Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

فینگ شوئی – 5

قسط نمبر 5


فینگ شوئی ایک قدیم سائنس ہے اس کا تعلق چین سے ہے۔ فینگ شوئی کے ذریعے آپ اپنے گھر کی تزئین و آرائش میں معمولی تبدیلی سے فطرت کے اصول آپ کے گھر میں روبہ عمل ہوجائیں گے۔ذہنی یکسوئی میں اضافہ ہوسکتا ہے رزق میں آسانی اور آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
روحانی ڈائجسٹ کے قارئین کے لیے ان صفحات پر چین کے معروف متبادل طریقہ علاج فینگ شوئی پرسلسلہ شروع کیاجارہا ہے۔

 

فینگ شوئی اور آپ کا گھر

خواب گاہ:

کوئی آفس سے تھکاماندہ گھر لوٹے یا کوئی کچن کی گرمی میں کام کرکے باہر آئے،یابچے اسکول اور بڑے کالج سے گھر آکر آرام کرنا چاہیں ۔سب کی پہلی ترجیح ان کا بیڈ روم ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم آرام پاتے ہیں ،یہاں ہمیں سکون ملتا ہے اور تھکاوٹ سے زائل توانائیاں بحال ہوتی ہیں ۔اسی لئے فینگ شوئی کے ماہرین سب سے زیادہ توجہ بیڈرومز کو سنوارنے اور اور اس کی تزئین و آرائش پر دیتے ہیں ۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ مہان خانہ یا جسے آج کل ڈرائنگ روم کہا جاتا ہے ہمارے ذوق کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ہم کہتے ہیں کہ اصل میں ،بیڈ روم ، ہمارے مزاج اور ذوق کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ جسے ہم صرف اپنے لئے سجاتے ہیں اور سنوارتے ہیں ۔
ہمارے ایک جاننے والے صاحب نے اپنے ایک دوست کا واقعہ سنایا جنہیں فینگ شوئی کا تجربہ ہوا تھا۔آئیے انہیں کی زبانی آپ کے گوش و گزار کرتے ہیں ۔

***

عدیل مرزا کی پریشانی دیدنی تھی وہ ،بلال کی رپورٹ کارڈ ہاتھ میں لئے کھڑے تھے۔ان کا بیٹا ، چھٹی جماعت کے فرسٹ ٹرم میں بری طرح فیل ہوا تھا۔پڑھائی کے علاوہ دوسری سرگرمیوں میں بھی کوئی اچھے ریمارکس نہیں تھے ۔وہ صدمے کی حالت میں بلال کی حالیہ رپورٹ کا پچھلے سال کی رپورٹ کارڈسے موازنہ کرنے بیٹھ گئے۔
کیوں بیٹا ، ایسی کیا بات ہے ،آخر کیوں تمہارا رزلٹ اتنا خراب آیا ہے….؟ یہ تو تمہارا پسندیدہ اسکول ہے ، ٹیچرز بھی وہی ہیں ،تم تو میرے ذہین بیٹے ہو۔ عدیل مرزا ، پیار سے ا پنے لاڈلے بیٹے کو سمجھانے اور کریدنے کی کوشش کرنے لگے ۔وہ غصے سے زیادہ صدمے میں تھے ، ویسے بھی بلال اب بارہ سال کا ہوچکا تھا ۔اس پر ہاتھ اٹھانا نہیں چاہتے تھے ۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ان کے بیٹے کی سہ ماہی رپورٹ ہے جبکہ اس سے پہلے وہ ہر ٹرم میں اور ہر سال بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوتا آرہا تھا۔بلال سر جھکائے ۔ باپ کی باتیں سنتا رہا ، کہتا بھی تو کیا ، رزلٹ ان کے ہاتھ میں تھا، بچائو کا ایک ہی راستہ نظر آیا ، اس نے بھٹ بھٹ آنسو بہانا شروع کر دئیے۔
سوری بابا ، آئیندہ ایسا نہیں ہوگا ، میں پوری محنت سے اور دل لگا کر پڑھوں گا ۔بلال کو روتا دیکھ کر اسماء نے جلدی سے بیٹے کو سینے سے لگا لیا۔نہیں میری جان ، رو مت ، ہم جاننا چاہتے ہیں ایسی کیا بات ہوئی جس نے تمہاری پڑھائی پر اتنا اثر ڈالا…. ماں نے سینے سے لگایا تو بلال اور زور زور سے رونے لگا۔میرا دل نہیں لگتا ، مجھے نہیں پڑھنا بس۔اس کی ہچکیاں اور تیز ہو گئیں۔
ارے ارے…. بلال کی یہ حالت دیکھ کر دونوں گھبرا گئے۔اچھا اچھا چپ ہوجا …. بس کچھ نہیں ہوا، عدیل مرزا نے جلدی سے بلال کو اسماء سے الگ کر کے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ تم پانی لے آؤ۔ اسما واٹر ڈسپنسر کی طرف دوڑی ، ٹھنڈے پانی میں گلوکوز ڈال کر لے آئی ۔ بلال مسلسل روئے جا رہا تھا۔ عدیل مرزا بیٹے کو سینے سے لگائے سر سہلا رہے تھے، اور اسماء گھونٹ گھونٹ گلوکوز والا پانی پلا رہی تھی۔دو نوں نے فی الوقت خاموشی میں ہی بہتری سمجھی۔ وہ اس وقت اپنے بیٹے کی حالت سمجھ نہیں پارہے تھے۔انہیں اندازاہ ہوگیا تھا ، اب اس معاملے کو دوسری طرح ڈیل کرنا ہوگا۔آخر کار کچھ دیر بعد بلال سسکیاں رکیں۔

ایسا نہیں کہ بلال کوئی نکما بچہ تھا یا والدین کی توجہ اس کو نہیں مل رہی تھی۔مگر پچھلے چند مہینوں میں اس کی طبعیت میں پریشان کن تبدیلی آئی تھی۔شراتیں کرنا ،چھوٹی بہن کو تنگ کرنا یہاں تک کہ مار پٹائی تک نوبت آجاتی،اور پھر اسکول سے شکایات موصول ہونے لگیں۔ کہ ساتھی بچوں سے لڑنے لگا ہے۔ ہوم ورک نامکمل ہوتا ہے کام وقت پر نہیں دیتا وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب باتیں عدیل مرزا اور اسماء اپنے طور پر سبنھالنے کی کوشش کررہے تھے۔ پہلے دونو ں کا خیال تھا کہ کاروبار میں نقصان کے باعث بڑے اپارٹمنٹ سے چھوٹے فلیٹ میں شفٹ ہوئے ہیں ماحول بدلا ہے شاید اسی وجہ سے بچے ڈ سٹر ب ہوگئے۔مگر بچوں کا اسکول تو وہی تھا۔آج پھر اسکول میں میٹنگ تھی ،عدیل مرزا کو بلایاگیا تھا۔
ایک تو گرمی میری جان لے کر چھوڑے گی۔ اس فلیٹ میں ہوا نام کو نہیں ،اسماء کا پارہ ویسے ہی چڑھا ہواتھا اور بجلی کے جاتے ہی اس کا دماغ ابلنے لگا
ماما… ماما، آٹھ سالہ ماہا کی چیخنے کی آواز سن کر اسماء گھبرا کر سالن چولہے پر پکتا چھوڑ بچوں کے کمرے کی طرف دوڑی۔ ماہا کمرے میں بچاؤ کے لیے ادھر سے اُدھر بھاگ رہی تھی اور بلال پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا، اس کا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا۔ہاتھ میں پھٹی ہوئی کاپی تھی۔ ماہا دوڑ کر اسماء کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ۔بھائی نے مارا ہے۔وہ رونے لگی
ماما پہلے دیکھیں تو اس نے کیا کیا ہے؟۔ میری ہوم ورک کاپی کے صفحے پھاڑ دئیے ۔اسماء نے دیکھا کہ پوری کاپی پھٹی ہوئی تھی اور صفحوں کے جہاز بنے ہوئے تھے۔
ماہا….! یہ کیا بد تمیزی ہے بھائی کی کاپی کیوں پھاڑی….؟اس نے ماہا کو ڈانٹا ۔
ماہا ما ں کی ڈانٹ سن کر چپ ہوگئی۔
یااللہ یہ کیا ہوگیا ہے میرے بچوں کو۔مجھے لگتا ہے میرے بچوں کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔اسماء نے رات میں عدیل مرزا کو سارادن کی روداد سنائی۔ہاں میں بھی یہی سوچ رہا ہوں ، عدیل مرزا دفتر سے واپسی پر خاصے پریشان لگ رہے تھے۔دونوں میا ں بیوی کی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ابھی چند مہینوں پہلے تک ان کے بچوں کی تربیت اور ذہانت کی تعریفیں ہوا کرتی تھیں ۔اور اب یہ حال تھا کہ سارادن دونوں بہن بھائی کسی نہ کسی بات پر لڑتے رہتے۔
کتنی گرمی ہے پنکھا چلنے کے باوجود حبس ہورہا تھا۔کھڑکی تو کھو لو۔عدیل مرزانے بٹن کھول کر آستین اوپر چڑھالیں ۔کھلی ہوئی تو ہے ۔ایک ہی تو کھڑکی ہے۔ایک تو اتنا اندھیرا ہوتا ہے کہ دوپہر میں بھی لائٹ جلانی پڑتی ہے۔آپ ذرا سارا دن رک کر دیکھا کریں کتنا حبس ہوتا ہے پورے گھر میں ۔
ہِم….عدیل مرزا نے ہنکارا بھرا ۔
اسماء عدیل مرزا کی بات سن کر چپ ہوگئی۔
دوسرے دن آفس میں اپنے بزنس پارٹنر حسن کے استفسار پر عدیل مرزا نے بچوں کے رویے میں تبدیلی کے واقعات بیان کردیے۔
مجھے لگتا ہے کہ آپ لوگوں کو بلال کے لیے کسی سائیکٹرسٹ سے بات کرنی چاہیے دیکھو برا مت مانو، سائیکٹرسٹ کو دکھانا کسی کو پاگل یا نفسیاتی مریض ثابت کرنا نہیں ہوتا۔ اب تو زمانہ بہت ترقی کرگیا ہے۔ میرا اپنا بھائی سائیکٹرسٹ ہے، وہ گھر آکر بچوں سے مل لے گا، تم بچوں کو مت بتانا …. ویسے بھی بلال کی بڑھتی عمر ہے، ہوسکتا ہے کوئی ایسی بات ہو جو آپ دونوں والدین سمجھ نہیں پارہے ہیں اور اس کا کوئی حل نکل آئی۔ حسن نے بالآخر عدیل مرزا کو راضی کرلیا۔
میں اسماء سے بات کرکے کل تمہیں بتاتا ہوں۔
ٹھیک ہے۔
عدیل مرزا نے اسماء سے بات کی۔ پہلے تو وہ نہیں مانی مگر پھر اولاد کی بہتری کے لیے اس نے بہتر جانا ہے کہ سائیکٹرسٹ سے مل لیا جائے۔
تو پھر آپ کل ہی بات کرلیں، اچھا ہے گھر پر ہی ملاقات ہوجائے گی۔ میں بلال سے بات بھی کرلوں تاکہ وہ گھبرائے نہیں۔
ہاں ٹھیک ہے۔
مگر اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کوئی بھی بات نہیں ، بچہ ذہین ہے۔ اس کا ماحول بدلا ہے۔ ایڈجسٹ نہیں ہوپارہا۔ اسی وجہ سے اس کی پڑھائی بھی متاثر ہورہی ہے۔ آپ اس کا خیال رکھیں، تاکہ اس کی نیند پوری ہو، فلاں فلاں۔
غرض صورتِحال جوں کی توں برقرار تھی۔ ہاں اضافہ ہوا تو یہ کہ بلال اب ماں کے سامنے بھی چڑچڑاہٹ کا مظاہرہ کرنے لگا تھا۔ بات بات پر غصہ، ضد اس کا معمول بنتا جارہا تھا۔ اور اب کچھ دنوں سے وہ ڈرنے بھی لگا تھا۔ اکثر رات کو چیخ مار کر اُٹھ جاتا۔ اسماء نے بلال کو اپنے ساتھ سلانا شروع کردیا تھا۔ ماں کے ساتھ تو وہ ٹھیک رہتا۔ مگر جب بلال اپنے کمرے میں سوتا، چیخ مار کر اُٹھ جاتا۔


یہ بات مزید پریشان کن تھی۔ اسماء کی کوئی جاننے والی کسی بزرگ کے پاس لے گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید بچے کو کسی کی نظر کھائے جارہی ہے اور اس کے اثرات پورے گھر میں اپنی جگہ بناچکے ہیں۔ تمام حالات بھی یہی اشارہ دے رہے تھے۔ یہ باتیں سن کر اسماء کا کلیجہ منہ کو آگیا۔ وہ اپنے گھر جانے کے بجائے سیدھی اپنے میکے پہنچ گئی۔
عدیل مرزا نے تمام صورتحال اپنے دیرینہ دوست اور بزنس پارٹنر حسن کے گوش گزار کی اور چاہا کہ جلد از جلد اتنی ہی رقم میں کسی اور فلیٹ یا مکان کا بندوبست ہوجائے۔
شفٹ ہونے کے لیے فلیٹ کا مناسب داموں بکنا بہت ضروری تھا۔ جس کے لیے جلد سے جلد ایک ایسی پارٹی کی تلاش بھی کرنا تھی جو اسے اچھے داموں خریدلے۔ حسن کے علم میں تھا کہ ایک فیملی کراچی شفٹ ہورہی تھی۔ انہیں مکان کی ضرورت تھی۔ لہٰذا فوراً ہی اس نے ان لوگوں سے رابطہ کیا۔
وہ ایک درمیانی عمر کے خوش اخلاق انسان تھے۔
عدیل مرزا خود بھی ایک صاف گو اور صاف دل انسان تھے۔ انہیں بات اچھی نہ لگی کہ کوئی بات چھپائی جائے اس لیے انہوں نے فلیٹ بیچنے کی وجہ ان کو بتادی کہ یہاں آنے کے بعد میرے بچوں کا رویہ بہت تبدیل ہو اہے اور وہ آپس میں لڑنے بھی لگے ہیں۔
حسن کا خیال تھا کہ وہ ناراضگی کا اظہار کرکے اُٹھ جائیں گے۔ مگر اس کے برعکس وہ صاحب عدیل مرزا کی بات سن کر ہنس پڑے اور کہا میری یہاں قدم رکھتے ہی اس سے ملاقات ہوگئی ۔ جس نے آپ کو تنگ کر رکھا ہے۔ حسن کا رنگ فق ہوگیا وہ گھبرا کر اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔ اسے گھبراتا دیکھ کر اسے تسلی دی ارے نہیں، وہ ابھی آپ کو کچھ نہیں کہہ گی۔ ان صاحب کی بات سن کر عدیل مرزا بھی پریشان ہوگئے۔


بھئی آپ دونوں میری بات آرام سے سنیں۔ خان صاحب نے دونوں کو زبردستی بٹھاتے ہوئے کہا۔ بس میری ایک بات کا جواب دیجیے۔
آپ جو پوچھیں گے میں سچ سچ بات بتاؤں گا۔ عدیل مرزا خاں صاحب کی باتوں سے خاصے متاثر ہوچکے تھے۔
آپ کے نیچے والی منزل میز نائین فلور ہے، کیا آپ جانتے ہیں وہاں کون رہتا ہے؟
کوئی نہیں، میرا مطلب ہے کہ فلیٹ کے ٹھیکیدار نے میزا نائن میں گودام بنایا ہوا ہے۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ میں گاڑی آتی ہے سامان لانے لے جانے کے لیے۔
بالکل ٹھیک میری مانیے تو کچھ دن آپ فلیٹ بیچنے کا ارادہ ترک کردیجیے۔ اور ویسے مشکل ہے ، لیکن …. خان صاحب نے لیکن پر کچھ دیر توقف کرتے ہوئے کہا اگر ممکن ہو تو فلیٹ کے مالک سے کسی طرح بات کرکے اس گودار کو کہیں اور شفٹ کروادیجیے۔ اگر ایسا ممکن ہے تو…. اس کے علاوہ یہ کمرہ، وہ اُٹھ کر سامنے والے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔
جی جی یہ میرے بچوں کا کمرہ ہے۔ عدیل مرزا نے بھی اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولے۔ کمرہ زیادہ بڑا نہیں تھا، ایک جانب وڈیو گیمز، کمپیوٹر اور ایک پلے اسٹیشن بھی رکھا ہوا تھا، کونے میں اٹیچڈ باتھ تھا اور کھڑکی کے نام پر ایک روشن دان سا تھا جہاں سے ناکافی روشنی اور ہوا اندر آرہی تھی۔ خیر ہوا اور روشنی کا مسئلہ تو پورےفلیٹ میں ہے۔
کیا بچوں کا زیادہ وقت اس کمرے میں گزرتا ہے۔؟ خان صاحب نے سوالیہ انداز میں عدیل مرزا کی جانب دیکھا۔
جی ہاں، بجا فرمایا آپ نے ۔
تو پھر بہتر ہوگا کہ آپ بچوں کا کمرہ یہاں سے مغرب کی سمت بنے اس کمرے میں شفٹ کردیجیے اور ان کے کمرے میں یہ کمپیوٹر اور پلے اسٹیشن مت رکھیے گا۔ بہتر ہوگا آپ اپنے کمرے سے بھی ٹی وی ہٹادیجیے۔ یقین کیجیے گھر میں نظر کے اثرات ختم ہوجائیں گے۔ ان صاحب نے کچھ اور مقامات کی نشاندہی کی کہ کسی بھی طرح یہاں کھڑی یا روشن دان کا اضافہ کیا جائے۔


عدیل مرزا، حیرت اور تجسس میں یہ سب سن رہے تھے۔ تب خان صاحب نے وضاحت کی، کہ جناب ، میں نے بیس سال چین میں گزارے ہیں وہاں رہنے کے دوران سب سے قیمتی چیز جو میں نے سیکھی وہ فینگ شوئی کا علم ہے، میں ایک فینگ شوئی ماسٹر بھی ہوں، فینگ شوئی گھریلو تزئین و آرائش سے زندگی کو خوبصورت بنانے کا علم ہے۔ دراصل آپ کے بچوں کا کمرہ نا موافق سمت میں ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ نیچے بنے گودام کی وجہ سے منفی توانائی ویکیوم ہوتی ہیں۔ یہ منفی توانائیاں حد سے تجاوز کر جائیں تو تخریبی سوچ کو تحریک دیتی ہیں اور تعمیری صلاحیتیں تخریبی بن جاتی ہیں۔ جب کہ کمرے میں ہوا کا بہاؤ بھی غیر مناسب ہے۔ جو حبس گھٹن کا باعث بنتا ہے۔
یہی وہ چڑیل ہے۔ جس نے آپ کے بچوں کو پریشان کیا ہوا ہے، اور اب آہستہ آہستہ پورے گھر میں اپنا قبضہ جما رہی ہے۔ خان صاحب نے مسکراتے ہوئے اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی۔
عدیل مرزا کو کچھ کچھ سمجھ آئی۔ وہ اس فلیٹ میں رُکنے پر تو تیار ہوگئے تھے مگر اس اضافی خرچے کے لیے تیار نہ تھے، لیکن پھر خان صاحب کے اعتماد اور یقین پر اور حسن کے کہنے پر رضا مند ہوگئے۔
ہمارے جاننے والے بتاتے ہیں کہ ایک مہینے میں انہیں گھریلو ماحول اور بچوں کے مزاج میں مثبت تبدیلی کے آثار نظر آنے لگے، اور اب ایک سال گزرچکا ہےعدیل مرزا اس فلیٹ کو بیچنے کا ارادہ بالکل ترک کرچکے ہیں اور وہ سب وہاں خوش ہیں۔

***


دراصل گھر میں بیڈ روم کی جگہ خاص اہمیت رکھتی ہے اور یہ بھی کہ آپ کا بیڈ کس جگہ اور کس سمت میں ہے۔ اگر آپ کے لیے خواب گاہ کی موافق سمت جنوبِ مغرب ہے تو بچوں کے لیے سب سے بہترین اور موافق سمت مغرب کی ہے۔ مشرق کی سمت سوتے ہوئے دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ موافق سمت میں سونے کے دوران طاقتور احساسات پاتے ہیں جبکہ دوسری صورت میں نیند تو آتی ہے لیکن وہ پرسکون نہیں ہوتی۔
زمین کی مقناطیسی فیلڈ فطری نیند میں بڑی معاون ہوتی ہے جو فینگ شوئی کے مطابق سونے سے بہتر طور پر مل جاتی ہے۔ بیڈ کا سرہانا دیوار کی طرف ہو اس سے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔
فینگ شوئی اصولوں کے مطابق یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ آپ کا سر بیڈ روم کے دروازہ کی طرف نہ ہو۔ اس سے شعوری اور لاشعوری طور پر آپ کے اندر بے چینی پیدا ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ آپ کے چہرے کے بالکل سامنے باتھ روم کا دروازہ نہ ہو۔ آئینہ ایسی جگہ نصب ہو جہاں آپ کو اس میں اپنا بیڈ یا اپنا عکس نظر نہ آسکے۔
بیڈ روم کا صرف ایک دروازہ ہونا چاہیے۔ بیڈ روم کا دروازہ سیڑھیوں یا کچن میں نہ کھلتا ہو۔
خواب گاہ کبھی بھی گیراج یا اسٹور روم کے اوپر مت بنوائیے کیونکہ اس حصے میں تخریبی قوت Sha ویکیوم ہوجاتی ہے۔ جو نہایت نقصان دہ ہوتی ہے۔
یہ بات بھی نہایت ضروری ہے کہ آپ کسی شہیتر یا بیم کے عین نیچے نہ سوئیں خصوصاً آپ کا بیڈ شہیتر ، بیم یا گارڈ کے عین نیچے نہ ہو۔
اس مسئلہ کا آسان حل یہ ہے کہ اندرونی چھت پر سیلنگ روف بنوالیجیے۔ جو بازار میں ہلکے پیکنگ کے بلاک کی شکل میں مل جاتی ہے۔ اس طرح کمرے کا جمالیاتی حسن بھی نکھرے گا۔ سرہانے پر خوبصورت رنگ کی پینٹنگ لگائیے اس سے لطیف تحریکات بڑھ جائیں گے۔ خواب گاہ میں دیگر کمروں کی طرح گرد یا دھول نہیں ہونی چاہیے۔ یہ چی کی توانائی کو ضائع کردیتی ہے۔
بیڈ زمین سے دو تا ڈھائی فٹ اونچا ہو تو نیند زیادہ پرسکون اور آرام دہ آتی ہے۔

(جاری ہے)

 

 

یہ بھی دیکھیں

فینگ شوئی اور آپ کا کاروبار – 12

قسط نمبر  12   فینگ شوئی اور آپ کا کاروبار کاروبار کی کئی اقسام ہیں۔ ...

ریفلیکسولوجی – 4

ستمبر 2019ء –  قسط نمبر 4 پچھلے باب میں ہم نے انسانی جسم کے برقی ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *