Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

درست طریقے سے سانس لینے کے حیرت انگیز فوائد

سانس لینا زندگی کی علامت  ہے ۔ہر انسان لاشعوری طور  پر ہر لمحے سانس لیتا ہی رہتا ہے تاہم سانس اگر کچھ مخصوص طریقوں اور انداز سے لیا جائے تو توانائی میں اضافہ ہوتا ہے اور صحت بھی بہترہوتی ہے۔

شعوری طور پر سانس لینا

 اپنے پورے شعور کے ساتھ سانس لینا مشقوں کا اہم ترین جز ہے یہ انسانی جذبات، ذہن اورجسم پر حیاتیاتی اثرات مرتب کرتا ہے۔

حال سے تعلق جوڑتا ہے

 جب انسان سانس لینے کے عمل کو پوری توجہ کے ساتھ کرتا ہے تو انسان ماضی اور مستقبل کی سوچ سے بے فکر ہو کر صرف حال سے جڑجاتا ہے اس طرح سانس لینے کا عمل ٹینشن سے نجات کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔

زیادہ توانائی کی فراہمی کا ذریعہ

 ہماری توانائی کا بڑا ذریعہ سانس لینے میں پوشیدہ ہے اس لیے سانس جتنا  بھر پوراورگہرا ہوگا اتنی ہی توانائی آپ کو ملے گی۔ گہری سانس لینے سے آکسیجن زیادہ مقدار میں جسم کو ملتی ہے ۔ یہ توانائی کا لیول بڑھادیتی ہے۔

غصے اور ناراضگی کم کرتا ہے

 جب انسان غصے یا ناراضگی کی کیفیت میں ہو تو اکثر تیز اور چھوٹے سانس لیتا ہے لیکن اگر اس دوران آپ گہرےسانس لیں تو جسم تیزی سے نارمل ہونے لگتا ہے اور غصے کی شست میں بھی کمی ہوتی ہے۔

تکلیف کو دور کرتا ہے

 کئی تحقیقات میں یہ بات ثابت کی ہوچکی ہے کہ کسی تکلیف میں سانس کو روک لینا یا پھرگہرےسانس  لینے سے جسم کی تکلیف کم ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ گہرے اور لمبے سانس درد کو مارنے والے اینڈروفن کا اخراج کرتے ہیں۔

وزن متوازن رکھنے میں اہم

 اگر آپ کا وزن کم ہے تو زیادہ آکسیجن آپ کے جسم میں موجود وزن بڑھانے والے سیلز اور ٹشوز کو طاقت دیتی ہے اور اگر آپ وزن کی زیادتی سے پریشان ہیں تو سانس لینے کا عمل جسم میں موجود اضافی چکنائی کو جلانے میں مدد گار ہوتا ہے۔ گہرے سانس تناؤ کا باعث بننے والے گلائی کوجن کو ختم کرتے ہیں اورجسم کو حالت سکون میں لاتے ہیں۔

جب نروس ہوں

 جب آپ کسی اہم میٹنگ میں شریک ہونے جارہے ہوں تو کچھ نروس  بھی ہو جاتے ہیں ایسے میں پورے شعور کے ساتھ کچھ دیرتک سانس لینے سے جسم نارمل ہو جاتا ہے اور فکرمندی کی بجائے موجودہ صورت حال پر توجہ مرکوز ہوجاتی ہے۔

دل کو مضبوط بناتا ہے

 سانس لینے کا ایک بہتر اندازایک منٹ میں 5 بار سانس لینا ہے یعنی سانس کا اندرکی جانب کھینچنا اور اخراج کرنا ہے،یہ عمل دل کو توانائی فراہم کرتا ہے۔  اس رفتار سے سانس لینے کاعمل ہارٹ ریٹ ویریبیلیٹی (ایچ آر وی) کو بڑھاتا ہے  یہ عمل  اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ نروس سسٹم کس طرح سے کام کرتا ہے…..  اس لیے کہا جاتا ہے زیادہ ایچ آر وی انسانی دل کے نظام کو مضبوط بناتا ہے۔

حرکت کو کنٹرول کرتا ہے

 چلنے یا دوڑنے کے دوران اپنی سانس پر توجہ رکھنے سے یہ عمل انسان کو چوٹ سے بچاتا ہے اور حرکت کو کنٹرول کرتا ہے جب کہ جسم کے پٹھے  نروس سسٹم کے ساتھ مل کر زیادہ بہترانداز میں ایک ترتیب سے کام کرنے لگتے ہیں۔ یوگا میں عام طور پرسانس لینے اورخارج  کرنے کے تسلسل اور آگاہی پر توجہ دی جاتی ہے جس سے انسانی ذہن ایک خاص نقطے پر مرکوزرہتا ہے۔

جسم کے فاضل مادے دورکرنے کا ذریعہ

 جسم میں موجود 70 فیصد فاضل مادے پھیپھڑوں سے جب کہ بقایا پیشاب، جلد اورفضلے کے ذریعے خارج ہوتے ہیں۔ جب سانس کاعمل متاثر ہوتا ہے تو پھیپھڑوں کی کارگردگی اورخون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے۔  جبکہ اس سے ہماے جسم میں موجود بیکٹریا اوردیگر جراثیم سے لڑنے والا  لیمپھیٹک سسٹم کمزور پڑنے لگتا ہے اور نظام ہاضمہ متاثر ہوجاتا ہے۔

کھلی فضاء میں سانس لینا

گھر کے باہر کھلی فضاء میں سانس لینا بھی صحت بخش ہے، ایک  تحقیق میں یہ دیکھا گیا تھا کہ شرکاء اس قسم کے فطری ماحول کو کیسا محسوس کرتے ہیں۔ باغ یا پارک میں کچھ وقت صرف کرکے بلڈ پریشر کو کس طرح معمول کی سطح پر لایا جاسکتا ہے؟ انسان کی سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کو کس حد تک جلا ملتی ہے؟ ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ جن رہائشی علاقوں میں پارک یا سرسبز مقامات ہوتے ہیں، وہاں جرائم کی شرح بھی گھٹ جاتی ہے۔ سرسبز مقامات کا انفرادی سطح پر یہ مثبت اثر دیکھا گیا کہ جن لوگوں کی کسی قسم کی سرجری کی گئی تھی، ان کی صحت یابی کی رفتار تیز تھی۔ وہاں کے رہائشی افراد کا جسمانی مدافعتی نظام زیادہ فعال تھا اور یہ لوگ جسمانی طور پر زیادہ سرگرم تھے۔  پارک اور باغ سے محروم علاقوں کے بچوں میں موٹاپے کی شرح بڑھی ہوئی تھی اور وہاں کے مکینوں میں امراض قلب کی شکایتیں بھی زیادہ تھیں۔

منہ سے سانس لینے کے صحت پر اثرات

سانس لینا بنیادی انسانی ضرورت ہے۔  کچھ لوگ جو ناک کی بجائے منہ سے سانس لیتے ہیں۔  اگرچہ بظاہر تو یہ معمولی سی بات ہے لیکن اصل میں یہ کئی سنجیدہ مسائل کی جڑ ہے ۔

ڈاکٹر پوش جیفرسن اپنی تحقیق میں کہتے ہیں کہ منہ سے سانس لینے سے منہ خشک ہونا، سانس کے ساتھ شور پیدا ہونا، نیند کی خرابی، الرجی، گلے کے ٹانسل کا خراب ہونا اور جسم میں آ کسیجن کی کمی ہونا جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔  وہ ایک اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو لوگ لمبے عرصے تک منہ سے سانس لینا جاری رکھتے ہیں ان کا چہرہ لمبوترا ہو جاتا ہے اور خدوخال بگڑ جاتے ہیں۔ اکثر لوگ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ ا ن کا چہرہ قدرتی طور پر ایسا ہے جبکہ اصل میں یہ مسئلہ ناک کی بجائے منہ سے سانس لینے کا نتیجہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ بچوں میں یہ مسئلہ دیکھیں تو انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں کیونکہ اس مسئلے کو حل کرانا ازحد ضروری ہے۔

 

سانس لینے کے درست طریقے

  سانس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے لیکن سانس لینے کے بھی کچھ طریقے ہوتے ہیں جن پر عمل کرکے ہم اپنے جسم کو بھرپور آکسیجن دے سکتے ہیں۔اگرآپ ایک منٹ میں 15بار سانس لے سکیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ 12لیٹر تک ہوا اپنے پھیپھڑوں کو دے رہے ہیں۔

آئیے آپ کو مختلف حالتوں میں سانس لینے کا درست طریقہ بتاتے ہیں۔

ناک سے سانس لینا

ہمیشہ کوشش کریں کہ ناک سے سانس لیا جائے کہ اس طرح پھیپھڑوں کو تازہ ہوا چھن کر ملتی رہتی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ناک سے سانس لینے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی ختم ہوتی ہے اور ہمیں تازہ آکسیجن ملتی ہے ۔ سردیوں کے دنوں میں اس طریقے سے ہماری پھیپھڑوں کو گرم ہوا ملتی ہے۔اگر منہ سے سانس لیا جائے تو گلے کی خرابی سمیت دیگر کئی طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

بیٹھک لگاتے ہوئے

اکثر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ ورزشیں وغیرہ کرتے سانس کو روکتے ہیں یا کم سانس لیتے ہیں لیکن ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ورزش کے دوران زیادہ سانسیں لینا بہت ضروری ہیں۔

بھاگتے ہوئے

مختلف تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھاگتے ہوئے صحیح طرح سے سانس نہ لینے سے رفتار اور پرفارمنس میں فرق آجاتا ہے۔اتھلیٹس کا کہنا ہے کہ بھاگتے ہوئے سانس لینے کا درست طریقہ یہ ہے کہ دو قدم پر ایک سانس یعنی دائیں قدم آگے کرتے ہوئے سانس اندر اور بائیں قدم آگے کرتے ہوئے سانس باہر۔اس طریقے سے آپ کو سانس بھی نہیں چڑھے گا اور آپ کا جسم تازہ بھی رہے گا۔

وزن اٹھانے کے دوران

اگر آپ ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں تو بینچ پریس کرتے ہوئے بار کو دباتے جائیں اور ہلکے ہلکے سانس لیں۔ وزن اٹھاتے ہوئے سانس کو اندر رکھیں کہ اس طرح چھاتی کو زیادہ آکسیجن ملتی ہے۔

سانس لینے کا صحیح طریقہ

سانس تو ہم سب ہی لیتے ہیں لیکن سانس لینے کے کچھ مخصوص طریقوں کو اپنا کر ہم صحت کیلئے حیرت انگیز نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔

 کلیولینڈ کلینک سنٹر فار لائف سٹائل میڈیسن کے جین پرنوٹو کا کہنا ہے کہ ایک عام شخص روزانہ تقریباً 23 ہزار مرتبہ سانس لیتا ہے لیکن ہم میں سے زیادہ تر مناسب طریقے سے سانس نہیں لیتے کیونکہ تیز رفتار سے کم گہرے سانس کھینچنا صحت کیلئے مطلوبہ فوائد فراہم نہیں کرسکتا ۔

 ہم بہتر طور پر سانس لینا سیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ جلد سونا چاہتے ہیں تو اس کیلئے زبان کی نوک کو اوپر والے دانتوں کے پیچھے رکھئے۔ اب منہ کے ذریعے سانس مکمل طور پر باہر نکالئے۔ اب اپنا منہ بند کرکے ناک کے ذریعے ہوا اندر کھینچتے ہوئے چار تک گنیں۔ اپنا سانس روک کر سات تک گنیے اور پھر آٹھ تک گنتے ہوئے سانس کو منہ کے ذریعے مکمل طور پر باہر نکالئے۔ اس سانس لینے کا 4-7-8 طریقہ کہتے ہیں۔

آپ اس کے تین سیٹ مکمل کرکے ہر پانچ منٹ بعد یہ عمل دہراسکتے ہیں ۔

الرجی اور استھما کی تکلیف کو کم کرنے کیلئے آپ ناک کے ذریعے لمبا سانس کھینچیں اور پھر ایک ایک سیکنڈ کے وقفے کے ساتھ زور سے سانس باہر نکالتے جائیں۔   درد کو دور بھگانے کیلئے آنکھیں بند کرکے اپنے جسم کے پرسکون ہونے کا تصور کریں اور جب آپ سانس اندر کھینچ رہے ہوں تو تصور کریں کہ آپ کے تمام جسم میں آکسیجن بھررہی ہے اور جب سانس باہر نکالیں تو تصور کریں کہ درد آپ کے جسم سے سانس کے ساتھ خارج ہورہا ہے۔

اگر آپ کا دل گھبرارہا ہو تو آنکھیں بند کرکے تصور کریں کہ آپ پتھر کی سیڑیوں سے نیچے اتررہے ہیں سانس اندر کھینچتے ہوئے 4تک گنیں اور باہر نکالتے ہوئے 8 سے 10 تک گنیں۔ اس دوران پتھروں کی ٹھنڈک کو محسوس کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ ذہنی طبعیت میں بہت بہتری اور سکون محسوس کریں گے۔

 

جب ہم ناک سے سانس لیتے ہیں تو ہوا ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں کھنچی جا تی ہے اور آوا زکے خانے نرخرہ  Larynxسے گزرتی ہو ئی ہوا کی خاص نا لی ٹریکیاTrachea میں جا تی ہے اور پھر وہاں سے نالیوں کے ایک نازک نظام میں داخل ہو جا تی ہے جیسے جیسے ہوا آگے بڑھتی ہے ہوا کا دبا ؤ زیادہ ہو تا ہے ۔ ان نا لیوں کا قطر بتدریج چھو ٹا ہوتا ہے۔چنا چہ ہوا پھیپھڑوں کے انتہا ئی گہرا ئیوں تک پہنچ جا تی ہے جہاں تقریباً تین سو ملین ہوا کی تھیلیوں اِنہیں جوفیزہ Alveolus بھی کہتے ہیں۔   ان تھیلیوں       سے گزر کر آکسیجن خون میں داخل ہو جا تی ہے ۔ اگر ہوا کا دبا ؤ صحیح ہو اور آکسیجن کی مقدار بھی صحیح ہو تو پھر وہ آسانی سے ہوا کی تھیلیوں اور خون میں شامل  ہو کر اندر پھیل جا تی ہے ۔ یوں  جسم میں منا سب مقدار میں آکسیجن پہنچتی ہے ۔  جب ہم اندر سانس کھنچتے ہیں تو سینے کی خا لی جگہ بڑی ہو جا تی ہے لہذا ہوا تیزی سے اندر چلی جا تی ہے ۔ پھر ہم جب سانس با ہر نکالتے ہیں تو پھیپھڑوں کا لچک دار نظام ہوا کو با ہر پھینک دیتا ہے۔  خون میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جو کہ خلیوں نے خون میں خارج کر دی تھی۔ پھیپھڑوں میں نکل جاتی ہے اور جب ہم سانس باہر چھوڑتے ہیں تو باہر چلی جاتی ہے۔

سانس کی صحت بخش   ورزش

یقیناً آپ کی بھی خواہش ہے کہ آپ کبھی بیمار نہ پڑیں۔  بخار، بدہضمی، قبض، خون اور پھیپھڑوں کے امراض، تبخیر معدہ، کھانسی و دمہ، درد سر وغیرہ جیسے امراض آپ کے قریب نہ پھٹکیں۔ حافظہ تیز اور دماغ ترو تازہ رہے۔   یہ سب ممکن ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس پر کوئی پیسہ خرچ ہوگا، نہ کوئی سخت اور تکلیف دہ قسم کی ورزشیں کرنی پڑیں گی۔ بس روزانہ صبح دس پندرہ منٹ  سانس لینے کے لیے وقت نکالنا ہو گا۔ یوگا  میں اس طرح کی ورزش کو ‘‘پرانا یام’’  کہتے ہیں جس کے معنی ہیں سانس اور دوسری حیاتیاتی قوتوں کو کنٹرول کرنا۔ یہ مشق ہر جوان، بوڑھا اور بچہ ہر موسم میں کرسکتا ہے۔

اس ورزش میں آپ سانس کو مکمل طور پر خارج کرتے ہیں۔ پھیپھڑے خالی کرکے آہستہ تازہ ہوا اپنے پھیپھڑوں میں بھرتے ہیں اور جب ان میں مزید سانس کی گنجائش باقی نہیں رہتی تو جس حد تک آسانی سے اپنا سانس روک سکتے ہیں اسے روک کر دھیرے دھیرے ایک رفتار سے سانس مکمل طور پر خارج کردیتے ہیں۔ سانس لینے، روکنے اور خارج کرنے کا یہی عمل پرانا یام کہلاتا ہے۔

اس ورزش کے بعد آپ اپنے اندر دماغی چستی اور توانائی محسوس کرتے ہیں۔ اس سے مایوسی اور پراگندہ ذہنی دور ہوتی محسوس ہوگی اور جب آپ اس کے مشاق ہوجائیں گے تو اپنے جسم میں آپ کو برقی رو سی دوڑتی محسوس ہونے لگے گی۔ کسی ٹانک کے استعمال کے بغیر ہر کمزور خود کو دھیرے دھیرے توانا محسوس کرنے لگے گا۔

اس حیرت انگیز ورزش کے مختلف طریقے ہیں۔ اس ورزش کے لیے بہترین جگہ کھلی فضا ہے، کوئی پارک، دریا یا ندی، نہر، جھیل اور سمندر کا کنارا، کھلا باغ، کھیت یا میدان ہے۔ اگر ان جگہوں تک رسائی ممکن نہ ہو تو مکان کی چھت یا پھر کوئی ہوادار کمرہ بھی مناسب رہتا ہے۔یوں تو یہ ورزش دن میں کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے، لیکن بہترین فوائد حاصل کرنے کے لیے اسے سورج نکلنے سے پہلے کرنا چاہیے، کیونکہ اس وقت ہوا میں آکسیجن خوب ہوتی ہے۔ ورزش کرتے وقت اعصاب میں کسی قسم کا تناؤ اور کھنچاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ خود کو ذہنی الجھاؤ فکر و تشویش سے آزاد کرلیجئے۔ اس طرح آپ ورزش کرکے اور بھی پُرسکون ہوجائیں گے اور ذہنی یکسوئی بڑھ جائے گی۔

صاف  زمین  پر چادر، دری، چٹائی یا کمبل بچھا کر آلتی پار ماکر بیٹھ جائیے۔ ابتدا میں اسی انداز میں بیٹھ کر 5 منٹ تک سانس لینے اور خارج کرنے کا عمل کرتے رہیں۔ پانچ روز بعد روزانہ ایک ایک دو دو منٹ کا اضافہ کرتے جائیے۔

اب دائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے دائیں طرف کا نتھنا بند کرلیجئے اور بائیں نتھنے سے آہستہ آہستہ تازہ ہوا اندر کھنچئے یہاں تک کہ پھیپھڑے پوری طرح بھر جائیں۔ ہوا کو زیادہ سے زیادہ دیر تک پھیپھڑوں میں روکنے کی کوشش کیجئے۔ سانس مزید روکنا مشکل ہو تو بہت آہستہ آہستہ داہنے نتھنے سے اسے خارج کردیجئے۔ دوسری بار بایاں نتھنا بند کیجئے اور داہنے نتھنے سے ہی پہلا عمل دہرائیے۔ ہوا پھیپھڑوں میں بھرجائے تو بائیں نتھنے سے خارج کردیجئے۔ اس طرح ایک چکر پورا ہوگا۔ یہ عمل پہلے دن پانچ بار کریں اور پھر اسے بڑھاتے ہوئے بیس مرتبہ تک لے جائیں۔

دوسرا طریقہ یہ  ہے کہ  دونوں نتھنوں سے لمبا سانس لیجئے۔ سانس اتنا آہستہ لیجئے کہ آواز بالکل پیدا نہ ہو۔ پھیپھڑے ہوا سے پوری طرح بھرجائیں تو سانس کو زیادہ سے زیادہ دیر تک روکنے کی کوشش کیجئے اور پھر منہ یعنی ہونٹوں کو سیٹی بجانے کے انداز میں لاکر یعنی ہونٹ سکیڑ کر سانس خارج کیجئے۔ سانس اندر کھینچنے اور خارج کرنے میں کم از کم پانچ سیکنڈ لگنے چاہئیں۔ شروع میں آدھا منٹ سانس کو روکنے کی کوشش کیجئے اور پھر اسے بتدریج پانچ منٹ تک لے جائیے۔ یہ ورزش بھی چلتے پھرتے اور لیٹے لیٹے کی جاسکتی ہے۔

تیسرا طریقہ  زبان کو منہ سے باہر نکال کر لمبائی کے رخ دہرا کرکے ٹیوب سی بنائیے، اب ‘‘سی’’ کی آواز نکالتے ہوئے ہوا کو اندر کھینچئے۔ پھر اسے مندرجہ بالا طریقوں کے مطابق روکیے اور ناک کے راستے خارج کردیجئے۔

 

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *