Notice: WP_Scripts::localize işlevi yanlış çağrıldı. $l10n parametresi bir dizi olmalıdır. Komut dosyalarına rastgele verileri iletmek için bunun yerine wp_add_inline_script() işlevini kullanın. Ayrıntılı bilgi almak için lütfen WordPress hata ayıklama bölümüne bakın. (Bu ileti 5.7.0 sürümünde eklendi.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
پاکستان کی روحانی شناخت – روحانی ڈائجسٹـ
Çarşamba , 4 Aralık 2024

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

پاکستان کی روحانی شناخت


پاکستان رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کی پر نور اور باسعادت شب یعنی لیلۃ القدر کو قائم ہوا۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان کو ملنے والی یہ سعادت محض اتفاق ہے؟ ….نہیں ہر گز نہیں! !
پاکستان کے قیام کے لئے اس مبارک ساعت کے انتخاب میں پاکستانی قوم کے لئے ایک لطیف روحانی اشارہ موجود ہے۔ لیلۃ القدر سلامتی اور برکت والی رات ہے اسے سال کی تمام راتوں پر فضلیت ہے ۔ اس رات کی نعمتوں اور برکتوں سے وہی لوگ فیضیاب ہوتے ہیں جو اس رات کو تلاش کرتے ہیں۔لیلۃ القدر کی بابرکت ساعتوں میں پاکستان کا قیام اس حقیقت کی طرف قدرت کا اشارہ ہے کہ جس طرح لیلۃ القدر کو سال کی تمام راتوں پر فضیلت حاصل ہے اسی طرح مملکتِ خداداد پاکستان کو دنیا بھر میں ایک نمایاں ترین مقام حاصل ہوسکتا ہے مگر یہ اُس صورت میں ممکن ہے جب پاکستانی قوم پوری دیانت داری ، اخلاص ، ملک و ملت کے لئے مکمل ایثار کے ساتھ انتھک محنت کرکے اس مقام کو پانے کی کوشش کرے۔ اﷲ تعالیٰ کی نعمتیں و نوازشات اس قوم کا مقدرکر دی گئی ہیں لیکن ان نعمتوں کو پانا اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر پوری قوم کی بھلائی کے لئے استعمال کرنا خود پاکستانی قوم کی ذمہ داری ہے ۔
اس خطہ زمین کو اہلِ تکوین اور مشیئت ایزدی کے تابع اولیائے کرام کی روحانی مدد ملتی رہی ہے ۔ پاکستان کے ساتھ اولیائے کرام کی دعائیں اور روحانی بزرگوں کی خصوصی نظر شروع ہی سےہے ۔ ان بزرگوں نے پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کے بارے میں واضح ارشادات فرمائے ہیں۔ آیئے اس روحانی فیضان کا ہم تحریکِ پاکستان سے جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کا قیام کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے ۔ مطالعہ پاکستان کی کوئی بھی نصابی کتاب اٹھایئے ، مسلم معاشرے کی تشکیل کے حوالے سے ہمیں کتنے ہی صوفیائے کرام کے تذکرے اور کوششیں نظر آئیں گی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے ہندوستان میں احیائے اسلام کی بنیادیں استوار کیں، حضرت شاہ ولی اﷲؒ نے اسے اپنی مجتہدانہ کوششوں سے سینچا۔ اگلے دور میں حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے فرمایا ‘‘دینی تعلیم کے خاطر خواہ انتظام کے ساتھ مسلمان طلبہ جدید درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔’’ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجرمکیؒ نے اپنے صوفیانہ افکار اور روحانی مساعی سے ان راہوں کی تعمیر نو کی ، اعلٰحضرت مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ نے اپنی کتاب ‘‘الحجۃ الموتمنہ’’ میں دو قومی نظریئے کو درست ثابت کرتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کی۔
اس مملکت کی تشکیل کا آغاز تو اس خطے میں داتا گنج بخش اور خواجہ معین الدین چشتی کی آمد سے شرع ہو گیا تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی المعروف خواجہ غریب نوازؒ کے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونیؒ کے ملفوظات اور شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں، حضرت شاہ نعمت اﷲ ؒ کے اشعار کے علاوہ بیانیہ طور پر دیگر کئی روحانی بزرگوں کے الفاؓ میں ملتی ہیں۔
پروفیسر مسعود الحسن صاحب عالم و فاضل شخصیت تھے۔ وہ اپنی انگریزی کتاب ”حضرت داتا گنج بخش، روحانی سوانح عمری’’ ( Hazrat Data Ganj Bakhsh; a spiritual biographyمطبوعہ داتا گنج بخش اکادمی صفحہ 3)میں لکھتے ہیں کہ میں 1930ء میں لاہور آیا اور داتا گنج بخش مزار کے قریب رہائش اختیار کی۔ علامہ اقبال ان دنوں اکثر نماز فجر سے قبل داتا گنج بخش حاضری دیا کرتے تھے جہاں میری ان سے ملاقات رہتی تھی۔ میں نے علامہ صاحب کے ارشاد کے مطابق ان کے لئے انگریزی میں کچھ کام کیا اور ان کی تقاریر لکھنے میں بھی مدد کی جن میں خطبہ الٰہ آباد بھی شامل ہے۔ پروفیسر مسعود الحسن لکھتے ہیں کہ میرے پوچھنے پر علامہ اقبال نے بتایا کہ انہیں مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا خیال داتا گنج بخش مزار میں عبادت کے دوران سوجھا۔ لطف کی بات ہے کہ ایک انگریز مصنف ایولن رنچ نے اپنی کتاب۔ Immortal Yearمیں لکھا ہے کہ ”میں نے جناح سے پوچھا کہ تمہیں سب سے پہلے پاکستان کا خیال کب آیا اور یہ تصور تمہارے ذہن میں کب ابھرا؟۔ جناح کا سیدھا سا جواب تھا۔” 1930ء میں“۔ گویا علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کو پہلی بار پاکستان کا خیال 1930ء میں آیا۔
تحریکِ پاکستان میں کامیابیوں کے حوالے سے سلسلہ چشتیہ کے ایک ممتاز بزرگ حضرت سید محمد ذوقی شاہؒ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا ‘‘آل انڈیا مسلم لیگ کو ملنے والی کامیابیاں محض محمد علی جناح کا کام نہیں بلکہ یہ دراصل اﷲ کی مرضی سے ہوا ہے ۔ جناح صاحب کو غیب سے مدد مل رہی ہے۔ قابلیت کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور قابلیت کی وجہ سے جناح صاحب کو پسند کیا گیا ہے ۔ دراصل پاکستان مدینہ والے کے فیض سے بنا ہے یہ فیضانِ نبویؐ ہے ۔ ’’
تحریک پاکستان، قیامِ پاکستان اور اس کے بعد سے آج تک کے ادوار کا بہ نظر غائر جائزہ لیں تو روحانی بزرگوں کی دعاؤں،تاثیرِ روحانی اور تصرف کا بھر پور احساس ہوتا ہے ۔ روحانی بزرگوں کے تصرف اور پاکستان پر ان کی فیض رسانی کا حال بیان کرتے ہوئے ممتاز مفتی مرحوم نے تحریر کیاہے کہ:
‘‘بابے افراد نہیں بلکہ ایک سلسلہ ہیں جو جاری رہتا ہے ۔ بابوں کی ڈیوٹیاں متعین ہوتی ہیں ۔ یہ بابے اﷲ کے چاکر ہیں اس کا حکم بجالانے پر مامور ہیں۔ کوئی فیلڈ آفیسر ہے کوئی سیکریٹریٹ سے متعلق ہے ۔ کسی کو حکم ہے کہ خود کو ظاہر کرے ۔کسی کوحکم ہے کہ پردے میں رہ کر کام کرے۔ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی حالات میں باباؤں کا ہاتھ ہے ۔ یہ بھید داتا صاحب نے کھولا ہے ’’ ۔
داتا گنج بخشؒ کی کتاب ‘‘ کشف المحجوب ’’ کے حوالے پیش کرتے ہوئے وہ اپنی بات یوں آگے بڑھاتے ہیں’’ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے معاملات میں باباؤں کا ہاتھ ہے ۔ داتا صاحب نے تو برملا کہہ دیا کہ اﷲ نے اولیاء کو کائنات کا گورنر بنایا ہے ۔ ان کی برکتوں کی وجہ سے آسمان سے پانی برستا ہے ۔ زمین سے بوٹے اُگتے ہیں۔مسلمان کافروں سے لڑائیاں جیت جاتے ہیں۔
صرف داتا صاحب نے ہی نہیں ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگوں اور عالموں نے باباؤں کی عظمت کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً مولانا رومؒ ، فرید الدین عطارؒ، امیر خسروؒ اور علامہ اقبالؒ ۔
صرف ساٹھ ستر سال قبل کے حالات پر نظر ڈالئے تو بہت سے بزرگوں کے بیان کے مطابق برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد خطے کے قیام میں سیدناحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت و شفقت شامل تھی ۔ مثال کے طور پر ہم یہاں کچھ واقعات پیش کررہے ہیں ۔
کلیاتِ حسرت موہانی صفحہ 28 تا29 پر تحریر ہے کہ جولائی 1946ء میں مسلم لیگ کونسل کا ایک تاریخی اجلاس بمبئی میں منعقد ہونا تھا۔ اس میں شرکت کے لئے پیر سید علی محمد راشدی بھی ہوائی جہاز میں مولانا حسرت موہانی کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اثنائے راہ میں مولانا نے پیر راشدی سے کہا ’’سنئے صاحب پاکستان تو مل جائے گا اب آئندہ کی فکر کرنی چاہئے ‘‘ پیر راشدی صاحب نے کہا کہ آپ کو کیسے یقین ہوگیا کہ پاکستان مل جائے گا فرمانے لگ میں نے حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی زیار ت کی ہے آپؐ نے پاکستان کے قیام کی بشارت دی ہے ‘‘۔
پاکستان پر روحانی بزرگوں کی توجہ ابتداء ہی سے رہی ہے ۔ ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے دشمن ملک کو کاری ضرب لگاتے ہوئے اس کا حملہ پسپا کردیا ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی خصوصی حفاظت کی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سن 1965ء کی جنگ میں پاکستانی قوم میں نظر آنے والا عظیم الشان جذبہ اﷲ تعالیٰ کا احسان اور اﷲ کے نامزد کردہ تکوینی بندوں کی انسپائریشن کا نتیجہ تھا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جنگ کے دوران یا بعد میں غذائی اجناس میں کمی واقع ہوجاتی ہے ، صنعتی اور زرعی کارخانے عارضی طور پر کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ نتیجتاً اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتاہے۔ معاشی طور پر چونکہ ملک کئی سال پیچھے چلا جاتا ہے اس لئے قیمتوں میں اضافہ لازمی امر ہے مگر سن ۶۵ء میں بالکل عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کی قیمتیں بجائے بڑھنے کے مزید کم ہوگئیں۔ عوام الناس میں عسکری جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ لوگ لاٹھیاں اور کلہاڑیاں لے کر سرحدوں پر نکل گئے ۔
پاکستان کی تاریخ نے ایک اہم موڑ اُس وقت لیا جب مئی 1998ء میں پڑوسی ملک بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا ۔ اس دھماکے کے بعد چند ہفتے پاکستانی قوم کے لئے بڑے کھٹن اور صبر آزما تھے ۔ ملک کی معیشت مسلسل خسارے میں جارہی تھی ایسے میں جوابی ایٹمی دھماکہ معیشت کے لئے بھی کسی دھماکے سے کم نہیں تھا ۔ پاکستان کی سلامتی کوبھیانک خطرات لاحق تھے اور پڑوسی ملک جارحانہ عزائم کا اظہار کررہا تھا۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے سے پہلے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی حیثیت سوتیلے بھائی کی سی محسوس ہورہی تھی مگر بھارت کے دھماکے کے بعد ان سب کا رویہ اچانک تبدیل ہوگیا اور بیرونی قوتوں نے پاکستانی معیشت کو مشروط طور پر سہارا دینے اور قرضے معاف کر دینے کی بھی پیش کش کی مگر ملکی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے ایک اہم اقدام کیا اور دنیاکی ساتویں ایٹمی قوت بن کر دنیا پر ابھرا ۔ سنجیدہ بین الاقوامی حلقوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے یہ اقدام بحالتِ مجبوری اور اپنی سلامتی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کیا۔ کیا کبھی آپ نے غور فرمایا کہ یہ اقدام کس طرح پاکستان کو دنیا میں سربلند کرنے کا سبب بنا ۔ بھارت اگر دھماکہ نہ کرتا تو پاکستان کو کیا اپنی قوت کے اظہار کا یہ موقع ہاتھ آسکتا تھا؟ بھارت تو 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کر چکاتھا اسے دوبارہ ایسا کرکے دنیا بھر میں شرمندگی اٹھانے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ بھارتی ایٹمی دھماکہ دراصل دنیا بھر میں پاکستان کو سربلند کرنے کا وسیلہ بن گیا۔کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اہل تکوین نے پڑوسی ملک کی قیادت کو انسپائر کیا ہو کہ دھماکہ کر دینا چاہئے اور اس طرح پاکستان کو دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اُس وقت بعض لوگ اس خوف میں مبتلا تھے کہ کہ اس عمل سے پاکستان کی بیرونی امداد بند ہوجائے گی اور بیرونی امداد بند ہوجانے کے سبب ملک میں شدید معاشی ابتری پھیل جائے گی ، غذائی ضروریات اور دیگر اشیائے خورد نوش کی قیمتیں گراں ہوجائیں گی لیکن آج غور کیجئے کسی بھی بازار میں آپ نے سبزیوں ، پھلوں یا دوسری ضروریاتِ زندگی کے فقدان کا مشاہدہ کیا ہے ؟ گندم کے جس بحران کی بات کی جاتی ہے وہ بھی محض چند عناصر کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈہ ہے ۔ ملک کے ہر شہر و دیہات کے گھروں میں آج بھی آٹا موجود ہے ۔ سبزیوں اور پھلوں سے بازار آج بھی لبریز ہیں، کھلیانوں میں ہریالی قابلِ دید ہے ۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکہ سے قبل کئی عقلی جائزے اور دانشورانہ تجزیئے اسی بات پر زور دے رہے تھے کہ ایٹمی دھماکے کے بعد ملک کی معاشی حالت اگر بالکل تباہ نہ ہوئی تو کم از کم ناقابلِ بیان حد تک بگڑ جائے گی۔ مگر دیکھ لیجئے آج صورتحال ان جائزوں سے قطعی مختلف ہے ! پاکستان ایٹمی طاقت بھی بن گیا اور اس کی معیشت مشکل صورتحال سے باہر بھی نکل آئی ہے ۔
اہلِ روحانیت کی صحبتوں سے فیض حاصل کرنے والوں کا یقین ہے کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہوسکا ہے کیونکہ اللہ کا فضل وکرم پاکستان کے ساتھ ہے اور اللہ کے حکم پر روحانی ہستیوں کی خصوصی نظر اہلِ پاکستان پر ہے ۔ پاکستان پر مشکل وقتوں میں غیبی مدد کی کئی مثالوں سے انتہائی محدود عقل رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اس ملک کو اﷲ والوں کی دعائیں سنبھالے ہوئے ہیں ۔ اﷲ کے فرستادہ بندوں کی دعائیں اور عملی مدد اہل پاکستان کے ساتھ ہے ۔
اﷲتعالیٰ کی تمام نعمتیں اس ملک میں موجود ہیں اور اﷲ کی رحمت اہل پاکستان پر بارش کی طرح برسنے کے لیے تیار ہے اگر کمی ہے تو ہمارے اپنے اندر ہے ۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ہماری کوششیں کم ہیں۔ ہماری صلاحیتیں پوری طرح استعمال نہیں ہوسکی ہیں۔ یقین جانئے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں زبردست وسائل عطا کئے ہیں۔ اب یہ ہمارا اپنا کام ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے اس احسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔
کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے علمی ترقی بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ علم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔ اللہ کے نظام میں کام کرنے والے خصوصی بندے نہ صرف یہ کہ قوم کو اس ضرورت کا احساس دلانے میں ہمہ تن مصروف ہیں بلکہ علوم کے مختلف شعبوں کے لحاظ سے قوم کے لئے مستقبل کی ضروریات بھی ان کے پیشِ نظر ہیں ۔ روحانی بصیرت کے حامل افراد کی گفتگو سے اس قسم کے اشارے ملتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے نوجوانوں کو قدرت کی طرف سے الیکٹرونکس، کمپیوٹر، کیمسٹری، ارضیات ، معاشیات اور طب کے شعبوں میں آگے بڑھنے کے لیے خصوصی استعداد اور فطری رجحان ودیعت کیا گیا ہے ۔ پاکستانی قوم اپنے اس ذہنی اثاثہ سے بحسن وخوبی استفادہ کرے تو تھوڑی مدت میں کئی عظیم الشان کامیابیاں اسے حاصل ہوجائیں گی۔ ناقدری کی صورت میں اس بیش بہا دولت کا بڑا حصہ غیر قوموں کی طرف منتقل ہوسکتا ہے ۔
ہمارے پاس دنیا کے بہترین جفاکش ، اعلیٰ دماغ انجینئر، بہترین ٹیلنٹ ، زرخیز زمین اور ہر قسم کے موسم بھی موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بہتر بنائیں ، ایمانداری اور حّب وطن کے جذبوں سے معمور ہوکر اپنے ملک میں موجود وسائل کو استعمال کریں۔
اﷲ تعالیٰ کی نوازشیں اور کرم نوازیاں پاکستان کے ساتھ ہیں اور پاکستان کی ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔ ارکانِ تکوین اس سلسلہ میں مدد کے لیے کمر بستہ ہیں مگر یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اپنے اندرتبدیلی پیدا کریں ۔ ذہنی جمود اور فکری پسماندگی کے جو بادل گذشتہ دو تین دہائیوں سے ہم پر سایہ فگن ہیں ان کو علم کی بادِ نسیم سے اپنی پاک سر زمین سے دور دھکیل دیں ۔ دینی ، روحانی، سائنسی ، ٹیکنیکی اور دوسرے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو بھر پور طور پر استعمال کرنے کا عہد کریں تو روحانی نظا م ہماری مدد کے لیے تیار ہے ۔ اﷲ نے ہمیں اتنے وسائل سے نوازا ہے کہ ان کے صحیح استعمال سے ہم صرف چند سالوں میں دنیا کی بہترین اور ترقی یافتہ قوم بن کر اُبھر سکتے ہیں۔
قدرت کے انعامات آپ کے لئے لکھ دیئے گئے ہیں تاہم ان کے حصول کے لئے چند لازمی شرائط کا پورا کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ۔ تاہم یہاں ایک بات یاد رکھنی ضروری ہے ۔ قدرت مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے افراد یا قوموں کا انتخاب کرتی ہے اگر یہ افراد یا قومیں اس انتخاب پر شکرگزار بنیں اور مقاصد کی تکمیل کریں تو انہیں اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے لیکن جو افراد یا قومیں انتخاب کی قدر نہیں کرتیں تو اللہ تعالیٰ ان سے بےنیاز ہے اور اللہ تعالیٰ نافرمان اور ناشکرگزار افراد اور قوموں کو دوست نہیں رکھتا ۔

 

 

Bir yanıt yazın

E-posta adresiniz yayınlanmayacak. Gerekli alanlar * ile işaretlenmişlerdir