مائنڈ پاور : Mind Power
جو ڈِسپینزا – Joe Dispenza
مائنڈ پاور کے الفاظ سن کر عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں ہپناٹزم، ٹیلی پیتھی، مستقبل بینی، سائیکوکینیسز ، مائنڈ کنٹرول اور سائیکومیٹری جیسی ماورائی اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کا نام آتا ہے ، جنہیں حاصل کرنے کے لیے ایک طویل صبر آزما ریاضتیں اور برسوں مستقل مزاجی کے ساتھ ارتکازِ توجہ، یکسوئی، شمع بینی اور سانس کی مشقیں کی جاتی ہیں۔ تب کہیں جاکر انسان کے اندر خوابیدہ قوتیں بیدار ہونے لگتی ہیں۔ جس کے بل بوتے پرانسان مافوق الفطرت کارنامے سرانجام دینے لگتا ہے۔ لوگ اسے اتنا ہی مشکل تصور کرتے ہیں جتنا پانی پر چلنا….
مائنڈ پاور پر کام کرنے والے ماہرین نفسیات ، سائنس دان اور نیورولوجسٹ کہتے ہیں کہ…. مائنڈپاور محض مثبت سوچ کا نام ہے۔
دنیا بھر میں آج بھی کئی ایسی شخصیات ہیں، جنہوں نے صرف مثبت سوچ کے ذریعے حیرت انگیز کارنامے کردکھائے۔ ان کارناموں نے سائنس دانوں اور ماہر نفسیات اور طبی معالجین کو حیران کرڈالا۔
Joe Dispenza – جو ڈسپینزا
یہ کہانی ہے جو ڈسپنزا کی۔ کس طرح ایک معذور آدمی نے اپنے ذہن کی قوت سے خود کو ٹھیک کیا۔ آئیے خود ان کی زبانی سنتے ہیں۔
میرا نام جو ڈسپینزا ہے، کچھ لوگوں کو نیند سے جاگنے کے لئے کبھی کبھار ویک اپ کال کی ضرورت ہوتی ہے۔
1986 میں، میرے پاس بھی ایک ویک اپ کال آئی مجھے خواب غفلت سے جگانے کے لیے۔ اس وقت میری عمر 23 سال تھی۔ میں کیلیفورنیا کے شہر سان ڈیاگو کے علاقہ لاجولا La Jolla میں کائروپریکٹک Chiropractic کی ٹریننگ لے رہا تھا۔
14اپریل 1986 ، پیر کا دن تھا۔ مجھے جنوبی کیلیفورنیا میں، پالم اسپرنگز کے ٹرائی ایتھلان میں شرکت کرنی تھی ، جہاں میں سوئمنگ اور سائیکل ریس میں حصہ لے رہا تھا۔ اس ریس کی میں نے مہینوں تیاری کی تھی۔ میں نے سوئمنگ کے سیشن کو مکمل کر لیا تھا اور اب باری تھی سائیکل کی…. میں 50 میل کی ٹرائی ایتھلان ریس کے اختتامی مرحلہ قریب تھا۔ سائیکل سواروں کا راستہ ایک ایسی سڑک سے مل رہا تھا جہاں ٹریفک رواں تھا۔ ایک ٹریفک پولیس اہلکار نے جس کا چہرہ آنے والی کاروں کی جانب تھا مجھے چلنے کے لئے اور کورس کو فالو کرنے کے لیے اشارہ کیا۔ اپنی توانائی مکمل طور پر سائیکل چلانے پر لگا رہا تھا اور میں نے ریس پر پوری توجہ دی ہوئی تھی۔ اس موڑ پر جب میں دو سائیکل سواروں کو عبور کر رہا تھا، تو ایک سرخ رنگ کی کار نے تقریباً 55 میل کی رفتار سے میری بائسیکل کو پیچھے سے ٹکر ماردی۔ اگلی بات جو میں مجھے یاد ہے ، میرا جسم توپ کے گولے کی طرح ہوا میں اڑ رہا تھا اور پھر میں اپنی پیٹھ کے بل سڑک پر گرگیا، وہ گاڑی میرے قریب آتی رہی اور جلد ہی میں اس کے بمپر سے ٹکرایا، میں نے جلدی سے بمپر پکڑ لیا تاکہ میں گاڑی کے نیچے آنے سے بچ سکوں۔ گاڑی مجھے اس سڑک پر کچھ دور گھسیٹتی لے گئی ، جب تک کہ ڈرائیور خاتون کو احساس ہوا اور بریک لگا تو میں تقریباً 20 گز دور تک رگڑ کھا چکا تھا۔
ہسپتال میں مجھ پر انکشاف ہوا میری ریڈھ کی چھ ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں ، سینے کی پانچ پسلیوں اور میرے کندھے سے لے کر کمر تک فریکچر تھا۔ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے الگ الگ انفرادی بلاکس کی طرح محسوس ہوررہے تھے۔ ہڈیوں کا اس طرح ٹوٹ جانا میرے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔
میں اگلی صبح بیدار ہوا تو مجھے کئی اعصابی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں کئی قسم کے درد، ٹانگوں میں بےحسی، جھنجھناہٹ، اور کچھ احساس کم ہونا، اور جسم کی حرکات کو کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
ہسپتال میں خون کے ٹیسٹ، ایکسرے، سی اے ٹی سکین اور ایم آر آئی ہوئے، آرتھوپیڈک سرجن نے مجھے نتائج دکھائے اور مجھے یہ خبر سنائی کہ ہڈیوں کے ان ٹکڑوں کو جوڑے رکھنے کے لیے سرجری کی ضرورت تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ریڈھ کی ہڈی کے پچھلے حصوں کو فریکچر کے اوپر اور نیچے سے دو سے تین حصوں سے کاٹنا اور پھر دونوں اطراف میں دو 12 انچ سٹینلیس سٹیل کی سلاخوں کو اسکریونگ اور کلیمپ کرنا۔ پھر کولہے کی ہڈی سے کچھ ٹکڑوں کو کھرچ کر سلاخوں پر چسپاں کر نا۔ یہ بڑی سرجری ہوگی، لیکن اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مجھے دوبارہ چلنے کا موقع شاید ہی ملے۔ میں جانتا تھا کہ میں اب کسی حد تک معذور رہوں گا اور مجھے اپنی باقی زندگی درد کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ مجھے یہ آپشن پسند نہیں آیا۔
میں نے کیلیفورنیا کے بہترین نیورولوجسٹ سے مشورہ کیا تو انہوں نے سرجن کی رائے سے اتفاق کیا، انہوں نے مجھے بتایا کہ پورے ملک میں کوئی ایسا مریض نہیں جو اس طرح کی سرجری سے انکار کے بعد صحت مند رہا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اگر میں نے سرجری نہ کروائی تو مجھے فالج کا خطرہ ہوسکتا ہے۔
حادثے نے میری ریڈھ کی یڈیوں کو پچکا دیا تھا۔ اب وہ میرے جسم کا وزن برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی ، اگر میں کھڑا ہو بھی جاؤں تو میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی اور مجھے فالج ہوسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سرجری اور برسوں فزیکل تھراپی کرانے کے بعد بھی کہا نہیں جاسکتا کہ میں دوبارہ کبھی چل پاؤں گا یا نہیں۔
میں دوسرے ڈاکٹروں کی رائے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ چار نیورو سرجنز سے ملاقات کے بعد، میں اب بھی یقین رکھتا تھا کہ کوئی اور طریقہ علاج ہونا چاہیے۔
میں خود ایک کائرو پریکٹک کی ٹرینگ لے رہا تھا۔ کائروپریکٹک جسے اسپائنل موبلائزیشن بھی کہا جاتا ہے ایک ایسا طریقہ علاج ہے جس میں سرجری یا میڈیسن کے بغیر ہڈی ، جوڑ، کمر درد ، پیٹھ درد کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس تھیراپی میں ماہرین ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کو صحیح طرح بٹھاتے ہیں تاکہ ریڑھ کی ہڈی صحیح انداز میں حرکت کر سکے اور اپنا کام بہتر طریقے سے انجام دے اوردرد سے نجات حاصل ہو سکے۔ اسی طرح گردن کو گھمانا ، گردن چٹخانا ، کندھوں، پٹھوں ، مہروں اور ریڑھ کی ہڈیوں کو حرکت دینا ، جس سے وہ بہتر طور پر گھوم سکتے ہیں، بعض اوقات بنا کسی ادویات یا سرجری کے ، موچ، ہڈیوں میں فریکچر اور مہروں کا سلیپ ہونے کی تکالیف میں یہ علاج کافی مفید رہاہے۔
مجھے یقین تھا کہ ہمارے جسم کے اندر ایک پوشیدہ قوت ہے، جو خود کار طریقے سے جسم کا علاج کرتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے اندر ایک ذہین اور پوشیدہ شعور ہے جو ہمیں زندگی دیتاہے۔ جو ہر لمحہ ہماری مدافعت کرتا ہے، ہماری حفاظت کرتا ہے اور شفا دیتا ہے۔ ہمارے اندر موجود یہ ذہن تقریباً 100 ٹریلین خصوصی خلیے بناتا ہے ، یہ ہمارے دلوں کو روزانہ لاکھوں بار دھڑکاتا رہتا ہے، اور یہ ہر سیکنڈ میں ایک خلیے میں سیکڑوں ہزاروں کیمیائی رد عمل کو منظم کرسکتا ہے۔ یہ ذہن نیند کے دوران متحرک رہ کر ایک اہم امیون سسٹم کا کردار ادا کرتا ہے، بیماری کے خلاف مزاحمت اور خلیات کی مرمت کرتا ہے۔
میں نے خود سے کہا کہ اگر ہمارے جسم کے اندر ایک پوشیدہ قوت ِ مدافعت حقیقی ہے اور اگر اس میں ایسی حیرت انگیز صلاحیتیں ہیں تو شاید میں اپنی توجہ اپنی بیرونی دنیا سے ہٹا کر اس کے اندر جا کر اس کے ساتھ جڑنا شروع کر دوں۔
میں ذہنی طور پر یہ مانتا تھا کہ جسم میں اکثر خود کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، اب مجھے اس علم کو اگلے درجے پر لے جانے کے لیے ایک تجربہ کرنا تھا۔ چونکہ بیڈ پر منہ کے بل لیٹنے کے علاوہ مجھے کچھ نہیں کرنا تھا، اس لیے میں نے دو کاموں کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے، میں ہر روز اپنی پوری شعوری توجہ اپنے اندر کی اس طاقت پر ڈالوں گا اور اسے ایک منصوبہ دوں گا۔ پھر میں خودکو سوچ کی لامحدود طاقت کے حوالے کر دوں گا ، جو میرے اندر شفا یابی کا عمل شروع کردے۔ دوسرا کام یہ کہ، میں بیداری کی حالت میں کسی بھی منفی سوچ کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دوں گا۔
جتنے دن بھی میں ہسپتال کے بیڈ پر رہا میں نے ہر وہ مشق، تصور، مراقبہ اور مائنڈ تکنیک کو اپنایا جو مجھےشعوری طور پر اپنے اندر کی قوت سے جوڑسکے۔
اس مشق کا نتیجہ یہ ہوا کہ حادثے کے ساڑھے نو ہفتوں کے بعد، میں اپنے پیروں پر اٹھا اور اپنی زندگی کی مصوفیات میں واپس چلا گیا۔ بغیر کسی سرجری کے میں مکمل صحت یابی تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے دس ہفتوں میں دوبارہ کائروپریکٹک کی ٹریننگ شروع کی اور مریضوں کو دیکھنا شروع کیا اور بارہ ہفتوں میں اپنی بحالی کو جاری رکھتے ہوئے دوبارہ ورزشیں اور وزن اٹھانا شروع کر دیا۔
میں نے دریافت کیا کہ میں خود ایک پلیسبو تھا اور اب، حادثے کے تقریباً 30 سال بعد، میں ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اس کے بعد سے شاید ہی کبھی کمر میں درد ہوا ہو۔
جو ڈیسپینزا کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ کسی کرامت سے کم نہ تھا۔ جو ڈیسپینزا نے مثبت سوچ کی طاقت کے پیچھے کی سائنس کے بارے میں کھوجنا شروع کیا۔ انہوں نے نیورو سائنس، کوائنٖم فزکس اور ایپی جنیٹکس کے علوم کو کھنگالا۔ انہوں نے اٹلانٹا، جارجیا کی لائف یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف کائروپریکٹک کی ڈگری حاصل کی، Rutgers یونیورسٹی میں بائیو کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی اور نیورو سائنس میں بیچلر آف سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے نیورولوجی، نیورو سائنس، دماغی فنکشن اور کیمسٹری، سیلولر بائیولوجی، میموری کی تشکیل، اور انسانی عمر سے متعق علوم میں پوسٹ گریجویٹ تربیت اور مسلسل تعلیم حاصل کی۔
ڈاکٹر جو نے 24 سے زیادہ مختلف ممالک میں لیکچر دیے، لوگوں کو انسانی دماغ کے افعال کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو یہ سکھایا ہے کہ سائنسی طور پر ثابت شدہ نیورو فزیوولوجیکل اصولوں کے ذریعے اپنی سوچ کو دوبارہ کیسے ترتیب دیا جائے۔
ڈاکٹر جو ڈیسپینزا نے کئی کتابیں بھی لکھی جن میںYou are the placebo، Evolve Your Brain، Becoming Supernatural، Walking Meditation شامل ہیں۔
آج ڈاکٹر جو ڈیسپینزا اولمپیا، واشنگٹن کے قریب اپنے کلینک میں مریضوں کو دیکھنے میں مصروف ہیں۔ وہ ہوائی کی کوانٹم یونیورسٹی، نیویارک کے اومیگا انسٹی ٹیوٹ آف ہولسٹک اور میسا چوسٹس میں کرپلو سینٹر فار یوگا اینڈ ہیلتھ میں بھی اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
مزید تفصیلات کے لیے مندرجہ ذیل ویب سائٹس ملاحظہ فرمائیں:
www.healyourlife.com/how-i-healed-myself-after-breaking-6-vertebrae
https://medium.com/flourish-7-ways-gratitude-can-transform-your-lif/
https://greatness.com/dr-joe-dispenza-how-a-crippled-man-healed-himself-with-his-mind/
https://quantumuniversity.com/faculty/dr-joe-dispenza/
https://kripalu.org/presenters-programs/presenters/joe-dispenza
https://www.eomega.org/workshops/teachers/joe-dispenza