Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور تصوف

سیدنا صدیق اکبر ؓ کے یومِ وصال 22 جمادی الثانی کی مناسبت سے خصوصی مضمون

حضرت ابوبکرؓ نے ہی سب سے پہلے کلمہ طیبہ کا ذکر تلقین کیا۔ کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخشؒ نے آپؓ کو ’’امام تصوف‘‘ لکھا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ کا سلسلہ امام جعفر صادق ؒ کے واسطے سے حضرت ابوبکرؓ تک پہنچتا ہے۔

 

ایک مرتبہ دربار رسالت مآبﷺ میں صحابہ کرام ؓ اس طرح موجود تھے گویا شمع کے گرد پروانے….
سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دریافت فرمایا ’’آج تم میں سے کس کا روزہ ہے؟‘‘….
سب خاموش رہے۔ ایک صاحب نے اس حکم پر عجزو انکساری کے ساتھ عرض کیا ’’ حضورؐ میں روزے سے ہوں ‘‘
پھر آپ ﷺ نے پوری مجلس پر نظر دوڑاتے ہوئے فرمایا ’’ تم میں سے کس کس نے آج مسکین کو کھانا کھلایا؟‘‘….
پھر وہی صاحب کھڑے ہوئے۔ آپﷺ نے تیسری مرتبہ دریافت فرمایا ’’کسی نے آج مریض کی عیادت کی؟‘‘….
اس پر بھی اُنہی صاحب کا جواب اثبات میں آیا۔
پھر دریافت کیا گیا ’’کوئی جنازے کے ساتھ چلا؟‘‘….
وہی صاحب دوبارہ کھڑے ہوئے اور عاجزی سے بولے ’’حضورﷺ میں جنازے کے ساتھ چلا‘‘….
یہ سُن کر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو ایک دن میں اس قدر نیکیاں جمع کرلیتاہو وہی یقینا جنت میں جائے گا‘‘….
یہ صاحب جو بار بار کھڑے ہوکر ارشادِ نبویؐ پر اقرار کررہے تھے، حضرت ابوبکر صدیق ؓتھے….۔
صدق و صفا، زہد و تقویٰ، تواضع اور معرفت کا خزینہ یارِغارحضرت ابوبکر صدیق ؓ….۔
رنگ گورا، جسم دبلا پتلا، گھونگھریالے بال خشخشی داڑھی، رقیق القلب اور سادہ طبیعت کے مالک حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا شمار قبل از اسلام قریش کے رئووسا میں ہوتا تھا۔ مال و دولت کے ساتھ ساتھ حسن اخلاق، ہمدردی، وسعتِ معلومات، دانشمندی اور معاملہ فہمی کی امتیازانہ صفات کے حامل ہونے کی وجہ سے اپنی قوم میں محبوب اور معتمد تھے۔ ناصرف ماضی کے قصوں سے واقف تھے بلکہ دنیا کے موجودہ حالات سے تجارت کے سفر کے ذریعے آگاہ تھے۔ آپؓ کی صفات کی شہرت مکہ کے نواح تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ عرب کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی آپؓ کی اخلاقی خوبیوں سے لوگ واقف تھے۔

کشف و کرامات:

گوکہ صحابہ کرام ؓ طبعاً کشف وکرامات کے اظہار سے گریز کیا کرتے تھے لیکن جس طرح عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا اسی طرح بحرِروحانیت و معرفت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیضیاب ہونے والے صحابۂ کرامؓ میں نور نبوت کا جھلکنا بھی لازمی ہے۔ انبیائے کرام ؑ سے کوئی خرق عادت صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں اور انبیاء کے ورثاء سے صادر ہو تو کرامت کہلاتی ہے۔صحابۂ کرامؓ میںحضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ممتاز مقام حاصل تھا اس لئے تمام تر احتیاط کے باوجود آپ ؓ سے بھی چند کرامات صادر ہوئیں ۔
ایک مرتبہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مجلس سے چند افراد کو حضرت ابو بکر ؓ بطور مہمان اپنے گھر لے آئے۔ رات کے وقت کھانا شروع ہوا تو سب مہمانوں نے خوب سیر ہوکر کھانا تناول کیا۔ ان مہمانوں کا بیان ہے کہ جب ہم کھانے کے برتن میں سے لقمہ اُٹھاتے تو جتنا کھانا ہاتھ میں آتا تھا اُس سے زیادہ کھانا برتن میں بڑھ جاتا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو کھانا بجائے کم ہونے کے مزید بڑھ گیا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ یہ برتن لے کر مسجد نبوی میں چلے گئے۔ وہاں بارہ وفود آئے ہوئے تھے۔ ہر وفد میں بہت سے لوگ تھے ۔ ان سب لوگوں نے اسی برتن سے کھانا کھایا یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔

ایک اور مشہور واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت صدیق اکبر ؓ کا آخری وقت نزدیک آیا تو آپ ؓ نے اپنی صاحبزادی حضرت عائشہؓ کو بلوایا اور یہ وصیت فرمائی ’’میری پیاری بیٹی!….۔ میرے پاس جو مال تھا وہ آج وارثوں کا ہوگیا ہے۔ تمہارے دونوں بھائی عبد الرحمن و محمد اور تمہاری دونوں بہنیںاس مال کو قرآن مجید کے حکم کے مطابق آپس میں تقسیم کرلینا‘‘….۔ حضرت عائشہؓ نے حیرت سے کہا ’’ ابا جان میری تو ایک ہی بہن اسماء ہیں۔ یہ دوسری بہن کون ہے؟‘‘….۔۔ حضرت صدیق اکبر ؓ نے فرمایا ’’تمہاری یہ بہن میری زوجہ بنتِ خارجہ کے بطن سے پیدا ہوگی‘‘۔
آپ ؓ کے انتقال کے بعد یہ بات اسی طرح پوری ہوئی۔ حضرت بنتِ خارجہ ؓ سے ایک لڑکی کی پیدائش ہوئی جس کا نام اُم کلثوم رکھا گیا۔
علامہ تاج الدین سبکی تحریر کرتے ہیں’’اس واقعہ سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی دوکرامات ثابت ہوئی ہیں۔ اوّل یہ کہ آپؓ کو پہلے سے یہ علم ہوگیا تھا کہ میں اسی مرض کے باعث دنیا سے رحلت کروں گا۔ دوم یہ کہ زوجہ محترمہ سے لڑکی ہی کی پیدائش ہوگی‘‘۔

کمال استغنا:

روحانیت کابنیادی نکتہ یہ ہے کہ ماسوائے اللہ کے ہر چیز کی نفی کردی جائے۔ نفی کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں نکل جائے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو ثانوی حیثیت دے دی جائے۔ وہ جو کچھ دیکھے اللہ کے تناظرمیں دیکھے ، جو کچھ سوچے پہلے اس کا ذہن اللہ کی طرف جائے ۔ اسے استغنا کہا جاتا ہے جو صفت صمدیت کا عکس ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ دولت استغنا سے مالا مال تھے۔ اُنہوں نے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے علاوہ ہر چیز کی نفی کردی تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو ایک جنگ کے لئے عطیات جمع کرنے کا حکم دیا ۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں ’’مجھے خیال گزرا کہ آج میںابو بکرؓ سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ اپنا نصف مال لے کر بارگاہ نبوتﷺ میں پیش کردیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا ’’تم نے اہل وعیال کے لئے کتنا مال رکھا ہے؟‘‘….۔
میں نے عرض کیا اتنا ہی جتنا یہا ں مال پیش کیا ہے….۔ لیکن اسی وقت حضرت ابو بکرصدیق ؓ اپنا کُل سرمایہ لئے حاضر ہوئے۔ آنحضور ﷺ نے وہی سوال دہرایا کہ تم نے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے تو اُنہوں نے عرض کیا ’’ اُن کے لئے خدا اور اس کا رسولﷺ ہے‘‘۔
اس بات سے میں نے جان لیا کہ میں کبھی ابو بکرؓ سے سبقت نہیں لے سکتا‘‘۔
حضرت داتاگنج بخش ؒ تحریر کرتے ہیں’’ جب خدا تعالیٰ بندہ کو کمال صدق پر پہنچادیتاہے اور عزت کے مقام پر اُسے متمکن کردیتا ہے تو وہ امر الٰہی کے وارد ہونے کامنتظر رہتاہے کہ وہ کس طور پر نازل ہوتا ہے چنانچہ وہ امر الٰہی کے مطابق ہوجاتا ہے….۔ اگر حکم آتا ہے کہ وہ فقیر ہو جائے تو وہ فقر اختیار کرلیتا ہے۔ اگر حکم ہوتا ہے کہ امیر ہوجائے تو امیر ہوجاتا ہے۔ اس میں اپنی طرف سے کوئی تصرف نہیں کرتا۔ جیساکہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ابتدا سے انتہا تک سوائے تسلیم امر حق کے کوئی دوسری راہ اختیار نہیں کی کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کے عموماً اور اہلِ طریقت کے خصوصاً امام اور پیشوا ہیں‘‘۔

حضرت داتا صاحب مزید تحریر کرتے ہیں ’’حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اپنی ایک مناجات میں فرمایا اے اللہ! ….۔ میرے لئے دنیا فراغ کردے اور مجھے اس سے زاہد بنادے….۔
پہلے تو آپ ؓ نے فرمایا کہ دنیا مجھ پر فراغ کردے اور پھر فرمایا مجھے اس کی آفت سے محفوظ رکھ۔ اس میں ایک رمز یہ ہے کہ پہلے مجھے دنیا عطافرما تاکہ اس کا شکریہ ادا کروں پھر اس بات کی توفیق بخش کہ محض تیری خوشنودی کے لئے اس کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا درجہ بھی حاصل کروں‘‘۔

 

روحانی علوم کی منتقلی:

روحانی علوم کاغذ قلم سے نہیں سیکھے جاتے بلکہ یہ علوم منتقل ہوتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ دربار رسالتؐ کے حاضر باش صحابی تھے ۔ آپ ؓ کا قلب اطہر نور نبوت سے لبریز تھا اور رسول اللہ ﷺ نے معرفت کے نور سے اپنے اس جانثار ساتھی کاباطن روشن کردیا تھاچنانچہ روحانی علوم کی اس منتقلی کا واضح اشارہ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اس طرح فرمایا ’’ ابوبکر….۔ تم سے نماز اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے افضل نہیں ہیں بلکہ ایک راز کی وجہ سے افضل ہیں جو اُن کے سینے میں ڈالا گیا ہے‘‘۔
ایک اور موقع پر فرمایا ’’ میرے رب نے جو کچھ میرے دل میں ڈالا وہ میں نے ابوبکر کے قلب میں ڈال دیا‘‘۔
سرچشمہ ٔ روحانیت اور راز کنائے حقیقت ومعرفت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ سے معرفت کے جام نوش کرنے کے باوجود حضرت ابوبکر ؓ صحو کے بجائے سکر میں زیادہ رہتے۔ سرورِ عشق کو مدہوشی میں تبدیل کرکے افشائے راز کو کبھی پسند نہ فرمایالیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں باطن کی دنیا ظاہری دنیا میں بھی اپنا اثر دکھا دیتی چنانچہ قیام صلوٰۃ کے دوران خشیت الہٰی سے اتنے بے قابو ہوجاتے کہ روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں۔ انوارو تجلیات کا اثر اتنا ہوتا کہ وہاں موجود خواتین اور بچوں پر بھی رقت طاری ہوجاتی۔ بعض اوقات نماز میں انتہائی بے حس و حرکت ہوجاتے، چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتااور دیکھنے والا اندازہ کرلیتا کہ آپ ؓ اس وقت حضوری کی کیفیت میں ہیں۔
قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو انوار کا اتنا ہجوم ہوجاتا کہ دل گداز ہوکر خشیت میں ڈوب جاتا، آنکھیں نم ہوجاتیں، اسرارالٰہی کھل جاتے اور قرآن کے معانی سامنے آنے لگتے۔ بعض مواقع پر اس قدر پھوٹ پھوٹ کر روتے کہ آس پاس لوگ جمع ہوجاتے۔

عشق رسول ﷺ:

حضرت صدیق اکبرؓ عشق رسولؐ کے اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے۔ جب واقعہ معراج پیش آیااور رسول اللہﷺنے اہل مکہ سے بیان فرمایاکہ آپ ﷺ رات میں خانہ کعبہ سے بیت المقدس اور پھر وہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے تو یہ بات سُن کر مشرکین کے لئے ایذاء رسانی کا نیا موقع ہاتھ آگیا۔
ابوجہل نے ابوبکر ؓ کو روک کر پوچھاکہ کوئی آدمی ایک ہی رات میں اتنا فاصلہ طے کرسکتا ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ نے پوچھا ’’کس لئے پوچھتے ہو‘‘….۔ تواس نے کہا کہ محمد (ﷺ ) آج یہی کہہ رہے ہیں۔
یہ سُن کر حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا ’’ اگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے تو یہ بات بالکل سچ ہے۔ جب اللہ آسمان سے چند لمحوں میں وحی نازل کرسکتاہے تو رسول اللہ ﷺ کو لمحہ بھر میں زمین سے آسمانوں تک سیر کرانے میں کیا چیز مانع ہے؟‘‘….۔
یہ بات سُن کر ابوجہل بغلیں جھانکنے لگا۔
ہجرت مدینہ کے وقت یار غار حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہمراہ آنحضور ﷺ جب غار ثور میں تشریف لائے توحضرت ابوبکرؓ نے پہلے خود داخل ہوکر سارے سوراخوں کو بند کردیا پھر آنحضرت ﷺ سے اندر تشریف لانے کی درخواست کی۔ آپ ﷺ غار میںاپنے رفیق کے زانو پر سر مبارک رکھ کر مشغول استراحت ہوگئے۔ اتفاقاً اسی جگہ ایک سوراخ بند ہونے سے رہ گیا تھا۔ اس سوراخ میں ایک زہریلا سانپ تھا….۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سوراخ کو اپنی ایڑی رکھ کر بند کردیا۔ سانپ نے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائی تو پاؤں پر ڈس لیا ۔ سانپ کا زہر اثر کرنے لگا۔ درد و کرب سے حالت متغیر ہونے لگی لیکن اس وفاشعار رفیق نے اپنے جسم کو حرکت نہ دی کہ کہیں آپ ﷺ کے آرام میں خلل پیدانہ ہو۔ تکلیف سے بے حال ہونے لگے تو اس کا اثر آنکھوں سے آنسو کے قطرے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ قطرہ ٔ چشم آنحضرت ﷺ کے چہرئہ انور پر ٹپکا جس سے حضور ﷺ بیدار ہوگئے۔ آپ ﷺ نے اپنے مخلص غمگسار کو بے چین دیکھا تو وجہ دریافت فرمائی۔
عرض کیا’’ سانپ نے ڈس لیا ہے‘‘۔
آنحضرت ﷺ نے اسی وقت اس مقام پر اپنا لعاب دہن لگادیا اور فوراً ہی زہر کا اثر دور ہوگیا۔
مزاج آشنائے نبوت: سیدنا حضورعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اپنے آخری ایام میں ارشادفرمایا ’’اللہ نے اپنے بندے کو یہ حق دیاہے کہ چاہے وہ دنیا کو اختیار کرے چاہے آخرت کو لیکن اس بندے نے آخرت میں اللہ کے قرب کو اختیار کیا‘‘۔
یہ سُن کر حضرت ابوبکر ؓ جان گئے کہ رسول اللہ ﷺ خود اپنا ذکر فرمارہے ہیں اور زار و قطار روئے یہاں تک کہ ہچکیاں بندھ گئیں ۔ لوگ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کیوں رونے لگے ۔ اسی کیفیت میں انہوں نے حضور ﷺ سے فرمایا ’’یارسول اللہ ﷺ!…. ہماری جانیں اور اولاد آپ پر قربان ہو۔ ہم آپ ﷺ کے بعد زندہ کیسے رہیں گے؟‘‘….۔

نبوت کا چھیالیسواں حصہ :

حضرت ابوبکر ؓ کو بحر نبوت سے خواب کی تعبیر کا علم بھی منتقل ہواتھاجسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنا خواب صحابہ کے سامنے بیان فرمایا اور امتحان کے طور پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا کہ اس کی تعبیر بتائیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں نے دیکھا کہ مجھے حلوے کا ایک لقمہ دیاگیاجب میں نے اس کو نگلنا چاہاتو وہ میرے حلق میں پھنس گیااس کے بعد علی نے اپنا ہاتھ ڈال کر اسے نکالا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق ؓنے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسولﷺ! یہ آپﷺ کی ایک جنگی مہم (سریہ) میں سے ایک مہم ہے۔ اس میں بعض پسندیدہ چیزیں پیش آئیں گی اور بعض میں رکاوٹیں پیش آئیں گی پھر علی کو بھیجیں گے تو وہ اسے آسان بنادیں گے۔‘‘
حضرت ابوبکرؓ نے ہی سب سے پہلے کلمہ طیبہ کا ذکر تلقین کیا۔ کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخشؒ نے آپؓ کو ’’امام تصوف‘‘ لکھا ہے۔ سلسلہ نقشبندیہ کا سلسلہ امام جعفر صادق ؒ کے واسطے سے حضرت ابوبکرؓ تک پہنچتا ہے۔

 

یہ بھی دیکھیں

سانحہ کربلا کا پیغام

نسل انسانی کی تاریخ میں چشم فلک نے کبھی حق و صداقت کے معرکے دیکھے ...

ارطغرل کی داستان

روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء  سے انتخاب….   یہ کوئی ناول،کہانی یا ڈرامہ نہیں بلکہ خلافت ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *