Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

مذہب اور سائنس میں تصادم یورپ میں سائنس دانوں کو سزائیں 

 

Science VS Religion

مذہب اور سائنس میں تصادم
یورپ میں سائنس دانوں کو سزائیں 

چند مغربی سائنس دانوں اور مفکرین کا تذکرہ جب انہیں روایات کے برعکس نظریات پیش کرنے پر شدید مخالفت کا سامنا  کرنا پڑا اور بعض کو تو سزا کے طور پر زندہ جلادیا گیا….

ابن وصی

 

 

اس دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں، بعض  تبدیلیوں کو انسان آسانی سے قبول کرلیتا ہے، بعض تبدیلیوں کو بالکل مسترد کردیتا ہے اور بعض تبدیلیوں کو پہلے رد اور بعد میں قبول کرلیتا ہے۔  کوئی ایسی تبدیلی جو معاشرہ کے نظریات اور روایات سے مطابقت نہیں رکھتی ہے تو بعض حالات میں افرادِمعاشرہ کی اکثریت اس کے خلاف سرتاپا احتجاج  بن جاتی ہے۔  اس ردعمل میں بعض لوگوں  کے شعور  یہ قابلیت بھی کھودیتے ہیں کہ وہ اس نئے نظریہ کو پرکھیں اور سمجھیں ….

 اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ زمانے کی ساری ترقی،تحقیق (Research) علم کے اوپر قائم ہے۔  آج سائنس، ترقیوں کے جس بلند مقام پرکھڑی ہے اِس کے لیے سائنس دانوں  نے بڑی مشقتیں اُٹھائی ہیں۔  یہاں ہم آپ کے سامنے دنیا کے چند بڑے سائنس دانوں کے واقعات پیش کریں گے۔ جب اُنہوں نے اپنے ان افکار کو پیش کیا تھا تو انہیں انتہائی سخت اور تکلیف دہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

یورپ میں علم و تحقیق،سائنس و ٹیکنالوجی کا آغاز تقریباً تیرہویں صدی عیسوی میں ہوگیا تھا۔ اس دور کو Renaissanceیا نشاۃ ِ ثانیہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ میں بادشاہوں اور پادریوں کا راج تھا۔ یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کی طاقت بڑھانے کے لیے متحد  رہتے تھے۔ پادری  طاقت ور افراد کے حق میں فتوے نما بیانات جاری کرتے تھے اور بادشاہ اپنے کاموں میں پادریوں کی رضامندی لیا کرتے تھے۔    اس دور میں یورپ بھرمیں پھیلی ہوئی عدم رواداری،  تعصب اور توہم پرستی نے حصولِ علم اور سائنسی مطالعے کو ناممکن بنا دیا تھا۔  

کلیسا نے ایسی ہر تعلیم  اور نظریات کو ناجائز قرار دے دیا تھا جو ان کی مذہبی  تعلیمات سے مطابقت  نہیں رکھتی تھی۔ اس وجہ سے مذہب اور سائنس کے درمیان ایک تصادم کی صورت حال پیدا ہوچکی تھی۔     

جب ہم تاریخ کی کتابوں میں مذہب اور سائنس کے تصادم کی کہانی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارا تعارف یورہ کے ایک نہایت تاریک باب سے ہوتا ہے۔ جب مذہبی عدالتوں نے یورپ میں  ہزاروں افراد کو جادو یا کفر کے الزام میں اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ سزا یافتہ افراد  کی ٹانگیں دو گھوڑوں سے باندھ کر زندہ چیر دیا جاتا تھا،  ان کی آنتیں باہر نکال دی جاتی تھیں، علم و تحقیق کی بات کرنے والوں کو ستون پر لٹکا کر پھانسی دی جاتی تھی یا انہیں زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ وفات پائے محققین  کو بھی معاف نہیں کیا جاتا تھا۔  

اس دور میں  جب بھی یورپ کے سائنس دان کوئی نئی چیز بتاتے  یا کوئی نیا سائنسی کلیہ دریافت کرتے تو پادری بالعموم اس کی نفی کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر جب رات کی تاریکی ختم کرنے کے لیے زیادہ روشنی والی چیزیں مثلاً فانوس اور قندیلیں وغیرہ تیار  کی گئیں جن کے شیشے چراغ کی روشنی کو کئی گنا بڑھا دیتے تھے تو پادریوں نے یہ کہتے ہوئے ان نئی اشیاء کی مخالفت شروع کر دی کہ جب خدا نے رات میں تاریکی رکھی ہے تو آپ اس اندھیرے کو روشنی میں بدلنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں….؟ 

 

اس حوالے سے سب سے مشہور واقعہ جو بیان کیا جاتاوہ سورج اور زمین کی حرکت سے متعلق ہے۔ ہزاروں برسوں سے زمین کو نظامِ شمسی کا محور مانا جاتا تھا، یونانی فلسفیوں اور خاص طور پر بطلیموس Ptolmey (100ء تا 170ء) کا یہ موقف تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج اور ستارے زمین کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ نظریہ اتنا مقبول ہوا کہ پادریوں  نے اس نظریے کو قبول کر کے مذہبی عقیدے کا حصہ بنادیا۔   جب سولہویں صدی میں پولینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک محقق  نکولس کوپرنیکس Nicolaus Copernicus( 1473ء تا 1543ء ) نے  علم فلکیات میں اپنی  تحقیق کی بنیاد پر یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج مرکز میں ہے اور زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔   جو اہلِ علم قدیم افکار سے چمٹے ہوئے تھے وہ اس تحقیق  پر سخت ناراض ہوئے۔   اس خیال کو کفر قراردیا گیا، کوپرنکس ان کے غیظ و غضب کا ہدف بنا۔ اُنہوں نے کوپرنکس کو متنبہ کیا کہ کفر پر مبنی افکار سے  دست بردار ہوجاؤ، احمقانہ باتیں نہ کرو۔ 

چرچ  کا فیصلہ یہ تھا کہ زمین ہی کائنات کا مرکز ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں  اس کے برخلاف کوئی بات کرنا  مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ کلیسائی اعتقادات  کے برعکس کچھ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ دائرہ مذہب سے خارج ہونے کا خطرہ قبول کیا جائے۔ اُس وقت ایسے مجرم کی سزا یہ بھی تھی کہ برسرِ عام مجرم کو لکڑیوں سے باندھ کر جلادیا جاتا تھا۔ 

کوپرنکس براہِ راست کلیسا کی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ وہ چھتیس برس تک اپنے طور پر اپنی ایک کتاب کی ترتیب و تدوین میں لگارہا۔ کوپرنکس کے ایک ساتھی ریٹیکس نے کوپرنکس کا ایک چھوٹا سا پمفلٹ چھپواکر یورپ کے اہلِ علم کو بھیج دیا۔ پولینڈ سمیت یورپ بھر کے قدامت پسند لوگوں  اور بعض  لیڈروں کی طرف سے اس علمی کاوش پر شدید احتجاجات ہوئے۔ پادریوں  نے کوپرنکس کو مذہب  سے خارج کردینے کی دھمکی دی۔ اس کشیدہ صورتحال کے  پیش نظر اس کتاب کو چھپوانے کے لیے  اُسے فلکیات کے بجائے ریاضی کے اصولوں کی کتاب بتایا گیا۔  اسی دوران کوپرنکس پر فالج کا حملہ ہوا۔ کتاب طبع  ہوکر جب کوپرنکس کے ہاتھ میں پہنچی تو  اُس وقت کوپرنکس بسترِ مرگ پر پڑا ہوا تھا۔ نسخہ اس کے ہاتھ میں پہنچا تو اُس کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔ اُس نے پلنگ کے آس پاس موجود اپنے دوستوں کو دیکھا اور چند گھنٹوں کے بعد وہ دنیا سے رُخصت ہوگیا۔

کوپرنکس کے انتقال (1543ء)کے بعد اٹلی کے ایک فلسفی اور سائنس دان جیورڈانو برونو (1548ء تا 1600ء) Giordano Bruno نے کوپرنکس کے نظریات کو یورپ بھر میں پھیلانا شروع کیا تو اُسے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔  کوپرنیکس  کے خیالات کو  پادریوں نے کافرانہ، ملحدانہ اور مجنونانہ قرار دے دیا۔  پادریوں نے ان خیالات کے  درس گاہوں  میں ذکر پر بھی پابندی لگادی۔  تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں  کے باوجود برونو  کوپر نیکس کی دریافتوں کا پرچار کرتا رہا ،  اس پاداش میں 1600ء اُسے  گرفتار کرلیا گیا،  اسے سات برس قید میں رکھا گیا۔    زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے ان خیالات کو چرچ کی طرف سے کفر قرار دیتے ہوئے چرچ نے برونو کو  کی سزائے موت سنائی ۔ موت کی یہ سزا برونو کو روم میں 17فروری 1600ءکو سرِ عام زندہ جلا کر  دی گئی۔ 

کوپر نیکس کے انتقال کے تقریباً پچپن  برس اور برونو کی سزائے موت کے دس  برس بعد اٹلی کے ایک سائنس دان  گیلیلیو  Galileo Galilei (1564ء تا 1642ء )نے اپنی دوربین  کے ذریعے فلکی مشاہدے سے  اس نتیجے پر پہنچا کہ کوپرنیکس کا نظریہ درست ہے۔ گیلی لیو نے اس حقیقت پر اصرار کیا  کہ سورج زمین کے گرد نہیں گھوم رہا بلکہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ گیلیلیو کے اس بیان سے چرچ سخت ناراض ہوا ۔ فروری 1616 میں  گیلی لیو  کو چرچ کی عدالت میں بلایا گیا۔  چرچ میں پادریوں نے گیلی لیو سے کہا کہ اس کا بیان مذہب کی تعلیمات کے خلاف ہے،  چرچ کی جانب سے گیلیلیو کو تنبیہ کی گئی  کہ وہ اپنی سائنسی تحقیقات بند کردے ۔

چرچ کی اس واضح  تنبیہ کے باوجود گیلیلیو نے اپنی تحقیقات  جاری رکھیں  ۔ اس نے  1632ء میں اپنی تحقیقات پر مشتمل کتاب  چھپوادی۔  گیلی لیو کی اس کتاب سے یورپ کے مذہبی حلقوں میں گویا زلزلہ سا آگیا۔ فروری 1633 میں گیلیلیو کو مذہبی عدالت میں بلایا  گیا ۔   وہاں اسے کفر کا مرتکب قرار دیتے ہوئے گیا گیا کہ اس  نے اپنی تحقیقا ت سے مذہبی تعلیمات کو غلط قرار دیا ہے۔ چرچ نے کہا کہ تمہارا یہ عمل گناہ کبیرہ ہے اس کی سخت سزا ہے۔ گیلیلیو  سے کہا گیا کہ سزا سے بچنے کے لیے اپنے  نظریات واپس لو اور چرچ سے معافی مانگو۔

اس وقت گیلیلیو نے اپنی جان بچانے کے لیے اپنے الفاظ واپس لے لیے۔  اس معافی  کے بعد  گیلیلیو کو قید  یا موت کی سزا  تو نہیں دی گئی البتہ اسے اُس کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا ۔ اسی نظر بندی میں 8 جنوری 1642ء کو   گیلی لیو  کا انتقال ہوگیا۔

 

مشہور حکیم جالینوسGalen  (130تا 201ء )نے جب یہ جاننے کی کوشش کی کہ انسانی جسم  کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے  تو اسے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس دور میں مردہ انسانی جسم کی چیر پھاڑ بطور تحقیق سخت منع تھی۔ یونانیوں  کا یہ عقیدہ تھا کہ انسان دیوتائی شکل پر بنایا گیا ہے  اس کی بے حرمتی قطعاً نہیں ہونی چاہئے۔  جالینوس نے چھپ چھپا کر بن مانسوں کے جسم کی چیر پھاڑ کرکے، سرجری کے اصول وضع کیے اور جسم کے متعلق تحقیقات کیں۔

وسالیوس اینٖڈریاس   Vesalius Andreas (1514 تا 1564ء)نے اس میدان میں جرأتِ مندانہ قدم اُٹھایا۔ اُس نے اپنی چھوٹی سے لیبارٹری میں ایک مردہ بلّی کے جسم کی چیر پھاڑ کی۔ اس  دور میں انسانی جسموں کی چیر پھاڑ کے خلاف ایک قانون موجود تھا مگر اُس نے ایک خطرناک قدم اُٹھایا۔ وہ لاوارث لاشوں کو اپنی لیبارٹری میں لاکر  اُس نے اس کے جسم کی چیر پھاڑ کرکے،  اپنے مشاہدات کتاب میں نوٹ کرتا ۔ 1543ء میں جب اُس نے کتاب شائع کی  تو مخالفتوں  کا ایک طوفان برپا ہوگیا مگر بعد میں طبی دنیا میں  اُس کے نظریات تسلیم کرلیے گئے۔ 

مائیکل سرویٹس Michael Servetus (1511 تا 1553ء ) نے طب اور اناٹومی میں اہم کردار ادا کیا،  وہ پہلا یورپی سائنس دان  تھا جس نے دل اور پھیپھڑوں کے درمیان خون کی گردش کو درست طریقے سے بیان کیا،  چرچ  کی طرف سے اسے  مجرم قرار دیا گیا تھا، انسانی  جسم کی  چیڑ پھاڑ کرنے کے پاداش   میں  اسے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں سرِ عام زندہ جلا دیا گیا۔   

ولیم ہاروے William Harvey (1578 تا 1657ء) نے پہلی مرتبہ درستگی کے ساتھ یہ بتایا کہ انسانی جسم میں خون کس طرح دور کرتا ہے، مگر اُس کو بھی اپنے دور میں شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔  ان محققین کی جو جو کتابیں چرچ  کو مل سکیں وہ سب جلا دی گئیں، اس لیے اس کے کام کی اہمیت اس کی موت کے کئی سال بعد تک معلوم نہیں تھی۔

پادریوں کا ماننا تھا کہ جسمانی بیماری اکثر گناہ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہاں عوام پر  لازم تھا کہ  بیماری کی صورت میں چرچ میں پادریوں کے پاس مقدس تبرکات کے ذریعہ علاج کروائیں۔ پادری  کہتے تھے کہ وبائی  بیماریاں مثلاً چیچک ہیضہ وغیرہ گناہ گاروں پر  نازل ہونے والا عذاب  ہیں اس لیے ایسے  مریضوں کو  شہر سے باہر پھینک دیا جائے۔ پادری ان بیماریوں  کی ادویات اور  ٹیکوں وغیرہ کے شدید مخالف تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ چیچک گناہوں کی پاداش میں خدا کا قہر  ہے اس لیے اس کا علاج  خدا کو ناراض کرنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔  

ڈاکٹر  بوائلسٹن (1679 تا 1766ء )  Zabdiel Boylston  وہ پہلا معالج تھا جس نے امریکا میں سرجری کا آغاز کیا اور چیچک کے وبائی مرض کا علاج کرنا شروع کیا۔    چرچ  کی جانب سے  اس عمل کی شدید مخالفت کی گئی۔ انہیں سرِ عام پھانسی پر لٹکانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ ڈاکٹر بوائلسٹن کو اپنی جان بچانے کے لیے   اپنے  دوستوں  کے گھروں  چھپ کر رہنا پڑا،    جس شخص نے اسے اپنے گھر میں پناہ دی چرچ کی جانب سے  اس کے گھر پر جلتا ہوا آگ کا گولہ پھینک دیا گیا۔ پادری چیچک کے ٹیکے کے حامیوں کو برا بھلا کہتے تھے۔

انتونی لوراں لوازئیر  (1743تا 1794ء) Antoine Laurent Lavoisier کو جدید کیمیا کا بانی  کہا جاتا ہے ،  اس نے  عناصر کیمیاء کا درست تعین کیااس نے  بتایا کہ پانی کوئی عنصر نہیں بلکہ آکسیجن اور ہائیڈروجن   پر مبنی ہے، اس کے نظریات کو عوام تو کیا خود کیمیا  دانوں نے تسلیم نہیں کیا۔  فرانس کے انقلاب کے دوران انتونی لوازئیر   کو  گرفتار کرلیا گیا اور جج نے یہ کہہ کر اسے موت کی سزا سنائی کہ ‘‘فرانس   کو ایسے فطین ذہن کیمیا دان کی ضرورت نہیں’’ یہ وہ دور تھا جب کیمیا کا علم طبیعات ریاضی ، ہیت و فلکیات سے کم تر سمجھا جاتا تھا۔  8 مئی 1794ء کو انتونی لوازئیر کا سر   کاٹ کر جدا کردیا گیا۔  

جوزف لسٹر Joseph Lister (1912-1827عیسوی) پہلے جو آپریشن کئے جاتے تھے اُن میں کٹے ہوئے حصّوں پر جراثیم کش ادویات نہیں لگائی جاتی تھیں جس کی وجہ سے زخموں میں آپریشن کے بعد پیپ پڑجاتی تھی۔ کئی مریض علاج  کے باوجود موت کا شکار ہوجاتے تھے۔ لسٹر نے کٹے ہوئے حصّوں پر جراثیم کش ادویات کا استعمال کیا۔ ایڈنبرا کے ہسپتال میں جس ڈیپارٹمنٹ کا چارج لسٹر کے پاس تھا وہاں اموات کی شرح صفر ہوگئی لیکن لوگ لسٹر کی تدبیروں اور تحقیق کا اعتراف کرنے کے بجائے اس نتیجے کو محض خوش قسمتی قرار  دیتے تھے۔

سترہویں صدی کے ایک معروف پادری اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ دنیا نے اتوار 23 اکتوبر 4004 قبل مسیح کو صبح 9 بجے تخلیق ہوئی ہے۔ اس نظریہ کو حتمی  مان  لیا گیا۔       اٹھارہویں صدی میں جب علم ارضیات اور  آثار قدیمہ کے ماہرین نے اس بیان کے مخالف نظریات پیش کیے تو کٹر پادریوں نے علمِ ارضیات کو ایک ناجائز اور شیطانی علم  قرار دیا۔ اس شعبہ کے محققوں کو کافر اور تاریخ کو جھٹلانے والے قرار دیا۔ 1850ء میں اٹلی  کے چرچ کی طرف سے شہر بولونیا میں منعقد ہونے والی سائنسی کانگریس کو ممنوع قرار  دے کر اس پر پابندی لگادی۔ 

 

آکسفورڈ یونیورسٹی  کے پروفیسر  ، ماہر تعلیم،  ادیب    اور فلسفی   جون وائی کِلف (1328تا 1384ء) Jhon WyCliff جسے انگریزی نثر کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے،      جدید  سائنسی علوم اور طرز تعلیم میں جدت لانے کا حامی تھا، اس نے  اپنے شاگردوں کے لیے   آسان زبان میں  کتب تحریر کیں۔  جون وائی کلف  کی موت کے بعد شاگردوں  نے اس کی کتاب  کی کئی درجن کاپیاں بنا کر تقسیم کردیں۔ یہ وہ دور تھا جب تعلیم اور نصاب پر چرچ کی اجارہ داری تھی اور  چرچ کی طرف سے مذہبی تعلیم کو صرف لاطینی زبان میں لکھے جانے کی پابندی تھی۔      وائی کلف کے آسان انگریزی میں ترجمہ کرنے سے بعض پادری اس قدر مشتعل ہوئے کہ اُس نے انگریزی زبان کے اس محسن کو اُس کی موت  کے 44سال بعد یوں رسوا کیا کہ چرچ نے حکم دیا کہ جون وائی کلف کی ہڈیوں کو قبر سے نکالا جائے ، انہیں جلا کر راکھ  کرکے چورا چورا کردیا جائے اور پھر دریا میں بہا دیا جائے۔ چرچ کے احکامات کی حرف بحرف تعمیل ہوئی۔  جون وائی  کلف کی راکھ کو برطانیہ کی مشہور نہرِ سوئفٹ  میں بہادیا گیا۔ 

 ازمنہ وسطیٰ میں یہ عقیدہ بھی عام تھا کہ سیلاب، طوفان اور زلزلے دراصل گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ چرچ کے  مطابق    گناہوں سے توبہ نہ کرنے والوں پر  آسمانی بجلی گرتی  ہے۔   ایک سائنس دان بینجمن فرینکلن Benjamin Franklin (1705ء تا 1790ء ) نے 1752ء میں طوفان باد و باراں کے دوران اپنی دھاتی سلاخوں سے بنی پتنگ اڑائی۔ اس خطرناک تجربے کے ذریعہ اس نے یہ دریافت کیا کہ آسمانی بجلی کوئی الگ چیز نہیں  بلکہ دراصل برقی طاقت کی ہی ایک شکل ہے۔ عام بجلی کی طرح آسمانی بجلی کا رخ بھی بدلا جاسکتا ہے۔ اس نے ایک برقی چھڑی بنائی جو خوفناک ترین برقی طوفان اور آسمانی بجلی سے عمارتوں محفوظ رکھ سکتی تھی۔ پہلے تو کلیسا نے اس کا وجود تسلیم نہیں کیا ، لیکن جب اس کامیابی کو وسیع پیمانے پر مان لیا گیا اور برق سے حفاظت کی چھڑیاں زیادہ نصب کی جانے لگیں تو کٹّر مذہبی افراد نے اس کی سخت مخالفت شروع کر دی۔ 

جرمن محقق  امانوئل کانٹ  Immanuel Kant  (1724 تا 1804ء ) نے جب یہ نظریہ پیش کیا کہ خلا میں صرف ستارے ہی نہیں بلکہ گیسوں کے بادل بھی ہوتے ہیں۔ یورپ میں پادریوں  نے اس  نظریے کے خلاف شور مچادیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظریہ ان کی کتابوں  میں نہیں پایا جاتا،  اس لیے بادلوں کا وجود نہیں ہونا چاہیے۔  

تو یہ تھے وہ چند ردعمل جن کا اکثر محققین نے سامنا کیا، حقائق سے انکار کی روش کے باوجود کے باوجود خردمندی کے لیے جدوجہد کرنے والے ہارے نہیں۔  یورپ میں آخرکار ایک دور ایسا آیا کہ علم و تحقیق کے میدانوں میں چرچ کی مداخلت کے راستے بند ہوگئے۔سائنسی تحقیقات  اور ٹیکنالوجی کے ثمرات آہستہ آہستہ عام افراد تک پہنچنے لگے۔

 

روحانی ڈائجسٹ، جون 2023ء سے انتخاب

اترك تعليقاً

لن يتم نشر عنوان بريدك الإلكتروني. الحقول الإلزامية مشار إليها بـ *