششیں کر رہا ہوتا ہے۔

 

اچھائی اور برائی 

یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ لوگ برائیوں کی طرف ، نقصان دینے والی چیزوں اور نقصان دہ کاموں کی طرف آسانی سے اور تیزی سے مائل ہوجاتے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ نفس کی کم زوری اور بےجا خواہشات سے انکار کی صلاحیت کا کم ہونا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نقصانات اور خرابیوں سے آگہی کے باوجود برائیاں اور خرابیاں آدمیوں میں جلد پھیل جاتی ہیں ۔ کئی ایسے گھرانے جہاں کسی شخص نے کبھی سگریٹ نہیں پی ہویا کسی اور طرح کا نشہ نہ کیا ہوان گھرانوں کے بعض بچے اسکول یا کالج میں سگریٹ پینے والے ساتھیوں کی نقل میں سگریٹ پینا شروع کردیتے ہیں۔ بعض بہت اچھے گھرانوں کے بچے بری صحبت کی وجہ سے کسی بہت مضر نشے کی لت میں پھنس جاتے ہیں۔ ایسے بچوں کے گھر کے ماحول کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس گھر کے بچے اتنی بری عادتوں میں پڑ گئے ہوں گے۔
یہ بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ لوگ بڑھا چڑھا کر (exaggerate) کرکے پیش کی جانے والی باتوں سے جلدی متاثر ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جھوٹ ، غیبت اور افواہوں پر جلدی یقین کرلیتی ہے ۔ ایسی باتوں کی اصلیت جاننے کے لئے زیادہ تر لوگ تصدیق کرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیر مفید یا بری باتیں یا برائیاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ اچھائی پھیلنے میں بہت وقت لگتا ہے ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اچھائی کو سمجھنے میں ہی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ اچھے کاموں کے فروغ میں اکثر بہت مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے ۔ یہ مزاحمت انفرادی سطح پر بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی یا معاشرتی سطح پر بھی ۔ اس مزاحمت کی نوعیت اور شدت کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی اچھا کام لوگوں میں کتنی تبدیلیوں ، کتنی محنت اور کتنی بصیرت کا تقاضہ کرتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا برائی ہے اور سچ بولنا اچھائی ہے۔ بہت سارے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے بےدھڑک جھوٹ بولتے ہیں۔ انہیں کہا جائے کہ اپنے معاملات میں سچائی اور دیانت داری اختیار کرو تو وہ کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں سچ کون بتاتا ہے۔ اگر میں سچ بولوں گا تو پھر کماؤں گا کیسے۔ایسے افراد کی مثالیں کسی ایک دو جگہ نہیں ، زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں سامنے آتی رہتی ہیں۔ایسے ماحول میں سچ کو عام کرنا اور اچھائی کو فروغ دینا آسان کام نہیں حالانکہ اچھائی کے فروغ سے لوگوں کی اکثریت کو فائدہ پہنچےگا۔ جس ماحول میں جھوٹ اور برائیاں عام ہوں وہاں اچھے کام کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مصلحتاً خوش اخلاقی دکھاتے ہوئے اچھا نظر آنے کی خواہش ایک عام سا جذبہ ہے۔ اس کے اثرات دیر تک قائم نہیں رہتے۔ خود اچھا بننے کی خواہش ایک مثبت جذبہ ہے۔ مثبت جذبات کے اچھے اثرات دیر تک قائم رہتے ہیں ۔ مثبت جذبات آدمی کی شخصیت کو مضبوط اور معتبر بناتے ہیں۔ مثبت جذبات خیر کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں جبکہ منفی جذبات خیر کے آگے رکاوٹ بنتے ہیں۔ منفی جذبات سے شر پھیلتا ہے۔ مثبت جذبات کے ذریعے ملنے والی مضبوطی شر سے روکنے اور خیر کو فروغ دینے میں مددگار ہوتی ہے۔
روحانی طرز فکر کے حامل مرد و خواتین مائنڈ سائنس کی مشقوں کے ذریعے بڑھنے والی اپنی
صلاحیتوں کو نیت کے اخلاص اور مثبت جذبات کے ساتھ اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرناچاہتےہیں۔ 

 

(جاری ہے)

 

ใส่ความเห็น

อีเมลของคุณจะไม่แสดงให้คนอื่นเห็น ช่องข้อมูลจำเป็นถูกทำเครื่องหมาย *