’’عید الاضحی ‘‘ کی آمد کے ساتھ ہی کئی یادیں ، جذبے اور ولولے تازہ ہوجاتے ہیں۔ عشق و وفا کے سرمدی زمزموں کی صدائے بازگشت چہارسُو سنائی دیتی ہے، فرزندانِ اسلام کو اجتماعیت کا سبق یاد دلانے والے حج کے روح پرور اجتماع کا منظر سامنے آجاتاہے۔ راہِ وفا میں فانی دنیا کی محدود آسائشات کوقربان کرنے کا ایمان افروز موسم ہر سمت چھاجاتاہے ، ایثار وقربانی کا احساس نمو پاتاہے ۔
پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدرسول اللہ صلی علیہ وسلم کے جدِ امجد معمارِ حرم حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی پاکباز زندگی کے قدم قدم پر ایمان ویقین کی ان گنت نشانیاں فکر ووجدان کی تاریک راہوں کو روشن کرتی اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئیحرم کا پتا دیتی ہیں۔
اللہ کے نیک بندوں خصوصاً بارگاہِ الٰہی کے مقربین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وہ معاملہ نہیں ہوتا جو عام انسانوں کے ساتھ ہے۔ ان کو امتحان وآزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے بھی گزرنا پڑتاہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی زندگی میں قدم قدم پر تسلیم ورضا کے مناظر ظاہر ہوتے ہیں اور رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے بہترین مثال قائم ہوجاتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ جلیل القدر انبیاء میں شمار ہوتے ہیں ، اسی قانونِ الٰہی کے تحت انہیں بھی مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا اور وہ ہر مرتبہ امتحان میں ثابت قدم رہے۔
جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کوبادشاہ ِوقت نمرود کے حکم پروحدانیت کے پرچار کے جرم میں مہینوں سے دہکتے آتشکدے میں پھینکا گیا تو اس وقت آپ نے جس صبرو استقامت اور تسلیم ورضا کا ثبوت دیا۔ وہ تاریخ انبیاؑء کا انمول اور نادر واقعہ ہے۔
اس کے بعدحضرت ابراہیمؑ کو اپنے شیر خوار بچے اسماعیلؑ اور نیک وصابر اہلیہ ہاجرہؑ کو فاران (مکہ) کے بیابان میں چھوڑ آنے کا حکم ملا۔ وہ بھی کچھ معمولی امتحان نہ تھا۔ سخت ترین آزمائش کا وقت تھا۔ بڑھاپے اور پیری کی تمنائوں کے مزکز، دن رات کی دعائوں کے ثمر اور گھر کے چشم وچراغ اسماعیلؑ کو خدا کے حکم کی تعمیل میں ایک بے آب وگیاہ ودانہ وادی میں چھوڑ آنا اور اس طرح کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ کہیں شفقت پدری غالب آجائے اور حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کوتاہی یا لغزش ہوجائے۔۔۔۔۔ یہ دونوں امتحان ہی کچھ کم نہ تھے کہ جلد ہی تیسرے امتحان کا آغاز ہوگیا۔۔۔۔۔
ان ہی دنوں میں کہ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ اور بیٹے کی خیر خبر لینے کے لیے مکہ مکرمہ آیا کرتے تھے۔ تین شب متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ رب العزت فرماتاہے:
’’اے ابراہیم ؑ! اپنے بیٹے کو ہماری راہ میں قربان کرو‘‘۔
انبیاء کرام علیہم السلام کا خواب بھی وحی الٰہی کا ایک حصہ ہوتاہے ۔ اس لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام رضاوتسلیم کا پیکر بن کر تیار ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ کی اس مرضی (حکم) کو جلد سے جلد پورا کردیں۔ مگر چونکہ کہ معاملہ صرف اپنی ذات سے متعلق نہ تھا بلکہ اس آزمائش میں کم سن بیٹا بھی شریک تھا، اس لیے بیٹے کو اپنا یہ خواب سنایا اور اللہ کی مرضی ( حکم) کو ظاہر کیا ۔ کم سن صاحب زادے نے فوراً سر تسلیم خم کردیا اور کہنے لگے’’ ابا جان! اگر اللہ تعالیٰ کی یہی منشاء (حکم) ہے تو انشاء اللہ آپ مجھے صابروں میں پائیں گے‘‘۔
اس گفتگو کے بعد باپ بیٹے قربانی پیش کرنے کے لیے روانہ ہوگئے۔
بعض تاریخی وتفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ راستے میں شیطان نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی، لیکن ہر مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے کنکریاں مار کر بھگادیا تھا۔ یہ منیٰ کا میدان تھا جو پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔
اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو قیامت تک حج کے مناسک میں داخل فرمادیا۔ ہر سال منیٰ کے تینوںجمرات پر لاکھوں حجاج اسی عمل کی یادگار میں کنکریاں مارتے ہیں۔ بالآخر جب دونوں باپ بیٹے اللہ کے حکم کی ادائیگی کے لیے منیٰ کی قربان گاہ پہنچے تو سیدنا اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا’’ ابا جان ! ذبح کرنے سے پہلے مجھے اچھی طرح باندھ دیجیے تاکہ ذبح کرنے کے عمل میں تاخیر نہ ہونے پائے اور آپ اللہ تعالیٰ کی منشاء(حکم) کی جلد از جلد تعمیل فرمادیں‘‘۔
چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اسی طرح تیاری کی اور بیٹے کو آخری بوسہ دیا اور پیشانی کے بل خاک پر لٹادیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس طرح بیٹے کو لٹاکر گردن پر چھری چلانی شروع کی۔اچانک آواز آئی:
’’اے ابراہیم ؑ! بس کرو تم نے خواب کو سچ کر دکھایا‘‘۔
بے شک یہ بہت سخت آزمائش تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاتھ روک لیا، آسمان کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ حضرت جبرئیل امین ایک فربہ مینڈھا لیے کھڑے ہیں۔
قرآن کریم میں اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے۔
ترجمہ:’’ وہ لڑکا جب دوڑ دھوپ کرنے کی عمر تک پہنچ گیا تو ابراہیم ؑ نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں ، سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے؟ ۔۔۔۔۔وہ بولے، اباجان جو حکم آپ کو دیا گیا ہے، اُسے کرڈالیے، آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے، پھر جب دونوں نے اللہ کا حکم تسلیم کرلیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹادیا تو ہم نے ندا دی کہ تم نے خواب سچ کر دکھایا ، ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں ، حقیقت میں یہ تھا بھی بڑا امتحان ، ہم نے ایک عظیم ذبیحہ فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑالیا اور آنے والی نسلوں میں ان کا ذکرِ خیر چھوڑ ا ، سلام ہو ابراہیم ؑ پر ، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں، بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے‘‘۔(سورۂ الصافات، آیات 102تا111)
اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی اس تاریخ ساز کامیابی کی یادگار کے طور پر وادی ٔ منیٰ میں حجاج کرام اور دنیا بھر میں عام مسلمان ہر سال اس کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے اُتارا گیا ایک مینڈھا ذبح کیا گیا، عید الاضحی میںجانوروں کی قربانی کی یہ روایت بھی اُسی وقت سے چلی آرہی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان 10ذی الحجہ کو عید الاضحی کی نماز کے بعد قربانی کی رسم اداکرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں ہیں۔گویا بھیڑوں ، بکریوں ، گایوں اور اونٹوں کی قربانی اصلاً علامت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اطاعت وفرماں برداری اور تسلیم ورضا، اس پر مداومت اور استقامت اس کی روح ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی پوری شخصیت میں رچی بسی تھی اورآپؑ کی پوری حیاتِ مبارکہ میں جاری وساری رہی۔
ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتاہے اور ایک باطن۔ نماز کا ایک ظاہر ہے یعنی قیام، رکو ع وسجود ، قعدہ ، یہ ایک ظاہری عمل ہے جبکہ اس کا باطن رخ توجہ اور رجوع الیِاﷲ، خشوع وخضوع، بارگاہ رب میں حاضری کا شعور وادراک ، انابت، محبتِ الٰہی نماز کی اصل روح اور جان یہی چیزیں ہیں۔
اسی طرح اس بات کو سمجھ لیجیے کہ جانور کو ذبح کرنا اور قربانی دینا ایک ظاہری عمل ہے۔ اس ظاہری عمل کا ایک باطن بھی ہے اور وہ ہے تقویٰ!۔۔۔۔۔ چنانچہ قرآن حکیم میں قربانی کے عمل کے ساتھ متنبہ کردیا گیا کہ۔۔۔۔۔
ترجمہ: ’’اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت اور ان کا خون ،ہاں اس تک رسائی ہے تمہاری تقویٰ کی‘‘۔(سورۂ حج۔37)
اگر تقویٰ اور روحِ تقویٰ موجود نہیں اگر یہ ارادہ اور عزم نہیں ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں اپنی مالی وجانی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں تو اللہ کے ہاں کیا پہنچے گا؟ یعنی ہمارے نامۂ اعمال میں کس چیز کااندراج ہوگا۔
ہمارے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ ہم سوچیں ، غور کریں کہ کیا واقعتا ہم اللہ کی راہ میں اپنی خواہشات جذبات واحساسات کی قربانی دے سکتے ہیں ؟۔۔۔۔۔ کیا واقعتا ہم اپنی محبوب ترین شے اللہ کی راہ میں قربان کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے ذاتی مفادات کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں قربان کرسکتے ہیں؟ اپنے تعلقات ، اپنے رشتے اور اپنی محبتیں اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی خاطر قربان کرسکتے ہیں؟۔۔۔۔۔ اگر ہم یہ سب کرسکتے ہیں تو عید الاضحی کے موقع پر قربانی بھی نور علیٰ نورہے اورخدانخواستہ ایسا نہیں اور ہم اللہ کی مخلوق یعنی اپنے بھائیوں کے لیے ایثارکا زبانی دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ کرنے کو تیار نہیں توکیا جانوروں کی یہ قربانی بے معنی نہیں ہوگی جس میں ایثار وقربانی کی حقیقی روح موجود نہیں؟۔۔۔۔۔
اس نقطۂ نظر سے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ میری زندگی سنتِ ابراہیمی کے مطابق ہے یا نہیں۔ ہمارے اندر تقویٰ ہے تو جانوروں کی قربانی بھی ہماری زندگی کے ساتھ ایک مطابقت رکھتی ہے۔ قربانی کی اصل روح ہمارے دلوں میںکمزور تو نہیں ہوگئی ہے اور اب اس کی حیثیت بعض کے نزدیک ایک رسم کی ہے اور اکثر کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر ایک قومی تہوار کی؟۔۔۔۔۔ ہر سال لاکھوں کلمہ گو حج کرتے ہیں اور بلامبالغہ پورے کرۂ ارض پر ہر سال عید الاضحی کے موقع پر لاکھوں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے لیکن شایدوہ روح تقویٰ موجود نہیں جس کی رسائی اللہ تک ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عقل وشعور کے ساتھ ہم میں اس بات کی طلب پیدا ہو، ہم متوجہ ہوں اور معلوم کریں کہ روحِ دین کیا ہے۔ روحِ قربانی کیا ہے جس کا ایک نمونہ اور جس کی ایک یاد ہم ہر سال جانوروں کی قربانیوں کی شکل میں مناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی اصل حقیقت کا فہم عطافرمائے اور ہمیں ہمت دے کہ ہم واقعتا اپنے مفادات، اپنے جذبات ، احساسات اور اپنی محبتیں ، ان سب کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر قربانی کرسکیں۔ (آمین)
قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت اس کو قبلہ رُخ لٹائیں اور اس کے بعد یہ دعا پڑھیں:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِی لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ المُشْرِکِیْنَo اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنo لاَشَرِیْک لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ۔
اس کے بعد’’ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہٗ اَکْبَر ‘‘ کہہ کر قربانی کا جانور ذبح کریں۔ (سنن ابوداؤد)
ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھیں:
اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہُ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍؐ وَّ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَا السَّلامُ۔