قربانی ایک مقدس فریضہ ہے، جو ہرصاحبِاستطاعت پر واجب ہے۔ ایک اچھے تندرست جانور کواللہ کی راہ میں قربان کرنا پھر اس کا گوشت خود بھی کھانا، اعزا و اقربا اور مساکین کو کھلانا ناصرف سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ مہمان نوازی اور فیاضی کی روایات کو بھی قائم واستوار کرتاہے۔ مگر آپ نے دیکھا ہوگا کہ عید قربان پر گوشت کھانے کا تناسب انتہا کو پہنچ جاتا ہے، آپ کسی کے یہاں عید ملنے گئے یا کوئی آپ کے یہاں عید ملنے آیا تو گوشت کی ڈش ضرور پیش کی جائے گی۔ اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ایک کثیر الاحباب و برادری کا فرد کتنی جگہ کھا سکے گا اور اگرتھوڑا بہت تکلفاً کھالے گا تو اس کے لیے کیا مسائل پیدا ہوں گے۔
گوشت میں کولیسٹرول کی مقدار خاصی ہوتی ہے۔ روکھے گوشت میں بظاہر نظر نہ آنے کے باوجود چربی ایک تہائی سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ یہ چربی زیادہ تر سیچوریٹڈ ہوتی ہے، یعنی ایسی چکنائی جو کمرے کے عام درجہ حرارت پر جم جاتی ہے۔ یہ چکنائی ہماری شریانوں میں جمع ہو کر دورانِ خون میں رکاوٹ ڈالتی ہے اور پھر امراضِ قلب کا سبب بنتی ہے لہٰذا گوشت اعتدال کے ساتھ استعمال کیا جائے تو صحت بخش ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ عید قربان کے موقع پر لوگ پرتکلف دعوتوں میں شرکت کے بعد اسہال، الٹی، گیس، بدہضمی، بخار وغیرہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔یہاں ہم ماہرین کی آراء کی روشنی میں یہ بیان کرنے کی کوشش کریں گے کہ ایک فرد کو کتنا گوشت کھانا چاہیے؟ اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق گوشت کے محفوظ کرنے کا طریقہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ نیز وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر گوشت کا زیادہ استعمال بعض صورتوں میں انسانی صحت کے لیے نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے؟۔۔۔۔۔
گوشت اور چکنائی
ماہرینِ خوراک متوازن غذا کے چارٹ میں جو چیز سب سے کم استعمال کرنے کی ہدایت دیتے ہیں وہ چکنائی اور گوشت ہے۔ جب بھی ان دونوں چیزوں کا استعمال انسانی خوراک میں اعتدال سے بڑھے گا یقیناصحت پر مضر اثرات ظاہر ہوں گے۔ عام طور پر صحت مند یا بڑھتی عمر کے افراد دن بھر میں 70 گرام گوشت استعمال کرسکتے ہیں جب کہ بیمار افراد کے لیے گوشت کازیادہ استعمال تکلیف کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر بلڈپریشر اور دل کے مریضوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق یہ جتنی بھی گوشت کی مقدار استعمال کرتے ہوں انہیں اس میں سے چکنائی کا قطعی خاتمہ کردینا چاہیے، کیونکہ حیوانی چکنائی جسم میں ٹرائی گلیسرائیڈز کی مقدار بڑھا دیتی ہے جو بہت سی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا اگر مذکورہ امراض میں مبتلا لوگ گوشت کھانا چاہیں تومتبادل طور پر مکئی، سویابین یا سورج مکھی کے تیل میں پکا کر کھائیں۔ ساتھ ہی کچی سبزیوں، پھلوں اور پانی کا استعمال بڑھا دیں۔ اس کے علاوہ بڑی عمر کے افراد کو بھی دل، گردے، کلیجی اور پائے وغیرہ کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
غذائی ماہرین کے مطابق اگر آپ نے عیدِ قربان کے ایک دو روز تک زیادہ گوشت کھایا ہے تو اس کے بعد دو روز تک پھل اور سبزیاں استعمال کریں یا کم از کم گوشت کے ساتھ سبزیاں اور پھل بھی غذا میں شامل رکھیں تا کہ خوراک متوازن رہے۔ زیادہ تیز نمک مرچ مصالحوں والے کھانوں سے بھی گریز کریں، ایسے کھانے معدے کے مختلف امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر آپ ایک دن گوشت کھاتے ہیں اور دوسرے دن سبزی تو یہ بھی متوازن غذا ہی میں شمار ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور بات یاد رکھنی چاہیے کہ غیر متوازن خوراک کے نتائج فوری طور پر کم ہی ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ طویل عرصہ بعد جوڑوں کے درد، یورک ایسڈ بڑھنے اوراعصابی درد وغیرہ کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ غذائیماہرین کی رائے میں عید کے دنوں میں گوشت کا استعمال اتنا ہی کریں جتنا آپ کے لیے فائدہ مند ہو، چونکہ بچوں کو بڑوں کے مقابلے میں پروٹین کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کچھ مقدار بڑھا بھی دیتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
گوشت محفوظ کرنا….
غذائی ماہرین کے مطابق گوشت خواہ قربانی کا ہو یا روزمرہ کا، یہ بہت جلد جراثیم کی آماجگاہ بن کر خراب ہونا شروع ہوجاتاہے۔ اس کی وجہ اس میں پانی کی مقدار کا زیادہ ہونا ہے جو تقریباً 75 فیصد ہوتی ہے جبکہ عام اناج اور دالوں میں پانی کی مقدار صرف 10 سے 15 فیصد تک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی چیز کو زیادہ عرصہ تک محفوظ رکھنا ہو تو اس میں پانی کی مقدار ختم کردی جاتی ہے، خشک اور تازہ دودھ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ تازہ دودھ چند گھنٹے جب کہ خشک دودھ کو سالوں محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا گوشت کے لیے ضروری ہے کہ اسے قربانی کے فوری بعد (تین گھنٹوں کے اندر) استعمال کرلیا جائے یا پھر محفوظ کرلیجیے۔
پانی جراثیم کی من بھاتی غذا اوران کے پنپنے کی پسندیدہ چیز ہے جب کہ جراثیم تیزابیت سے بھاگتے ہیں لہٰذاگوشت محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے گوشت سے پانی ختم کیا جائے۔ اس کے لیے اسے دھوپ میں سکھالیں، چولہے پر خشک کرلیں یا پھرپانی کو منجمد کرنے کے لیے گوشت کو فریز کرلیں۔ اگر تینوں طریقے حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہوں تو گوشت کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اگر گوشت کو دھوپ میں خشک کرنا مقصود ہو تو خیال رکھیں کہ مکھیوں، کیڑوں اور دھول مٹی سے محفوظ رہے۔ کسی پتلی جالی یا کپڑے سے ڈھانپ دیں تو زیادہ اچھا ہے۔ پھر تیز دھوپ میں دو سے ڈھائی گھنٹے رکھیں۔ اس عمل سے گوشت میں موجود تمام پروٹین پگھل کر ایک تہہ سی بنا دے گی، پانی خشک ہوجائے گا اور گوشت بھی محفوظ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ نمک اور تیزابیت کے ذریعے بھی جراثیم کا داخلہ روکا جاسکتا ہے۔ مثلاً گوشت کو دھوپ میں خشک کرنے سے پہلے اگر اس پر نمک کے ساتھ لیموں کا رس (کینو کا رس بھی لگا سکتے ہیں) یا سرکہ چھڑک دیا جائے تو گوشت کو زیادہ عرصہ تک محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ نمک میں موجود سٹرک ایسڈ اور سرکے میں پایا جانے والا ایسڈ بھی جراثیم کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے ، اگر دھوپ کم ہو یا نہ ہو تو گوشت کے پتلے پتلے قتلوں پر نمک یا دیگر مصالحے لگا کر اوون میں خشک کرکے محفوظ کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ گوشت کو دیر تک محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ اسے فریز کردینا ہے کیونکہ گوشت کو جما دینے کی صورت میں ان میں جراثیم کی نشوونما رک جاتی ہے۔ ایسا گوشت جو لیموں یا مالٹے کا رس نچوڑ کر سکھایا گیا ہو آئرن (فولاد) کی کمی دور کرنے کے لیے بہترین غذا ہے۔ بالخصوص ایسے بچے جو فولاد کی کمی کا شکار ہیں یا حاملہ خواتین جنہیں فولاد کی کمی کی شکایت ہے ایسا گوشت استعمال کرکے اپنی یہ کمی پوری کرسکتی ہیں۔ اس سے حاملہ خاتون کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
فریزر گوشت….
غذائی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ فریز کیا ہوا گوشت عام طور پر تین ماہ تک قابلِ استعمال رہتا ہے۔ تاہم اگر صورتحال بہت مثالی ہو یعنی فریزر بہت اچھا ہو اور کم کھلے تو گوشت چھ ماہ تک بھی قابل استعمال رہتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ بجلی کا آنا جانا لگا رہتا ہے اوربعض اوقات طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے جس سے گوشت کی حالت متاثر ہوجاتی ہے۔ یہ بات یاد رکھیے اگر فریزر کم کھلے گا اور بجلی کم جائے گی تو اس میں رکھے گوشت کو تین ماہ تک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ فریزر سے گوشت نکالنے کے بعد وہ صرف اتنی دیر تک محفوظ رہتا ہے جب تک کہ اس میں سے برف پگھل نہیں جاتی۔ برف پگھلنے کی صورت میں فوری طور پر پکالینا بہتر ہے۔ کیونکہ جیسے ہی برف پگھل جاتی ہے جراثیم گوشت پر تیزی سے حملہ کردیتے ہیں اور زیادہ دیر ہونے کی صورت میں گوشت قابلِ استعمال نہیں رہتا۔ اس لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ پلاسٹک کی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں استعمال کی جائیں جو روز مرہ کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ ہمارے ہاں بعض خواتین محنت سے بچنے کے لیے گوشت کو بڑی بڑی تھیلیوں میں ڈال کر فریزر میں رکھ دیتی ہیں جس سے اس کے خراب ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
ایک مرتبہ برف پگھلنے کے بعد دوبارہ گوشت کو فریز کرنا حفظانِ صحت کے اصولوں کے منافی ہے۔ ایک اور بات جو انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ گوشت تقسیم کرنے یا وقتی طور پر محفوظ کرنے کے لیے اخبار کا کاغذ ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ماہرین کے مطابق اخباری کاغذ کی روشنائی میں لیڈ ہوتا ہے جو انتہائی خطرناک ٹاکسن (زہر) ہے۔ اس کام کے لیے بٹر پیپرمناسب ہے۔
خراب گوشت میں قدرتی طور پر ایسے مادے پیدا ہوجاتے ہیں جو بُو دینے لگتے ہیں جس کی وجہ سے آپ کو آسانی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب گوشت استعمال نہیں رہا۔ گوشت خراب ہونے کی صورت میں اپنا رنگ تبدیل کرلیتا ہے جو پہلے کچھ گہرا اور پھر سبزی مائل ہرا ہوجاتا ہے پھر گوشت کی ساخت بھی اس کی خرابی کا پتا دینے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ بیمار جانور کا گوشت بھی انسانی صحت کے لیے مفید نہیں ہوتا، اس کے گوشت میں ٹاکسن (نامیاتی زہر) پیدا ہوجاتا ہے اور یہ کلیجی میں جمع ہوتارہتا ہے۔ ایسے گوشت کے استعمال سے گوشت میں موجود نامیاتی زہر انسانی جسم میں ہوسکتے ہیں جو بہت سے امراض کا باعث بنتے ہیں۔ اکثر فوڈ پوائزننگ، ڈائیریا وغیرہ کا سبب یہی عوامل ہیں۔ ایسے مضرِ صحت گوشت کا زیادہ استعمال مہلک بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ قربانی کے فوری بعداکثر گھروں میں کلیجی وغیرہ پکائی جاتی ہے لہٰذا پکانے سے قبل اس بات کا اطمینان کرلیں کہ کلیجی میں کہیں سوراخ، وغیرہ تو نہیں ہیں یا اس کی رنگت خراب تو نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے توایسی کلیجی پکانے سے گریز کریں۔
تازہ اور عمدہ گوشت کا رنگ پیازی یا گلابی ہوتا ہے۔ یہ چھونے سے ملائم اور تازہ محسوس ہوتا ہے۔ ایسا گوشت جلد رطوبت نہیں چھوڑتا۔ جب کہ زردی مائل سرخ یا گہرا سرخ گوشت زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔ ایسا گوشت جلد خراب ہوجاتا ہے اور صحت کے لیے زیادہ فائدہ مند بھی نہیں ہوتا۔
ماہرین کی رائے میں گوشت پکانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے کم سے کم وقت پکایا جائے۔ دھیمی آنچ پر گوشت کو گھنٹوں گلانے کے لیے چھوڑ دینا قطعی صحیح نہیں ہے۔ گوشت کو کم وقت میں بھاپ میں پکانا بے حد مفید ہے اور اس کے لیے بہترین چیز پریشر ککر ہے جس سے گوشت جلد گل جاتا ہے اور غذائیت بھی برقرار رہتی ہے۔ اس کے علاوہ مصالحوں کا استعمال کم سے کم رکھنا چاہیے۔ گھی کے بجائے تیل میں کھانا پکانے کو ترجیح دیں کیونکہ گھی غیر سیر شدہ (Unsaturated) چکنائی ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر سمجھی جاتی ہے۔
گوشت گلانے کے طریقے….
-1 خربوزے کے چھلکے سکھا کر پیس کرپائوڈر بناکر محفوظ رکھیں۔ دو تین چٹکی پائوڈر گوشت میں ڈالنے سے گوشت جلدی گل جاتا ہے۔
-2 پان میں کھانے والا چونا ڈھکن پر لگا کر اوپر وزن رکھیں۔
-3 کچا پپیتا چھلکے سمیت سکھاکر اس کا پائوڈر بنالیں۔یہ پائوڈر گوشت گلانے کے لیے مفید ہے۔
-4 پکانے سے پہلے اگر تھوڑی سی کچری پیس کر گوشت پر لگادیں اور ایک دو گھنٹے بعد پکائیں تو گوشت جلدی گل جائے گا اور چانپوں پر لگانے سے خستہ پن آجاتا ہے۔
-5 چھالیہ کے موٹے دو چار ٹکڑے کاٹ کر سالن میں ڈال دیں۔
-6 گوشت ہلکی آنچ پر گلائیں۔ اس کا مزہ کچھ اور ہی ہوگا۔ جلدی گل جائے گا۔
چانپ اور گوشت کیسے روسٹ کیا جائے….
سب سے پہلے گوشت کو دھو کر صاف کرکے اسے سرکہ اور نمک لگا کر رکھیں۔ اس طرح گوشت پکنے پر خستہ اور نمکین ہوگا۔ شیشے کے پیالے میں سرکہ، نمک اورتھوڑی سی پسی ہوئی کالی مرچ ڈال کر گوشت پر اچھی طرح مل دیں پھر رکھ دیں۔ پیالہ اوپر سے ڈھانپ کر فریج میں رکھ دیں۔ یہ گوشت جب بھی تلیں گی مزیدار ہوگا۔ اسے کم از کم چوبیس گھنٹے رکھیں۔
آپ چانپوں کو مصالحے اور دہی میں بھگو کر فریج میں رکھ دیں۔ اگر آپ سرکہ میں بھگونا چاہتی ہیں تو اس میں مصالحے ملا دیں۔ پپیتا اورمصالحے لگا کر بھی چند گھنٹوں کے لیے فریج میں رکھ سکتی ہیں۔ چانپیں خستہ اور مزیدار بنیں گی۔ لیموں کے رس میں بھی چانپ بھگو کر رکھی جاسکتی ہیں۔
غذائی ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ گوشت خوراک کا لازمی حصہ ہے۔ گوشت ہمارے جسم کے لیے نائٹروجن، فاسفورس اور سلفر کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے، جس کے بغیر جسم کی نشوونما رک جاتی ہے اور بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، لہٰذا صاف ستھرا اور جراثیم سے محفوظ گوشت استعمال کریں لیکن اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔