Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھیے

‘‘میرے ابو بہت گرم چائے پیتے ہیں،  اتنی گرم کہ کپ میں انڈیلتے ہی غٹاغٹ پی جاتے ہیں۔’’

تین بچے اپنے کلاس روم میں بیٹھے فری پیریڈ کا فائدہ اٹھا کر گپیں ہانک رہے تھے۔ پہلے بچے کا یہ جملہ سن کر دوسرا فوراً بولا ‘‘یہ تو کچھ بھی نہیں میرے ابو تو چائے کپ میں نکالنے کی زحمت بھی نہیں کرتے بلکہ کیتلی سے ہی منہ لگا لیتے ہیں۔’’ اب تیسرے کی باری تھی جو ایک ایسا جواب سوچ رہا تھا کہ جو ان دونوں سے مختلف ہو، پھر اس نے برجستہ  کہا ‘‘ارے بھئی! میرے ابو سے زیادہ گرم چائے  کوئی نہیں پی سکتا’’ ،  ‘‘وہ کیسے….؟’’ دونوں بچوں نے بیک وقت پوچھا ‘‘کیونکہ میرے ابو چینی پتی کھا کر چولہے پر سے گرم پانی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتے  ہیں’’….

یہ تو محض ایک لطیفہ ہے، لیکن اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ بچوں کے مزاج میں کس قدر انفرادیت ہوتی ہے۔ اکثر بچے ایسے چیزیں پسند کرتے ہیں جو دوسروں سے اچھی ہوں۔ مثلاً اگر بچے کے کسی دوست کی برتھ ڈے پارٹی ہو تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے لیے بھی اس سے اچھی پارٹی دی جائے…. کسی دوست یا رشتے دار کے کوئی کپڑے یا جوتے پسند آجائیں تو وہ بھی اس سے اچھے کپڑے یا جوتے لینے کی فرمائش کرتا ہے، اسی طرح اگر کسی بات پر بچے کی تعریف ہوتی ہے تو وہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں۔ مختصر یہ کہ بچہ ایسی خواہشات رکھتا ہے جو کہ منفرد ہوں اور ایسی چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے جس کی سب تعریف کریں۔ ان  کے حصول کے لیے ہر بچہ مختلف اظہار کا استعمال کرتا ہے۔ اظہار کا یہ فرق بچے  کے مزاج کی وجہ سے ہے کیونکہ ہر بچے کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت کا یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ والدین بچے کے مزاج  کو سمجھیں۔

بچے اپنے اپنے مزاج کے لحاظ سے شرارتی، چلبلے، باتونی، ضدی، ہٹ دھرم، معصوم، متجسس، ڈرپوک، تخیل پسند یا کم گو وغیرہ وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہر بچہ ان تمام رویوں کا اظہار مختلف اوقات میں کرتا ہے مثلاً کبھی وہ شرارت کرتا ہے، تو کبھی معصوم بن جاتا ہے، کبھی ضد کرکے اپنی کوئی بات منوا لیتا ہے  تو کبھی نرمی سے بات سمجھ کر مان لیتا ہے۔  اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ بچہ کا مزاج موقع اور ماحول کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے…. البتہ کوئی نہ کوئی مخصوص مزاج بچے کی طبیعت پر  اکثر غالب رہتا ہے۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کے مزاج کو سمجھنے کی  بہت اہمیت ہے۔ بچوں کی تربیت اس طرح ہو کہ  انہیں علمی،  اخلاقی اور شعوری بالیدگی کے لیے  معلومات ان کے مزاج کی مناسبت سے فیڈ Feed کی جاتی رہیں۔ آئیے اب چند مختلف مزاج کے بچوں اور ان کی تربیت کے کچھ اصولوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

سائنس دان کھوجی بچے

ایک بچے نے جیسے ہی جہاز میں لگا ہوا ایک بٹن آن کیا تو اس کے ہاتھ میں ہلکی سی لرزش ہوئی اور جہاز کی آواز سماعت سے ٹکرائی۔ اس نے جہاز زمین پر رکھا اور تالی بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ اب جہاز فرش پر ادھر ادھر اپنے مدھر میوزک کے ساتھ دوڑ  رہا تھا۔ دیوار سے ٹکرا کر خود ہی مڑ جاتا اور پھر اچانک رک کر پنکھے کی طرح گھومنا شروع کردیتا۔ بچہ یہ سب بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے اردگرد بیٹھے سب لوگ کبھی جہاز کو اور کبھی اسے دیکھتے رہے۔ پھر یہ معمول بن گیا کہ جب بھی بچہ روتا تو اس کے آگے یہ کھلونا رکھ دیا جاتا یوں وہ روتے روتے ہنسنا شروع کردیتا۔ ایک دن وہ بچہ اس روٹین سے بور ہوگیا…. 

ا س نے چلتے ہوئے جہاز کو فرش پر زور زور سے مارنا شروع کردیا  یہاں تک کہ وہ جہاز ٹوٹ گیا۔ شاید اس کے تجسس نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ یہ کھلونا آخر چلتا کیسے ہے، مڑتا کیوں ہے اور پھر رک کر پنکھے کی مانند کس طرح گھوم جاتا ہے….؟

اکثر بچوں میں ایسی عادات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اگر انہیں کھیلنے یا دل بہلانے کے لیے  کوئی کھلونا یا کوئی بھی چیز دی جائے تو کچھ دن تو اس سے کھیلتے ہیں۔ اس کے بعد  توڑ پھوڑ کر اس کا ستیاناس کردیتے ہیں۔ ایسا عموماً وہ بچے کرتے ہیں جن کے مزاج میں غصہ کا عنصر زیادہ ہو یا پھر وہ غور و فکر زیادہ کرتے ہیں۔

کبھی کبھی یہ غور و فکر یا تجسس شدید ہو جاتا ہے۔ ایسے بچوں میں  چیزوں کے اندرونی نظام کو جاننے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ یہ تجسس بچوں کو  ہر چیز کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت جاننے پر اکساتا رہتا ہے۔

ایسے بچوں کی حوصلہ فزائی بہت ضروری ہے۔  انہیں نت نئی رنگ برنگی چیزیں لاکر دیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچے عموماً ایسے کارٹونز یا دیگر پروگرامز  پسند کرتے ہیں جن میں تخلیقی پہلو نمایاں ہو۔

انہیں سائنس فکشن فلموں کا بےچینی سے انتظار رہتا ہے۔ اپنی متجسس طبیعت کے باعث ایسے بچے  سوالات بھی بہت کرتے ہیں۔ ان کے سوالات کے جوابات اس طرح دیں کہ  بڑے ہونے پر  یہ ارتکاز توجہ کی عادت  اور متجسس مزاج ان کی صلاحیتوں کو ابھار سکے۔

ضدی بچے

 ایسے بچے چاہتے ہیں کہ کوئی بھی خواہش ان کے منہ سے نکلنے کے بعد فوراً پوری کردی جائے۔ یہ رویہ اکثر والدین کے لیے بعض اوقات زحمت کا باعث بن جاتا ہے۔ والدین بچے کی کچھ  خواہشات کو تو پورا کرتے ہیں اور بعض کسی وجہ سے پوری نہیں کرپاتے۔ ایسے بچوں کی اگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو وہ ضد کرتے ہیں، روتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں، چیزیں توڑتے ہیں یا پھر ایک کونے میں بیٹھ کر ‘‘روں…. روں…. ری…. ری’’ کرتے رہتے ہیں۔ یہ پروگرام اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ان کی خواہش پوری نہ کردی جائے۔ اکثر یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایسے بچے جب روتے ہیں تو ان کی آنکھوں  میں آنسو کا ہلکا سا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ گویا بعض اوقات رونے کو وہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے بطور حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے بچوں کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ہر ایک انہیں اہمیت دے یعنی جب وہ کہیں کہ ان کے ساتھ کھیلو تو سب ان کے ساتھ کھیلیں، انہیں باہر جانے کی خواہش ہو تو باہر لے کر جائیں۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو وہ مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہیں یا رونا دھونا شروع کردیتے ہیں۔

بچوں میں ضد کو ختم کرنا اس لیے ضروری ہے  تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجوں اور تلخ حقائق کا مردانہ وار سامنا کرسکیں۔ ضد کی  عادت پختہ ہوجائے تو شخصیت کے بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔  دانش مندی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بچہ کی ہر ضد پوری نہ کی جائے، اس کے رونے یا مچلنے کی پرواہ نہ کی جائے، بچے کو جب اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ رونے سے جو چیز وہ مانگتا ہے اسے نہیں ملے گی تو بالآخر وہ چپ ہوجائے گا۔ بچہ جب چپ ہوجائے تو پھر اس کی خواہش اگر وہ مناسب اور بےضرر ہو تو پوری کردیں۔ بچے کی ایسی معصوم خواہشات کی تکمیل  کرنا جن  سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو ضروری ہے، لیکن اس رویے کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ضروری ہے۔  جس سے ان کے ضدی  پن کی تسکین ہوتی ہو۔

فلسفی و محقق بچے

اس قسم کے بچے ہر چیز اور ہر بات میں  سچ یا حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچے اکثر خوشگوار حیرت  میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی بات کی جائے، اس کے بارے میں سوچتے ہیں اور حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔  ایسے بچے سیدھی سادی اور بامقصد گفتگو پسند کرتے ہیں۔  ایسے بچے بڑے  ہو کر اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے سب کو متاثر  کرسکتے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور دیگر  عزیز و اقارب کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اس مزاج کی حوصلہ افزای کرتے ہوئے ان کے لے بھی سائنس دان بچوں جیسا ماحول فراہم کریں تاکہ ان کی غور و فکر اور تحقیق  و جستجو کی صلاحیت کو جلا مل سکے۔

بزدل اور ڈرپوک بچے

دو سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بعض بچوں کو خواہ مخواہ کے ڈر لاحق ہوجاتے ہیں۔ اندھیرے کا خوف، خواب میں ڈر جانا، خوفناک فلم دیکھ کر ایک عرصے خوف میں مبتلا رہنا وغیرہ۔  یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی چیز سے بچے  کو نقصان پہنچ جائے تو  وہ آئندہ ایک طویل عرصے تک  اس سے ڈرنے لگتا ہے مثلاً چھری، گرم استری، قینچی وغیرہ۔ ایک بچہ تو پیاز کے چھلکوں سے بھی ڈر جاتا تھا۔ یعنی کوئی بھی شئے اگر غیر حقیقی یا غیر فطری طور پر ایسے بچوں کےسامنے آجائے تو وہ اس سے بھی ڈر سکتے ہیں۔  بعض بچوں میں اس طرح کے خوف عمر بڑھنے کے بعد بھی اکثر قائم رہتے ہیں۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ بچوں کو ڈرپوک اور بزدل بنانے میں اکثر والدین اور بہن بھائیوں کا بھی ہاتھ   ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے  عموماً خواتین چھپکلی، لال بیگ اور چوہوں وغیرہ سے ڈرتی ہیں۔ یہ ڈر  بعض اوقات اس قدر  شدید ہوتا ہے کہ وہ انہیں دیکھ کر چیخیں مارنا شروع کردیتی ہیں۔ انہیں اس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک گھر کا کوئی فرد چھپکلی یا لال بیگ کو مار نہ دے۔ اگر مارنے کی مہم ناکام ہوجاے اور لال بیگ یا چھپکلی کہیں چھپ کر بیٹھ جائے تو پھر وہ پوری رات خوف میں مبتلا رہتی ہیں اور بےچین ہو کر کروٹیں بدلتی رہتی ہیں۔ بچہ جب یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کے بڑے بھی ان سب  چیزوں سے ڈرتے ہیں تو اس کے ذہن میں بھی یہ خوف منتقل ہوجاتا ہے کہ یہ چیزیں خطرناک ہیں…. بڑوں کو چاہیے کہ وہ خود بھی ایسے خوف سے باہر آئیں تاکہ بچوں کے خوف کو دور کرسکیں…. بھئی ذرا پہلے  آپ خود کو دیکھیں اور پھر چھپکلی، لال بیگ اور چوہے وغیرہ کو…. کیا اوسطاً پانچ فٹ کچھ انچ کے انسان کو چند انچ کے ان کیڑے مکوڑوں سے ڈرنا زیب دیتا ہے….

ذہین بچے

 ایسے بچے جو ہر سال امتحان میں نمایاں نمبروں سے پاس ہوتے ہیں، ٹیچرز کی ہر بات بہت جلدی سمجھ لیتے ہیں، جو کچھ پڑھتے ہیں وہ جلد  ذہن نشین بھی کرلیتے ہیں، ہر بات کو بہت  گہرائی میں جاکر سوچتے ہیں، ہر موضوع پر طویل گفتگو  کرسکتے ہیں، ماں باپ، بہن بھائیوں کے علاوہ اپنے ٹیچرز اور دیگر عزیز و اقارب سے اعتماد کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، ایسے بچے  اپنے مزاج کے اعتبار سے ذہین بچوں کی لسٹ میں آتے ہیں۔ بچوں کو ایسی گراں قدر صفات کا حامل بنانے میں والدین اور اساتذہ کی اچھی تربیت کا بھی بہت ہاتھ ہوتا ہے۔  اس طرح کے بچوں کو تعلیمی میدان کے علاوہ پریکٹیکل زندگی کے متعلق بھی رہنمائی فراہم کی جانی ضروری ہے۔

بےوقوف بچے

ایسے بچے عموماً کم گو، گم سم رہنےو الے ، شرمیلے ہوتے ہیں۔  یہ بچے ذہین بچوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یعنی تعلیمی میدان میں پیچھے رہتے ہیں، کھیلوں سے تو عموماً انہیں دلچسپی ہی نہیں ہوتی، ٹیچرز ان کو سمجھاتے  سمجھاتے تھک جاتے ہیں لیکن بات ان کے ذہن نشین ہی نہیں ہوتی…. ایسے بچوں کو والدین اور اساتذہ کی بھرپور توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ والدین، اساتذہ اور دیگر عزیزوں کو ان کے  قریب آکر بھرپور پیار اور محبت سے ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ عدم توجہ یا احساس کمتری کی وجہ سے ایسے بعض بچے بےوقوفی کی حد تک کند ذہن ہوجاتے ہیں۔

آرٹسٹ بچے

چار پانچ بچیوں نے شام کے وقت گھر کے ایک کمرے کو کلاس روم بنا دیا۔ دیوار پر آویزاں تصویری فریم کو الٹا کر کے بلیک بورڈ کا کام لیا جارہا ہے جس کے ساتھ ایک بچی ایک  ہاتھ میں کتاب اور ایک ہاتھ میں اسٹک لیے کھڑی تھی اور باقی بچیاں نیچے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ‘‘تو ہم آج کا سبق شروع کرتے ہیں’’…. بلیک بورڈ کے ساتھ کھڑی بچی نے جو اس وقت ٹیچر بنی ہوئی تھی، کلاس شروع کی۔

‘‘لیکن شمائلہ پہلے مس رضیہ کی طرح چشمہ تو لگاؤ….’’ اسٹوڈنٹ بچیوں میں سے کسی ایک نے کہا تو وہ  ‘‘اچھا ہاں!’’ کہتی ہوئی فوراً چشمہ ڈھونڈنے لگی۔ اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ یہ کمبائن اسٹڈی نہیں بلکہ اپنی کلاس ٹیچر کی نقل اتاری جارہی ہے۔  اس نے ایک چشمہ پہن کر پھر کچھ کہا تو دوسری بچی نے فوراً مداخلت کی ‘‘یہ چشمہ تمہارے چہرے پر سوٹ نہیں کر رہا، مس رضیہ تو اپنے منہ سے بڑا چشمہ لگاتی ہیں’’…. پھر اس نے اپنے منہ سے بڑا اور اپنی ٹیچر کے حلیے سے ملتا جلتا چشمہ پہن کر بولنا شروع کیا ‘‘ہمیں بچوں سے پیار کرنا چاہیے، ان کا خیال رکھنا چاہیے۔  اللہ میاں بھی ان لوگوں کو پسند کرتے  ہیں جو بچوں سے نرمی اور پیار سےپیش آتے ہیں۔’’ اس دوران بار بار وہ اپنی ناک کو مخصوص انداز میں سیکٹر رہی تھی شاید یہ بھی ان کی مس کا اسٹائل ہو۔ سب بچیاں اس کی اداکاری سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور شمائلہ بولے جارہی تھی….

اے گڑیا تمہاری توجہ کہاں ہے، یہ کیا کھسر پھسر لگا رکھی ہے۔  چلو اپنی بینچ پر کھڑی ہوجاؤ’’….

یہ حکم صادر کرتے ہوئے اس نے گڑیا کے ہاتھ پر اسٹک بھی ماری۔ کیا یہ بھی ان کی کلاس  ٹیچر کی شخصیت کا خاصا تھا….؟

بچے ہر رویے کو محسوس کرتے ہیں خواہ وہ مثبت ہوں یا منفی…. اور اس کا اظہار کسی بھی طریقے سے کردیتے ہیں۔

اس واقعے سے ایک بات کی نشاندہی مزید ہوتی ہے کہ بعض بچوں کے اندر کہیں نہ کہیں ایک آرٹسٹ چھپا ہوا ہوتا ہے جو زندگی کے کرداروں اور واقعات پر غور و فکر کرکے کسی نہ کسی کینوس پر پیشکرتا ہے۔

ایسے بچے جمالیاتی ذوق کے مالک ہوتے ہیں۔ اداکاری، شعر و ادب اور آرٹ میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انہیں پھولوں اور خوبصورت مناظر کی تصاویر لاکر دی جائیں۔  ڈرائنگ اور پینٹنگ کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ اسکول کے ڈراموں اور دیگر تقریبات میں حصہ لینے پر حوصلہ افزائی کی جائے۔

معصوم بچے

ایک دن ہمارے خاندان کے بہت سے افراد  ماموں کے گھر بیٹھے ان کی شادی کی البم دیکھ رہے تھے۔ سب لوگ تصویریں دیکھ کر پرانی یادیں تازہ کررہے تھے۔   کچھ یہ کہہ رہے تھے  کہ ہم پہلے کتنے چھوٹے تھے اور اب کتنے بڑے ہوگئے ہیں، اس وقت کے دلچسپ واقعات سنا رہے تھے اور انجوائے کر رہے تھے کہ اچانک ہمارے ماموں کے بیٹے نے جو اس وقت بمشکل چھ سال  کا تھا، اسے اس البم میں اپنی کوئی تصویر نظر نہیں آئی، وہ کہنے لگا میں بھی تو اس وقت بہت چھوٹا ہوں گا….؟’’

 اس کے لہجے میں اس قدر معصومیت تھی کہ سب ہی بےساختہ ہنس پڑے،  خود ممانی جان بھی چہرے پر  ہاتھ رکھ کر ہنس رہی تھیں۔ اس کے سوال کا جواب تو کسی کے پاس نہیں تھا مگر اس کی معصومیت پر قربان جانے کو دل چاہ رہا تھا۔

جو بچے معصوم ہوتے ہیں ان کی شرارتیں بھی بڑی معصوم سی ہوتی ہیں۔

بچوں کی ہر سطح پر تربیت ضروری ہے ان کو مذہبی، علمی، عملی، اخلاقی، سائنسی، معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور فنی علوم کے حوالے سے بھرپور تربیت دیں اس تربیت کے دوران  اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ بچے کی معصومیت ختم نہ ہونے پائے…. دیکھا گیا ہے کہ بعض بچے جو اپنی عمر سے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، بعض اوقات وہ تشدد پسند یا تکلیف دہ حد تک شرارتی ہوجاتے ہیں یا کسی اور بری عادت میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بچے کی معصومیت اس کا زیور  ہوتی ہے۔ چہرے کا یہی حسن اور بھولپن اس کو ممتاز اور نمایاں کرتا ہے۔ اس معصومیت کی حفاظت بچے سے جڑے ہر فرد کا اہم نصب ا لعین  ہونا چاہیے۔

بچوں کا مزاج خواہ جیسا بھی ہو، معصومیت ہر بچے میں ہوتی ہے۔ جس طرح ایک اداکار اپنے سین کی ڈیمانڈ کے مطابق اپنے چہرے کے تاثرات  بدلتا ہے بلکہ اسی طرح بچے بھی موقع محل کی مناسبت سے اپنے مزاج میں تبدیلی لاتے ہیں لیکن  ہر بچے کا اپنا ایک مخصوص مزاج ضرور ہوتا ہے۔

بچوں کی اچھی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مزاج کے اتار چڑھاؤ کو سمجھا جائے اور جس وقت جو مزاج ان پر غالب ہو اسی کو مد نظر رکھ کر تربیت کی جائے۔ اس کے لیے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ آپ اپنے بچوں کو وقت دیں تاکہ وہ آپ کی محبت کو محسوس کرسکیں، آپ کی شخصیت کےمثبت پہلوؤں سے روشناس رہیں اور انہیں اپنے تحفظ کا احساس ہوتا رہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت اپنے دور کے مطابق نہ کرو بلکہ آنے والے وقت کے لحاظ سے کرو کیونکہ انہیں ایسے زمانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے جو تم سے مختلف ہے۔  

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2021ء اولاد نمبر سے انتخاب

یہ بھی دیکھیں

برسات میں بچوں کی نگہداشت ضروری ہے!

  موسم برسات ہماری صحت پر خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے مگر بعض اوقات ...

بچوں کی گرمیوں کی چھٹیاں کارآمد بنائیں

گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی بچوں کی آزادی اور بےفکری کے دن شروع ہوجاتے ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *