آپ کی شخصیت کا رنگ کیا ہے….؟
آپ کی کامیابی کس رنگ سے وابستہ ہے….؟
کون سا رنگ آپ کے موڈ کو خوش گوار بناسکتا ہے….؟
آپ کے تعلقات کس رنگ کی وجہ سے بہتر یا خراب ہوسکتے ہیں ….؟
یہ اور اس موضوع پر بہت کچھ روحانی ڈائجسٹ میں نئے سلسلہ وار مضمون کلر سائیکلوجی میں زندگی پر رنگوں کے اثرات کے بارے میں جانیے اور صحت ، حسن ، خوشیوں اور کامیابیوں کی طرف قدم بڑھائیے
قسط 7
رشتوں اور تعلقات پر رنگوں کے اثرات
‘‘ہائے میرا فیورٹ چاکلیٹ کیک’’ ماہا ندیدوں کی طرح کیک کی جانب لپکی۔مگر سیمی نے بھی بڑی سرعت سے سجے سجائے کیک کو ایک طرف کرکےبچالیا۔ ‘‘انسان روشنیوں کا مجموعہ ہے اور ان روشنیوں کا مظہر رنگوں کی صورت میں ہوتا ہے ۔ یہی روشنیاں انسان کے مادی جسم کو فیڈ کرتی ہیں ’’۔
‘‘خبردار !’’اس نے پولیس کی طرح آرڈر دیا۔
‘‘دِس فار سم ون اسپیشل’’۔وہ کچھ اترا کر بولی ۔
‘‘اہ ہو ہوہ….دِس فار سم ون اسپیشل ’’ ماہا نے منہ بنا کر نقل اتاری ۔‘‘جیسے ہم تو کچھ ہیں ہی نہیں۔ جاؤ نہیں کھاتے آپ کا یہ فضول سا ہوم میڈ کیک ’’۔ ماہا وہاں سے اٹھ ہی گئی گو کہ ا ُس کا دل کیک پر جمی بلیک چاکلیٹ کی تہہ دیکھ کر تڑپے جاررہا تھا ۔مگر کیا کرتی ….؟ سیمی باجی کے ہاتھ سے کچھ چھیننا شیر کی کچھار میں ہاتھ دینا تھا۔
سیمی پر ا س کی ناراضگی کا کوئی اثر نہ ہوا، ا س نے بڑے آرام سے فریج کھول کر کیک اندر رکھا اور دروازہ لاک کر کے ہاتھ میں چابی گھماتی اندر چلی گئی۔ آخر ا س نے یہ کیک اپنے منگیتر کے لئے بنایا تھا۔جو رات کو اپنے امی ابو کے ساتھ ڈنر پر آرہا تھا۔
فراز نے حال ہی میں مینجمنٹ کی ڈگری امتیازی پوزیشن سے حاصل کی تھی ۔اس اعزا ز میں سیمی کے گھر والوں نے ا س کی دعوت رکھی تھی۔ وہ ان کا ہونے والا داماد بعد میں فرسٹ کزن پہلے تھا۔ سگاچچازاد تھا۔
وہ تھوڑی دیر کے لئے آرام کر نے لیٹ گئی تھی۔ آج ا س نے صبح سے نوکروں کی شامت لی ہو ئی وہ تھی ۔کھانا تو خود ہی بنایاتھا۔مہمان ہی اتنا خاص تھا
‘‘اسی عید پر آپ پرائی ہوجائیں گی اور ا س کمرے پر صرف میرا قبضہ ہوگا۔’’ شہزادی ماہا ملک ہاہا یہ کہتے سناتے ہوئے ماہا پورے بیڈپر پھیل کر لیٹ گئی تھی ۔ اور سیمی کے دل کی دھڑکن معمول سے تھوڑا بڑھ گئی تھی ۔
کتنی ساری ڈشز بنالیں تھیں ا س نے فراز کی پسند کا چائینیز، اس کی پسند کا چاکلیٹ فج جو ا س نے ایک آنٹی سے کلاسس لے کر بڑی مشکل سے سیکھا تھا۔تین دفعہ تو بہت خراب بنا تھا۔ لیکن بے چاری ماہا نے بڑے شوق سے وہ بھی کھایاتھا۔اسے یہ سوچتے ہوئے ہنسی آگئی ۔اور چھوٹی بہن پر پیار بھی۔بس ذائقے میں کوئی بھی نقص نہ نکلے ۔کوئی بھی کمی نہ ہو۔ خیالوں خیالوں میں اس نے ساری ٹیبل کی ارینجمنٹکر لی تھی ۔
‘‘مگر سوٹ کیا پہنوں گی ۔ہائے ’’
وہ جھٹکے سے اٹھ گئی ۔
اس نے الماری میں ٹنگے سارے جوڑے ایک ایک کر کے باہر نکال لئے تھے ۔‘‘یہ تو مجھے سب سے پہلے سوچنا تھا’’۔ کافی مغز کھپائی کے بعد آخرکار وہ دو سوٹ سلیکٹ کر نے میں کامیاب ہوئی تھی ۔ایک ہلکا پستئی کلر کا تھا۔جس پر بہت سادہ مگر ایکپنِسولیس لگی ہوئی تھی ۔اور دوسرا لائیٹ بلیو اور گرے کا کمبینیشن اس کے دوپٹے پر ہلکا سا بنارسی ٹچ تھا۔فراز کو لائیٹ کلر بہت پسند تھے ۔ اس لئے یہ تو کوئی پرابلم ہی نہیں تھی کہ فراز کو یہ سوٹ اچھے لگیں گے۔ وہ تو بس بار بار آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر سوٹ لگا لگا کر خود کو دیکھ رہی تھی ۔کہ وہ کس میں زیادہ حسین لگ رہی ہے اور پھر ا س نے پستئی کلر کا سوٹ فائنل کر لیا۔ساتھ میں رئیل پرل کے ٹاپس اور ایک ریئل پرل کا بریس لیٹ ۔
وہ خود بھی تو ایسی ہی تھی حساس ،خوابوں اور دعاؤں پر یقین رکھنے والی ۔کسی جھیل کی مانند خاموش اور گہری سیمی ملک ۔
ماہا کا چونکہ فریج لوک کر نے پر موڈ آف تھا، اس لئے وہ امی کے پا س تھی ۔اسے پتا تھا وہ کمرے میں نہیں آئے گی ۔وہ تیار ہوکر کمرے سے باہر نکلی ۔
امی نے ا سے ایک نظر اوپر سے نیچے تک دیکھا۔اس کا رنگ گلابی تھا ۔وہ بغیر میک اپ کے بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
‘‘ارے بیٹا تھوڑا سا میک اپ کر لیتی ۔کوئی شوخ کلر نہیں تھا ۔اور یہ اتنے چھوٹے چھوٹے ٹاپس’’۔
‘‘امی سب صحیح تو ہے اور آپ کو پتا ہے کہ میرے پاس صرف ٹاپس ہیں ۔ویسے بھی یہ لٹکتے ہوئے بُندے جھمکے مجھے زرا نہیں پسند ’’۔
‘‘امی آپ کو تو پتاہے باجی کا میک اپ تو گلوس سے شرو ع ہوکر گلوس پر ختم ہوجا تا ہے’’۔ماہا چوڑیاں کھنکھناتی ہوئی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔ کہنیوں کو چھوتی کانچ کی ملٹی کلر چوڑیاں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں ۔
‘‘اف لڑکی کم سے کم اپنی چوڑیا ں تو کم کرو اورخبردار جو میک اپ کیا ’’۔ امی نے ٹوکا۔
ماہا امی کو ناراض دیکھ کر چپکے سے واپس کھسک لی۔
اتنے میں باہر گاڑیوں کے رکنے کی آوازیں آنے لگیں ۔‘‘آگئے وہ لوگ ’’۔امی سیمی کو گھورتی ریسیو کرنے باہر چلی گئیں تھیں اور سیمی منہ بنائے خود کو آئینے میں ایک بار پھر دیکھ رہی تھی ۔‘‘صحیح تو ہے سب کچھ فراز کو بھی سوفٹ اینڈ ڈیسنٹ پسندہے’’۔
اس نے بڑے اعتماد بڑی نفاست اور قرینے سے سجی ہوئی کھانے کی ٹیبل پر نگاہیں دوڑائیں اور پھر مہانوں کی جانب بڑھ گئی ۔
فراز نے براؤن پینٹ پرپرپل کلر کی شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔ہاتھ میں گولڈ کی لیٹسٹ برانڈڈ رسٹ واچ اور بہت تیز برانڈڈ پرفیوم۔
وہ بہت بول رہاتھا۔باتوں میں پتا چلا ہوسٹل میں اس کے ایک دوست سے ہائکنگ بھی سیکھی۔ چھٹیوںمیں نہ آنے کی وجہ بھی یہی تھی وہ اپنے چائینیز دوست کے ساتھ نانگا پربت کی سیر کو نکلاہواتھا۔
‘‘لیکن تمہیں تو بینک کی جاب آفر ہوئی تھی’’۔ ‘‘تایا جان بہت بورنگ تھی وہ ۔سارادن اکاؤنٹس …. کلائینٹ ۔ آ پ توجانتے ہیں مینجمنٹ میں ماسٹرز پپا کی فرمائیش تھی’’ ۔
سیمی کے لئے یہ ایک سرپرائیز تھا۔
‘‘تو پھر ….؟’’ابو کے لئے سوالیہ نشان تھا
‘‘ تو پھر تایا ابو میں نے اپنے چائینیز فرینڈ کے ساتھ ایک ٹریول ایجنسی کھولی ہے۔ جو فارن ٹورسٹ کو نارتھن ایریاز اور چوٹیوں کی سیر کروائے گی ’’۔
‘‘یہ فیلڈ لیٹسٹ بھی ہے اور ا س میں سکوپ بھی بہت ہے ۔اور بہت ایکسائیٹمنٹ بھی ۔’’
‘‘اب دیکھئے میر اتین مہینے کا ٹرن اوور بزنس میں کی گئی انویسٹمنٹ سے تین گنا زیادہ ہے ’’۔فراز کا انداز بہت امپریسو تھا۔
‘‘ایم پریسو ’’۔ابو بولے۔
‘‘میرا تو آپ کے ہاتھ کی نہاری کھانے کا بہت موڈ تھاتائی جان۔خوب مصالحے والی چٹ پٹی سی’’۔فراز ٹیبل پر نظریں دوڑاتے ہوئے بولا تھا۔
‘‘ایسے نہ کہیئے فراز بھائی…. باجی نے ایک ایک ڈش اپنے ہاتھوں سے تیارکی ہے ’’۔
سیمی نے ماہا کو ٹوکا ۔‘‘چپ رہو یوں ابو اور چچا کے سامنے اسے شرم آنے لگی’’ ۔
‘‘چائینیز تو میر افیورٹ ہے’’۔وہ آ ہستہ سے کہہ کر بیٹھ گیا۔
‘‘سیمی کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی شاید اب تعریف کرے کچھ کھانے کے بارے میں’’۔ مگراس نے تو کھایا بھی بہت تھوڑا سا ۔
‘‘سچ تائی جان آپ کے ہاتھ کی بریانی اور نہاری بہت یاد آتی تھی وہ ایک بار پھر بولا’’۔اور امی اس کے صدقے واری ہورہی تھیں ۔‘‘ارے مجھے پتا ہوتا تو میں اپنے ہاتھوں سے بناتی’’۔
وہ جب سے آیاتھابس بولے ہی جارہاتھا اور باقی سب اس کی سن رہے تھے ۔بات بے بات چٹکلے ۔وہ بہت بدل گیاتھا۔سیمی خاموش سی بیٹھی اس کی باتیں انجوئے کر رہی تھی ۔
‘‘ارے یہ چاکلیٹ کیک لو’’ ۔امی نے کیک آگے بڑھایا ….
‘‘نہیں آنٹی…. اس وقت تو بالکل موڈ نہیں ہے۔ میں بس ایک کپ گرین ٹی لوں گا ۔’’
‘‘مگر یہ تو تمہارا فیورٹ ہے ’’۔
‘‘جی وہ تو ہے تائی جان ۔مگر آج کل ڈائیٹنگ چل رہی ہے۔ سوئیٹ تو بالکل کٹ ہے لائف سے آج کل’’۔وہ سیل فون پر مسجز چیک کرتے ہوئے بولا
‘‘تھوڑا سا چکھ لیں ۔سیمی باجی نے اتنے شوق سے آپ کے لئے بنایا ہے ۔اور پتا ہے اس کی تو انھوں نے تین جگہ سے کلاسس بھی لیں ہیں’’ ماہا کے احتجاج پر فراز نے بس اتنا کہا۔
‘‘سم ادر ڈے یار ’’۔کتنا اسٹریٹ فارورڈ اس نے منع کردیا تھا۔
‘‘بائے دی وے سیمی …. تمہیں کہا کس نے تھا کہ تین تین جگہوں سے کلاسس لو۔ وہ بھی صرف ایک کیک کے لئے ۔ٹی وی پر بھی تو اتنے چینلز کھل گئے ہیں ۔ کتنا ٹائم ضائع کیا تم نے’’ ۔وہ اسے سمجھارہا تھا کہ ڈانٹ رہا تھا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔
‘‘ٹائم کی بہت ویلیو ہے ڈئیربہت زیادہ’’۔وہ زور دے کر بولا۔
سیمی چپ سی ہوگئی ۔اسے کچھ کہا ہی نہ گیا۔
‘‘مگر اندر کچھ دھیرے سے ٹوٹ گیا تھا’’۔ا س کی اداسی کو سب نے محسوس کیا۔ سوائے اس کے جسے سب سے پہلے محسوس کرنا چاہئے تھا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کلر سائیکولوجی میں کسی رنگ کے بارے میں بات کرنے کے بجائے یہ کہانی کیسے آگئی ۔
ہماری ایک کلائینٹ نے ہم سے پوچھا تھاکہ رنگوں سے بیماریوں کا علاج تو سمجھ میں آیا۔مگر یہ رنگ کس طرح سے ہمارے رشتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ بھلا میاں بیوی کا تعلق ہو یا بہن بھائی کا یا پھر کوئی پروفیشن وہ کیسے کسی رنگ سے متاثر ہوتے ہیں…. رنگ کیسے تعلقات کو بناتے بگاڑتے ہیں ؟
کلر سائیکولوجی کے اسی خصوصیت کو سمجھانے کیلئے کہ رنگ کس طرح انسانی شخصیت پر اپنا اثر قائم کرتے ہیں یہ کہانی پیش کی گئی ہے ۔ ہماری شخصیت کے سا تھ ماحول میں بھی رنگوں کا عدم توازن کبھی کبھی بہت ہی پیارے میٹھے رشتوں میں بھی کٹھاس ڈال دیتا ہے ۔
جیسے کہ کتاب نظریہ رنگ و نور میں خواجہ شمسالدین عظیمی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
***
اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ
آپ کی شخصیت کا رنگ کیا ہے….؟
اگر آپ صحت کی بہتری کے لیے رنگوں کا مناسب استعمال جاننا چاہتے ہیں۔ یا اپنی صحت اور زندگی میں درپیش مسائل کے لیے کلر سائیکلوجی کے حوالے سے رہنمائی یا مدد چاہتے ہیں تو آپ اپنا مسئلہ )(اپنے نام اور تاریخِ پیدائش کے ساتھ)ہمیں لکھ بھیج سکتے ہیں۔
خط کے لیے ہمارا پتہ ہے۔
کلر سائیکلوجی۔ روحانی ڈائجسٹ۔ ناظم آباد کراچی۔
یا درج ذیل پتے پرای میل کر سکتے ہیں ۔
colourpsychology@gmail.com
مزید رابطے کےلیے ہمارا فیس بُک پیج ہے
facebook.com/colourpsychology
تحریر شاہینہ جمیل
(جاری ہے)
جون 2016ء