Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

روزے کی حقیقت – داتا گنج بخشؒ

حضرت علی بن عثمان الجلابی ثم الہجویری المعروف داتا گنج بخش کی ہزار سالہ قدیم شہرہ آفاق تصنیف ‘‘کشف المحجوب ’’ سے اقتباسات ….
رمضان المبارک کی مناسبت سے قارئیں کی نذر

 

خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ۔[سورۂ بقرہ : 183]
پیغمبرﷺ نے فرمایا ہے کہ جبرائیل ؑ نے مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ترجمہ:روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اِس کی جزا ہوں ۔ [بخاری؛ مسلم؛ ترمذی؛ نسائی]
اس لیے کہ روزہ باطنی عبادت ہے جو ظاہر سے کچھ تعلق نہیں رکھتا اور غیر کا اِس میں کچھ حصہ نہیں اور اِس سبب سے اِس کی جزا بھی بہت بڑی ہے اور کہتے ہیں کہ لوگوں کا بہشت میں داخلہ رحمت الہٰی سے ہو گا ، درجات بقدر ِعبادات کے ہوں گے اور بہشت میں ہمیشہ رہناروزے کی جزا کےطور پر ہو گا۔
حضرت جنیدؒ (بغدادی)نے فرما یا ہے :
ترجمہ:روزہ آدھی طریقت ہے۔
[تاج العارفين]
اور میں(حضرت داتا گنجؒ بخش ) نے کچھ ایسے مشائخ کو دیکھا ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتے تھے اور بعض کو دیکھا ہے کہ سوائے ماہِرمضان کے روزہ نہ رکھتے تھے اور وہ رمضان کے روزے رکھنا، طلبِ اجر کے لیے تھااور غیر رمضان میں روزہ نہ رکھنااپنے اختیار اور ریا کو ترک کرنے کےلیے تھا۔
اور یاد رکھو کہ روزے کی حقیقت نفس کو روکنا ہے۔ گو یہ تعریف مختصر سہی لیکن اتنی جامع ہے کہ پوری طریقت کے اُسرار ورموز اِسی میں پوشیدہ ہیں اور سب سے کم درجہ روزے میں بھوکا رہنا ہے اور بھوک، شرع و عقل کی رُو سے سب زبانوں میں لوگوں کے درمیان پسندیدہ ہے(یعنی اہلِ عقل اور اہلِ شرع سب نے بھوک کی تعریف کی ہے۔)
پس رمضان کے ایک ماہ کے روزے ہر عاقل و بالغ مسلمان تندرست مقیم پر فرض ہیں ۔
اِن کی ابتداء ماہِ رمضان کے ہلال دیکھنے سے ہوتی ہے اور اختتام شوال کا چاند دیکھ کر اور ہر روز کے لیے صحیح نیت اور سچی شرط ضروری ہے۔
لیکن یہ یاد رکھو کہ نفس کو روکنے کی بہت سی شرطیں ہیں….،مثلاً پیٹ کو کھانے اور پینے سےبچائے رکھے،آنکھ کو نظرِ شہوت سے، کان کوغیبت سے، زبان کو لغواور بیہودہ باتوں اور جسم کودُنیا کی متابعت اور شریعت کی مخالفت سے محفوظ رکھے….
تب کوئی شخص حقیقی طور پر روزہ دار ہو گا…. رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی ؓ سے فرمایا:
(ترجمہ : جب تُو روزہ رکھے تو چاہیے کہ تیرے کان، آنکھ،زبان،ہاتھ اور تیرا ہر عضو بھی روزہ رکھے) [المنصف ابن ابی شیبہ؛ شعب الایمان بیہقی]
اور حضور ﷺ نے فرمایا ہے :
( ترجمہ :بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو اپنے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا’’) [ابن ماجہ؛طبرانی]
حواس کو بند رکھنا ہی پورا مجاہدہ ہے، اِس لیے کہ تمام علوم انہی کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔
وہ حواس دیکھنے،سُننے ،چکھنے ، سونگھنے اور چُھونے کی قوتیں ہیں جو اس علم وعقل کی سپہ سالار ہیں ۔ اِن میں سے چار حواس کا محل مقام مخصوص ہے، البتہ ایک حِس سارے جسم میں پھیلی ہوئی ہے۔چنانچہ آنکھ نظر کا محل ہے جو جسم اور رنگ کو دیکھتی ہے، کان شنوائی کا محل ہے جو خبر اور آواز کو سنتا ہے،تالو ذائقہ کا محل ہے جو مزے اور بے مزہ کو جانتا ہے،ناک سونگھنے کا محل ہے جو خوشبو اور بدبو کو معلوم کرتا ہے اورلمس یعنی چُھونے کا کوئی خاص محل نہیں بلکہ تمام اعضائے بدن میں پھیلی ہوئی ہے جو کہ نرمی، گرمی،سردی اور سختی کو محسوس کرتی ہے۔
یاد رکھو کہ بدیہی اور اِلہامی امور کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جس کا علم انسان کو اِن پانچ طریقوں کے سوا کسی اورطریق سے حاصل ہو، کیونکہ اِلہامی امور میں کوئی خرابی نہیں ہو سکتی اور اِن حواسِ ِ خمسہ میں سے ہر ایک طریقے میں صفائی بھی ہے اور کدورت بھی۔
کیونکہ جس طرح علم و عقل اور رُوح کو اِن حواس میں دخل ہے،اسی طرح نفس اور خواہشِ نفسانی کو بھی دخل ہے ۔گویا یہ حواس فرماں برداری، نافرمانی، نیک بختی اور بد بختی میں قدرِ ِ مشترک ہیں۔
روزہ دار کو چاہیے کہ وہ بہر کیف اِن پانچ حواس کو اپنے قابو میں رکھے یہاں تک کہ وہ حکم ِاِلہٰی کی مخالفت کو چھوڑ کر شریعت کی پوری طرح پیروی اختیار کرے، تاکہ وہ صحیح معنوں میں روزہ دار کہلائے۔
روزہ دراصل لہو غیبت اور حرام چیزوں سے پرہیز کرنا بھی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *