مائنڈ سائنس
انسان کو قدرت سے ملنے والی بے شمار صلاحیتوں کا علم
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ میں کئی باطنی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً سچے خواب دیکھنے کی صلاحیت، دوسروں کے خیالات محسوس کرلینے اور اپنے خیالات سے کسی کو آگاہ کرنے کی صلاحیت ۔
ان باطنی صلاحیتوں کو بھی کچھ عرصے میں بروئے کار لایا جاسکتاہے۔
دنیا میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی ذہنی قوت (Mind Power)کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کو نمایاں کیا اور زندگی میں تیز رفتار اور مسلسل کامیابیاں حاصل کیں۔
مائنڈ پاور کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنے والوں کے تذکروں پر مبنی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
زیادہ تر انگریزی زبان میں یہ کتابیں ہیں۔ بالعموم امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور یورپی ممالک کے افراد کے تذکروں پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کتابوں یا رسالوں میں شائع ہونے والے مضامین پڑھ کر جہاں انسانی صلاحیتوں پر حیرت ہوتی ہے وہیں اکثر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے والے امریکی یا یورپی افراد ہی ہوتے ہیں۔
ایسا سوچنا درست نہیں کیونکہ قدرت کافیضان تو سب پر عام ہے۔ اس میں مغرب یا مشرق، کالے گورے، مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہیں۔
مشرقی لوگ بھی قدرت کی عطاکردہ بے شمار صلاحیتوں سے بھرپور فائدے اُٹھاسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص خواہ اس کا تعلق کسی نسل، کسی خطے سے ہو کوشش کرے تو اس کے لیے قدرت کی مہربانیاں بےپناہ ہیں۔
انسانی دماغ قدرت کا ایک حیرت انگیز اور پراسرار عجوبہ ہے۔ آپ جو کچھ بھی ہیں اس کا سبب آپ کا دماغ ہی ہے۔ آپ کا دماغ ہر لمحہ بیدار ومتحرک رہتاہے۔ ایک طرف تو جسم کے تمام نظام دماغ کی طرف سے مسلسل حکم ملتے رہنے پر متحرک وفعال رہتے ہیں۔ دوسری طرف خیالات ونظریات ،جذبات واحساسات، پسند ناپسند ، محبت، نفرت، غصہ ،تحمل مزاجی، علم وذہانت اور بصیرت و دانش مندی ان سب کا مرکز ومنبع بھی دماغ ہی ہے۔
دماغ ٹھیک طرح کام نہ کررہا ہو تو جسم اور روح پر مبنی یہ جیتا جاگتا وجود کسی کام کا نہیں رہتا۔
ماضی اور مستقبل
ہمارے دماغ میں اربوں خلیات موجود ہیں۔ ان دماغی خلیات کے ذریعہ ہر شخص زمانۂ حال میں رہتے ہوئے بیک وقت اپنے ماضی اور مستقبل سے بھی جُڑا ہوا ہے۔ ان خلیات کے ذریعہ اس دنیا میں انسان کے مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل کے سامان بھی فراہم ہورہے ہیں۔ وجدان اور عقل کی مختلف کیفیات کا اظہار بھی ان ہی خلیات کا مرہونِ منت ہے۔ بیداری اور نیند کے وقفوں میں کارفرما مختلف حواس بھی خلیات کی وجہ سے متحرک رہتے ہیں۔
اگر ہم اپنے دماغی خلیات کا بہت تھوڑا سا استعمال بڑھادیں تو ہمارا شمار بھی نہایت ذہین لوگوں میں ہونے لگے گا۔ اس ذہانت کو ٹھیک طرح استعمال کرنا سیکھ لیا جائے تو اپناشمار دنیا کے کامیاب افراد میں کروایا جاسکتاہے۔
خیال کیا ہے؟
اپنی ذہنی صلاحیتوں کو سمجھنے اور ان سے بہتر طور پر کام لینے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ ‘‘خیال’’ کیا ہے۔ یہ کہاں سے آتاہے اور کسی بھی فرد کے دماغ تک پہنچنے کے لیے کن کن مراحل سے گزرتاہے۔
خیال اطلاع کا نام ہے۔ زندگی کی تمام سرگرمیاں مختلف اطلاعات یا خیالات پر ہی منحصر ہیں۔ بھوک، پیاس، اپنا تحفظ، بقائے نسل، محبت نفرت وغیرہ یہ سب ‘‘خیال’’ کی وجہ سے ہی ہیں۔
خیالات کی انسان کو ترسیل کا ذریعہ روشنی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ روشنی اپنا سفر لہروں میں طے کرتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عام روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے۔
باطنی علوم کے حاملین کے مطابق خیال کی رفتار عام روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے۔ ہر انسان کو قدرت کی جانب سے یہ سکت فراہم کی گئی ہے کہ اس کا دماغ خیالات کو نہایت تیز رفتاری سے قبول کرسکے۔
انسان عموماً اپنی اس سکت یا صلاحیت سے آگاہ نہیں ہوتا۔ خیالات کی ترسیل کا یہ تیز رفتار عمل ایک غیر محسوس طریقہ سے جاری رہتا ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس عمل سے آگہی نہ رکھنے کی وجہ سے ان قیمتی اور اہم اطلاعات کے ایک وسیع حصے کو مسلسل ضائع کررہی ہوتی ہے۔
باطنی علوم کے حاملین بتاتے ہیں کہ ساری کائنات میں ایک ہی شعور کارفرما ہے یہ کائناتی شعور وہ شعور نہیں جسے ہم اپنا ذاتی شعور کہتے ہیں ۔ ہمارے ذاتی شعور کی مثال کائناتی شعور کے مقابلہ میں ایسی ہے جسے ایک بہت بڑے صحرا کے مقابلہ میں ریت کا ایک ذرّہ یا سمندر کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ لیکن یہ ذرہ یا قطرہ بھی اپنے اندر صلاحیتوں کا بہت بڑا خزانہ اور امکانات کی ایک وسیع وعریض دنیا رکھتاہے۔
خیال کہاں سے آتا ہے؟
خیال کہاں سے آتاہے ؟ سلسلہ عظیمیہ کے امام قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں :
‘‘جب ذہن میں کوئی خیال آتاہے تو اس کا کوئی کائناتی سبب ضرور موجود ہوتاہے ۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوئی ۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں۔ اس کاتعلق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں مثلاً جب ہوا کا کوئی تیز جھونکا آتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ کرئہ ہوائی میں کوئی تغیّر واقع ہوا۔ اس ہی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی چیز وار د ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ انسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا خود ذہنِ انسانی کی تلاش پر ہے۔
مثبت اور منفی حواس
ذہنِ انسانی کی دو سطح ہیں۔ ایک سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی حرکت کو کائناتی حرکت سے ملاتی ہے یعنی یہ حرکت فرد کے ارادوں اور محسوسات کو فرد کے ذہن تک لاتی ہے۔
ذہن کی دونوں سطحیں دو قسم کے حواس تخلیق کرتی ہیں۔ اگر ایک سطح کی تخلیق کو مثبت حواس کہیں تو دوسری سطح کی تخلیق کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں۔
دراصل مثبت حواس ایک معنی میں حواس کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے۔ اس تقسیم کے حصے اعضائے جسمانی ہیں چنانچہ ہماری جسمانی فعلیت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے۔ ایک ہی وقت میں آنکھ کسی ایک شے کو دیکھتی ہے اور کان کسی آواز کو سنتاہے ۔ ہاتھ کسی تیسری شے کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں اور پیر کسی چوتھی چیز کی پیمائش کرتے ہیں۔ زبان کسی پانچویں شے کے ذائقہ میں اور ناک کسی اور چیز کے سونگھنے میں مشغول رہتی ہے۔ دماغ میں ان چیزوں سے الگ کتنی ہی اور چیزوں کے خیالات آرہے ہوتے ہیں۔ یہ مثبت حواس کی کارفرمائی ہے۔ اس کے برعکس منفی حواس میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کا تعلق انسان کے ارادے سے نہیں ہوتا۔
مثلاً خواب میں باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا تمام حواس کام کرتے ہیں، اعضائے جسمانی کے سکوت سے اس بات کا سُراغ مل جاتا ہے کہ حواس کا اجتماع ایک ہی نقطۂ ذہنی میں ہے۔ خواب کی حالت میں اس نقطہ کے اندر جو حرکت واقع ہوتی ہیں، وہی حرکت بیداری میں جسمانی اعضاء کے اندر تقسیم ہوجاتی ہے۔ تقسیم ہونے سے پیشتر ہم ان حواس کو منفی حواس کا نام دے سکتے ہیں۔ لیکن جسمانی اعضاء میں تقسیم ہونے کے بعد ان کو مثبت کہنا درست ہوگا۔[لوح وقلم ، قلندر بابا اولیاء، صفحہ:222-223]
انسانی دماغ
روحانی اسکالر خواجہ شمس الدین عظیمی فرماتے ہیں ،
آدم کی اولاد میں زندگی گزارنے کے لیے دو دماغ استعمال ہوتے ہیں۔ ایک دماغ کا تجربہ ہمیں دن کے وقت بیداری میں او ر دوسرے دماغ کا تجربہ رات کے وقت نیند میں ہوتاہے ۔ ایک دماغ دائیں طرف ہوتاہے دوسرا دماغ بائیں طرف ہوتاہے۔
دائیں دماغ کا تعلق لاشعوری حواس سے ہے اور بائیں دماغ کا تعلق شعوری حواس سے ہے۔ دایاں دماغ وجدانی دماغ ہے اور بایاں دماغ منطقی اور تنقیدی دماغ ہے۔ دائیں دماغ میں لامحدود علوم ہیں اور بائیں دماغ میں محدود علوم کا ذخیرہ ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم آٹھ ہزار یا دداشتیں فی سیکنڈ کے حساب سے اپنے دماغ میں ریکارڈ کرتے جائیں تو اس میں اتنی گنجائش ہے کہ ہم لگاتار بغیر کسی وقفہ کے 75سال تک یادداشتیں ریکارڈ کرسکتے ہیں۔
مشہور سائنس دان آئن سٹائن (Einstein)کا دماغ امریکہ کی لیبارٹری میں محفوظ ہے۔ بڑے بڑے محققین نے اس پر محض اس غرض سے ریسرچ کی ہے کہ وہ کسی طرح جان لیں کہ آئن سٹائن کی دماغی ساخت میں ایسی کون سی صلاحیت تھی جس نے اسے جینئس بنادیا۔ ابھی تک انہیں ایسی کوئی چیز نہیں مل سکی جو عام آدمی اور جینئس آدمی کے دماغ میں امتیاز پیدا کرسکے۔
آئن سٹائن کو اس صدی کا عظیم اور جینئس سائنس دان کہاجاتاہے اپنے بارے میں اس نے خود کہا تھا کہ تھیوریز میں نے خود نہیں سوچیں بلکہ وہ اس پر الہام ہوئی تھیں، یاد رہے یہ وہی آئن سٹائن تھا جو اسکول کے زمانے میں نالائق ترین طالب علم شمار کیا جاتاتھا۔
سوال یہ ہے کہ ایک نالائق طالب علم جینئس کیسے بن گیا؟….
دنیا بھر میں Sleep Laboratories میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہواہے کہ بلاتخصیص جینئس اور عام آدمی جب سوتاہے تو اس کا دماغ Data Processingکا کام شروع کردیتا ہے۔
فی زمانہ زیادہ تر لوگ بائیں دماغ کے زیرِ اثر ہیں۔ بائیں دماغ میں نسیان کا عمل دخل ہے۔
[احسان وتصوف ، خواجہ شمس الدین عظیمی ، صفحہ:321-322]
خیال کی آمد اور اس کے بعد عموماً جو مراحل سامنے آتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہوتے ہیں۔
1- خیال کی آمد
2- خیال پر عمل کی خواہش
3—اِس خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام
قابلِ غور بات یہ ہے کہ بعد کا ہر مرحلہ پہلے مرحلہ سے رفتار میں بتدریج کم ہوتا رہتا ہے۔ رفتار میں ہونے والی اس کمی کو ہم نے بطور مثال مندرجہ بالا چارٹ کے ذریعہ پیش کیا ہے۔
خیال کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اس خیال کو درست فہم کے ساتھ وصول کرنے کی رفتار اس سے کم ہوتی ہے۔ اس خیال پر عمل کرنے کی خواہش کی رفتار مزید کم ہوجاتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام کی رفتار بے شمار لوگوں میں بہت ہی کم ہوجاتی ہے۔
اس بتدیج کمی کی وجہ یہ ہے کہ خیال کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے ذہنی و جسمانی مشقت اور مادی وسائل اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے ، تاہم ایک بات واضح رہے کہ خیال کی آمد کے بعد دوسرے مراحل کی رفتا ر میں بہت زیادہ کمی ہوجانا خیال وصول کرنے والے کی سستی، اس کی قوتِ ارادی میں کمی اور اس کی غیرمستقل مزاجی کی علامت بھی ہوسکتی ہے۔ اپنی ذہنی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کے لیے ان خامیوں یا کم زوریوں کو سمجھنا اوران کا تدراک کے لیے ضروری اقدامات کرنا چاہییں ۔
خیال کی آمد کی ایک اور صورت بھی ہے اسے ہم انتقال خیال کہہ سکتے ہیں۔ ہوسکتاہے کہ اطلاعات کا تجربہ آپ کو بھی ہوا ہو۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ ہمارے ذہن میں بغیر کسی وجہ کے اچانک اپنے کسی بہت پرانے دوست، کسی عزیز یا واقف کا خیال آتاہے۔ یہ خیال آنے کے تھوڑی ہی مدت کے اندر اس شخصیت سے یا تو ملاقات ہوجاتی ہے یا اس کا ٹیلیفون آجاتاہے یا کسی اور ذرائع سے اس کے حوالے سے کوئی بات ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم سوچتے ہیں کہ ہمیں ابھی تو ان کا خیال آیا تھا۔ یہ بات جن سے متعلق ہو انہیں بتائی جائے تو انہیں بھی خوش گوار حیرت ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہوتاہے؟….
اس کی توجیہہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی دوست یا عزیز آپ کے بارے میں سوچ رہاہوتاہے تو اس کی سوچ یا یاد بھی خیالات کی لہروں کی شکل میں اس کے ذہن سے فضا میں سفر شروع کردیتی ہے۔ اگر کسی شخص کے خیالات کی لہروں کی آپ کے خیالات کی لہروں سے ہم آہنگی ہوگی یا باالفاظ دیگر فریکوئینسی مل رہی ہوگی تو آپ کا ذہن ان لہروں کو وصول کرلے گا۔
خیالات کی یہ لہریں انتہائی تیز رفتاری سے سفر کرتی ہیں۔ اس تیز رفتاری کے باعث ان کے لیے فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے چنانچہ ہوسکتاہے کہ آپ کا دوست برطانیہ یا امریکہ میں بیٹھا آپ کو یاد کررہاہو اور آپ پاکستان میں بیٹھے اس کی یاد محسوس کررہے ہوں۔
خیالات کی وصولیابی کی ایک اور قسم بھی ہے اسے ہم کسی واقعہ کی پیشگی اطلاع کہہ سکتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ آپ نے کبھی کسی سے سنا ہو کہ ان کا دل بہت گھبراتا ہے لگتاہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اس گھبراہٹ کے دوران تھوڑی ہی مدت میں انہیں کسی سانحہ کا سامنا کرنا پڑاہو۔ کسی قریبی شخصیت سے اچانک جدائی ، کوئی ناگہانی حادثہ یا کسی مصیبت کا سامنا کرناپڑاہو۔ اس حادثہ سے کچھ دیر پہلے متعلقہ شخص کو ہونے والی گھبراہٹ دراصل اسی ‘‘پیغام’’کے سبب تھی جو اس کا ذہن آفاقی ذرائع سے وصول کررہاتھا۔ اس ‘‘پیغام’’ کے بارے میں آگہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ شخص اس پیغا م کی اطلاع نہیں سمجھ پارہاتھا بلکہ اسے محض پریشان خیالی سمجھ کر گھبراہٹ میں مبتلا ہورہاتھا۔
اہم بات یہ ہے کہ آفاقی ذرائع سے وصول ہونے والی اطلاع کو سمجھاجاسکتاہے اور اس کے مطابق اپنے عمل کا بروقت تعین کیا جاسکتاہے ۔
کائنات میں بیک وقت ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں، اربوں اطلاعات رواں دواں رہتی ہیں۔ ان اطلاعات کا تعلق کائنات کے تمام ارکان سے ہے یعنی ہر انسان نہ صرف اپنی ذات کے بارے میں اطلاعات وصول کررہا ہوتا ہے بلکہ زمین، سمندر، پہاڑ، زمینی و آبی حیوانات، درخت، پھل، پھول وغیرہ کے بارے میں بھی اطلاعات وصول کرتا ہے۔ زمین سے باہر سورج، چاند، ستاروں اور دیگر سیاروں کے بارے میں بھی اسے اطلاعات فراہم ہورہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح فرشتوں، جنات اور دیگر تمام مخلوقات کے بارے میں انسان کو علم یا اطلاع دی جاتی ہے۔
روحانی اسکالر خواجہ شمس الدین عظیمی نے لکھا ہے کہ
‘‘ایک فرد کے اندر نوع انسانی اور کائنات میں موجود ہر مخلوق کی اطلاعات موجود ہیں اور ان اطلاعات کا آپس میں تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہیں ان کے خیالات کی لہریں ہمیں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ خیالات کی یہ منتقلی ہی دراصل کسی مخلوق کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہے۔ علی ہذا القیاس ہم بھوک اور پیاس سے اس لیے باخبر ہیں کہ بھوک اور پیاس کی اطلاع ہمارے ذہن پر خیال بن کر وارد ہوتی ہے۔’’ [ٹیلی پیتھی سیکھیے ، خواجہ شمس الدین عطیمی ، صفحہ 31]
کسی اطلاع کو وصول کرنے، اس کا تجزیہ کرنے اور اس کے بارے میں جسم کے متعلقہ اعضاء کو حکم دینے کے لیے ہمارے دماغ کی رفتار انتہائی تیز ہے۔ اس کی ایک مثال اسپورٹس کے شعبہ میں کرکٹ کے کھیل سے دی جاسکتی ہے۔ ایک بیٹر جب ایک فاسٹ بالر کی گیند کا سامنا کرتا ہے تو بیٹر کی آنکھیں اسّی یا نوّے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی متحرک گیند کی تصویر دماغ کوبھیجتی ہیں۔ دماغ اس گیند کی لائین اور لینتھ اور اس کی رفتار کا اپنے شعور میں موجود معلومات سے موازنہ کرکے اس گیند کو کھیلنے کے بارے میں ہدایات جسمانی اعضاء بطورِ خاص ہاتھوں اور پیروں کے اعضاء کو دیتا ہے۔ ہاتھوں اور پیروں کے اعضاء دماغ سے ملنے والے حکم کو وصول کرکے اس پر عمل کرتے ہیں اور عملدر آمد کی اطلاع بھی دماغ کو دی جاتی ہے۔
ایک پیغام کی وصولیابی، اس کے اپنے ریکارڈ سے موازنہ، تجزیے اور اس پر جسمانی اعضاء کو ردّ عمل کے احکامات، انتہائی پیچیدہ، برقی اور کیمیائی تعاملات ہیں۔ انسانی دماغ ان میں سے ہرمرحلہ…. ایک سیکنڈ کے غالباً ہزارویں حصہ میں کرگزرتا ہے۔
انسانی دماغ کی اس انتہائی تیز رفتار کارکردگی کے عملی مظاہرہ کے باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسانی ذہن پر خیال کی آمد کی رفتار کی نسبت اس خیال کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے اس کے لیے عملی اقدام کی رفتار بہت کم ہوتی ہے۔ اس مثال سے ‘‘خیال’’ کی انتہائی تیز رفتار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
نوعِ انسانی کے ہرفرد کو ‘‘خیال’’ کو سمجھنے کی اہلیت اور اس پر عملدرآمد کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔
انسان کو عطا کردہ ذہنی صلاحیتیں اس نوعیت کی ہیں کہ استعمال کرنے سے خرچ نہیں ہوتیں بلکہ انہیں جتنا استعمال کیا جائے ان میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ آپ نے موبائل فون سیٹ میں Contact کا خانہ دیکھا ہوگا۔ اس میں آپ سو، پانچ سو، ہزار یا دو ہزار نمبر محفوظ کرسکتے ہیں اس کے بعد Memory full کا پیغام آنے لگتا ہے۔ جب سے نوع انسانی اس زمین پر آباد ہوئی ہے اس وقت سے آج تک کسی ایک شخص کو اس کے دماغ کی جانب سے Memory full کا پیغام نہیں ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا ذہن آپ کے ساتھ آپ کے گمان کے مطابق برتاؤ کرتاہے۔
اگر آپ ستاروں کی تسخیر کا پیغام قبول کررہے ہیں اور اس پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں تو آپ ایک نہ ایک دن ستاروں کو چھونے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ صحت مند ہونے کے باوجود حرکت و فعالیت کے پیغام نظرانداز کرکے بے عملی کی تصویر بنے رہنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر سے قریبی بس اسٹاپ تک جاتے جاتے بھی آپ تھکن کی شکایت کرسکتے ہیں۔
جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کے سامنے وقت کی کمی ایک بڑا مسئلہ بن جاتی ہے۔درِحقیقت اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وقت کی کوئی کمی نہیں۔اگر آپ ڈھنگ سے کچھ نہیں کرپارہے تو وقت کی قلت کے بہانے ہزار۔
یاد رکھیے….! دن رات میں صرف چوبیس گھنٹے نہیں بلکہ ایک ہزارچار سو چالیس منٹ اور چھیاسی ہزار سے زائد سیکنڈ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو وقت کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے تو آپ یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ اصل مسئلہ وقت کی کمی ہے یا وقت کی Mismanagementیعنی وقت کا غیر منظم استعمال۔
آپ نے کئی لوگ دیکھے ہوں گے جو اپنے اسکول کالج کی تعلیمی سرگرمیوں میں یا معاشی یاگھریلو کام کاج میں بہت مصروف رہتے ہیں۔ اس مصروفیت کے باعث ان کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ ان لوگوں سے کہاجائے کہ جناب اپنی صحت کا خیال رکھیں کچھ ورزش وغیرہ کرلیا کریں تو ان میں سے اکثر لوگ جواب دیتے ہیں کہ ورزش کے لیے یا واک کرنے کے لیے انہیں وقت نہیں ملتا۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان لوگوں کا مسئلہ وقت کی کمی نہیں بلکہ وقت کا درست یا غیر مفید استعمال ہے۔ ایک مسئلہ اپنی صحت برقرار رکھنے کے عزم کی کمی ہے۔
آپ اپنے اہلِ خانہ، دوستوں اور کولیگز کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کا جائزہ لیجیے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ ایسی گفتگو زیادہ تر لاحاصل یا Non productive ہوتی ہے۔
ہمیں اپنے ارد گرد کئی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو بہت اچھی باتیں کرتے ہیں۔ جن کے پاس بہت اعلیٰ آئیڈیاز ہوتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی عملی زندگی میں زیادہ کامیاب نہیں۔
اعلیٰ آئیڈیاز رکھنے والے لوگوں کو کامیابی نہ مل پانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ یہ بات نہیں سمجھ پاتے کہ اپنے آئیڈیاز کو عملی شکل کیسے دیں یعنی اپنے آئیڈیاز کو Materialize کیسے کیا جائے؟….
آپ نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں لیکن وہ عملی زندگی خاص طور پر بزنس میں خوب کامیاب ہیں۔
﷽مائنڈ سائنس کے حوالہ سے بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ ‘‘خیال’’ کو وصول تو بہتر طور پر کرلیتے ہیں۔ ان میں ‘‘خیال’’ کو آگے بڑھانے کی خواہش بھی موجود ہوتی ہے لیکن یہ لوگ عملی اقدام کے معاملہ میں سست ہوتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ وارد ہونے والے خیال پر عملی اقدام اٹھانے میں مستعد و فعال ہوتے ہیں۔ اسی لیے کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔
اپنی ذہنی صلاحیتوں کو کیسے پہچانا جائے، ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیسے کیا جائے۔
یہ جاننے کے لیے روحانی ڈائجسٹ کے آئندہ شمارے مطالعہ کیجیے۔