Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

صدیوں سے امتیوں کے قلوب میں بسی ہوئی نعتیں!

 

اللہ کے محبوب،نبی آخر، پیغمبرِ اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کا عشق ہر مومن کے دل میں بسا ہے، حضور ﷺ کے صحابہ، اہل بیت، اولیاء اللہ ، علماء اورامت کے قلوب عشق محمدی سے منور و تاباں ہیں۔ عشق کی ایک صفت یہ ہے کہ یہ اظہار بھی چاہتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عشق کا اظہار اشعار کے ذریعے بھی بہت زیادہ کیا گیا ہے۔
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی حمد کو نعت کہا گیا۔ حمدنبی کے لیے نشید اور قصیدہ کی اصطلاحیں بھی مروج رہیہیں۔
نبی رحمت کی شان میں بعض عاشقان رسول کے جذبات کا اظہار امتیوں کے قلوب میں کچھ اس طرح رچ بس گیا کہ صدیاں گزرنے کے باوجود ان گل ہائے عقیدت کی تازگی اور مہک میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اس کی اثر آفرینی میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان اقدس میں کہی گئی بعض نعتوں نے کئی صدیوں سے دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے عاشقان رسول کے دلوں پر مسلسل دستک دی ہے۔ ان نعتوں کی مقبولیت اور محبوبیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ یہ نعتیں کہنے والے شعرا پر بھی امت کی جانب سے رشک اور عقیدتوں کے گل نچھاور کیے جارہے ہیں۔
صدیوں سے امتیوں کے قلوب میں بسی ہوئی ان نعتوں میں شیخ سعدی کی کہی ہوئی نعت بلغ العلا بکمالہ، شیخ شرف الدین بوصیری کا قصیدہ بردہ شریف مولایا صل وسلم دائماً ابداً، عبدالرحمٰن جامی کی نعت تنم فرسودہ جاں پارہ ز ہجراں یا رسول اللہ اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی سے منسوب نعت یا صاحب الجمال و یا سیدالبشر نمایاں ترین ہیں۔

شیخ سعدی:

فارسی زبان کے بہت معتبر اور محترم شاعر دانشمند حکیم صوفی شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی (وفات: 1292ء) کا تعلق سلسلہ سہروردیہ سے ہے ۔ شیخ سعدی حضرت شہاب الدین سہروردی کے مرید تھے۔ شیخ سعدی نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان اقدس میں کئی نعتیں کہی ۔ روایات میں آتا ہے کہ علم و ادب کے شہسوار زبان و بیان پر قدرت رکھنے والے شیخ سعدی شبانہ روز کوششوں کے باوجود اپنی ایک نعتیہ رباعی مکمل نہ کر پا رہے تھے بتایا جاتا ہے کہ ایک رات شیخ سعدی اس رباعی کے آخری مصرعے کے بارے میں سوچتے سوچتے سو گئے۔ دراصل اس رات ان کی نیند ان کے نصیب جگا گئیں۔ شیخ سعدی کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ خواب میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا شرف ملا ۔ حضور نے اپنے امتی سعدی سے فرمایا ، سعدی تم نے جو لکھا ہے وہ سناؤ ۔ شیخ سعدی نے بہت ادب سے عرض کیا ابھی تین مصرعے لکھے ہیں چوتھا مصرع نہیں ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا وہی سناو شیخ سعدی نے عرض کیا

بلغ العلى بكمالہٖ
كشف الدجى بجمالہٖ
حسنت جمیع خصالہ

اتنا عرض کرکے شیخ سعدی خاموش ہو گئے۔ نبیٔکریم نے فرمایا سعدی کہتے کیوں نہیں

صلوا عليہ وآلہٖ

اس طرح یہ مبارک نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔
(بحوالہ: سیر ت النبی بعد از وصال النبی، از عبدالمجید صدیقی ایڈوکیٹ، مطبوعہ فیروز سنز)

شرف الدین بوصیری:

روایت ہے کہ مصر کے علاقے بوصیر کے رہنے والے اور شازلی سلسلہ طریقت سے تعلق کے حامل ایک صوفی شاعر شرف الدین (المتوفی 695ھ) پر جزام کا شدید حملہ ہوا۔ معالج ان کی شفا اور زندگی کے بارے میں پرامید نہ رہے۔ اسی بیماری اور معذوری کے عالم میں صوفی شاعر شرفالدین نے نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں ایک قصیدہ لکھنا شروع کیا۔ ایک رات خواب میں شیخ شرف الدین کو رسول کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ہوئی۔ انہوں نے دیکھا کہ نبی کریم نے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان پر ڈال دی ۔
شیخ شرف الدین خواب میں زیارت کے بعد بیدار ہوئے تو اب ان پر مرض جذام کا کوئی نشان تک نہ تھا وہ مکمل صحت یاب ہوچکے تھے۔ نبی الرحمۃ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان مسیحائی سے انہیں شفا مل گئی تھی۔ عربی زبان میں چادر کو بردہ کہتے ہیں۔ اس مناسبت سے شیخ شرف الدین بوصیری کے اس قصیدے کا نام قصیدہ بردہ شریف مشہور ہوگیا۔

مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَأئِمًا اَبَدًا
عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ کُلِّهِم
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الَْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ
وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَم

شرف الدین بوصیری کا ایک اور کلام مشہور ہے۔

الصُّبْحُ بدَا مِنْ طَلْعَتِہ والليلُ دجا من وفرتہ

عبدالرحمٰن جامی:

عبدالرحمٰن جامی (المتوفی 1492ء) فارسی زبان کے ایک بہت بڑے شاعر، دانش مند اور صوفی تھے۔ عبدالرحمٰن جامی کا تعلق نقش بندی سلسلہ طریقت سے ہے۔ جامی نے تصوف، تعلق باللہ اور دیگر موضوعات پر اسی سے زائد کتابیں لکھیں۔ ان کی نعتیہ شاعری عاشقان رسول کے جذبوں کی ترجمان بن کر دنیا بھر میں مقبول ہوئی۔ عبدالرحمٰن جامی کو عاشق رسول شاعر کہا جاتا ہے۔ عبدالرحمٰن جامی کو حج کی سعادت بھی ملی۔ جامی مکہ مکرمہ گئے۔ حرم کے بعد جامی حجاج کے ساتھ در نبی پر حاضری کے لیے مدینہ منورہ جانے کا پروگرام بنائے ہوئے تھے۔ لیکن مدینہ منورہ نہیں گئے۔ اس حوالے سے کئی روایات مشہور ہیں۔ ان روایات سے جامی کی نعتوں کی دربار رسول میں مقبولیت کا اظہار ہوتاہے۔ جامی نے سرکارِدوعالم کی مدح میں کئی نعتیں کہیں ان میں درج مقبول ہیں

تنم فرسودہ، جاں پارہ ز ہجراں، یا رسول اللہ
دلم پژمردہ، آوارہ ز عصیاں، یا رسول اللہ

گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
بلبل زتو آموختہ شیریں سخنی را

نسیما ! جانب بطحا گزر کن
ز احوالم محمد را خبر کن

عبدالحق محدث دہلوی:

مایہ ناز عالم دین ، صوفی اور محدث شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (1642ء) نے مدارج النبوۃ، جذب القلوب الی دیار المحبوب اور اخبار الاخیار جیسی شاہکار کتب لکھیں ، آپ قادری اور نقشبندی نسبتوں کے حامل ہیں۔ حضرت شیخ نے پیرانِ پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کی تصنیف فتوح الغیب کی شرح بھی لکھی۔ کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت شیخ محدث ؒ روضۂ رسول پر تشریف لے گئے، ایک طویل قصیدۂ حضور نبی کریم ﷺ کے خدمت میں پیش فرمایا۔ روایت ہے کہ محبت اور عقیدت کا یہ والہانہ انداز قبول ہوا اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی زیارت رسول ﷺسے مشرف ہوئے۔
گزشتہ چار صدیوں سے مقبول عربی اور فارسی میں کہی گئی ایک نعتیہ رباعی حضرت شاہ عبدالحق سے منسوب ہے

یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَیَا سَیِّدَالبَشَر
مِن وَّجہِکَ المُنِیرِ لَقَد نُوِّرَ القَمَرُ
لَا یُمکِنِ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہٗ
بعد از خُدا بزرگ تُو ئی قِصّۂ مُختصر

vvv
نبی رحمتؐ کی خدمت اقدس میں عقیدت کے نذرانے پیش کرنے والے لاکھوں کروڑوں مداحوں میں سے کچھ شعرا ایسے ہیں جنہوں نے عشق رسول کا اظہار ایسے اسلوب اور انداز وبیان میں کیا کہ اس کے طفیل ابدی شہرت پائی۔ آج یہ اشعار امت کے ہر فرد کے زبان زد ہیں، ذیل میں ایسے ہی چند نعت گو شعرا کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
فارسی زبان کی وہ نعتیں جو برصغیر پاک و ہند میں آج بھی مقبول ہیں ان میں کی عہد شاہجہان کے حاجی جان محمد قدسی (1646ء) کی مشہور نعت ،

مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

امیرخسرو دہلوی (1325ء) کی نعتیں ،

نمی دانم چہ منزل بود، شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سو رقصِ بسمل بود، شب جائے کہ من بودم
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمعِ محفل بود، شب جائے کہ من بودم

اے چہرہ زیبائے تو رشکِ بتانِ آذری
ہر چند وصفت می کنم در حسنِ زاں زیبا تری

ز حالِ مسکيں مکن تغافل دُرائے نيناں بنائے بتياں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتياں

امتیوں کے قلبی سکون کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
حضورِ ﷺ کی تعریف دنیا کی کئی زبانوں میں مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے شعراء نے بذریعہ نعت کی ۔ اردو زبان پر چونکہ عربی اور فارسی زبانوں کا گہرا اثر رہا ہے، اردو زبان سے تعلق رکھنے والے شعراء کرام نے عربی اور فارسی زبانوں میں لکھی گئی نعتوں کا نہ صرف اردو ترجمہ کیا بلکہ اس میں نئی جہت کا اضافہ کرتے ہوئے خود بھی نعتیہ اشعار کہے۔ تقسیم برصغیر سے قبل و بعد مختلف شعراء نے حضورﷺ کی شان میں نعتیہ اشعار تحریر کیے، جن میں سے کچھ اشعار صدیاں گزرجانے کے بعد بھی زبان زد عام ہیں۔
اردو نعت گوئی میں ایک بہت بڑا نام حضرت احمد رضا خان بریلویؒ (1921ٰ)کا ہے، آپ کا مشہور زمانہ سلام پاک و ہند کے گوشے گوشے میں سنائی دیتا ہے۔

مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام​
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام​
اعلیٰ حضرت کی دیگر مقبول نعتیں یہ ہیں
سب سے اَولٰی و اعلٰی ہمارا نبی
حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
لم یات نظیرک فی نظر مثل تو نہ شد پیدا جانا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
زمین و زماں تمہارے لیے، مکین و مکاں تمہارے لیے
یا الہی ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑ انور کا
کعبہ کے بدر الدجی تم پہ کروڑوں درود

حسن رضا خان (1908)، امام احمد رضا ؒکے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ نعیتہ کلام کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔

دل میں ہو یاد تری گوشئہ تنہائی ہو
ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا
یوسف کو ترا طالبِ دیدار بنایا
عاصیوں کو در تمہارا مل گیا
روز محشر وہ گنہگاروں کا شافع ہوا ہے
سیرِ گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر

فرزندِ اعلیٰ حضرت، مصطفیٰ رضا نوری کی نعتیں

تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ
حبیبِ خدا کا نظارا کرو ں میں

امیر مینائی (1900ء)نے نعت میں واقعہ نگاری، اہل زبان کی فصاحت، محاورات کے لطف کے ساتھ خاص ترنم و بحر کی موزونیت اور عشق وارفتگی کے ساتھ مدحت رسول کا نمونہ پیش کیا ہے، مثال کے طور پر :

خلق کے سرور، شافع محشر، صلی اللہ علیہ وسلم
مرسل داور، خاص پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم

سید محمد محسن کاکوروی (1905ء)اُردو کے اوّلین عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری کا موضوع صرف نعت ہے، انہیں حسانِ وقت کا لقب دیا گیا، مشہور زمانہ قصیدۂ لامیہ آپ کی شہرت کا باعث ہے۔

سخن کو رتبہ ملا ہے مری زباں کیلئے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کیلئے

اردوشاعری میں نعت کے جدید دور کا آغاز شمس العلماء الطاف حسین حالیؔ (1914ء)سے ہوتا ہے ، ان کی شہرۂ آفاق مسدس کے یہ اشعار محافلِ نعت میں بہت اہتمام سے پڑھے جاتے ہیں:

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

عظیم شاعر علامہ اقبال (1938ء) نے ہر چند کہ رسمی معنوں میں نعت نہیں کہی تاہم عشقِ نبیﷺ سے منوّر ان کے اشعار بہت مقبول ہیں۔

وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں و ہی ا ول وہی اخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی طہٰ وہی یٰس
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رُسول، عشق خدا کا کلام
کی محمد سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیر ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ؐ سے اجالا کر دے

علامہ اقبال کی ایک رباعی جو انہوں روایت کےمطانق ڈیرہ غازی خان کے ایک اسکول ماسٹر رمضان عطائی کو بخش دی تھی، اس میں رسول اللہ سے ان کی شدید عقیدت جھلکتی ہے۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر

ورحسابم را تو بینی ناگزیر
از نگا ہ مصطفےؐ پنہاں بگیر

حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ (1937ء) کا شمار نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے،

سُحان اللہ مَا اجْمَلَکَ مَا اَحْسَنَکَ مَا اَکمَلَکَ
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں

ظفر علی خان (1956ء)کے مدحت رسول پر مشتمل اشعار بھی دلوں کی دنیا بدلنے اورمحبت وعقیدت کا انمول اور بیش بہا نمونہ عطا کرتے ہیں:

وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں

پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری (1982)نے اپنی تصنیف شاہنامہ اسلام میں رسولﷺ کو محبت بھرے انداز میں سلام پیش کیا

سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخر موجودات فخر نوعِ انسانی

اکبر وارثی (1952ء) اردو وبان کے ممتاز نعت گو شاعر رہے۔ان کی نعتیں سلاست، روانی، سادگی اور شیرنی میں آپ اپنی مثال ہیں۔ آپ کا نعتیہ کلام میلاد اکبر بہت مقبول ہوا جس میں شامل حمد اور نعت

تجھے ڈھونڈتا تھا میں چار سو تری شان جل جلالہ
ہر درد کی دوا ہے صلَ علیٰ محمد
محمد مصطفیٰ صل علی کی آج محفل ہے
ختم الانبیا حق کا پیارا نبی
سارے نبیوں سے افضل ہمارا نبی

آپ کے پیش کردہ سلام کو بہت زیادہ مقبولیت ملی

یا نبی سلام علیک یا رسول سلام علیک یاحبیب سلام علیک صلوات اللہ علیک

بیدم شاہ وارثی (1936ء) حاجی وارث علی شاہ کے مرید تھے، آپ کی نعت میں والہانہ عشق ملتاہے

بے خود کیے دیتے ہیں انداز حجابانہ
مرا دل اور مری جان مدینے والے
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول

بہزاد لکھنوی (1974ء) کو نعت گو شعراء میں نمایاں مقام حاصل ہے، ان کی مقبول نعت ہیں

مدینہ کو جائیں یہ جی چاہتا ہے
مقدر جگائیں یہ جی چاہتا ہے
پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
درخیر الوری کی آرزو ہے

راجھستان کے شاعر عالمگیر کیف ٹونکی (1860-1940) کا نعتیہ کلام اپنے وقت میں جتنا مقبول تھا اتنا ہی مقبول آج بھی ہے

در نبی پہ پڑا رہوں گا، پڑے ہی رہنے سے کام ہو گا

قیامِ پاکستان کے بعد ماہر القادری،صہبا اختر،راز الہ آبادی،مظفر وارثی،ادیب رائے پُوری،قمر انجم ،ریاض سہروردی اور پروفیسر اقبال عظیم نے بہترین نعتیں کہیں۔ان نعتوں میں جناب قمر الدین انجم کی نعت

یا حبیبی مرحباجدالحسینی مرحبا یا نُور العینی مرحبا

اور جناب پروفیسر اقبال عظیم کی نعت

فاصلوں کو تکلف ہےہم سے اگر

کو بے پناہ مقبولیت ملی۔
قمر انجم (1999 ) کی دیگر نعت ہیں

جبیں میری ہو سنگ در تمہارا یا رسول اللہ
سینہ ہستی روشن روشن کاہکشاں ہے جگمگ جگمگ

اقبال عظیم (1913ء تا 2000ء) بینائی سے محروم محقق، ادیب ، شاعرتھے۔ ان کی دیگر نعت یہ ہیں

مدینے کاسفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
ہر وقت تصور میں مدینے کی گلی ہے

جہاں روضئہ پاک خیر الوریٰ ہے
وہ جنت نہیں ہے، تو پھر اور کیا ہے


سوز دل چاہیے چشم نم چاہیے

اور شوق طلب معتبر چاہیے

کیا خبر کیا سزا مجھے ملتی،

میرے آقا عزت بچا لی

کھلا ہے سبھی کے لیے باب رحمت

وہاں کوئی رتبے میں ادنیٰ نہ عالی

میں سو جائوں یا مصطفی کہتے کہتے


شکیل بدایونی (1971ء) یوں تو نغمہ نگار ہیں لیکن ان کی لکھی یہ نعت بہت مقبول ہوئی

نہ کلیم کا تصور نہ خیال طورسینا
میری آرزو محمد میری جستجو مدینہ

ہے دل میں جلوہ ءِ تابان مصطفی

معروف اردو شاعر، نغمہ نگار تنویر نقوی
(1919ء تا 1972ء) کی لکھی گئی نعت

شاہِ مدینہ! یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی

بے حد مقبول ہوئی ، تنویر نقوی نے سعدی کی نعتیہ رباعی بلغ العلیٰ بکمالہِ کی زمین پر بھی نعت لکھی

جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
تو جہاں تھا خواب و خیال ہی
صلّو علیہ و آلہ

اردو کے نامور شاعر، صحافی، محقق اور نقاد ماہر القادی (1907ء – 1978ء) نے بھی تعتیں لکھیں

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
نعت. کہاں میں ، کہاں مدحِ ذاتِ گرامی
نہ سعدی، نہ رومی، نہ قدسی نہ جامی
رسول مجتبیﷺ کہیے، محمد مصطفیﷺ کہیے
خدا کے بعد بس وہ ہیں، پھر اس کے بعد کیا کہیے

معروف شاعر مظفر وارثی (2001ء) کو حمد و نعت میں لفظوں کے چناؤ اور ادائی پر ملکہ حاصل تھا

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے، وُہی خُدا ہے
اے خدا اے خدا جس نے کی جستجو
مرا پیمبر عظیم تر ہے ….
میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے

الہام جامہ ہے ترا قرآن امامہ ہے ترا
منبر ترا عرش بریں، یا رحمۃ للعالمین

تو امیر حرم، میں فقیرعجم
تیرے گن اور یہ لب، میں طلب ہی طلب

تو عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا
تو کجا من کجا ، تو کجا من کجا

فدا خالدی دہلی (1923ء تا 2001)

شہِ دیں کی طلب میں زندگی محسوس ہوتی ہے
جہاں تک دیکھتا ہوں روششنی محسوس ہوتی ہے
اللہ غنی رتبہ عالی شہِ دیں کا
ہے عرشِ مُعلیّ پہ قدم خاک نشیں کا

فدا خالدی کے شاگردوں میں ادیب رائے پوری، معراج جامی، صبیح رحمانی جیسے نعت خواں شامل ہیں۔
ادیب رائے پوری (1928ء تا 2004ء) پاکستان کے ممتاز نعت گو شاعر اور محقق ہیں، ادیب رائے پوری کی لکھی کئی نعتیں بہت مقبول ہوئیں۔

یا محمد نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی
تصویر کمالِ محبت تنویرِ جمال خدائی

خیر البشر پر لاکھوں سلام
لاکھوں درود اور لاکھوں سلام

تیرے ذکر سے میری آبرو،تیری شان جل جلالہ
تو میرے کلام کا رنگ و بو، تیری شان جل جلالہ

عشق کے رنگ میں رَنگ جائیں جب اَفکار،
تو کُھلتے ہیں غلاموں پہ وہ اَسرار کہ رَہتے ہیں وہ

توَصیف و ثنائے شَہہِ ابرار میں ہر لحظہ گُہر بار

کوئی گفتگو ہو لب پر، تیرا نام آ گیا ہے
تیری مدح کرتے کرتے، یہ مقام آ گیا ہے

حفیظ تائب (1931ٰء تا 2004) ایک عہدساز نعت گو تھے۔ اردو وپنجابی نعت نویسی میں ان کا منفرد انداز تھا، آپ نے نعتیہ شاعری پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

دے تبسم کی خیرات ماحول کو،
ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
پاک محمدؐ جگ دا والی نسلوں اچاّ‘ وصفوں عالی
دلوں کی تہہ میں پوشیدہ محبت دیکھنے والا
وہ محبوبِ خدا ! جذبوں کی وسعت دیکھنے والا
قدموں میں شہنشاہ دو عالم کے پڑا ہوں
میں ذرہ نا چیز ہوں یا بخت رسا ہوں

سید صبیح الدین رحمانی کی لکھی ہوئیں حمد و نعت میں والہانہ پن اور وجد کی کیفیت کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔ اُن کی مشہور حمد اور نعتوں میں،

کعبے کی رونق کعبے کا منظراللہ اکبر اللہ اکبر
حضور ایسا کوئی انتظام ہوجائے
لب پہ نعت پاک کا نغمہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

معروف نعت خواں فصیح الدین سہروردی کے والد ریاض سہروردی (وفات 2001ء )کی تحریر کی گئی نعتیں بھی ایک خاص مقام رکھتی ہیں، جن میں

فیض اُن کے عام ہوگئے-دو جہاں غلام ہوگئے
ان کے جو غلام ہوگئے-وقت کے امام ہوگئے
سوئے طیبہ جانے والے، یہ مدینہ ہے یہاں آہستہ چل
اے عشق نبی میرے دل میں بھی سما جانا
مجھ کو بھی محمد کا دیوانہ بنا جانا
وہ رنگ جو رومی پر جامی پہ چڑھایا تھا
اس رنگ کی کچھ رنگت مجھ پہ بھی چڑھا جانا

اور دیگرنعتوں نے کافی مقبولیت حاصل کی۔
محمد علی ظہوری (1999) کی پڑھی ہوئی بہت سی نعتیں آج بھی بہت محبت سے سنی جاتی ہیں

یا رسول اللہ تیرے در کی فضاوں کو سلام
جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئے
یوں تو سارے نبی محترم ہیں
سرور انبیا تیری کیا بات ہے

خالد محمود خالد (1941 ۔2018 ) کی لکھی نعتیں برسوں سے نعت خوانوں کی زبانوں پر سجی ہوئی ہیں

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا ، نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
دل ٹھکانہ مرے حضور کا ہے
دو عالم کے آقا سلام علیکم

اردو پنجابی زبان کے ممتاز شاعر، نغمہ نگار اور صحافی طفیل ہوشیارپوری ( 1914 -1993) لکھتے ہیں

یا رب خلوصِ شوق کو اتنی رسائی دے
دل کے حرم میں شہرِ مدینہ دکھائی دے

سید ناصر حسین چشتی (1954ء تا 2009ء) اردو و پنجابی کے اپنے دور کا باکمال شاعر تھے

زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا
محمد کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا

شاعر لکھنوی (1917 ۔ 1989)

عجب ہے کیف عجب ہے خمار آنکھوں میں
کوئی کیا بتائے کہ چیز کیا یہ گداز عشق رسول ہے

صبا اکبر آبادی(1908 ۔ 1991)

حبیب رب العلا محمد شفیع روز جزا محمد
دارالاماں یہی ہے حریم خدا کے بعد

شاہ انصار حُسین اِلٰہ آبادی (1915-2007)

بے خبر مخبر صادق کی خبر رکھتے ہیں
ذکر مجھ سے ہوگیا مدینے کا

منیر قصوری (1947ء، 2018)

مدینہ کی بہاروں سے سکونِ قلب مِلتا ہے
میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں
میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

عبدالستار نیازی ( 1938 – 2002)

خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی
محبوب کی محفل کو محبوب سجاتے ہیں
دلوں کے گلشن مہک رہے ہیں
کرم کے بادل برس رہے ہیں
بن کے خیر الوری آگئے مصطفی
ہم گنہ گاروں کی بہتری کے لیے
اللہ دے حبیب نال پیار ہونا چاہی دا
مٹھیاں مٹھیاں بولیاں مٹھڑے ڈھول دیا
جلوہ خدا کا جلوہ خیرالبشر میں ہے
جب وہ اذنِ سوال دیتے ہیں

کوثر بریلوی (1938 تا2016ء) کی اس نعت نے دنیا بھر کے نعت گو شعرا میں انہیں پہچان عطا کی:

جتنا دیا سرکار نے مجھ کو اتنی مری اوقات نہیں
یہ تو کرم ہے ان کا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں

شاعر، محقق، نقاد پروفیسر جعفر بلوچ ( 1947 – 2008 ) نعت گوئی میں تخصیص رکھتے تھے

دل کا درد لبوں تک آئے تو میں نعت کہوں
ہر دھڑکن مصرع بن جائے تو میں نعت کہوں
پو پھٹی دیدہ و دل منور ہوئے
آپ آئے تو سب نقش اجاگر ہوئے

عبد الروف روفی نے دف کے ساتھ نعت خوانی متعارف کرائی اور قصیدہ بردہ شریف اور شاہِ مدینہ کو نہایت خوبصور تی سے عربی سازوں کا پر پیش کرکے عاشقانِ نعت کے دلوں میں گھر کر لیا ۔ان کی بعض نعت بھی بے حد مقبول ہوئیں مثلاً

میٹھا میٹھا ہے میرے محمد کا نام
سانوں کوجھی ویکھ نہ چھڈ وے
المدینہ چل مدینہ آج نہیں تو کل مدینہ

صائم چشتی (1932 – 2000)

یا محمدﷺ محمدﷺ میں کہتا رہا
نور کے موتیوں کی لڑی بن گئی
نوری محفل پہ چادر تنی نور کی
نور پھیلا ہوا آج کی رات ہے

اویس رضا قادری پاکستان کے مشہور و معروف اور ہر دلعزیز نعت خواں ہیں ۔ اویس رضا کو عربی نعت ‘‘النبی صلوا علیہ’’ پڑھنے سے مقبولیت ملی۔نعت خوانی کےساتھ ساتھ وہ عبید رضا کے تخلص سے نعت لکھتے بھی ہیں۔ انہوں نے امام احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری کو دلبرانہ انداز سے پیش کیا ، ان کی مقبول نعتیں یہ ہیں

پھر کرم ہوگیا میں مدینے چلا
چاروں طرف نور چھایا آقا کا میلاد آیا
میں سو جاوں یا مصطفی کہتے کہتے
جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں
پیغام صبا لائی ہے گلزارِ نبی سے
آیا ہے بُلاوا مجھے دربارِ نبی سے
کیونکر نہ میرے دل میں ہو الفت رسول کی

دعوتِ اسلامی کے بانی حضرت الیاس قادری کی کہی ہوئی نعتیں مقبول ہوئی ہیں۔

اے کاش تصور میں مدینے کی گلی ہو
مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے
تاجدار حرم اے شہنشاہ دیں
اے صبا مصطفیٰ سے کہہ دینا غم کے مارے سلام کہتے ہیں

بعض نعت گو ایسے بھی گذرے جن کی ایک نعت نے ہی مقبولیت حاصل کرلی جیسے حامد لکھنوی

حقیقت میں وہ لطفِ زندگی پایا نہیں کرتے

وقار احمد صدیقی

ہم بھی مدینے جائیں گے آج نہیں تو کل سہی

حبیب وارثی

سر محفل کرم اتنا مرے سرکار ہو جائے
نگاہیں منتظر رہ جائیں اور دیدار ہو جائے

خلیل صابری خاکی چشتی

نورمجسم سرور عاللم صل اللہ علیہ وسلم

عابد بریلوی

جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ

موجودہ دور میں کئی شعراء کی دیگر نعتیں بہت مقبول ہوئیں البتہ ان میں سے بعض کے شعرا نامعلوم ہیں ۔

ڈالو ڈالو نبی پر پھولوں کے ہار
کرم مانگتا ہوں عطا مانگتا ہوں
الله الله الله لا اله الا هو
حضور آگئے ہیں
مدنی مدینے والے
جو یاد مصطفیٰ سے دل کو بہلایا نہیں کرتے
تاجدار حرم ہو نگاہِ کرم
ہم کو طیبہ میں بلالو شاہ زمانی
یا الہی رحم فرما مصطفیٰ کے واسطے
زہے مقدر حضور حق سے
کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
حسبی ربی جل اللہ
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے

اس مضمون میں حضر ت محمد ﷺ کی شان اقدس میں ہدیہ نعت پیش کرنے والے چند شعراء کا تذکرہ ہوسکا ہے، درحقیقت مدحتِ رسول بیان کرنے والے مرد وخواتین شعراء کی تعداد ان گنت ہے۔ دنیا کی کئی زبانوں میں ہزاروں لاکھوں شعراء نے توصیف نبوی میں کلام پیش کیے ہیں ۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔

 

 

یہ بھی دیکھیں

شبِ معراج

معراج  تاریخ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ جس پر عقل ناقص آج بھی ...

معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر

معراج النبی ۔ فرش سے عرش تک خاتم الانبیاء کا معجزاتی سفر جب میزبانِ حقیقی ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *