Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

کینسر کا سبب بننے والی غذائیں

کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بہت زیادہ استعمال سے کینسر کا بڑھ سکتا ہے…؟
چینی زیادہ کھانے کے نتیجے میں کینسر کی رسولیوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
فاسٹ فوڈ ز جیسے برگر یا پیزا وغیرہ زیادہ کھانے کی عادت کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
سرخ گوشت کے زیادہ استعمال سے کینسر کا امکان 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
الکوحل کا استعمال سر، گلے، غذائی نالی، جگر، چھاتی اور آنتوں کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔

کینسر کا نام سنتے ہیں انسان پر ایک خوف سا طاری ہوجاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال 70 لاکھ سے زائد ا فراد اس موذی اور مہلک مرض میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں کینسر میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سالانہ سے زائد ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے کینسر کے مریضوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
کینسر دراصل غیر معمولی خلیات کی بے ترتیب نمو کا نام ہے، جو عمومی طور پر ٹیومر کی صورت میں جسم پر نمودار ہو جاتے ہیں تاہم ہر ٹیومر کینسر نہیں ہوتا۔ انسانی جسم میں اس موذی مرض کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب انسانی جسم میں خلیات کے بننے اور تقسیم ہونے کا عمل معمول سے ہٹ کر ہونے لگتا ہے۔ جس کے باعث یہ ابنارمل خلیات معمول کے صحت مند خلیات میں داخل ہو کر انہیں تباہ کرنے لگتے ہیں۔
یہ موذی مرض بہت سی اقسام کے ساتھ موجود ہے۔ جن میں چھاتی کا کینسر، منہ اور ہونٹ کے کینسر، جگر اور پتے کی نالیوں کا کینسر، بڑی آنت کا کینسر، پروسٹیٹ کینسر، برین کینسر، مثانہ کا کینسر، ہوچکنز (Hodgkin’s) اور نان ہوچکنز کینسر، جلد کا کینسر، اووری کا کینسر، پھیپھڑوں کا اکینسر، کولون کینسر شامل ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موت کا سبب بننے والی بیماریوں میں کینسر تیسرے نمبر پر ہے لیکن اس مرض کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث آئندہ دس سالوں میں کینسر سب سے زیادہ اموات کا باعث بننے والی بیماری بن جائے گی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ ہے جو 2020 تک ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تک تجاوز کر جائے گی۔ جبکہ کینسر سے اموات کی تعداد سالانہ اسی لاکھ افراد ہوگی۔
پاکستان میں خواتین میں بریسٹ کینسر اور مردوں میں منہ کے کینسر میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، صرف پاکستان میں گزشتہ برس کینسر کے تین لاکھ چالیس ہزار نئے کیسز سامنے آئے جن میں سے اسی فیصد سے زائد مریض بروقت تشخیص اور علاج نہ ملنے کے باعث دنیا سے رخصت ہوگئے۔
کینسر کی کئی علامات ہیں، جن میں جسم کے کسی حصے میں ٹیومر کا نمودار ہونا، جسم کے مختلف حصوں سے خون کا بہنا، بناء کسی وجہ کے تیزی سے وزن کا کم ہونا، مسلسل کھانسی رہنا اور خوراک نگلنے میں دشواری کا سامنا کرنا شامل ہیں۔ اگر درج بالا علامات میں دو علامتیں ایک ساتھ واضح ہوجائیں تو کینسر کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کرانا چاہیئے۔ اگر جسم کے کسی حصے میں بھی ٹیومر نمودار ہو فوری طور پر معالج سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ بروقت علاج کیا جائے ۔
یاد رکھیئے….! جلد تشخیص سے مریض کو اس جان لیو بیماری سے بچانا آسان ہوجاتا ہے۔
کینسر کی بنیادی وجہ تاحال نا معلوم ہے لیکن کلینیکل پریکٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ 90-95 فیصد مریضوں میں انوائرمینٹل فیکٹرز (ماحولیاتی خرابی)کینسر کی بڑی وجہ ہے۔ جب کہ 5-10 فیصد مریضوں میں یہ مرض موروثی ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کینسر کا مرض لاحق ہونے کی کئی ماحولیاتی وجوہات (انوائرمینٹل فیکٹر )بتاتے ہیں ۔ ان میں آلودگی، تمباکو نوشی، مضر صحت پانی، غیر متوازن غذاء، پان، چھالیہ، گٹکا اور ماوا کا بے جا استعمال،موٹاپا، انفیکشن اور ریڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔
لیکن ….ان سب میں ایک بڑی وجہ ہماری چند عام غذائیں بھی ہیں۔
جی ہاں ! چند غذائیں ایسی بھی ہیں، جو انسان کو کینسر میں مبتلا کرسکتی ہیں ۔ یہ غذائیں ہمارے روزمرہ استعمال میں بھی رہتی ہیں۔ اگر انسان ان غیر متوازن غذاؤں کا استعمال بہت زیادہ کردے تو کینسر میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
ماہرینِ صحت بتاتے ہیں کہ کینسر سے بچاؤ کا واحد طریقہ پرہیز ہے، غذا کے انتخاب میں محتاط رویہ اپنا کر کینسر سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ اگر درج ذیل غذاؤں سے پرہیز برتا جائے تو کینسر کی موزی بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔
اگر کینسر سے بچنے چاہتے ہیں تو:
کینسر کا علاج مہنگا اور تکلیف دہ ہےلیکن کینسر سے بچاؤ نہایت آسان، سادہ اور سستا ہے۔ بس اپنی زندگی کو فطرت کے قریب سے قریب تر کیجیئے اور متوازن غذا فطرت سے حاصل کریں جو سستی بھی ہیں اور بآسانی دستیاب بھی ہیں۔ علاوہ ازیں مصنوعی ذائقے، مصنوعی شوگر، باہر کے غیر معیاری کھانے اور ٹیٹرا پیک کئی اشیاء سے اجتناب کیجیے۔
ذیل میں قارئین کے لیے کینسر کا خطرہ بڑھانے والی چند غذاؤں کی معلومات فراہم کی جارہی ہیں تاکہ اس جان لیوا مرض سے بچاؤ میں آسانی ہو۔

مائیکرو ویو پاپ کارن (Microwave popcorn)

پاپ کارن ایک مزیدار غذا ہے، مائیکرو ویو کے ذریعے بنائے گئے پاپ کارن دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ لیکن بازار میں دستیاب پاپ کارن بیگ جو مائیکرو ویو اوون میں رکھے جاتے ہیں انتہائی متنازعہ ہیں۔ یہ بیگ (perfluorooctanoic acid) PFOA نامی کیمیکل پر مشتمل ہوتے ہیں جو انسانی جسم میں داخل ہو کر گردوں یا پھر جگر کے کینسر میں مبتلا کرسکتے ہیں – ان پاپ کارن کے استعمال سے خواتین میں بانچھ پن پیدا ہوسکتا ہے-
امریکہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق مائیکرو ویو پاپ کارن صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ ان پاپ کارن میں خوشبو کے لیے ڈائی ایسیٹائل Diacetyl نامی کیمیکل شامل کیا جاتا ہے جو پاپ کارن لنگ نامی پھپھڑوں کی بیماری کا موجب بنتا ہے۔ ساتھ ہی ایک اور کیمیکل پرگلورو آکٹین سلفونیٹ (PFOS) perfluorooctane sulfonate جو پاپ کارن بیگ کی کیمیکل کوٹنگ میں استعمال ہوتا ہے جو مائیکروویو پاپ کارن کے ذریعے بیس فیصد جسم میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ پاپ کارن پھیپھڑوں گردوں اور مثانے کے کینسر کا سبب بنتا ہے۔

جنک فوڈ/ فاسٹ فوڈ

فاسٹ فوڈز شمار ہونے والی کئی اشیاء مثلاً برگر یا پیزا وغیرہ کی زیادتی کینسر کا باعث بن سکتی ہے۔
ایریزونا یونیورسٹی کی تحقیق میں پہلی بار بتایا گیا کہ بطور خوراک فاسٹ فوڈز کی زیادتی کینسر کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ پیزا اور برگر میں غذائیت کم اور کیلوریز بہت زیادہ ہوتی ہیں، جسے وہ dietary energy density (DED) کہتے ہیں ۔ ان کے زیادہ استعمال سے انسانی جسم میں ضرورت سے زیادہ کیلوریز جمع ہو جاتی ہیں جو اگے چل کر کینسر کی وجہ بن سکتی ہیں۔ ایسے چپس، پاپ کارن اور فاسٹ فوڈ سے مکمل پرہیز کیجیے جہاں ان غذاؤں کی تیاری میں معیاری تیل استعمال نہیں کیا جاتا۔ کئی پیکنگ جن میں یہ دستیاب ہوتے ہیں ان کی تیاری میں بھی ایسے کیمکلز کا استعمال کیا جاتا ہے جو غذا کے ذریعے خون کا حصہ بن جاتے ہیں اور جسم میں ٹیومرکا باعث بنتے ہیں۔

ٹرانس فیٹ (Trans fats)

ٹرانس فیٹ سیال تیل کو ٹھوس شکل دینے پر بنتے ہیں جو کہ غذاؤں کے ذائقے اور استعمال کی مدت کو بڑھاتے ہیں۔ مارجرین، سیریلز، ٹافیوں، بیکری کی مصنوعات، بسکٹوں، چپس اور تلی ہوئی غذاؤں سمیت متعدد پکوانوں میں یہ پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان کا زیادہ استعمال موٹاپے کا خطرہ تو بڑھاتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ کینسر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
بازار میں دستیاب آلو کے چپس بہت زیادہ چربی اور کیلیوریز پر مشتمل ہوتے ہیں- اور اسی وجہ سے لوگوں میں صحت کے مسائل اور وزن میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ چپس ٹرانس فیٹ پر بھی مشتمل ہوتے ہیں جو کولیسٹرول کی وجہ بنتا ہے- اس کے علاوہ اضافی سوڈیم بھی پایا جاتا ہے جس سے انسان ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوسکتا ہے- ان کی تیاری میں مصنوعی رنگ اور ایک ایسا کیمیکل استعمال کیا جاتا ہے جو سگریٹ میں بھی موجود ہوتا ہے اور یہی کیمیکل کینسر کا سبب بنتا ہے-
ماہرین کا کہنا ہے کہ تلے ہوئے اسنیکس بھی کینسر کا سبب بنتے ہیں کیونکہ ان میں ایسے کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں جو کہ کینسر پیدا کرتے ہیں ساتھ ہی ان کی تیاری میں استعمال کیا جانےو الا غیر معیاری تیل جب غذا کے ذریعے خون کا حصہ بنتا ہے تو ٹیومر کا سبب بن جاتا ہے۔
عمومی طور پر بازار میں ایسے تیل میں کھانے پکائے جاتے ہیں جن کی تیاری میں معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا خصوصی طور پر فنگر چپس کی تیاری میں نہایت ناقص تیل استعمال کیا جاتا ہے اور یہ بچوں کی مرغوب غذا بھی ہے اس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے کینسر جیسی موزی مرض سے محسوس رہیں تو غیر معیاری تیل کے بجائے زیتون، ناریل اور پام آئل استعمال کریں۔

باربی کیو انداز پر تیار گوشت

ماہرین کی جانب سے باربی کیو انداز سے تیار کیے گئے کھانوں کے شوقین افراد کو اس شوق کی قیمت کینسر جیسے جان لیوا مرض کی صورت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ نیشنل کینسر انسٹیوٹ آف امریکہ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق باربی کیو یا گرلڈ ریڈ میٹ کینسر کا مرض پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ جب گوشت کو بھوننے کے لیے گیس یا کوئلہ کا استعمال کیا جاتا ہےتو اس سے نکلنے والا کیمیکل پولی سائیکل ایرومیٹک ہائیڈروکاربن(PAHs) گوشت کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ یہ مرکب کینسر کا سبب بنتا ہے۔

زیادہ میٹھا کھانے کی عادت

اگر تو چینی زیادہ کھانے کے نتیجے میں ذیابیطس جیسے مرض کا خیال پریشان نہیں کرتا تو یہ جان لیں کہ یہ کینسر کی رسولیوں کا خطرہ بھی چار گنا بڑھا دیتا ہے۔ بیلجیئم کی کیتھولائیک Katholieke یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق زیادہ میٹھا کھانا کینسر زدہ خلیات کی تعداد کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ عام خلیات آکسیجن کو جسمانی توانائی کے لیے گلوکوز میں بدلتے ہیں مگر کینسر زدہ خلیات چینی سے حاصل کرتے ہیں اور رسولی کی نشوونما کو انتہائی تیز کردیتے ہیں۔آسان الفاظ میں چینی کا بہت زیادہ استعمال کینسر زدہ خلیات کو کینسر کے مرض کی شکل دے دیتا ہے۔

ریفائنڈ اور مصنوعی طریقے سے تیار کردہ شکر  (Artifical Sweeteners)

اگر آپ چینی کے استعمال سے اجتناب برتتے ہیں اور اس کی جگہ بازار میں دستیاب مصنوعی میٹھے کو ترجیح دیتے ہیں تو یاد رکھیں یہ بھی آپ کے لیے خطرناک ہے-
غیر فطری شکر (مصنوعی طریقے سے تیارکردہ) جہاں آپ کے وزن میں اضافہ کرسکتی ہے وہیں مصنوعی میٹھے کی وجہ سے آپ کے خون میں شامل شکر کے نظام میں بےقاعدگی بھی آسکتی ہے- جبکہ خون میں شوگر لیول میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور اس کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجاتا ہے دوسری جانب مصنوعی طریقے سے لی گئی شکر کینسر کے خلیات کے بڑھاوے کا بھی موجب ہوتے ہیں۔ اس میں موجود ایک کیمیکل انسان کو برین ٹیومر کا مریض تک بنا سکتا ہے-
ایک تحقیق کے مطابق مصنوعی مٹھاس کا استعمال بھی کینسر کا خطرہ بڑھا سکتا ہے، محققین کے مطابق مصنوعی مٹھاس میں موجود ممکنہ زہریلے اثرات انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے تحقیق کی ضرورت ہے۔
1931ء میں نوبل انعام یافتہ جرمن ماہر طب اوٹو ہنرخ مواربرگ کی جانب سے خطرناک انکشاف کیا گیا کہ مصنوعی شکر کا استعمال انسان کے جسم میں کینسر کاباعث بننے والے ٹیومرز پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے جو بعد میں کینسر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ عام طور پر شکر کی مناسب مقدار ہمارے روز مرہ کی خوراک میں موجود ہوتی ہے تاہم کولڈ ڈرنکس، چینی، گاکلیٹس اور ان جیسی دیگر چیزوں میں ریگائنڈ شوگر کا استعمال کینسر کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔ دوسری جانب مصنوری طریقے سے لی گئی شکر کینسر کے خلیات بڑھانے کا بھی موجب ہوتی ہے۔
چنانچہ بہتر یہی ہے کہ ریفائنڈ چینی اور مصنوعی مٹھاس کے بجائے شہد، گڑ اور براؤن شوگر استعمال کی جائیں۔

مصنوعی طریقہ سے اُگائے پھل  (Non-organic fruits )

ایسے پھل جنہیں مصنوعی طریقوں سے جلد تیار کیا جاتا ہے وہ مکمل ہونے تک مختلف ادویات اور نائروجن کھاد سے آلودہ ہوچکے ہوتے ہیں- یہ پھل ہارمون میں خرابی پیدا کردیتے ہیں- عام طور پر ان پھلوں میں سیب٬ سنگترے٬ اسٹرابیری اور انگور شامل ہوتے ہیں-
ہر وہ کھانے جن میں نائٹریٹ زیادہ مقدار میں موجود ہوں وہ غذائیں جسم میں غیر ضروری اور غیر معمولی خلیات کے اکٹھے ہونے میں مدد دیتے ہیں جو بعد میں ٹیومر میں تبدیل ہوجاتے ہیں اس لیے خورد و نوش کی ایسی اشیاء سے پرہیز کرنا چاہیے جن میں نائٹریت موجود ہوں۔

سفید آٹا (Highly Processed White Flours)

Highly Processed White Flours
سفید آٹا
جی ہاں سفید آٹا بھی کینسر کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ سفید آٹا مکمل تیار ہونے تک نہ صرف تقریباً تمام غذائی اجزاء سے محروم ہوچکا ہوتا ہے بلکہ اس تیاری کےد وران اس میں ایک خطرناک کیمیکل بھی شامل کردیا جاتا ہے جسے کلورین گیس chlorine gas کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گیس خون میں موجود شکر کے لیے خطرناک ہوتی ہےا ور جسم میں موجود چربی میں اجافہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس گیس کی وجہ سے کینسر لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
فارم فشز (فارم ہاؤس کی مچھلیاں)

مچھلی جہاں صحت کے لیے مفید ہے وہیں فارم ہاؤس کی مچھلیاں صحت کے لیے مضر بھی۔ کیونکہ فارم ہاؤس میں جہاں مچھلیوں کی افزائش تجارتی بنیادوں پر کی جاتی ہے وہاں زیادہ سے زیادہ مچھلیوں کی افزائش کے لیے مختلف کیمکل اور غیر قدرتی طریقوں کا استعما ل کیا جاتا ہے جس سے مچلھیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن وہ کئی طرح کی بیماریوں کا بھی موجب بنتی ہیں جن میں سر فہرست کینسر ہے۔ ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ مچھلیوں کی افزائش میں غیر معمولی اضافے کے لیےمختلف قسم کی ادویات اور کیمیکل کا استعمال انسانی صحت کے لیےمضر ہے اس لیے قدرتی طریقے سے حاصل کی گئی مچھلیوں کو ہی اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔

سافٹ ڈرنکس
بازار میں دستیاب سافٹ ڈرنکس یا سوڈا میں اضافی چینی پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ ان میں کیلوریز نہیں پائی جاتیں۔ یہ ڈرنکس وزن اور خون میں موجود شکر میں اضافہ کردیتے ہیں جو کہ بعد ذیابیطس کا مرض لاحق ہونے کا سبب بن جاتی ہے- یہ ڈرنکس مصنوعی رنگوں اور ذائقوں پر مشتمل ہوتی ہے-
کیرولینسکا انسٹیوٹ karolinska institutet سویڈن کی تحقیق کے مطابق سوڈے اور جوسز کے زیادہ استعمال سے مثانے اور پتے کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ موٹاپا اور بلڈ شوگر کی سطح میں اضافہ بنتی ہے۔ سافٹ ڈرنکس کا زیادہ استعمال انسانی جسم میں کینسر جیسے جان لیوا مرض کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ دوسری جانب کولڈ ڈرنکس سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ سافٹ ڈرنکس کے شوقین افراد میں جگر کے کینسر کا امکان عام افراد کی نسبت 79 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
اکثر لوگ ڈائٹ کولڈ ڈرنک کا استعمال کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھی حد درجہ نقصان دہ ہے- ان ڈرنکس میں اضافی سوڈیم اور مصنوعی رنگ شامل کیے جاتے ہیں- ان کا زیادہ استعمال انسان کو کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے-

الکحل و دیگر نشہ آور اشیاء

کینسر سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ نوے سے پچانوے فیصد مریضوں میں انوائر مینٹل فیکٹر کینسر کی بڑی وجہ ہے۔ ماہرین کے مطابق انوائر مینٹل فیکٹر میں غیرمتوازن غذا، تمباکو نوشی، پان، چھالیہ، گٹکا ، ماوا اور دیگر نشہ آور اشیاء کا بےجا استعمال شامل ہے۔
نیشنل کینسر انسٹیوٹ کی تحقیق کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ الکحل کا استعمال سر، گلے، غذائی نالی، جگر، چھاتی اور آنتوں کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ الکحل پر کی گئی تحقیق کے نتائج کے مطابق اس کا استعمال جسمانی اعضاء جیسے لبلبے ، معدے اور مثانے وغیرہ کے کینسر کا خطرہ بھی بڑھا دیتا ہے۔

سرخ گوشت /پراسیس گوشت (Red Meat)

عمومی طور پر گوشت میں ذائقے کی تبدیلی اور زیادہ عرصے تک استعمال کے لیے انہیں خاص قسم کے عمل سے گذارا جاتا ہے جس میں مختلف کیمیکلز کا استعمال کیا جاتا ہے بعد ازں مخصوص پیکنگ میں پیک کیا جاتا ہے جسے پروسیسڈ میٹ کہا جاتا ہے۔
ایک نئی تحقیق نے ثابت کیا ہے ایسے گوشت کے استعمال سے کینسر لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے- ماہرین کا کہنا ہے کہ اضافی گوشت کے استعمال سے خواتین بریسٹ کینسر میں بھی مبتلا ہوسکتی ہیں- کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کی تحقیق کے مطابق سرخ گوشت کے قتلوں کا زیادہ استعمال امراض قلب سے موت کا خطرہ 24 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ اس عادت کے نتیجے میں ذیابیطس کا خطرہ 32 فیصد جبکہ کینسر جیسے مرض کا امکان 8 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ روزانہ سوگرام گوشت کھانے کو معمول بنالینا مثانے اور آنتوں کے کینسر کا خطرہ بالترتیب 19 اور 17 فیصد تک بڑھا دیتے ہیں جبکہ بریسٹ کینسر کا امکان 11 فیصد بڑھ جاتا ہے۔تحقیق کے مطابق اس کی وجہ گوشت کو بہت زیادہ درجہ حرارت میں پکانا ہوسکتا ہے جو ایک کیمیکل heterocyclic amines (HCAs)کی پروڈکشن کا باعث بنتا ہے جو کہ انسانوں میں مختلف امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
چنانچہ فیکٹریوں میں تیار کردہ گوشت کے بجائے تازہ گوشت کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں جو کسی بھی قسم کے کیمیکل پراسس سے نہ گزرا ہو۔

 جی ایم او فوڈ (جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک)

جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں کی صنعت خطرناک حد تک دنیا بھر کے ممالک میں کوراک پر اثر انداز ہورہی ہے اور دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مکئی اور سویا کی نوے فیصد اجناس جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیجوں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک کا استعمال انسان میں کینسر جیسا مہلک مرض پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ساتھ ہی اس کا استعمال انسان کی صحت مند زندگی پر منفی اثرات بھی مرتب کرتا ہے جو انسانی جسم میں کینسر کے علاوہ دوسرے امراض بھی پیدا کردیتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ آپ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں ی ایم او فوڈ کے لیبل والی غذاؤں کا استعمال نہ کریں اس کے برعکس زیادہ سے زیادہ نامیاتی غذاؤں کا استعمال کریں۔

جینیاتی طورپر تبدیل شدہ خوراک نقصان دہ کیوں….؟
ہم میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے کہ جی ایم او فوڈ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جانتے بوجھتے بھی ان غذاؤں کا اسعمال ترک نہیں کرتے لیکن اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کبھی بھی جی ایم او فوڈ کا استعمال نہیں کریں گے۔
موسانتو monsantoنامی امریکہ کی خبیث ترین کارپوریشن نے دوا سازی صنعت کو خطرناک حد تک نقصان پہنچانے کے بعد 1995ء میں (GMO) فصلوں کے تعارف کے ذریعے خوراک پر حملہ کیا۔ یہ جینیاتی پیوندی (GMO) فصلیں اپنے اندر کرم اتلافی اور نباتات کش صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان فصلوں کے مضر صحت اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے اردگرد اضافی گھاس پھوس یا جڑی بوٹیاں از خود تلف ہوجاتی ہیں۔ نیز یہ فصلیں اپنا زر گل یا زیر پوشی (Pollination) بھی خود کرتی ہیں۔ یعنی کود کو کہیں اور منتقل کرنے کے لیے انہیں پرندوں، مکھیوں یا بھڑوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جی ایم او فوڈ پیدا کرنے والے بین نہ صرف زہریلی فصلیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ان کے تیار کردہ بیج زمین کو بانجھ کردیتے ہیں جس کے عد اس زمین پر کسی دوسرے بیج کی دال نہیں گلتی۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت میں گزشتہ برسوں کسانوں میں خود کشیوں کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ تباہی کے احساس کے ساتھ ساتھ ان خودکشیوں کے پیچھے چھپا مقصد یہ بھی تھا کہ پسماندگان کو انشورنس کی رقم مل جائے گی تو کم از کم وہ تو کچھ بہتر زندگی گزار سکیں گے لیکن انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ آنے والی نسل کے ساتھ بھی وہی کچھ ہونا ہے، جو ان کے ساتھ ہوچکا۔
دنیا کے 16 ممالک جی ایم او پیداوار پر جزوی یا کلی پابندی لگا چکے ہیں۔
مکئی، سویابین، کپاس اور کپاس کے بیجوں سے حاصل ہونے والا تیل، پپیتا، چاول، کینولا (تیل والا بیج)، آلو، ٹماٹر، دودھ دہی اور اس کی مزید مصنوعات اور مٹر یہ وہ فصلیں ہیں جن کی جین میں تبدیلی کی جارہی ہے۔
کمپنی کے تمام کیفوں اور میسز میں کمپنی کی اپنی ہی اشیاء استعمال کرنا ممنوع ہے۔ موسانتو نامی یہ کمپنی اپنی ہی تیار کردہ جی ایم او خوراک اپنے ملازمین کو کھانے کی اجازت نہیں دیتی اس کے پیچھے چھپا سبب اپنے کارکنوں سے ہمدردی یا محبت نہیں۔ بلکہ اس لیے کہ کارکنوں کی ہلاکت کے باعث کمپنی جلد گرفت میں آسکتی ہے اور ان پر زہروں کے اثرات ثابت ہونے کے بعد مجرم بھی بآسانی پکڑا جاسکتا ہے جس کے بعد تاوان کی رقم بھی خاصی بھاری ہوتی ہے۔ کمپنی کی مصنوعات کے استعمال سے دنیا بھر میں مسخ شدہ بچے پیدا ہورہے ہیں اور بےپناہ مقدمات اور پابندیاں لگائے جانے کے باوجود کمپنی اپنی فصلیں اور زہریلے بیجوں کی فروخت زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

 

 

جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ
حسب ذیل 16اشیاء کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ 

1۔ مائیکروویو پوپ کارنز
2۔ غیرنامیاتی مصنوعات
3۔ ٹین کے ڈبوں میں بند کیمیائی ٹماٹر
4۔ پراسیس شدہ گوشت
5۔ کیمیکلز والی غذاء کھانے والی فارمی مچھلی
6۔ اضافی سوڈیم والی آلوکے چپس
7۔ ہائیڈروجینی ٹیڈ ویجی ٹیبل آئل
8۔ نمکین، محفوظ کردہ اور دھواں لگی غذائیں
9۔ پراسیس شدہ سفید آٹا
10۔ جینیاتی طور پر تیارکردہ پھل اور سبزیاں
11۔ ریفائن کردہ چینی
12۔ مصنوعی مٹھاس
13۔ کوئی بھی فیٹ فری یا کم فیٹس والی غذا یعنی ‘‘ڈائٹ’’ مٹھائیاں، مشروبات وغیرہ۔
14۔ الکوحل و شراب
15۔ سرخ گوشت
16۔ سافٹ ڈرنکس

 

یہ بھی دیکھیں

بجلی کے بل میں کمی لائی جاسکتی ہے

راحیل آج آفس میں بڑا ایکٹیو دکھائی دے رہا تھا ہر کام سلیقے اور قرینے ...

قلب کے اسرار و رموز

عرصہ دراز سے ہم یہ سنتے اور بولتے آرہے ہیں کہ انسانی جذبات و خیالات ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *