سیرت طیبہﷺ – از خواجہ شمس الدین عظیمی
اس وقت کی صورت حال بڑی عجیب ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عالم اسلام اضطراب، بے چینی، پریشانی اور ابتلا میں مبتلا ہے۔ ایسا لگتا ہے کوئی یار و مددگار نہیں ہے۔ اغیار کا تسلط ہے۔ مسلمان قوم دست نگر ہے۔ قرض میں جکڑی ہوئی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ہم علوم میں بھی دوسروں کے محتاج بن گئے ہیں۔ اگر مغرب سے علم نہ آئے تو ہم تہی دست ہیں۔ اس وقت جتنی ٹیکنالوجی ہے وہ سب باہر سے منتقل ہوتی ہے۔
جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں اور اپنے اسلاف کے کارناموں پر غور کرتے ہیں تو وہ ہر جگہ فاتح کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ تاریخ میں ان کا نام ہے، ان کا وقار ہے، ان کی عزت ہے۔ جو پوزیشن آج امریکہ اور یورپ کی ہے اس سے کہیں بڑھ کر کبھی مسلمانوں کی تھی۔ ہمارے علم سے دوسروں نے خوشہ چینی کی ہے۔ یورپ میں جتنی بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں، جتنے بڑے بڑے کالج ہیں، وہ ہمارے اسلاف کی لکھی ہوئی کتابوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ کوئی بھی علم ہو، جغرافیہ کا علم ہو، طب کا علم ہو، آسمانی علوم ہوں، زمینی علوم ہوں، زمین کی پیمائش ہو، جس علم کے بارے میں بھی آپ تاریخ پڑھیں گے آپ کو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ یورپ اندھیرے میں گم تھا۔ انہوں نے عربی کتابوں کے تراجم کئے۔ اپنی لائبریریوں میں ان کو جمع کیا اور اپنی یونیورسٹیوں میں داخل نصاب کر کے انہوں نے علم حاصل کیا۔
محترم دوستو! ہم اس لیے پریشان ہیں، اس لیے بے سکون ہیں کہ ہم نے اپنے اسلاف کے راستوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، مسلمانوں کی اولاد ہیں، مسلمانوں کی نسلیں ہیں لیکن ہمارے اسلاف کے اعمال میں اور ہمارے اعمال میں زمین آسمان کافرق ہے۔
ہمارے اسلاف میں اور ہم میں فرق کیا ہے ؟
یہ ایک بڑا سوال ہے۔ میری سمجھ میں اس کی وجہ یہ آتی ہے کہ ہمارے اسلاف میں اور ہم میں یہ فرق ہے کہ ہمارے اسلاف کے اعمال، افعال اور کردار میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ وابستگی تھی۔ وہ ہم سے بہت زیادہ اللہ اور رسولﷺ کو مانتے تھے۔ ہم بھی مانتے ہیں، الحمدللہ! ہم بھی مواحد ہیں، ہم بھی مسلمان ہیں۔ لیکن ہمارے اندر وہ لگن، تڑپ، تجسس، تحقیق، تفکر اور تلاش نہیں رہی جو ہمارے اسلاف میں تھی۔ ہمارے اسلاف اللہ پر اور اللہ کے رسولﷺ پر ایمان کے مفہوم سے باخبر تھے، ہم ایمان کے مفہوم سے باخبر نہیں ہیں۔ ہمارے اسلاف اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کے حامل تھے، ہم صرف اقرار باللسان میں محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ہمارے اسلاف قول و فعل کے سچے تھے۔ ہمارے اسلاف میں قناعت تھی۔ ہمارے اسلاف میں اس بات کا یقین تھا کہ جو کچھ ہم کھاتے پیتے ہیں، جو کچھ ہم خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ ہم دیتے ہیں، یہ سب اللہ کی طرف سے ہے یعنی اللہ کی قربت کا احساس ہمہ وقت ان کے اندر رہتا تھا۔
اب سوچنا یہ ہے کہ ہم اپنا حال کس طرح بہتربنا سکتے ہیں….. ؟
سیدھی بات ہے کہ اپنے اسلاف کی سیرت، اپنے اسلاف کے معاملات پر غور کریں، ان کے نقش قدم پر چلیں، ان شاء اللہ عروج حاصل ہوجائے گا۔
رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ ہمارے سامنے ہے۔ کوئی بھی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ رسول اللہﷺ کے عفو و درگزر سے ہم واقف نہیں ہیں لیکن پھر گھر گھر میں فساد برپا کیوں ہے، میاں بیوی میں لڑائی ہے، اولاد باپ سے خفا ہے، باپ اولاد سے خفا ہے۔
کہا جاتا ہے جنریشن گیپ آ گیا ہے۔ ہم ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں، ہر آدمی دوسرے کی اصلاح کے لیے کوشاں ہے۔ اپنی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا کوئی آدمی نہیں سوچتا کہ میری بھی اصلاح ہونی چاہئے۔
ہرسال میلاد النبیﷺ منائی جاتی ہے۔ میلادالنبیﷺمنانا بڑی سعادت ہے۔ حضرت محمد ﷺ کی شان اقدس میں نعتیں پیش کی جاتی ہیں۔ ذکر نبی ہوتا ہے اخلاق حسنہ پر تقاریر ہوتی ہیں۔ تزکیۂ نفس کی باتیں ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا ہے، خود محسوس کیا ہے کہ ماحول میں نور کی بارش ہوتی ہے۔ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ حاضرین وجدانی کیفیت میں سرشار ہو جاتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ہم مجلس سے باہر آتے ہیں۔ وہی ہمارے شب و روز ہوتے ہیں۔ ہم ایسے کئی کام شروع کر دیتے ہیں جن سے ہمارے آقاﷺ نے منع فرمایا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ درود شریف ایک ایسی فضیلت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔‘‘اللہ اور اللہ کے فرشتے، ان نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! تم بھی آپﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجو۔ ’’
ہر مسلمان جانتا ہے کہ جب رسول اللہﷺ پر کوئی آدمی درود پڑھتا ہے تو حضور پاکﷺ کو درود پہنچتا ہے۔
اگر ہمیں اس بات کا یقین حاصل ہو جائے کہ ہم نے درود شریف پڑھا ہے۔ رسول اللہﷺ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ اس یقین کے بعد بتایئے کیا ہمارے اندر ایمان پختہ نہیں ہو جائے گا؟ ضرور ہو جائے گا۔ ہم کہتے ہیں اللہ دیکھ رہا ہے۔ اللہ حاضر و ناظر ہے۔ کوئی بھی آدمی جب گناہ کرتا ہے تو وہ اس بات کا اطمینان کر لیتاہے کہ “مجھے کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟”۔ ایک آدمی چوری کرتا ہے۔ اس بات کا اطمینان کر لیتا ہے کہ “مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا ہے۔” جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ کوئی نہیں دیکھ رہا تب وہ چوری کرتا ہے۔
اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ اللہ دیکھ رہاہے تو ہم چوری کیسے کر سکتے ہیں، برائی کس طرح سرزد ہو سکتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ یہ ہمارا صرف زبانی بیان ہے۔ یہ اقرار باللسان ہے۔ تصدیق بالقلب نہیں ہے۔ اگر تصدیق بالقلب ہو جائے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم ہر اس بات سے خود بخود رک جائیں گے جو اللہ کے لیے ناپسندیدہ ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیاہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ راسخ فی العلم ہوتے ہیں یا علم حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے علم میں مستحکم ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ یہاں کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کی طرف سے نہ ہو۔
جینا، مرنا، ہوا کا چلنا، بارش برسنا، دن نکلنا، رات کا ہونا، موسموں کو تبدیل کرنا، ماں کے پیٹ میں طرح طرح کی تصویریں بنانا جوکچھ بھی ہے مِنجانب اللہ ہے۔
حضرت محمد رسول اللہﷺ نے جو کچھ بھی فرمایا ہے وہ تمام پیغمبران علیہم الصلوٰۃ والسلام کے علم اور اس کے پیچھے واحد پیغام اور مقصد کا تسلسل ہے۔ وہ مقصد یا پیغام یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ صرف اور صرف اللہ کی ذات پرستش اور عبادت کے لائق ہے۔ جب انسان اس بات سے واقف ہو جاتا ہے تو اس کی زندگی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اگر انسان اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی ربوبیت اور اللہ کی خالقیت کا پوری طرح ادراک نہیں کرتا تو اس کی زندگی کا مقصد پورا نہیں ہو گا…وہ اس دنیا میں بھی گھاٹے میں رہے گا اور آخرت میں بھی گھاٹے میں رہے گا۔
قرآن کریم اور احادیث پڑھ کر ہمارے اندر تبدیلی کیوں نہیں آتی؟
میں سمجھتا ہوں تبدیلی اس لیے نہیں آتی کہ ہمارے اندر یقین کرنے کی جو ایجنسی ہے۔ ہم نے اس کو بیدار کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی۔
مسلمانوں کے باعزت ہونے کا باوقار ہونے کا اور پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ کو بار بار پڑھیں، اللہ کے محبوبﷺ نے جن باتوں کوپسند کیا ہے وہ باتیں اختیار کر لی جائیں اور جن باتوں سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے ان کو چھوڑ دیا جائے۔
رسول اللہﷺ کے عطا کردہ روحانی علوم کے متلاشی افراد کے لیے ضروری ہے کہ سیرتِطیبہﷺ کو بار بار پڑھیں اور اس بات پر تفکر کریں کہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توحید کا پرچار کرنے اور شرک کو ختم کرنے کے لیے کیسی کیسی تکالیف برداشت کر کے اللہ کےمشن کو عام کیا۔ جب ہم رسول اللہﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پہلی بات ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی تعلیمات کا مکمل نچوڑ رسول اللہﷺ کی سیرت میں موجود ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے خود یہ فرمایا ہے کہ میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو میرے بھائی پیغمبروں نے مجھ سے پہلے بیان کی ہے۔
حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی سیرت طیبہ جب ہم پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا اخلاق کیسا تھا۔ آپ
رسول اللہﷺ نے کس طرح زندگی گزاری، حالات کا کس طرح مقابلہ کیا۔ کس طرح کاروبار کیا۔ ازدواجی زندگی میں حضور پاکﷺ کا کیا کردار رہا؟ اولاد کے ساتھ کیسا سلوک فرمایا؟ پڑوسیوں کے حقوق کس طرح ادا کئے۔
حضور پاکﷺ کا اپنے رشتے داروں کے ساتھ کیسا سلوک تھا؟ اس کے ساتھ آپ ﷺ کے شب و روز کیسےگزرتے تھے….؟
حضورﷺ نے عمل کر کے ہمیں بتایا ہے کہ غصہ نہیں کرنا۔ معاف کرنا ہے۔ عفو و درگزر سے کام لینا ہے۔ ہندہ کا واقعہ آپ کے سامنے ہے۔ کتنی بڑی اذیت اس کی وجہ سے ہوئی ۔
جب ہندہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کر لیا اور اس نے معافی مانگی تو حضور پاکﷺ نے اسے معاف کردیا۔ ہم رسول اللہﷺ کے پیروکار ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں۔ کیا ہم لوگوں کو معاف کرتے ہیں؟ باہر کو چھوڑیئے، گھروں میں دشمنیاں پل رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہﷺؑ کی سیرت طیبہ کے سب پہلو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، کردار سازی کے ان نبوی فارمولوں سے ہم اچھے باپ، رفیق، شوہر، بہن، بھائی، ہمدرد مالک، وفادار ملازم اور اچھے شہری بن سکتے ہیں۔
دنیا میں خیر پر مبنی تمام تصورات ہمیں سیرت طیبہ میں نظر آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے ایک پر امن معاشرے کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔ رسول اللہﷺ سے عشق و محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب بحیثیت امتی، حضورعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی عملی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔