والدہ کہتی ہیں خلع لےلو!
سوال:
میں اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میری شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی۔ مجھے جہیز میں بہت زیادہ سامان دیا گیا۔
میرے سسرال والوں کا گھر بہت چھوٹا ہے۔ مجھے ایک چھوٹا کمرہ دیا گیا۔ اتنا سارا سامان اس کمرے میں کہاں سے آتا لہٰذا دوسرے کمروں میںرکھاگیا۔
شادی کو دو سال ہوگئے ہیں۔ میرے جہیز کا آدھے سے زیادہ سامان میری نندوں، دیوروں اور جٹھانی کے بچوں کے زیر استعمال ہونے کی وجہ سے خراب ہوچکا ہے۔
میری امی نے میری ساس سے کہا کہ سامان برباد ہورہا ہے تم اپنےبیٹے اور بہو کے لیے اوپر ایک کمرہ بنوا دو لیکن اُنہوں نے سنی ان سنی کردی۔
ابو نے میرے شوہر کو بلواکر سمجھایا اور کہا کہ اگر تم کہو تو ہم تمہیں فلیٹ دلوا دیتے ہیں تاکہ تم اپنا گھر اچھی طرح سیٹ کرسکو۔
میرے شوہراپنی اماں کے اتنے فرماں بردار بیٹے ہیں کہ انہوں نے بلا سوچے سمجھے یہ ساری بات اپنی اماں کو بتادی۔ اس پر میری ساس نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا۔ اُن کا کہنا تھاکہ میں اُن کے بیٹے کو اُن سے دور کررہی ہوں۔ مجھے سسرال میں سب نے بہت بُرا بھلا کہا۔ اس برے سلوک سے مجھے بہت صدمہ ہوا اورمیری طبیعت خراب ہوگئی۔
میرا اپنے میکے آنا جانا بھی بند کردیا گیا تھا۔ میرے والدین نے خاندان کے بڑوں کو بیچ میں ڈال کر مجھ پر سے یہ پابندی تو ختم کروادی۔ اب میں اپنے میکے جاتی ہوں لیکن میرے شوہر میرے والدین کے گھر جانے یا ان سے ملنے کے لیے تیارنہیں۔
یہ لوگ ہمارے رشتہ دار ہیں۔ ہمارا گھرانہ پڑھا لکھا ہے لیکن ان کے ہاں زیادہ تعلیم کا رواج نہیں۔
ہماری شادی خاندان کے بڑوں نے کروائی ہے۔میرے گھریلوحالات اورمیری گرتی ہوئی صحت دیکھتے ہوئے میری والدہ کا خیال ہے کہ اس رشتہ کو ختم کردینا چاہیے۔ میں شش وپنج میں پڑی ہوئی ہوں۔ آپ مجھے مشورہ دیجیے کہ میں کیا فیصلہ کروں۔
جواب:
آپ کی شادی اپنے خاندان میں ہوئی ہے۔ آپ کا سسرال آپ کے والدین کا دیکھا بھالا ہے۔ سسرال کا ماحول کیسا ہے۔ گھر کتنا بڑا یا چھوٹا ہے۔ یہ سب باتیں شادی سے پہلے بھی آپ کے والدین کے علم میں تھیں ۔جہیز کا سامان دیتے وقت آپ کے والدین کو یہ علم بھی ہوگا کہ آپ کو سسرال میں کون سا کمرہ دیا جائے گا۔
عملی زندگی میں لوگوں کے ساتھ تعلقات میں کئی نکات اپنی اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک نہایت اہم نکتہ کسی رشتے یا کسی تعلق کی ترجیحات طے کرنا ہیں۔
مشرقی عورت کے لیے شادی کے بعد پہلی ترجیح اس کا شوہر اورسسرال ہونا چاہیے۔چھوٹے موٹے اختلافات کے باوجود عورت کو اپنے شوہر کی عزت اورسسرال کی نیک نامی کا پوراخیال رکھناچاہیے ۔
آپ کا خط پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ آپ کی والدہ خود ایک بہت جذباتی خاتون ہیں ۔آپ کو اپنے گھر کی ناگوار باتیں اپنے والدہ کو نہیں بتانی چاہئیں تھیں۔اپنی جذباتی طبیعت کی وجہ سے وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پرآپ کو خلع کا غلط مشورہ دےرہی ہیں۔
کئی عورتیں اپنی بیٹی کاگھر بسارہنے کے بجائے اپنی ناک اونچی رکھنے کو اہمیت دیتی ہیں۔ اپنی والدہ سے اپنے شوہر یا اپنے سسرال کے بارے میں کوئی بات کرتے ہوئے آپ کو اپنی والدہ کا مزاج پیشنظر رکھناچاہیے۔ آپ کے شوہر میں چند اچھائیاں بھی تو ہوں گی۔آپ جب اپنے میکے جائیں تو سسرال والوں کی برائیاں کرنے کے بجائے اپنے شوہر کی خوبیاں بیان کیاکیجئے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ اپنے گھر میں شاد و آباد رہیں۔آمین
اپنے طرزعمل میں مناسب تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ بطورروحانی علاج رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ اللہ تعالیٰ کے اسماء
یاودود یارؤف
گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے شوہر اورساس کا تصور کرکے دم کردیں اور اپنے حالات کی بہتری کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیجیے۔
یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔
ناغہ کے دن شمار کرکے بعد میں پورے کرلیں۔
چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے اسم یاسلام کا ورد کرتی رہیں۔
روحانی ڈاک : ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
روحانی ڈائجسٹ جون2023ء