Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

پُراسرار بندے – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

دلچسپ، عجیب و غریب اور حیرت انگیز واقعات و آثار سائنس جن کی حقیقت سے آج تک پردہ نہ اُٹھا سکی…..


موجودہ دور میں انسان سائنسی ترقی کی بدولت کہکشانی نظام سے روشناس ہوچکا ہے، سمندر کی تہہ اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ زمین کے بطن میں اور ستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش کے منصوبے بنارہا ہے۔ یوں تو سائنس نے انسان کے سامنے کائنات کے حقائق کھول کر رکھ دیے ہیں لیکن ہمارے اردگرد اب بھی بہت سے ایسے راز پوشیدہ ہیں جن سے آج تک پردہ نہیں اُٹھایا جاسکا ہے۔ آج بھی اس کرۂ ارض پر بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں اور کئی آثار ایسے موجود ہیں جو صدیوں سے انسانی عقل کے لیے حیرت کا باعث بنے ہوئے ہیں اور جن کے متعلق سائنس سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ ایسے ہی کچھ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات یا آ ثار کا تذکرہ ہم آپ کے سامنے ہرماہ پیش کریں گے….

پُراسرار بندے

Mysterous People


مغرب سے تعلق رکھنے والے ایسے نابغہ روزگار اور پراسرار لوگ،  جن پر دنیا صدیوں سے حیران ہے۔ 

 

گذشتہ ما ہ ہم نے برصغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی نابغہ روزگار اور حیرت انگیز ہستیوں کا تذکرہ کیا تھا اس ماہ ہم اہلِ مغرب کے چند ایسے پراسرار لوگوں کے بارے میں بتارہے ہیں جو آج تک حیرت اور تجسس کا باعث بنے رہے ہیں۔
دنیا کی تاریخ پراسرار لوگوں کے تذکروں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ لوگ اپنے زمانے میں بھی پراسرار تھے اور برسوں گزر جانے کے بعد بھی ان کا اسرار واضح نہیں ہوسکا ہے۔ ان کے کارنامے عام انسانوں سے مختلف تھے۔ انکے انداز مختلف تھے اور ان کی زندگی مختلف تھی۔ ان میں اکثر ایسے تھے جن کی شناخت بھی نہیں ہوسکی۔
آئیں ان چند پراسرار لوگوں پر ایک نظر ڈالتےہیں۔
***

مونسیر چوچانی Monsieur Chouchani : یہ ایک حیرت انگیز کردار تھا۔ اس کی موت 1968ء میں ہوئی ہے۔ یعنی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ اس کے باوجود اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کون تھا۔اس کا ظہور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میںہوا تھا۔
فزکس کے چند طالب علم ایک پارک میں بیٹھے فزکس کے کسی فارمولے میں الجھے ہوئے تھے کہ ایک دبلا پتلا لیکن روشن آنکھوں والا بوڑھا ان کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
‘‘میرے بچو! تم لوگ کس مسئلے میں الجھے ہوئے ہو۔’’ اس نےدریافت کیا۔
‘‘بڑے میاں، ہم ایک مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں جو تمہارے بس کا روگ نہیں ہے۔’’ ایک لڑکےنےکہا۔
‘‘چلو کم از کم بتا ہی دو۔’’
لڑکوں نے اس پراسرار شخص کو فزکس کی وہ پرابلم بتا دی۔ اس نے ذرا سی دیر میں وہ مسئلہ حل کردیا۔ وہاں بیٹھے ہوئے فزکس کے سارے طالب علم حیران رہ گئے ۔
‘‘آپ کون ہیں جناب!’’ اب لڑکوں نے بہت احترام سے دریافت کیا۔
‘‘چوچانی!’’ اس نے اپنا نام بتایا ‘‘کل تم لوگ پھر مل جانا، میں تمہیں فزکس پڑھا دیا کروں گا۔’’پھر وہ پارک کے گیٹ سے باہر نکل گیا۔
دوسرے دن وہ طالب علم پھر اسی پارک میں جمع ہوگئے۔ چوچانی اپنے وقت پر نمودار ہوا اور اس نے فزکس کے کچھ اور مسائل ان لڑکوں کوسمجھا دیے۔ اس مرتبہ ایک لڑکے نے اس سے کہا ‘‘جناب، آپ اپنا ایڈریس بتا دیں تاکہ آپ کو آنے کی زحمت نہ ہو، ہم خود آپ کے پاس پہنچ جایا کریں۔’’
‘‘میرا کوئی ایڈریس نہیں ہے۔’’ چوچانی نے مسکراکر کہا ‘‘اب میں دو دن کے بعدآؤں گا۔’’
اتفاق سے دو دنوں کے بعد فلسفے کا ایک طالب علم بھی فزکس کے طلبہ کے ساتھ چلا آیا تھا۔ جب اس نے چوچانی کو بتایا کہ وہ فلسفے کا طالب علم ہےتو چوچانی نے اسے فلسفے پر بھی ایک لیکچر دے دیا اور اس وقت پتا چلا کہ یہ شخص تو فزکس کےساتھ ساتھ فلسفہ بھی جانتا ہے۔
چوچانی پورے تین برسوں تک طالب علموں کو فزکس، فلسفہ، نفسیات، لٹریچر اور تاریخ پڑھاتا رہا تھا۔ اس سے پڑھنے والوں میں اس وقت کےمشہور ترین لوگ بھی تھے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ کسی کو بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا کہ وہ کون ہے….؟ کہاں سے آتا ہے اور کہاں چلا جاتا ہے….؟
کئی مرتبہ اس کا تعاقب کرکے اس کے بارے میں معلوم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر کوشش ناکام رہی۔ وہ تعاقب کرنے والوں کو غچہ دے کر غائب ہوجاتا تھا۔ کسی کویہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کا خاندانکہاں ہے….؟
آیا کہ وہ دنیا میں اکیلا ہے یا اس کے گھر والے بھی ہیں۔ اگر ہیں تو وہ کون لوگ ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ چوچانی کےہزاروں شاگرد تھے اور کئی علوم میں اسے دسترس حاصل تھی۔ وہ کسی سے ایک پائی بھی معاوضے کے طور پر نہیں لیتا تھا۔
اس طرح اس پراسرار شخص کی آمدنی کے ذرائع کبھی کسی کو معلوم نہیں ہوسکے تھے۔ اس کی موت کا سال لوگوں کو اس طرح یاد رہ گیا تھا کہ اس کی لاش اسی پارک میں پڑی ہوئی ملی تھی جہاں وہ پہلی مرتبہ فزکس کے طالب علموں کے سامنے نمودار ہوا تھا۔
***


پو ٹوسٹر Poe toaster: جنوری کی سرد صبح، بالٹی مور میری لینڈ کا قبرستان، پوکی قبر۔ ہر طرف گہری دھند چھائی ہوئی۔ 19 جنوری 1949ء قبرستان کے گیٹ سے ایک آدمی آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایڈگر ایلن پو کی قبر کے پاسآتا ہے۔
اس آدمی کا حلیہ بھی عجیب ہے۔ اس نے ایک فلیٹ ہیٹ پہن رکھا ہے۔ سیاہ رنگ کا ایک لانبا سا اوور کوٹ اس کے جسم پر ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں شراب کی ایک بوتل ہے۔
اس پراسرار آدمی کو دیکھنے والا ایک بوڑھا ہے جو ہر صبح اپنی بیوی کی قبر پر پھول چڑھانے کےلیے آتا ہے۔ اس بوڑھے کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ اس کا گھر بھی قبرستان کے پاس ہی ہے۔ اسی لیے اسے قبرستان آنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ وہ بوڑھا اس پراسرار اجنبی کو حیرت سے دیکھتا ہے لیکن اجنبی کو اس بات کی پروا نہیں ہے کہ کون اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ پو کی قبر کے پاس آکر کھڑا ہوتا ہے۔ شراب کی بوتل کھولتا ہے۔ تھوڑی سی شراب پی کر بقیہ بوتل وہیں قبر کےپاس رکھ دیتا ہے۔ کچھ دیر تک گردن جھکائے کھڑا رہتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ چلتا ہوا قبرستان سے باہر چلا جاتا ہے۔ بوڑھے کےلیے یہ سب کچھ حیرت انگیزتھا۔
وہ گھر آکر اپنے بیٹوں کو بتاتا ہے لیکن کوئی زیاددہ دھیان نہیں دیتا کہ اس قسم کے واقعات ہوتے ہی رہتےہیں۔ ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔
بوڑھے کو وہ آدمی کئی دنوں تک دکھائی نہیں دیا۔ حالانکہ بوڑھا اپنی عادت کےمطابق روزانہ قبرستان جایا کرتا ایک صبح ایسے ہی سرد موسم میں وہ پراسرار اجنبی پھر دکھائی دے جاتا ہے۔ وہ فروری کی انیس تاریخ ہے۔
بوڑھے کو یہ تاریخ اس لیے یاد رہی کہ اس کی شادی کی سالگرہ کا دن تھا۔ وہ گھر آکر پھر اس پراسرار اجنبی کا ذکر کرتا ہے۔ اس مرتبہ اس کے بیٹے کسی حد تک اس معاملے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ بوڑھا اپنے ایک دوست سے اس اجنبی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ‘‘میرا خیال ہے کہ وہ اجنبی انیس ہی تاریخ کو آتا ہے۔’’
‘‘یہ تم کیسے کہہ سکتےہو….؟’’
‘‘اس لیے جب وہ پچھلی مرتبہ دکھائی دیا تھا تو انیس جنوری تھی۔’’ بوڑھے نے بتایا ‘‘پھر وہ انیس فروری کو دکھائی دیا۔’’
‘‘کیا دوسری مرتبہ بھی وہ شراب کی بوتل اپنے ساتھ لایا تھا….؟’’ دوست نے پوچھا۔
‘‘ہاں، دوسری مرتبہ بھی۔’’ بوڑھے نے جوابدیا۔
‘‘چلو، تو پھر انیس مارچ کی صبح میں بھی تمہارے ساتھ قبرستان چلوں گا۔’’ اس کے دوست نے کہا۔
انیس مارچ کی صبح دونوں بوڑھے قبرستان میں تھے۔ کہر آلود ٹھنڈی صبح تھی۔ وہ اجنبی پھر دکھائی دے گیا۔ اس کا وہی حلیہ تھا۔ فلیٹ ہیٹ، اوور کوٹ اور ہاتھ میں شراب کی بوتل۔ وہ کسی پر دھیان دیے بغیر سیدھے پو کی قبر کے پاس گیا۔ وہاں کھڑے ہوکر اس نے آدھی بوتل شراب پی اور بچی ہوئی شراب کی بوتل پو کی قبر کےپاس رکھ کر قبرستان کےگیٹ سے باہر چلا گیا۔ دونوں دوست حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے تھے۔
‘‘خدا جانے یہ کیا سلسلہ ہے….؟’’ بوڑھے کے دوست نے کہا ‘‘چلو، ایک مقررہ تاریخ پر قبر پر آنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن شراب کی بوتل کیوں رکھ کر چلاجاتا ہے….؟’’
‘‘اور آدھی شراب پی کر بقیہ آدھی کیوں چھوڑ جاتا ہے۔’’
‘‘کیوں نہ اگلی انیس کو اس کےپاس چل کر اس سے پوچھا جائے….؟’’ دوست نے مشورہ دیا۔
پھر اپریل کی انیس تاریخ آگئی۔ موسم اب بھی سرد تھا لیکن قابل برداشت تھا۔ اس مرتبہ اس آدمی کو دیکھنے کے لیے بوڑھے اور اس کےدوست علاوہ دو چار اور بھی تھے جو ایک پراسرار شخصیت کو دیکھنے کے شوق میں چلے آئے تھے۔
وہ پراسرار اجنبی معمول کے مطابق اپنے وقت پر نمودار ہوا۔ آج بھی اس کا وہی لباس تھا۔ وہی انداز، وہی حلیہ۔ وہ اسی طرح آہستہ آہستہ پو کی قبر کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ اس نے بوتل سے شراب پی اور جب آدھی بوتل رکھ کر واپس جانے لگا تو یہ لوگ اس کےسامنے آگئے۔لیکن ان میں سے کسی میں اتنی ہمت نہ ہوسکی کہ وہ اس سے کچھ پوچھ سکیں۔ اس نے جب ذرا سی فلیٹ ہیٹ اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا تو وہ سب بوکھلا کر کئی قدم پیچھے ہٹ گئے۔ اس شخص کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ان آنکھوں سے آگ نکل رہی ہو۔ آگے آنے والے بری طرح خوف زدہ ہوگئے تھے، پھر وہ اطمینان کے ساتھ ان کے درمیان سے نکلتا چلا گیا۔
ایسا نہیں ہوا کہ وہ دکھائی نہ دیا ہو۔ اگلے مہینے یعنی مئی کی 19 تاریخ کو وہ پھر پو کی قبر پر آگیا۔ حالانکہ اب گرمی کا موسم تھا لیکن اس کے لباس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ اس مرتبہ اس کا راستہ گھیرنے کے لیے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی لیکن اس مرتبہ بھی کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوسکی تھی کہ اس کا راستہ روک سکے یا اس سے کچھ پوچھ سکے۔ البتہ کچھ لوگوں نے اس کا تعاقب کرنے کی کوشش ضرور کی تھی لیکن وہ اس کا سراغ نہیں لگا سکے تھے۔ وہ قبرستان کے گیٹ سے باہر نکل کر اس طرح غائب ہوگیا تھا جیسے فضا میں تحلیل ہوگیا ہو۔
چونکہ اس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا۔ لوگ اس کے نام سے بھی ناواقف تھے اس لیے شناخت کےلیے Poe Toaster کہا جانے لگا تھا۔
وہ برسوں تک اسی طرح پو کی قبر پر ہر انیس تاریخ کی صبح شراب کی بوتل ہاتھ میں لیے آتا ہوا دکھائی دیتا رہا۔ اس کے بعد وہ اچانک غائب ہوگیا۔
***


بابُوشکا لیڈی Babushka Lady: یہ ذکر ہے ایک ایسی خاتون کا، جس کی شناخت بھی نہیں ہوسکی تھی لیکن اسے لیڈی کا نام دے دیا گیا تھا۔ بابوشکا دراصل خواتین کا ایک ہیٹ ہوتا ہے جیسے روسی خواتین استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ اس خاتون نے ویسا ہی ہیٹ پہن رکھا تھا اسی لیے اسے بابوشکا لیڈی کے نام سے یاد کیا جاتارہاتھا۔
یہ واقعہ 1963ء کا ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا کا سب سے طاقتور شخص یعنی صدر امریکا کینیڈی کی سواری گزر رہی ہے۔ اچانک ایک طرف سے گولی چلتی ہے اور کینیڈی کا قتل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک خوفناک واردات تھی۔ ہر طرف بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ کسی کو اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔ اسی عالم میں یہ عورت اپنے ہاتھ میں کیمرا لیے دکھائی دیتی ہے۔ اس کے سر پر وہی بابوشکا ہیٹ ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس بھگدڑ اور خوف و ہراس کے باوجود اس کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ بہت سکون کےساتھ تصویریں کھینچتی رہتی ہے۔ گاڑیاں دوڑ رہی ہیں۔ پولیس والے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ صدر کینیڈی کو اسپتال لے جایا گیا ہے لیکن وہ عورت اسی جگہ کھڑی رہتی ہے۔ اس کی بھی تصویریں کیمروں میں آجاتی ہیں لیکن اس کا چہرہ اس لیے پتا نہیں چلتا کہ وہ چہرہ ہیٹ میں چھپا ہوا ہے۔ بعد میں جب انتظامیہ کو ہوش آتا ہے تو اس عورت کی تلاش شروع ہوتی ہے لیکن وہ اب کہیں غائب ہوچکی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ا س عورت کےپاس اس قتل کا ثبوت موجود ہے کیونکہ اس نے تصویریں اتاری ہیں لیکن اسے کہاں اور کیسے تلاش کیا جائے….؟
پورے امریکا میں اس عورت کی تلاش کا کام شروع کردیا گیا۔ اشتہارات دیے گئے۔ اسے انعام کی پیشکش کی گئی کہ وہ بس ایک مرتبہ سامنے آجائے لیکن وہ تو گدھے کےسر سے سینگ کی طرح غائب ہوچکی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھی، کہاں سے آئی تھی اور تصویریں کھینچنے کا کیا مقصد تھا….؟ یہ تصویریں اس نے کہاں استعمال کی ہوں گی۔
پھر برسوں گزر گئے۔ اور ایک دن اچانک اسی قسم کا ہیٹ پہنے ایک عورت حکام کے سامنے پہنچ گئی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ وہی عورت ہے۔ وہ اس دن اتفاق سے اسی سڑک سے گزر رہی تھی جس وقت یہ حادثہ ہوا۔
اس کا کہنا تھا کہ وہ اتنی دہشت زدہ ہوگئی تھی کہ اس سے بھاگا بھی نہیں جا رہا تھا اسی لیے وہ ایک ہی جگہ جم کر رہ گئی تھی۔جب اس سے یہ دریافت کیا گیا کہ اس نے جو تصویریں اتاری تھیں، وہ کہاں ہیں۔ تو اس نے صاف انکار کردیا۔ اس نے بتایا کہ اس کےپاس کوئی کیمرا نہیں تھا۔ وہ خالی ہاتھ تھی، بعد میں پتا چلا کہ وہ ایک فراڈ عورت تھی اور صرف شہرت کی خاطر اس نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ بہرحال بابوشکا لیڈی اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی ایک راز ہی ہے۔
***


ڈین کُوپرD.B. Cooper : لوگ نہیں جانتے کہ یہ اس کا نام بھی تھا یا نہیں یا صرف شناخت کے طور پرا سے ڈی بی کوپر کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار انسان تھا۔
یہ واقعہ 24 نومبر 1971ء کا ہے۔ طیارہ اپنی منزل کی طرف محو پرواز تھا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ موسم کی رپورٹ بھی اچھی تھی۔ طیارے کے مسافر گرما گرم کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کہیں بھی ایسے آثار نہیں تھے جن سے یہ اندازہ ہوسکے کہ جہاز میں کسی قسم کی گڑ بڑ ہونے والی ہے۔ جہاز کی ائرہوسٹیس مسافروں کی گرم جوشیوں کا جواب اپنی مسکراہٹوں سے دے رہی تھیں کہ اچانک ایک آدمی کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ریوالور تھا۔
‘‘سب میری طرف متوجہ ہوں۔’’ اس نے آواز لگائی ‘‘میرا نام جی بی کوپر ہے۔’’
اس کےہاتھ میں ریوالور تھا۔ اسی لیے سب کو اس کی طرف متوجہ ہونا ہی تھا۔ اس زمانے میں معاشرے میں تشدد کا اتنا رواج نہیں ہوا تھا۔ چاہے وہ مشرقی معاشرہ ہو یا مغربی۔ اور جہاز میں سفر کرنے والے جس طبقے کےلوگ ہوتےہیں، وہ عام طور پر لڑائی بھڑائی سے پرہیز ہی کیا کرتے ہیں اسی لیےجب انہوں نے اچانک ایک مسافر کےہاتھ میں ریوالور دیکھا تو سب بری طرح خوف زدہ ہوگئے۔
‘‘معاف کیجیے خواتین و حضرات!’’ کوپر نے کہا ‘‘میں آپ لوگوں کو زیاددہ پریشان نہیں کروں گا۔’’ اس کا لہجہ بھی بہت شائستہ اور سلجھا ہوا تھا۔
‘‘کیا تم جہاز کو اغوا کرنا چاہتے ہو….؟’’ ایک مسافر نے اس کے نرم لہجے سے ہمت پا کر سوال کیا۔
‘‘ارے نہیں۔’’ کوپر مسکرا دیا‘‘وہ بڑے لوگوں کےکام ہیں۔ میں بےچارہ تو ایک غریب، معمولی انسانہوں۔’’
‘‘تو پھر تم کیا چاہتے ہو….؟’’
‘‘پیسے۔’’ کوپر نے کہا ‘‘آپ حضرات اور خواتین اپنی ساری رقم نکال کر میرے اس تھیلے میں ڈال دیں۔’’ اس نے اپنی جیب سے پلاسٹک کا ایک بڑا سا بیگ نکال کر ایک خوفزدہ ائر ہوسٹیس کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ وہ ائر ہوسٹیس سہمی ہوئی اس کےپاس پہنچ گئی تھی۔
‘‘گھبراؤ نہیں۔’’ کوپر نے کہا ‘‘میں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ تم یہ بیگ لو اور لوگوں سے رقم لے لے کر اس میں رکھنا شروع کردو۔ جس طرح چرچ کے چندے لیے جاتے ہیں، شاباش!’’
‘‘اور اگر کوئی نہ دے تو….؟’’ ائر ہوسٹیس نےپوچھا۔
‘‘پھر تو مجبوری ہے۔’’ کوپر کا چہرہ سخت ہوگیا تھا۔ اب جو وہ بولا تو اس کی آواز میں بےرحمی شامل تھی ‘‘میں انکار کرنے والے کو یہیں ڈھیر کردوں گا۔ کیونکہ میں صرف شوقیہ طور پر جہاز میں بیٹھ کر لوٹ مار نہیں کر رہا ہوں، بلکہ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر یہاں تکآیا ہوں۔’’
اس کے لہجے کی سختی نے لوگوں کو مزید خوفزدہ کردیا تھا۔ ائر ہوسٹیس ہر ایک سے رقم اکٹھا کرتی جارہی تھی کہ ا چانک ایک آدمی نے ائر ہوسٹیس کو پکڑ لیا۔
اس نے بڑی پھرتی سے ائر ہوسٹیس کو ڈھال بنالیا تھا۔ ‘‘کوپر! اپنا ریوالور پھینک دو۔’’ اس آدمی نے کہا ‘‘ورنہ میں ائرہوسٹیس کی گردن توڑ دوں گا۔’’
‘‘توڑ دو۔’’ کوپر بےرحمی سے بولا ‘‘تم کیا سمجھتے ہو کہ یہ ائرہوسٹیس میری بیوی یا محبوبہ ہے کہ میں اس کا خیال کروں گا لیکن پھر یہ سوچ لو کہ اس کے بعد تمہاراکیا ہوگا….؟’’
اس آدمی کے پاس اب کوئی چارہ نہیں رہا تھا کہ وہ ائرہوسٹیس کو چھوڑ دے۔ اس نے ائرہوسٹیس کو چھوڑ دیا۔ ائرہوسٹیس نے خوفزدہ ہو کر پھر سے اپنا کام شروع کردیا۔ پھر اچانک کوپر کے ریوالور سے ایک گولی نکلی اور اس آدمی کے بازو میں پیوست ہوگئی جس نے ائرہوسٹیس کو پکڑا تھا۔ وہ آدمی بری طرح چیخ رہا تھا۔
‘‘بس خاموش رہو۔’’ کوپر غرایا ‘‘یہی گولی میں تمہارے سینے میں بھی مار سکتا تھا لیکن صرف تھوڑی سی سزا دی ہے۔ اگر یہاں کوئی ڈاکٹر ہے تو اس کی مرہمپٹیکردے۔’’
اتفاق سے ایک سرجن اپنے اوزاروں کےس اتھ اسی طیارے میں سفر کر رہا تھا۔ وہ اس زخمی کی طرفمتوجہ ہوگیا۔
‘‘تمہارا کیا خیال ہےکہ تم ائرپورٹ اتر کر بچ جاؤگے….؟’’ ایک عورت نے کوپر سے پوچھا۔
‘‘نہیں میڈم! میں اتنا بےوقوف نہیں ہوں کہ کسی ائرپورٹ پر اترنے کی حماقت کروں۔’’ کوپر نے کہا۔‘‘پھر کیا کروگے تم….؟’’
‘‘میڈیم، یہ آپ کا درد سر نہیں ہے۔’’ کوپر نے کہا ‘‘میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے کیاکرناہے….؟’’
بےچارہ زخمی اپنی مرہم پٹی کروا کے ایک طرف ہوگیا تھا۔ ایئر ہوسٹس نے رقم تھیلے میں بھر کر کوپر کے حوالے کردی۔ کوپر نے تھیلے کو دیکھتے ہوئے بلند آواز میں کہا ‘‘اچھا دوستو، میں نے آپ لوگوں کو زحمت دی۔ اب میرے چلنے کا وقت ہوگیا ہے۔’’
سب اس سر پھرے کی طرف ددیکھ رہے تھے۔ اس نے ائر ہوسٹس سے پیراشوٹ طلب کیا۔ پیراشوٹ باندھا اور اُڑتے ہوئے طیارے سے کود گیا۔ یہ تو ایک پہلو ہوا، دوسرا پہلو اس سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ کوپر طیارے سے کود تو گیا لیکن وہ زمین پر اترا ہی نہیں۔ ہے نا حیرت کی بات۔
اتفاق ہے کہ اس نے جہاں طیارے سے چھلانگ لگائی، وہ فوجی علاقہ تھا، یہ چونکہ دن کا وقت تھا، اس لیے اس کےپیراشوٹ کو اترتے ہوئے دیکھ لیا گیا تھا۔ سب ہی حیران ہو رہے تھے کہ یہ کون شخص ہے جو اس طرح پیراشوٹ سےنیچے آرہا ہے۔ اس کو دوربینوں کےذریعے آبزرو کیا جانے لگا۔
پیراشوٹ سیدھے فوجی چھاؤنی کی طرف آرہا تھا۔ اسی لیے فوجی بڑے اطمینان سے اس کے اترنے کا انتظار کر رہے تھے۔ لیکن اچانک ہوا کا رخ تبدیل ہوگیا اور پیراشوٹ قریبی جنگل کی طرف دوڑایا گیا لیکن اترنے والے کا کوئی پتا نہیں چلا۔ کوئی سراغ نہیں ملا، پورے جنگل کے چپے چپے کی تلاشی لے لی گئی لیکن نہ تو پیراشوٹ سے اترنے والے کا پتا چلا اور نہ ہی اس کےپیراشوٹ کا۔ آس پاس کی آبادیوں کی بھی تلاشی لے لی گئی لیکن کوپر کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ دوسری طرف ائر پورٹ پہنچ کر مسافروں نے جب کوپر کےبارے میں بتایا تو سب ہی حیران رہ گئے۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ مسافروں کی فہرست میں کوپر کا نام ہی نہیں تھا یعنی اس نام کا کوئی مسافر طیارے میں سوار ہی نہیں ہوا تھا۔ اور اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ جہاز میں جتنے مسافر سوار ہوئے تھے۔ ان کی گنتی مکمل تھی یعنی جتنے سوار ہوئے تھے، اتنے ہی اتر بھی گئے تو پھر یہ کوپر کون تھا، یہ کہاں سے آیا تھا….؟ یہ معما بھی ابھی تک لا یخل ہے۔
***


لوہے کے نقاب والاMan In Iron Mask: یہ دنیا کے بہت پراسرار اور نہایت بدنصیب آدمی کا نام ہے۔ نام کہاں، یہ اس کی شناخت ہے۔ اس شخص پر نہ جانے کتنی مرتبہ لکھا جاچکا ہے۔ اس پر فلمیں بھی بنیں، ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سے اس پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ راز ابھی تک حل نہیں ہوسکا کہ وہ کون تھا۔ وہ شخص اپنی زندگی میں بھی پراسرار رہا اور اپنی موت کے بعد بھی پراسرار ہے۔ یہ کہانی دنیا کے بدنصیب ترین شخص کی کہانی ہے۔
یہ واقعہ ہے سولہویں اور سترہویں صدی کے درمیان کا۔ کیونکہ اس کی موت نومبر 1703ء میں ہوئی تھی۔ فرانس مین اس وقت کنگ لوئس کی حکومت تھی۔ فرانس کی ایک جیل میں ایک ایسے قیدی کو لایا گیا جس کےچہرے پر لوہے کی نقاب چڑھی ہوئی تھی اور صرف اس کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس قیدی کو بادشاہ کے حکم پر وہاں لایا گیا تھا۔ معمول کے مطابق جب اندراج کرنے کے لیے اس کا نام اور شناخت وغیرہ پوچھی گئی تو لانے والوں نے جواب دیا ‘‘نہیں، اس کی کوئی شناخت نہیں ہے۔ بادشاہ کے حکم پر اسے الگ کوٹھری میں رکھا جائے گا۔ کوئی شخص اس کے قریب ہونے کی کوشش نہ کرے۔ صرف کھانا اور پانی اس کے کمرے میں پہنچا کرواپسآجائے۔’’
یہ تھا بادشاہ کا حکم اور ایک ایسا قیدی جس کے چہرے پر لوہے کی ایسی نقاب تھی جو کسی صورت اتر نہیں سکتی تھی۔ اس شخص کو فرانس کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ اور ہر جگہ اس کےساتھ یہی صورتحال ہوتی تھی۔ کسی کو بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ خود وہ بھی بالکل خاموش رہتا تھا۔ کسی نے اسے بولتے ہوئے نہیں سنا۔ یا تو وہ گونگا تھا،یا پھر وہ خود ہی کسی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ شاید وہ حکومت کا کوئی اہم عہدے دار ہے، جسے کسی قسم کی سزا سنائی گئی ہے لیکن کوئی اہم عہدےدار غائب بھی نہیں ہوا تھا، سب اپنی اپنی جگہ موجود تھے۔
اس کے بارے میں بےتحاشا قیاس آرائیاں کی گئیں۔ کون تھا وہ، بادشاہ نے اسے قید کیوں کروایا تھا۔ اس کی شناخت کیوں چھپائیگئیتھی….؟
کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ بادشاہ سے اس کے بارے میں سوال کرسکتا۔ ایک طرف تو یہ صورتحال تھی، دوسری طرف یہ بھی تھا کہ بادشاہ اس کی صحت کی طرف سے متفکر رہتا تھا۔
جب ایک مرتبہ وہ شخص بیمار پڑا تو بادشاہ نے اپنے خاص طبیب سے اس کا علاج کروایا تھا لیکن اس طبیب کو بھی معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ اس کا مریضکونہے….؟
کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ شاید یہ شخص کسی بہت بڑے راز سے واقف ہے اور بادشاہ اس سے وہ راز اگلوانا چاہتا ہے، اس لیے اسے قید میں رکھا ہوا ہے۔
وہ شخص راز اپنے سینے میں دفن کرچکا ہے۔ وہ بادشاہ کو بتانا نہیں چاہتا۔ لیکن یہ خیال اس لیے ناقابل قبول ہوا کہ اگر بادشاہ کا کوئی راز اس کےپاس ہوتا تو بادشاہ اسے قید میں رکھنے کا جھجھنٹ نہیں پالتا۔ ویسے ہی اس کو ہلاک کروا دیتا، کون پوچھنے والا تھا۔
تو پھر یہ کون تھا….؟
وہ شخص برسوں تک فرانس کی مختلف جیلوں میں قید رہا اور کوئی بھی اس کی صورت دیکھنے میں کامیابنہیں ہوا۔
بلآخر نومبر 1703ء میں اس آہنی نقاب پوش کی موت واقع ہوگئی۔ اب اس حوالے سے ایک اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس کی موت کے بعد بادشاہ نے اس کےاستعمال میں رہنے والی ہر چیز یا تو دفن کروادی یا جلوا دی۔ انتہا یہ ہے کہ بادشاہ نے یہ سارا کام خود اپنی نگرانی میں کروایا تھا۔ اور آخرکار خود اس آدمی کی لاش بھی جلا دی گئی تھی۔
اور وہ بےچارہ اپنی آہنی نقاب سمیت اہمیشہ کے لیے ایک پراسرار کردار بن کر رہ گیا کہ وہ کون تھا….؟ اس کردار کو سامنے رکھ کر نہ جانے کتنی کہانیاں لکھی جاچکی ہیں۔ کتنی فلمیں بن چکی ہیں لیکن یہ معما ابھی تک حل نہیں ہوپایا ہے اور شاید کبھی حل بھی نہ ہو۔
***


وولپِٹ کے سبز بچے Green Children Of Woolpit : یہ کہانی بارہویں صدی کی ہے۔ لیکن تاریخ لکھنے والوں نے اسے ہمیشہ زندہ رکھا ہے۔ اس کے بارے میں قیاس آرائیں کی ہیں۔ وولپٹ برطانیہ کا ایک قصبہ ہے۔ اس زمانے میں یہ ایک صاف ستھرا علاقہ تھا۔ لوگ کھیتی باڑی کیا کرتے یا اور دیگر کام کرتے۔ زندگی مشینی اور تیزرفتار نہیں ہوئی تھی۔ سب ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھی شریک رہا کرتے۔ یہ واقعہ اسی قصبے کا ہے۔ ایک صبح جب لوگ گھروں سے اپنے اپنے کام کے لیے نکلے تو انہوں نے دو بچوں کو دیکھا۔ دونوں گیارہ اور بارہ برس سے زیادہ کے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
ایک لڑکا تھا اور ایک لڑکی۔ ان دونوں کی شباہتیں ایک جیسی تھیں جو یہ بتا رہی تھیں کہ دونوں بھائی بہن ہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے اس طرح رو رہے تھے جس طرح والدین سے بچھڑ جانے والے بچے رویا کرتے ہیں۔
یہاں تک تو کوئی خاص بات نہیں تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ دونوں کی جلد انتہائی گہرے سبز رنگ کی تھی۔ جیسے پورے جسم پر گہرے سبز رنگ کا پینٹ کردیا گیا ہو۔ یہ ایک حیرت انگیز باتتھی۔
گہرے سبز رنگ کی جلد ایک انہونی سی بات تھی۔ قصبے میں جلد ہی سب کواس کی خبر ہوگئی ۔پورا قصبہ ہی ان دونوں کو دیکھنے کےلیے وہاں جمع ہوگیا۔ جب ان بچوں سے بات کی گئی تو پتا چلا کہ وہ انگریزی نہیں جانتے۔ وہ ایک ایسی زبان بول رہے تھے، جو قصبے والوں کی سمجھ سے باہر تھی۔ وہ جن معصوم نگاہوں سے قصبے والوں کی طرف دیکھ رہے تھے اور روئے جارہے تھے، قصبے والوں کو ان پر بہت افسوس ہورہا تھا۔ نہ جانے یہ بےچارے کون تھے،کہاں سےآئےتھے….؟
انہیں جب کھانے کے لیےد یا گیا تو انہوں نے کھانے سے انکار کردیا۔ اس موقعے پر مقامی چرچ کےپادری نے قصبے والوں سے کہا ‘‘دیکھو، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ دونوں بچے کسی او رسیارے سے آئے ہیں۔ انہیں خدا کا تحفہ سمجھو۔ ان کی قدر کرو، ان کا خیال رکھو اور یہ جان لو کہ خدا ہم سے خوش ہے اسی لیے اس نے ان دونوں کی پرورش کےلیے ہمارے قصبے ا انتخابکیاہے۔’’
ان دونوں کےلے اسی وقت قصبے کا ایک گھر مخصوس کردیا گیا۔ ان دونوں کو وہاں لے جایا گیا اور قصبے کےکچھ مردوں اور عورتوں نے اب بچوں کی پرورش کی ذمہ داری قبول کرلی۔
ایک مسئلہ یہ تھا کہ ان دونوں کو جو کچھ کھانے کے لیے دیا جاتا، وہ کھانے سے انکار کردیتے تھے۔ یقیناً ان کی خوراک مختلف ہوسکتی تھی۔
لیکن کیا تھی، قصبے والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ جب ایک عورت نے ان بچوں کےسامنے دودھ کے گلاس رکھے تو انہوں نے دودھ پی لیا تھا۔ ایک مسئلہ توحل ہوگیا تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان سے بات کیسے کی جائے….؟ کیونکہ جو کچھ وہ بولتے تھے، وہ قصبے والوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا اور جو قصبے والے بولتے تھے، وہ ان بچوں کے سروں سے گزر جاتا تھا۔ بالآخر قصبے کے ایک آدمی نے ان دونوں کو انگریزی سکھانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ چونکہ وہ بچے کچھ زیادہ عمر کے ہوچکے تھے اسی لیے انہیں کوئی نئی زبان سکھانا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس کے باوجود اس آدمی نے ہمت نہیں ہاری اور ان دونوں کو انگریزی سکھاتا رہا۔ پانچ سال گزر گئے۔
ان پانچ برسوں میں قصبے والوں نے انہیں اپنی اولاد کی طرح قبول کرلیا تھا۔ قصبے کے ہر گھر میں ان کا آنا جانا تھا۔
دونوں انتہائی خوبصورت تھے اور قصبے والوں کا یہ خیال صحیح نکلا تھا کہ دونوں بھائی بہن تھے۔ انگریزی سیکھ جانے کے بعد انہوں نے یہی بتایا تھا۔
اپنے بارے میں انہوں نے یہ بتایا کہ ان کا تعلق ایک ایسی سرزمین سے ہے جو زمین کےنیچے ہے اور اندھیروں کی دنیا کہلاتی ہے۔ وہاں سورج کی روشنی کا گزر نہیں ہوتا اسی لیے ان دونوں کی جلدیں اتنے گہرے رنگ کی ہیں۔ ان دونوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں بھائی بہن گھر سے کھیلنے کے لیے نکلے تھے کہ نہ جانے کیسے یہاں آگئے۔
قصبے والوں کا یہ خیال تھا کہ شاید ان دونوں کی زندگی اسی قصبے میں گزرے گی لیکن ایک دن وہ دونوں اچانک غائب ہوگئے۔ ان کا کوئی پتا نہیں چلا۔ جس طرح وہ آئے تھے۔ اسی طرح واپس چلے گئے۔ شاید اپنی اسی زمین دوز دنیا میں، جہاں سورج کی روشنی کا گزرنہیںہوتا۔
نہ جانے کیسے کیسے بھید یہاں چھپے ہوئے ہیں۔ کیسے کیسے لوگ ہمارے اطراف میں ہیں۔ ایسے پراسرار لوگ جن کے لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کون ہیں۔ اور ان کی زندگی کیا ہے….؟
یہ بات تو یقینی ہے کہ ابھی بھی ان گنت بھید ہیں جن تک انسانی اذہان کی رسائی نہیں ہوسکی ہے۔

 

 

 

دسمبر 2014ء

 

یہ بھی دیکھیں

روحوں کی میڈیم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

روحوں کی میڈیم انیسویں صدی کے اوائل میں روحوں سے باتیں کرنے والی ایک خاتوں ...

ایک شخصیت دو جسم – عقل حیران ہے سائنس خاموش ہے

ایک شخصیت دو جسم  جڑواں لوگوں کے درمیان ٹیلی پیتھی کے حیرت انگیز ذہنی تعلقات…. ...

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *