Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

ماورائی مخلوق سے ملاقات

ماورائی مخلوق سے ملاقات

چند واقعات عقل جس کی توجیہہ پیش کرنے سے قاصر ہے

 

روشنی کا ہیولٰی 

*…. میری والدہ کا انتقال آج سے تقریباً تیس پنتیس برس پہلے ہوا تھا۔ اُس وقت میری عمر نو ساڑھے نو سال تھی۔ میری والدہ بہت نیک اور صابر خاتون تھیں ۔ جو ایک بار اُن سے ملتا ہمیشہ ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتا۔ ہر شخص کے کام آیا کرتی تھیں ۔
میری دادی خاندان کی سب سے سخت مزاج خاتون تھیں۔ اُنہوں نے والدہ پر ہر قسم کے مظالم ڈھائے لیکن دادی جان کی وفات کے بعد کوئی بھی فرد والدہ کے سامنے دادی کی بُرائی بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ دورانِ نماز دنیا سے ایسی بے خبر ہوجاتیں کہ جسم کو چوٹ بھی لگ جائے تو پتہ نہیں چلتا۔ میرا تو یہ یقین ہے کہ میری والدہ اﷲ کی دوست تھیں ۔
جس رات والدہ کا انتقال ہوا میں انہی کے پاس تھا۔ وہ صبح سے ہی مجھ کو گود میں لئے پیار اور اچھی اچھی نصیحتیں کرتی رہیں ۔ میں اتنا چھوٹا تھا کہ موت کا مطلب بھی نہیں جانتا تھا۔ اُس وقت تک میں نے گھر میں کسی کی موت دیکھی ہی نہیں تھی۔ جب میری والدہ کی سانس اُکھڑنے لگی تو میری چچی مجھے کمرے سے باہر لے آئیں۔ مجھے لوگوں کے پریشان چہروں سے گھبراہٹ ہورہی تھی اور ایک تجسس بھی تھا کہ والدہ کس حال میں ہیں۔
انتقال سے کچھ دیر پہلے والدہ نے سب لوگوں سے کہا کہ وہ انہیں اکیلا چھوڑدیں ۔ سب باہر آگئے تو میں نے دروازے کی ایک درز سے اندر جھانکا۔ دیکھا کہ والدہ بستر پر بے سُدھ لیٹی ہوئی ہیں ۔ اچانک ایسا محسوس ہوا کہ ان کے سر کے پاس کسی نے سفید روشنی ڈالی ہو۔ والدہ ایک دَم چونک سی گئیں اور بولیں
‘‘آپ لوگ آگئے؟…. میں کب سے انتظار کر رہی تھی’’….
چند لمحے وہ خاموش رہیں جیسے کچھ سُن رہی ہوں پھر بہت کمزور آواز میں کہنے لگیں
‘‘ہاں ہاں میں کہہ تو رہی ہوں مجھے لےچلو’’….
میں بغور والدہ کو دیکھ رہا تھا۔ کچھ لمحوں کے لئے مجھے محسوس ہوا کہ پورے کمرے میں رنگ برنگی روشنیاں پھیلنے لگی ہیں ۔ پھر ایک بہت خوبصورت آدمی نظر آیا۔ اُس کے کپڑوں اور جسم سے بہت تیز روشنی پھوٹ رہی تھی۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔ جب مجھے ہوش آیا تو چچا اور چچی سمیت گھر کے کئی لوگ مجھ پر جھکے ہوئے تھے۔ مجھے ہوش آگیا تو معلوم ہوا کہ والدہ انتقال کرچکی ہیں اور سارے گھر میں سوگ کا عالم طاری ہے۔ میرے بارے میں اُنہوں نے یہ سمجھا کہ ماں کی جدائی کے غم میں بے ہوش ہوگیا ہے۔ یہ باتیں میں نے کسی کو نہیں بتائی تھیں ۔ اُس وقت بچپن کی عمر تھی اس لئے میرا خیال تھا کہ ایسے مشاہدات شاید سب کو ہوتے ہیں ۔
آج جب وہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو میرے دل میں ماں کی عظمت مزید بڑھ جاتی ہے کہ وہ محض ایک اچھی ماں ہی نہیں بلکہ اﷲ کی برگزیدہ بندی بھی تھیں ۔

جنوں والی مسجد

*…. میری پیدائش بھارت کے شہر بریلی میں تقسیمِ ہند سے پہلے ہوئی۔ بریلی کے نزدیک ایک گاؤں بہیڑی میری جائے پیدائش ہے۔
ہمارے گاؤں میں ایک مسجد تھی جسے جنوں والی مسجد کہا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں یہ بات مشہور تھی کہ اس مسجد میں عشاء کی نماز کے کچھ دیر بعد جب نمازی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں تو وہاں جنات کی نمازِ باجماعت ہوتی ہے۔ اُس مسجد کے صحن میں ایک کنواں بھی تھا اور صحن کی دونوں جانب دروازے تھے۔
ایک رات گاؤں میں بارش ہورہی تھی۔ میری والدہ نے مجھے ایک خوان میں سالن دیا اور کہا کہ پھوپھی کے گھر دے آؤ۔ میں نے چھتری لی اور کھانا لے کر نکل پڑا۔ رات کافی ہوگئی تھی۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں دُبکے بیٹھے تھے۔
میں نے سوچا کہ اگر میں جنوں والی مسجد کے اندر سے ہوکر گزرجاؤں تو پھوپھی کے گھر جلد پہنچ جاؤں گا۔ یہ سوچ کر میں مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ ابھی میں دوسرے دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ اُس کی کنڈی خودبخود چڑھ گئی۔ یہ دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا اور کھانا لے کر اُلٹے پاؤں واپس لوٹا تو پچھلا دروازہ بھی بند ہوچکا تھا۔
مجھے یقین ہوگیا کہ یہ سب جنات کی کارستانی ہے۔ شاید میرے یہاں آنے سے ان کی عبادت میں خلل پڑا ہے اس لئے مجھے سزا دی جارہی ہے۔
میرا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے یہ سوچ کر کہ اگر کوئی جن سامنے آگیا تو میں ڈرجاؤں گا، آنکھیں بند کرلیں اور روتے روتے معافی مانگنے لگا کہ اب میں آپ لوگوں کو پریشان نہیں کروں گا مجھے جانے دیں۔
اُسی وقت مجھے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میں نے پیچھے دیکھے بغیر دروازے سے باہر کی طرف دوڑ لگادی اور گھر پہنچ کر ہی دم لیا۔
یہ واقعہ میری زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔ جنوں والی مسجد میں گاؤں کے چند لوگوں نے اپنی آنکھوں سے جنّات کی نمازِ باجماعت دیکھی ہے۔
میرے والد بھی اس کے عینی گواہ تھے۔ ایک مرتبہ انہیں عشاء کی نماز میں کچھ دیر ہوگئی۔ مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہے۔ وہ جماعت میں شامل ہوگئے۔ جب نماز کے اختتام پر سلام پھیرا تو آس پاس کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

ماورائی مخلوق 

*…. آج سے تقریباً 6 یا 7 سال پہلے کی بات ہے…. ایک رات میں گہری نیند میں سورہا تھا، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ساتھ والی خالی چارپائی پر کوئی بیٹھ گیا ہو۔ چارپائی کے چُرچُرانے کی آواز بھی آئی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر اس طرح کے واقعات تقریباً روزانہ کا معمول بن گئے۔
مجھے ان چیزوں سے زیادہ ڈر محسوس نہیں ہوا۔ بعض اوقات ایسا لگتا کہ قریب ہی کوئی دھیمی آواز میں باتیں کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ میں کمرے میں تنہا رہتا تھا۔ جب زیادہ گھبراہٹ محسوس ہوتی تو میں درود شریف پڑھنے لگتا۔
ایک رات میں سورہا تھا تو ایسا لگا کہ کوئی میرے ساتھ آکر لیٹ گیا ہے۔ میں نے اُٹھنا چاہا تو اُٹھا نہ گیا۔ پھر میں نے اُس ماورائی مخلوق سے باتیں کرنا شروع کردیں ۔ جو مجھے یاد نہیں رہیں۔
میرا ایک دوست میری بات پر یقین نہیں کرتا تھا، اس نے کہا کہ ایک دن میں تمہارے کمرے میں سوؤں گا۔
میری غیرموجودگی میں وہ اس کمرے میں سویا لیکن آدھی رات کو گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگ گیا۔ اُس نے کہا کہ اس گھر میں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔
تین سال پہلے میری شادی ہوگئی۔
میری شادی کے بعد اس طرح کی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی….

 

انگلیوں کے نشان

*…. مجھے یہ واقعہ میری بڑی بہن اکثر سناتی ہیں …. بچپن میں ہم اکثر اس بات کو ہنسی مذاق میں ٹال جاتے تھے لیکن باجی کا یقین ہے کہ یہ واقعہ اِسی طرح پیش آیا…. میری پیدائش سے پہلے ہمارے گھر میں شدید معاشی مشکلات آئیں ۔ بعض دنوں میں تو دو دو وقت کا فاقہ تک کرنا پڑا۔
اُس وقت باجی کی عمر سولہ یا سترہ کے قریب ہوگی۔ کسی نے انہیں دستِ غیب کے حصول کے لئے ایک خاص چلّہ بتایا۔
امی باجی کو اس کی اجازت دینے کے لئے راضی نہیں تھیں ،مگر باجی کی ضد کے آگے انہیں خاموش ہونا پڑا۔ اس چلّہ میں چندروز تک دن میں روزہ رکھنے اور آدھی رات کے بعد خاص ورد اور نوافل پڑھنے کی تاکید کی گئی تھی۔
باجی بتاتی ہیں کہ میں نے اس عمل کو پورا کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ اس عمل کے اختتام پر مجھے آدھی رات کے بعد غسل کرکے حلوہ پکانا تھا۔ پھر حلوہ کو ٹھنڈا کرکے اپنی دائیں ہتھیلی پر رکھ کر دروازہ کھول کر ہاتھ باہر نکالنا تھا۔
عمل کی کامیابی کی نشانی یہ بتائی گئی تھی کہ کوئی ماورائی ہستی آکر اُس حلوہ کو قبول کرے گی۔
میں نے پورا عمل تو کرلیا لیکن آدھی رات کے بعددروازہ کھول کر سنسان گلی میں کسی ماورائی ہستی کا انتظار بہت خوف ناک تصور تھا۔
میں نے حسبِ تاکید آدھی رات کے بعد غسل کیا، حلوہ پکایا اور ٹھنڈا کرکے اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا۔ جب دروازے کے قریب پہنچی تو بہت خوف زدہ تھی۔ امی میرے ساتھ موجود تھیں۔
اُنہوں نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ میں نے خاص وِرد کرنے کے بعد اپنا ہاتھ دروازے سے باہر نکال دیا۔
سخت سردیوں کے دن تھے۔ انسان تو انسان کتّے بلیاں تک اپنے اپنے ٹھکانوں میں دُبکے بیٹھے تھے۔ اُسی وقت مجھے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آوازیں سنائی دی۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں کہ کہیں کچھ دیکھ کر ڈر نہ جاؤں ۔
چند لمحوں کے بعد مجھے لگا کہ کوئی دروازے کے قریب آیا۔ سخت سردی کے باوجود میرا جسم پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ کسی نے میرے ہاتھ سے چٹکی سے تھوڑا سا حلوہ اُٹھایا اور اپنی اُنگلی سے کچھ لکھ کر چلاگیا۔ میں نے فوراً ہاتھ اندر کرکے دیکھا تو حلوے پر انگلیوں کا نشان بنا ہوا تھا۔
اس واقعے کے بعد ہمارے گھر کے حالات بہتر ہونے شرو ع ہوگئے۔ بہت زیادہ خوش حالی نہ سہی مگررزق کی فراوانی ہوگئی۔

 

وہ کون تھا؟؟

*…. میری رہائش جس علاقے میں ہے وہاں قریب ہی ریلوے لائن گزرتی ہے۔ اس ریلوے لائن کے دوسری جانب ایک بڑی شاہراہ ہے۔ شاہراہ کی دوسری جانب گنجان آبادی اور بازار وغیرہ ہے۔
ہمیں دن میں کئی مرتبہ ریلوے لائن کراس کرنی پڑتی ہے۔ یہاں پر بیشتر اوقات مال گاڑیاں بھی آکر رُکتی ہیں اور کئی کئی دن کھڑی رہتی ہیں۔
ریلوے لائن کراس کرتے وقت اگر کبھی وہاں مال گاڑی کھڑی ہوتی ہے تو بعض عجلت پسند لوگ لمبا راستہ کاٹ کر جانے کے بجائے کھڑی ہوئی مال گاڑی کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ۔
یہ1980ء کے اوائل کا واقعہ ہے۔ ایک دن مجھے بھی جلدی میں نہ جانے کیا سوجھی کہ سوچا دوسروں کی طرح ہم بھی مال گاڑی کے نیچے سے گزر جائیں گے۔
اس خیال کے ساتھ ہی میں مال گاڑی کے نیچے سے گزرنے کے لئے جیسے ہی اس کے نیچے پہنچا مال گاڑی چل پڑی۔
خوف کی وجہ سے میرے اندر سے ہلنے جلنے کی قوت ہی گویا کہ دم توڑ گئی۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ کسی نے مجھے پشت سے پکڑ کر اس طرح پھینک دیا کہ میں پٹریوں کی دوسری جانب جاگرا۔
وہاں ایک عام سی صورت کے بزرگ کھڑے تھے۔ وہ مجھ سے بولے ’’بچے!اﷲ نے بچالیا‘‘۔
میں ہاتھ پیر جھاڑ کر کھڑا ہوا اور مُڑ کر دیکھا تو میرے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ میں آج بھی حیران ہوتا ہوں کہ آخر کون سی قوت نے میری جان بچائی؟….

 

میں نے کسے دیکھا تھا؟

*…. یہ 27 دسمبر 1995ء کی بات ہے۔ میری عادت ہے کہ رات کو جب بھی میری آنکھ کھلتی ہے ، میں وضو کرکے جتنی بھی اﷲ توفیق دیتا ہےنفل نماز پڑھ لیتی ہوں ۔ اسی طرح 27 دسمبر کو میں تقریباً رات کے تین بجے اُٹھی پھر وضو کیا اور نماز پڑھنے کے بعد (یہ بھی میری عادت کا حصّہ ہے) اپنے کھڑکی کے پردے ہٹاکر باہر دیکھنے لگی۔
ان دنوں جس گھر میں ، میں مقیم تھی اس کا بہت بڑا لان تھا۔ ہماری کار لان کے ساتھ جو ڈرائیو وے تھا اس پر کھڑی تھی۔ مجھے ایسا لگا کوئی آدمی گاڑی میں بیٹھا ہے اور دروازہ کھول کر اُتر رہا ہے۔ وہ آدمی دروازہ کھول کر پوری گاڑی کا چکر لگاکر دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ جب اس شخص نے دروازہ کھولا تو مجھے ایسا لگا کہ یہ میرے ابو ہیں۔
اس وقت میرے ابّو پاکستان میں ہوتے تھے اور میں امریکہ میں …. میں بار بار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہی، ہربار مجھے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ ابّو ہیں اور میری طرف دیکھ بھی رہے ہیں ۔ میں بہت دیر تک کھڑکی سے لگی دیکھتی رہی۔
بار بار ذہن میں یہ بات آتی کہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی ہوں ، لیکن ایسا نہیں تھا…. تھوڑی دیر بعد یہ منظر ختم ہوگیا اور میں حیرت اور پریشانی سے پوری رات نہیں سوسکی۔
ابّو مجھے یہاں کس طرح نظر آئے اور اگر یہ میرا وہم تھا تو پھر یہ کون تھا جو بالکل ہوبہو میرے ابّو کی طرح ہے۔
صبح اُٹھ کر اس واقعہ کا ذکر میں نے اپنے شوہر سے کیا۔ اُنہوں نے کہا اصل میں تمہارا دل اپنے ابو کی طرف مرکوز ہے اور تم انہیں یاد کر رہی ہو۔
اس لئے رات غنودگی میں تمہیں ایسا محسوس ہوا ہوگا۔
میں خاموش ہوگئی کہ شاید واقعی میرا وہم ہو۔
اسی دن پاکستان سے فون آیا کہ ابّو کا انتقال ہوگیا ہے اور جس وقت پاکستان میں ابّو کا انتقال ہوا تھا یہاں امریکہ میں یہ وہی وقت تھا جب میں کھڑکی میں کھڑی ابو کو دیکھ رہی تھی۔
دوسرا واقعہ جو میرے ساتھ اِس واقعے کے تقریباً چھ سال بعد 2001ء میں پیش آیا۔ ہم لوگ ہائی وے پر سفر کر رہے تھے۔ اس روز ہائی وے پر بڑا رش تھا۔ پتہ چلا کہ دوسری طرف سڑک پر کوئی ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور پولیس نے چاروں طرف سے حادثے کی جگہ کو گھیرا ہوا ہے۔ خیر! بہت سست رفتاری کے ساتھ گاڑیاں آگے بڑھ رہی تھیں ۔ تقریباً ایک گھنٹے میں ہم لوگ اس جگہ پہنچ سکے جہاں ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔
امریکہ میں جب کوئی حادثہ ہوجاتا ہے تو پولیس کے اہلکار ساری کاروائی ختم کرنے کے بعد حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی کے چاروں طرف ہلکی سی لائٹ جلادیتے ہیں کہ یہاں پر ایکسیڈنٹ والی گاڑی کھڑی ہے، پھر جس محکمہ کا کام گاڑی اُٹھانا ہے، اس کے کارندے گاڑی اُٹھاکر لے جاتے ہیں ۔ جب ہماری گاڑی جائے حادثہ کے قریب سے آہستہ آہستہ گزر رہی تھی تو میں نے دیکھا تین لوگ گاڑی کے اندر ہیں اور ایسا لگا جیسے مدد کے لئے بلا رہے ہیں ۔ میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے شوہر سے کہا ‘‘دیکھو یہ لوگ جو گاڑی میں بیٹھے ہیں ہمیں کیا اشارہ کر رہے ہیں ’’….
میرے شوہر نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور کہنے لگے یہ کار تو حادثے سے تباہ ہوچکی ہے اور اب تو اس حادثہ کو تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے ہونے والے ہیں اور تمہیں پتہ ہے ایمبولینس اور پولیس والے بہت پہلے ہی زخمیوں اور مرنے والوں کو ہسپتال لے جاچکے ہیں ، یہاں پر کیسے کوئی ہوگا؟…. میں پھر خاموش ہوگئی…. لیکن جب بھی میں گاڑی کی طرف پلٹ کر دیکھتی مجھے پھر وہ تینوں ہاتھ ہلاتے اور ان کی آنکھوں میں حسرت نظر آرہی تھی۔ وہ مجھے مدد کے لئے بلارہے تھے۔
جب تک وہ ایکسیڈنٹ والی گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی میں پلٹ پلٹ کر انہیں دیکھتی رہی۔ لیکن گاڑی میں بیٹھے میرے بچوں اور میاں کو کوئی بھی وہاں نظر نہیں آرہا تھا۔ آج بھی جب میں ان دونوں واقعات کو یاد کرتی ہوں تو عجیب پریشان ہوجاتی ہوں کہ یہ سب کچھ کیا تھا؟….

یہ بھی دیکھیں

شیطانی مثلث برمودا ٹرائی اینگل – 1

شیطانی مثلث ۔ برمودا ٹرائی اینگل ایک نہ حل ہونے والا پُراسرار معمّا حصہ اول ...

نرالی تصویریں

نِرالی تصویریں  کیا آسمانی بجلی فوٹوگرافی بھی کرسکتی ہے….؟  آج کے دور میں فوٹو اتارنا ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *