Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu

تلاش (کیمیاگر) قسط 1

انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔
کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔
کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے….

پہلی قسط

اندلس ، براعظم یورپ کے جنوب مشرق میں بحر اوقیانوس، آبنائے جبل الطارق اور بحیرہ روم سے ملحق، ملک اسپین میں واقع ایک بڑا گنجان آباد علاقہ ہے۔ یہ وہی اندلس ہے جس پر آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد نے بادشاہ راڈرک کو شکست دی تھی اور یہاں مسلم سلطنتِ ہسپانیہ کی بنیاد ڈالی تھی۔
مسلمانوں نے تقریبا 700 برس اندلس پر حکمرانی کی، یہ دور اندلس کا سنہری دور کہلاتا ہے اس دوران ہر میدان میں اندلس نے ترقی کی، اور یورپ کا مرکز بن گیا۔ پورے یورپ سے طالبعلم اندلس آتے اور نئے نئے علوم سیکھ کر جاتے تھے۔ پندرہویں صدی میں نشاۃ ثانیہ اور سقوط ہسپانیہ کے بعد اندلس کی سنہری تہذیب کے امین غرناطہ، قرطبہ اور اشبیلیہ آج اسپین کے صوبے اندلوسیا Andalusia کا حصہ ہیں۔
یہ کہانی ہے اسی صوبے اندلوسیا کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان چراوہے کی ہے ، اس لڑکے کا نام سان تیاگو Santiagoتھا….
جب وہ اپنی بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک قدیم اور ویران گرجا گھر میں آرام کی خاطر رُکا تو شام ڈھل چکی تھی اور ہرطرف دھند کے سائے اُتر رہے تھے۔ گرجا گھر کی یہ عمارت برسوں سے متروک تھی، اور امتدادِ زمانہ کے باعث اس کی نصف چھت بہت پہلے ہی گر چکی تھی اور جس جگہ پہلے کبھی وہ مقدّس مقام Sacristyہوا کرتا تھا جہاں کبھی پادری اپنے مقدس ظروف اور لبادے رکھتے تھے وہاں اب انجیر توت Sycamoreکا ایک بڑا سایہ دار درخت اپنی جگہ بنا چکا تھا۔
‘‘رات گزارنے کے لئے یہ جگہ مناسب ہے’’، اُس نے سوچا۔ اسی جگہ رات گزارنے کا فیصلہ کرکےوہ بھیڑوں کو اندر ہنکا لایا۔ جب اس نے اسے دیکھا کہ تمام بھیڑ یں خستہ حال اورٹوٹے دروازے سے اندر داخل ہوچکی ہیں تو اس نے گرجا کے بوسیدہ دروازہ کو لکڑی کے ایک بڑے سے تختے سے بند کردیا تا کہ رات میں کوئی بھیڑ باہر نہ نکل جائے ۔ یوں تو اِس علاقہ میں کسی بھیڑئیے کا ڈر نہیں تھا لیکن کوئی بھیڑ تو باہر جاسکتی تھی۔ ایک دفعہ ایک بھیڑ ریوڑ سے بچھڑ کر باہر نکل گئی تھی۔ اس کو پوری رات اور اگلا پورا دن اس بھیڑ کو تلاش کرتے کرتے گزرگیا تھا۔ تب ہی سے وہ ذرا محتاط ہو گیا تھا۔
اب لڑکے نے اپنی جیکٹ اتاری اُس سے زمین صاف کر کے لیٹ گیا اور وہ کتاب جو اُس نے ابھی پڑھ کر ختم کی تھی، سر کے نیچے تکیہ بنا کر رکھ لی۔ ‘‘آئندہ ذرا موٹی کتاب لوں گا’’ اُس نے اپنے آپ سے کہا ۔‘‘موٹی کتاب سے ایک فائدہ تو یہ ہے کہ پڑھنے میں زیادہ وقت گزرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ایک اچھے تکیے کا کام بھیدیتیہیں۔’’
آنکھ کھلی تو ابھی بھی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور اُسے ٹوٹی ہوئی چھت سے تاروں بھرا آسمان صاف نظر آرہا تھا۔
‘‘مجھے کچھ دیر اور سو لینا چاہیے تھا’’، اُس نے سوچا۔ آج بھی اُسے وہی خواب نظر آیا تھا جسے اس نے ہفتہ بھر پہلے دیکھا تھا اور آج بھی ادھورے خواب میں ہی اُس کی آنکھ کھل گئی تھی۔


وہ اُٹھ کر کھڑا ہوا اور گڈریوں کی مخصوص آنکڑے والی چھڑی لے کر بھیڑوں کو اُٹھانا کرنا شروع کر دیا جو شاید ابھی تک نیندسے مدہوش تھیں، لیکن اُس نے محسوس کیا کہ جیسے ہی وہ جاگتا ہے، زیادہ تر بھیڑوں میں کچھ ہلچل شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اُس کی زندگی ان بھیڑوں سے ایک خاص قسم کی پراسرار توانائی یا غیر مرئی طاقت سے جُڑی ہوئی ہے۔ اِن مویشیوں کے ساتھ اُس کا رشتہ گزشتہ دو سالوں پر محیط تھا۔ وہ پانی اور چارہ کی تلاش میں اُنہیں ساتھ لیے اندلوسیا کی وادیوں ، جنگلوں بیابانوں اورمختلف گاؤں میں پھرتا رہا تھا۔
‘‘بھیڑیں اب میرے اوقات کار و اطوار کی عادی ہو گئی ہیں۔ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ میں کب کیا کروں گا’’ دہ دِل ہی دِل میں اپنے آپ سے کہنے لگا ، پھر تھوڑی دیر بعد بولا‘‘یا شاید میں ہی اُن سے اِس قدر مانوس ہو گیا ہوں کہ اُن کے عادت و اطوار میں ڈھل چکا ہوں ۔’’
لیکن سب بھیڑیں ایک ساتھ نہیں جاگتی تھیں، ان میں سے کچھ تو بہت دیر تک سو تی رہتی تھیں۔ لڑکے نے اُنہیں اپنی آنکڑے والی چھڑی سے ٹہوکا دے کر جگایا۔ اُس نے ہر بھیڑ کو ایک نام دے رکھا تھا اور وہ ہر ایک کو نام لے لےکر آنکڑے والی چھڑی سے ٹہوکا دے کر جگا تا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ جو کچھ وہ کہتا ہے یہ بھیڑیں اُس کی زبان سمجھتی ہیں۔
چنانچہ اکثر اوقات وہ اُن کے درمیان بیٹھ کر کتابوں کے کچھ حصے پڑھ کر اُنہیں سنایا کرتا جیسے وہ ان کو سمجھ رہی ہوں ۔ کبھی وہ اُنہیں چرواہا کی زندگی کے دکھ درد، تنہائی اور خوشیوں کی باتیں بتاتا۔ کبھی کبھی وہ راستہ میں گزرنے والے گاؤں کی چیزوں کے متعلق بھیڑوں سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتا ۔ لیکن گزشتہ چند دنوں سے بھیڑوں سے اِس کی گفتگو کا موضوع ایک ہی تھا۔ ایک لڑکی، جس کا تذکرہ وہ بار بار کرتا رہتا تھا، وہ ایک تاجر کی بیٹی تھی جسے اُس نے گزشتہ سال دیکھا تھا ، اور اب اُس لڑکی کا گاؤں قریب تھا، صرف چار دن کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
وہ اس گاؤں میں پہلے بھی آیا تھا ، گزشتہ سال جب اُسے کسی دوست کے توسط سے اس تاجر کا پتہ چلا تھا جو خشک سامان Dry Goods کا کاروبار کرتا ہے اور وہ خام مال اور اون بھی خریدتا ہے۔ دوست نے بتایاتھا کہ تاجر ذرا شکیّ مزاج ہے۔ وہ سارا اُون اپنے سامنے کٹوا کر تسلی کر کے ہی خریدتا ہے۔ وہ بھی اپنی بھیڑیں لے کر اس دکان پر پہنچ گیا تھا۔
***
‘‘میں کچھ اون بیچنا چاہتا ہوں، کیا تم اُون خریدوگے ؟ ’’ پچھلے سال لڑکے نے تاجر سےپوچھاتھا۔
دکان میں بھیڑ بہت زیادہ تھی۔ تاجر نے کہا کہ وہ ابھی مصروف ہے اسے دوپہر تک انتظار کرنا پڑے گا۔ لڑکا دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور تھیلے سے ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔
‘‘اچھا۔ تو کیا چرواہےبھی پڑھنا جانتے ہیں…. ؟ ’’ اسے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھا، وہ اندلسی خد و خال رکھنے والی لڑکی تھی، جس کے لہراتے سیاہ بال اور گہر ی خوبصورت آنکھیں کسی حد تک عربوں جیسی نظرآتی تھیں۔


‘‘جی ! لیکن عام طور پر کتابوں سے میں زیادہ اپنی بھیڑوں سے سیکھتا ہوں ’’ اُس نے جواب دیا ۔
کوئی دو گھنٹہ تک وہ دونو ں بیٹھے ایک دوسرے کے متعلق باتیں کرتے رہے۔
لڑکی نے اُسے بتا یا کہ اُس کا باپ تاجر ہے اور اس کی زندگی گاؤں کی زندگی کی طرح ہر روز ایک جیسی ہی گزرتی ہے۔
لڑکا اُسے اندلوسیا کے مختلف علاقوں کے بارے میں بتاتا رہا ، جہاں جہاں وہ رکا اور ٹھہرا تھا۔
اب تک تو وہ زیادہ تر بھیڑوں سے ہی بات چیت کیا کرتا تھا، لیکن اِس بار اس لڑکی سے گفتگو کے تجربہ سے اس کے اندر ایک خوش کن تبدیلیپیدا ہوئی۔
‘‘تم نے پڑھنا کس سے سیکھا ؟’’ لڑکی نے گفتگو کے دوران سوال پوچھا۔
‘‘جیسے سب پڑھے لکھے لوگ سیکھتے ہیں…. اسکول سے….’’ اُس نے کہا۔
‘‘اچھا !!…. لیکن اگر تم پڑھنا جانتے ہو تو پھر تم چراوہے کا کام کیوں کرتے ہو؟’’
اس سوال کا جواب دینے سے بچنے کی خاطر اس لڑکے نے منہ ہی منہ بڑبڑاکر کچھ کہا تاکہ لڑکی اُس کے جواب کو قطعاً نہ سمجھ پائے اور پھر گفتگو کا موضوع دوبارہ اپنے سفر کی طرف موڑ لیا۔
لڑکا مختلف علاقوں کے واقعات اور کہانیاں سناتا رہا اور لڑکی کی چمکدار عربی آنکھیں کبھی خوف اور کبھی حیرت و تعجب سے پھیلتی رہیں۔
وقت گزرتا گیا۔ لڑکے کے دل میں ایک عجیب سی خواہش نے جنم لینا شروع کیا۔ اس نے سوچا کہ کاش وقت تھم جائے ، یہ دن کبھی ختم نہ ہو اور اُس کا تاجر باپ مصروف رہے چاہے مجھے تین دن تک انتظار کرنا پڑے۔ اور مجھے اس لڑکی کے ساتھ مزید وقت گزارنے کا موقع مل جائے ۔
اُسے محسوس ہوا کہ وہ کسی بالکل نئے تجربے سے گزر رہا ہے۔ اُسے ایسا احساس آج سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ کاش وہ اُسی جگہ اس سیاہ بالوں والی لڑکی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ رہ سکتا۔
لیکن تاجر کو بہر حال فرصت مل گئی اور وہ وہاں آگیا ۔ اس نے لڑکے سے کہا کہ چار بھیڑوں کی اون اُتار دے۔ پھر تاجر نے اُسے اون کی رقم ادا کی اور اگلے سال دوبارہ آنے کےلئے کہا۔
***
اور اب اُس گاؤں تک پہنچنے میں صرف چار روز کے فاصلہ رہ گیا تھا، جیسے جیسے گاؤں کا فاصلہ گھٹ رہا تھا اس کے اندر جذبات کا دریا تلاطم ماررہاتھا، ایک طرف تو اسے سرور و شادمانی کی کیفیت محسوس ہورہی تھی لیکن دوسری طرف نادیدہ خوف بھی تھا ‘‘کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لڑکی اُسے بھول گئی ہو؟’’ اُس نے سوچا، ‘‘جانے کتنے ہی چرواہے اپنی اُون بیچنے کے لئے وہاں سے گزرتے ہوں گے۔ کیا وہ مجھ اکیلے کو یادرکھےگی’’۔
‘‘ اگر وہ بھول بھی گئی تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا’’ اُس نے پاس کھڑی ایک بھیڑ سے کہا ۔ ‘‘اور جگہوں پر بھی تو دوسری لڑکیاں ہیں جنہیں میں جانتا ہوں ….’’
لیکن اُس کا دِل جانتا تھا کہ فرق تو پڑتا ہے۔ اُسے پتہ تھا کہ چرواہے ہوں یا ماہی گیر یا سفر کرنے والے تاجر ہوں …. اُن کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور ہوتی ہے جہاں ان کا دل اٹکا ہوا ہوتا ہے، جس کی یاد میں وہ اپنے تنہا سفر میں گزرے ایّام کی تمام خوشیوں کو بھول جاتے ہیں۔
دِن نکل آیا تھا۔ چرواہے نے اپنی بھیڑوں کو ہانکنا شروع کیا اور ان کا رخ سورج کی جانب چلنے کے لئے موڑ دیا۔ بھیڑیں بھی مشرق کی سمت بڑھنے لگیں ۔ اُس نے سوچا کہ ‘‘یہ جانور بھی کیسی مخلوق ہے جسے کوئی فیصلہ کرنا ہی نہیں ہوتا۔ شاید اِسی لئے یہ بھیڑیں میرے قریب ہی رہنا پسندکرتیہیں۔’’
‘‘بھیڑوں کو صرف ایک ہی ضرورت کا احساس رہتا ہے، پانی اور خوراک اور جب تک اُن کے گڈریے کو اندلس کی بہترین چراہ گاہوں کا علم رہے گا اوروہ ان کے لیے بہترین چراگاہیں تلاش کرتا رہے گا، یہ بھیڑیں اس کی دوست رہیں گی، باوجود اس کے اُن کا ہر دن دوسرے دن کی طرحہوتا ہے’’۔
بھیڑوں کے لئے دوسری کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں تھی ، نہ کتابوں اور اُن کے مطالعہ سے بھیڑوں کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اِس بات سے بھی بے پرواہ تھیں ۔ جب وہ انہیں مختلف شہروں اور مقامات سے گزرتے ہوئے ان کے متعلق باتیں بتاتا ۔ اُنہیں تو پانی اور چارہ سے مطلب تھا اور اِس کے عوض وہ اُون دینے میں خاصی سخاوت دکھاتیں ۔ ساتھ میں اپنی رفاقت اور وفاداری بھی دیتیں اور زندگی میں ایک بار اپنا گوشت بھی….’’
لڑکے نے سوچا کہ اگر وہ ایک دیو بن جائے اور ایک ایک کر کے اِن بھیڑوں کو ذبح کر ڈالے اور یہ آدھی بھی ختم ہو جائیں گی تب بھی ان سب کو معلوم نہ ہو سکے گا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ اِس حد تک مجھ پر بھروسہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی فطری جبلّت کو کام میں لانا ہی بھول گئی ہیں جو انہیں خوف اور خطرے سے آگاہ کرتی ہیں ’’۔ لڑکا کافی دیر تک سوچتا رہا۔
اچانک اس نے اپنے آپ کو جھنجوڑ کر خیالات سے آزاد کیا، ‘‘یہ مجھے کیا ہوگیا ہے، یہ عجیب و غریب خیالات میرے ذہن میں کیوں کر آ رہے ہیں….؟ ، اپنے عزیز اور وفادار ساتھیوں کو ذبح کرنے کے بارے میں ، میں سوچ بھی کیسے سکتا ہوں ؟؟’’۔ وہ بد حواس سا ہو گیا۔
‘‘کہیں ایسا تو نہیں کہ اُس گرجا گھر میں اس انجیر توت کے درخت پر کسی آسیب کا سایہ ہو۔ شاید اِس وجہ سے ہی وہی عجیب و غریب خواب مجھے بار بار نظر آیا تھا اور اِسی وجہ سے اپنی معصوم بھیڑوں کے متعلق اِس قسم کے خیالات میرے ذہن میں آرہے ہیں’’۔
ان خیالات سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے سوچا کہ اُسے کچھ کھا پی لینا چاہیے، گزشتہ رات کھانے سے جو کچھ بچا تھا اسے کھا کر پانی کے چند گھونٹ منہ میں بھرے ۔ پھر جیکٹ کو اپنے بدن پر اچھی طرح کس لیا اور چلنے کی تیاری کرنے لگا۔ کیونکہ چند گھنٹہ کے اندر سورج اپنے نقطہ عروج پر ہو گا اور گرمی اتنی شدید ہو گی کہ بھیڑوں کے گلّہ کو لے کر میدانوں سے نکلنا محال ہو جائے گا۔
یہ وہ وقت تھا جب گرمیوں کے دنوں میں تمام اندلس دوپہر میں قیلولہ کرتا تھا۔ دوپہر سے سورج ڈھلنے تک گرمی شدید رہتی اور یہ بھاری جیکٹ اُس کے کاندھے پر یونہی لٹکی رہتی تھیں ۔ وہ اس بھاری جیکٹ کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہی بھاری جیکٹ اُسے رات سے صبح تک کی سردی سے محفوظ رکھتی تھی۔
‘‘ہمیں موسم کی تبدیلی کے لیے بھی تو تیار رہنا چاہیے’’۔ وہ اس بھری گرمی میں جیکٹ کے وزن پر غور کرنے لگا۔ دونوں ہی ضروری ہیں۔
‘‘جیکٹ کا بھی ایک مقصد ہے ، جیسے ہر انسان کا ایک مقصد ہوتا ہے ، جس طرح اس کی زندگی کا مقصد ہےکہ وہ بس سفر کرتا جائے اور دنیا گھومے۔ گزشتہ دو برسوں میں اُس نے اندلوسیا صوبے کا چپہ چپہ دیکھ لیا تھا ، اب وہ اندلوسیا کے سب شہروں اور علاقوں کو جانتا تھا ۔
اب اس کا یہ ارادہ تھا کہ گاؤں پہنچ کر وہ لڑکی کو بتائے گا کہ کس طرح ایک معمولی چرواہے نے پڑھنا سیکھا تھا۔ وہ بتائے گا کہ وہ سولہ سال کی عمر تک ایک درسگاہ میں جاکر پڑھتا رہا۔ اس کے ماں باپ کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک راہب بنے اور اس طرح ایک عام سے کسان خاندان کے لئے فخر کا باعث بنے۔
اُس کے والدین پیٹ بھرنے کے لئے شدید محنت مشقت کرتے تھے بالکل ویسے ہی جیسے بھیڑیں پانی اور چارہ کے لئے جگہ جگہ پھرتی رہتی ہیں۔ درس گاہ میں اُس نے لاطینی اور ہسپانوی زبان کے علاوہ دینیات بھی پڑھی تھی۔ لیکن بچپن ہی سے اُسے دینیات پڑھنے ، گناہ ثواب کو جاننے اور پادری بننے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے تو سفرکر کے دنیا کو جاننے کا شوق تھا۔
ایک دن دوپہر کو جب وہ درسگاہ سے واپس آیا تو اس نے ہمت کرکے اپنے ماں باپ کے سامنے اپنی اِس خواہش کا اظہار کربھی دیا کہ وہ پادری یا راہب نہیں بننا چاہتا بلکہ سفرکر کے دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔


‘‘بیٹا !! دنیا بھر کے لوگ ہمارے گاؤں سے گزرتے رہتے ہیں’’۔ باپ نے سمجھاتے ہوئے کہا، ‘‘تم یہیں رہ کر بھی دنیا دیکھ سکتے ہو؟…. دنیا کے سب لوگ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں کہ دنیا بھر کے لوگ نئی نئی چیزوں کی تلاش میں کچھ نیا دیکھنے کچھ نیا سیکھنے یہاں آتے ہیں اور جب وہ واپس جاتے ہیں تو کیا وہ بدل جاتے ہیں؟…. وہ ویسے ہی رہتے ہیں۔ سیاح یہاں آتے ہیں پہاڑی پر چڑھتے ہیں یہاں بنے محلات کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ پہلے کے لوگ ہم سے کس قدر بہتر تھے۔کیا زمانہ تھا…. بس ان کےبال لمبے اور سیاہ اور رنگت گہری ہوتی ہے ، لیکن لوگ ہوتے اصلاً سب ایک ہی جیسے ہیں، بالکل ہماری تمہاری طرح یہاں کے لوگوں کی طرح۔’’
‘‘ لیکن میں اِن کے گاؤں، اُن کے مکانات اور محلات دیکھنا چاہتا ہوں جہاں یہ لوگ رہتے ہیں۔’’ لڑکے نے سمجھانے کی کوشش کی۔
‘‘ لیکن بیٹا جب یہ لوگ ہماری سرزمین کو دیکھتے ہیں تو حسرتیں بھرتے ہیں کہ کاش ہم یہاں ہمیشہ رہ سکتے۔’’ باپ مسکرا کر بولا۔
‘‘بہرحال ، میں تو اُن کی زمین اور اُن کا رہن سہن دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘بیٹے نے جواب دیا ۔
‘‘بیٹا! وہ لوگ تو بہت پیسے والے ہوتے ہیں اور سفر کرنے کے لیے روپیہ پیسہ خرچ کرنا اُن کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا’’ باپ نے کہا، ‘‘ہمارے پاس اتنا پیسہ کہاں ہے، اور ہمارے یہاں تو صرف چراوہے ہی تھوڑا بہت سفر کر پاتے ہیں۔’’
‘‘تو پھر ٹھیک ہے ، میں ایک چراوہا ہی بن جاتا ہوں۔’’ لڑکے نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔
یہ سن کر باپ خاموش ہو گیا۔
اگلے دن باپ نے بیٹے کو ایک جامہ بند پوٹلی پکڑائی ، جس میں تین قدیم اندلسی طلائی سکے تھے اور پھر کہا ‘‘یہ ایک روز مجھے کھیت میں ملے تھے۔ میں نے یہ تمہارے لئے سنبھال کر رکھے تھے۔ اب اِن سے تم مویشی خرید لینا اور میدانوں میں نکل جانا۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ گھومنے پھرنے کے بعد تم بھی اِسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ ہماری زمین سے بہتر کوئی زمین نہیں۔ یہاں کے لوگوں سے زیادہ خوبصورت لوگ کہیں نہیں پائے جاتے۔’’
باپ نے لڑکے کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ لڑکا اپنے باپ کی آنکھوں میں بھی وہ چمک دیکھ رہا تھا جو دنیا کا سفر کرنے کی اُس کی اپنی خواہش کے تصور سے پیدا ہوئی تھی۔ وہ خواہش جو اس کے باپ میں اب بھی زندہ تھی ، جسے وہ روٹی کپڑا اور مکان کی مسلسل جد و جہد کے نتیجہ میں برسوں پہلے دفن کر چکا تھا۔ لیکن آج وہ اپنی اس خواہش کو اپنے بیٹے کے ذریعے پوری کررہا تھا۔

تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی
(جاری ہے)

Flag Counter

یہ بھی دیکھیں

تلاش (کیمیاگر) قسط 13

تیرہویں قسط …. ….(گزشتہ سے پوستہ)   لڑکی کے چلے جانے پر لڑکا اس دن ...

تلاش (کیمیاگر) قسط 12

بارہویں قسط ….(گزشتہ سے پوستہ)   لڑکے کا رُواں رُواں گواہی دے رہا تھا کہ ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *