Notice: फंक्शन WP_Scripts::localize को गलत तरीके से कॉल किया गया था। $l10n पैरामीटर एक सरणी होना चाहिए. स्क्रिप्ट में मनमाना डेटा पास करने के लिए, इसके बजाय wp_add_inline_script() फ़ंक्शन का उपयोग करें। कृपया अधिक जानकारी हेतु वर्डप्रेस में डिबगिंग देखें। (इस संदेश 5.7.0 संस्करण में जोड़ा गया.) in /home/zhzs30majasl/public_html/wp-includes/functions.php on line 6078
رب العالمین، دعا اور انسان – 7 – روحانی ڈائجسٹ
मंगलवार , 4 नवम्बर 2025

Connect with:




یا پھر بذریعہ ای میل ایڈریس کیجیے


Arabic Arabic English English Hindi Hindi Russian Russian Thai Thai Turkish Turkish Urdu Urdu
Roohani Digest Online APP
Roohani Digest Online APP

رب العالمین، دعا اور انسان – 7

ستمبر 2019ء – (قسط 7) – از : محمد علی سید


‘‘دعا ’’ کا تصور تقریباً ہرمذہب اورہرکلچر میں پایا جاتا ہے ۔ ہر مذہب میں رب العالمین ہستی کا تصور موجود ہے۔ دعا سے بندے اور خالق کے درمیان قربت کی ایسی صورت پیدا ہوجاتی ہے ، جن سے ناصرف نفسیاتی و قلبی سکون اور رفاقت کا احساس اور امید و حوصلہ ملتا ہے بلکہ مسائل و مصائب سے نمٹنے کا جذبہ، مشکلات کا تدارک اور امراض سے معجزانہ شفاءبھی حاصل ہوتی ہے۔
دور جدید میں سیٹیلائٹ کمیونیکیشن ، موبائل فونز، وائی فائی، انفرا ریڈ، الٹراوائلٹ جیسی نظر نہ آنے والی ٹیکنالوجی پر سبقت لیے جانے کے بعد اب انسان ان سوالوں کے جواب تلاش کررہا ہے کہ، ‘دعا ’’ کی نظر نہ آنے والی ٹیکنالوجی کیا ہے، یہ کس طرح اثر کرتی ہے۔
سینئر ادیب ،صحافی ،ریسرچ اسکالر محمد علی سیّد ایک مشاق اور منجھے ہوئے قلم کار ہیں ۔ علم قرآن، مذہب اور سائنس کی باریکیوں سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے آپ نے کئی مفید کتابیں اور کثیر تعداد میں مقالات و مضامین تحریر کیے ۔
دُعا کے موضوع پر محمد علی سید کی کتاب ‘‘رب العالمین دُعا اور انسان ’’ کی تلخیص قارئین کے لیے قسط وار پیش خدمت ہے۔


دنیا میں نئے انسان کی آمد اور استقبال:

پیدائش کا وقت قریب آتا ہے تو سارے خاندان والے جمع ہو جاتے ہیں ۔ چھوٹے بڑے سب بچے کے استقبال کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں۔ بہترین اسپتال، تجربہ کار ڈاکٹرز، آرام دہ سواریاں، جدید ترین آلات، دوائیں، لباس، روشنی، دھوپ، مناسب گرمی اور سردی، محفوظ گھر ،دیکھ بھال کرنے والے ،خیال رکھنے والے،سب کے سب پہلے ہی سے نئے آنے والے کے استقبال کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
بچہ دنیا میں آتا ہے تو دنیا کی سب سے نایاب غذا اس کے لیے پہلے سے تیار ہوتی ہے جو ماں کی محبت کی گرمی سے ہمیشہ تازہ بہ تازہ رہتی ہے۔وہ ایک VIPکی مانند دنیا میں آتا ہے ۔ہر معاملے میں اسے ترجیح دی جاتی ہے۔اس کی ڈیمانڈ سب سے پہلے پوری کی جاتی ہے۔
پیدائش کے وقت بے شمار نعمتیں اس میں ‘‘بلٹ اِن’’ ہوتی ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں۔

 

پیدائش کے وقت مفت اوربے مانگے ملنے والی نعمتیں:

غذا حاصل کرنے اور اسے استعمال کرنے کی صلاحیت ،اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت، دل، دماغ، عقل، حافظہ، نسیان(بھول جانے کی صلاحیت)کھوپڑی، آنکھ، پلکیں، ناک، کان، ہونٹ، زبان میں ذائقوںکو پہچاننے کی صلاحیت، دانت جو بعد میں ظاہر ہو جاتے ہیں ہاتھ ، پاؤں، انگلیاں،پورے، چہرہ، رخسار، ٹھوڑی، گلا، غذا کی نالی، سانس کی نالی، سینہ، معدہ، آنتیں، پیٹ، بازو، کہنی، پنجہ انگلیاں، ہتھیلیاں، ناخن، رانیں، کولہے، پنڈلیاں، گٹا، تلوا، ایڑیاں، گردن، ریڑھ کی ہڈی، پھیپھڑے، پسلیاں، جگر، تلی، اعضائے تولید، گردے، مثانہ ۔
جسم کا ڈھانچا،گوشت، چربی، کھال، بے شمار شریانیں، اعصاب، وریدیں، جسم کے مسامات، جسم کے درجہ حرارت کو کم یا زیادہ کرنے کی صلاحیت، نیند کا پراسرار نظام، ہڈیوں کا گودا، سننے، بولنے، سونگھنے، تکلیف اور راحت کو محسوس کرنے کی صلاحیت۔
خاندانی خصوصیات، نیک و بد میں تمیز کرنے کی صلاحیت، شعور، لاشعور، حرام مغز، کروڑوں خلیے بیک وقت تیار کرنے کی صلاحیت، بیماریوں سے مدافعت کا نظام۔
ایک مخصوص تناسب کے ساتھ بہت سے کیمیکلز، معدنیات، خاص وولٹیج کی برقی طاقت، تمام انسانی جسم کے درمیان پیغام رسانی کا مرکزی نظام جو دماغ کو فوری اطلاعات فراہم کرتا ہے۔
کھوپڑی سے پاؤں کے تلووں تک دوران خون کی گردش کو جاری رکھنے کا نظام، نظام ہاضمہ، نظام تنفس، ہارمونز اور ان سب سے بڑھ کر روح جو امر ربی ہے۔
‘‘اے رسول ؐ تم کہہ دو کہ اﷲ تو وہی ہے جس نے تم کو نت نیا پیدا کیا اور تمہارے واسطے کان،آنکھیں اور دل بنائے مگر تم بہت کم شکرادا کرتے ہو۔’’  (سورہ ملک:آیت 33)

انسان دنیا میں دس فیصد صلاحیتوں کو بھی استعمال نہیں کرتا:

ہمارے جسم میں اﷲ رب العالمین نے اس قدر نعمتیں عطا کی ہیں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں کوئی سپر کمپیوٹربھی ان تمام نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتا۔ ان میں سے ہر عضو ہر حصے،ہر صلاحیت کے بارے میں الگ الگ لاتعداد کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔ان نعمتوں کی تعداد اتنی وافر ہے کہ دنیا کا ذہین ترین انسان بھی اپنی صلاحیتوں کا شاید دس فیصد ہی پورے طریقے پر استعمال کرسکا ہے۔
شاید باقی نوے فی صد صلا حیتیں کسی اور دنیا کے لیے عطا کی گئی ہیں۔ حضرت علی کا ارشاد ہے:
الناسُ نيامٌ فإذا ماتُوا انتبَهوا
‘‘انسان سورہے ہیں، مریں گے تو جاگیں گے’’۔ [کشف الخفا العجلونی، احیاء العلوم، مقاصد حسنہ]


باب: 13

خود شناسی، سے خدا شناسی کا سفر

یہ تمام تحفے جن کا ہم نے گزشتہ باب میں سرسری سا تذکرہ کیا، صرف کریم، سخی اور فضل و احسان کرنے والا مالک اللہ ہی ہمیں مفت عطا کرسکتا تھا۔
اگر آپ کو ہماری بات پر یقین نہ آئے تو ان میں سے کوئی ایک نعمت اپنے قریب ترین رشتے دار یا عزیز ترین دوست سے مانگ کر دیکھ لیں۔
ہم میں سے بیشتر لوگ توان عظیم تحفوں کا ادراک ہی نہیں رکھتے اور جو افراد ان عظیم نعمتوں کا تھوڑا بہت ادراک رکھتے ہیں، ان میں سے بھی اکثر ان بیش بہا تحفوں اور نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں۔ کسی تحفے کے لیے شکریہ ادا نہ کرنا انتہائی بد اخلاقی کی بات ہے اور اگر یہ تحفے بیش بہا،انمول اور ہماری زندگی کے لیے ناگزیر ہوں اور انہیں عطا کرنے والا کوئی عام دوست یا ساتھی نہ ہو بلکہ یہ تحائف رب کائنات اللہ جل شانہ کے دربار سے عطا کیے گئے ہوں تو ان کا شکریہ ادا نہ کرنا، بادشاہوں کے بادشاہ، اللہ رب العالمین کی نعمتوں کی ناقدری کرنے کے ذیل میں شمار ہوگا۔
سورۂ الزمر میں مالک کا ارشاد ہے‘‘ ان لوگوں نے اللہ کی ویسی قدر کی نہیں جیسی انہیں کرنا چاہئے تھی۔’’

عالم اصغر، عالم اکبر:

امیر المومنین حضرت علیؓ نے فرمایا کہ جسم کے عالم اصغر میں ایک عالم اکبر پوشیدہ ہے ۔
تو آئیے آج جدید سائنسی تحقیق کی مدد سے اس عالم اکبر کے چند حصوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ خود شناسی سے خداشناسی تک کا ایک تحیر خیز سفر ہے۔
اگرچہ سائنس ابھی عالم اکبر کے اس بحرِبے کراں کی صرف موجوں تک ہی رسائی حاصل کر سکی ہے لیکن یہ سطحی نظارہ بھی انسان کو بے اختیار :
‘‘فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین’’
کہنے پر مجبور کردیتا ہے۔
اب ایک سرسری سی نظر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ان نعمتوں پر ڈالتے ہیں جو ہمارے جسم کے اندر موجود ہیں اور زمین و آسمان میں موجود مالک کائنات کی نعمتوں کو ہمارے لیے قابل استفادہ بناتی ہیں۔
آئیے اس سفر کا آغاز اللہ کی اسی نعمت کے مشاہدے سے کرتے ہیں جس کی مدد سے میں لکھ رہا ہوں اور جس کے ذریعے آپ یہ سطور پڑھ رہے ہیں۔

آنکھیں:

آنکھوں کی قدر و قیمت کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ ان کی قدر و قیمت کسی پیدائشی نابینا شخص سے بھی نہیں پوچھی جاسکتی۔ ان کی اہمیت کا اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے جوآنکھیں رکھتا ہو اور بعد میں کسی سبب سے نابینا ہوگیا ہو۔
ماہرین نے جب انسانی آنکھ کے مختلف حصوں کو الیکٹران مائکرو اسکوپ سے دیکھاتو قدرت کے اس ‘‘روشن معجزے’’ کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
انہوں نے دیکھا کہ صرف ایک آنکھ کے اعصاب میں کروڑوں حساس الیکٹریکل کنکشن موجود ہیں جو روشنی کے پندرہ لاکھ پیغامات کو بہ یک وقت باہر کی دنیا سے وصول کر کے دماغ تک پہنچا سکتے ہیں۔
آنکھ کا عقبی پردہ جسے ریٹینا (Retina)کہا جاتا ہے ، اس کا سائز ایک اسکوائر انچ سے بھی کم ہے لیکن اس مختصر سی جگہ میں روشنی کے پیغامات کو محسوس کرنے والے تیرہ کروڑ ستر لاکھ خلیے (Cell)کام کرتے ہیں۔ ان میں سے تیرہ کروڑ خلیے راڈ (ROD)کی شکل کے ہوتے ہیں اور یہ سیاہ اور سفید رنگوں سے منعکس ہونے والی روشنی کو محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ ستر لاکھ خلیے کون (Cone)کی شکل کے ہوتے ہیں اور یہ بنیادی تین رنگوں اور ان رنگوں کے امتزاج سے بننے والے کروڑوں رنگوں سے منعکس ہونے والی روشنی کے پیغامات کو وصول کر کے دماغ تک پہنچاتے ہیں۔

دیکھنے کا عمل:

رات کے اندھیرے میں جیسے ہی ایک جگنو چمکتا ہے تو دیکھنے والے کی آنکھوں کے اندر فوراً ایک پیچیدہ برقی کیمیائی (Electro Chemical)عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل میں دونوں آنکھوں کے چھبیس کروڑ راڈ (ROD)کی شکل کے خلیے حصہ لیتے ہیں ۔ جگنو کی مدہم سی روشنی کو محسوس کر کے یہ خلیے اپنے اندر کیمیائی تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں ۔اس کیمیائی عمل کے نتیجے میں خلیوں سے ایک بہت ہلکی (وولٹ کا کئی کروڑواں حصہ) برقی رَو پیدا ہوتی ہے۔ یہ برقی رو آنکھ اور دماغ کے درمیان موجود آپٹک نرو(Optic Nerve)میں سرایت کر جاتی ہے۔
آپٹک نرو اس برقی سگنل کو تین سو میل فی گھنٹے کی رفتار سے دماغ تک پہنچا دیتی ہے۔ دماغ اس سگنل کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے کہ نظر آنے والی شے ایک جگنو ہے۔ اس کے ساتھ ہی جگنو سے متعلق پہلے سے حاصل شدہ معلومات بھی انسان کے ذہن میں آ جاتی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ یہ پیچیدہ برقی کیمیائی (Electro Chemical)عمل ایک سیکنڈکے .002ویں حصے میں مکمل ہوجاتا ہے۔

حفاظت کے انتظامات:

ہماری آنکھیں ہر وقت ایک مخصوص سیال مادے لائی سو زائم (Lysozyme)میں تیرتی رہتی ہیں۔ جتنی بار ہم پلکیں جھپکتے ہیں ، آنکھوں کے پپوٹے، کار کے وائی پرز(Vipers) کی طرح آنکھوں کو صاف کرتے رہتے ہیں۔ آنکھ کی طرف کوئی معمولی سی شے بھی آرہی ہوتی ہے تو ہماری پلکیں ایک خود کار نظام کے تحت پہلے ہی بند ہوجاتی ہیں۔ بہت ہی باریک مٹی کے اجزاء یا مختلف جراثیم جو آنکھ کے بیرونی حصے تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
آنکھوں میں موجود اینٹی سیپٹک سیال مادہ لائی سو زائم (Lysozyme)فوراً ہی ان کو موت کے گھاٹاتار دیتا ہے۔

آخرت کی نعمتوں کا حصول:

ہمیں دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے آنکھ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکتا تھا۔یہ تو دنیا میں آ کر ہمیں معلوم ہوا کہ آنکھیں نہ ہوتیں تو دنیا ہمارے لیے تاریک ہوتی۔اسی طرح آپ غور کریں تو ہماری آخرت کا معاملہ ہے۔
آج ہمیں نہیں معلوم کہ آخرت کی زندگی میں ہمیں کن کن نعمتوں کی ضرورت ہو گی اور یہ نعمتیں ہمیں ہمارے کن کن اعمال کے بدلے میں ملیں گی یا کن کن اعمال کے سبب چھنیں گی۔
احادیث میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ہمارے اعمال ہی ہمیں واپس کر دیے جائیں گے۔دنیا کی نعمتیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں مفت اور بلا شرط عطا کی ہیں۔البتہ آخرت کی نعمتیں حاصل کرنا یا نہ کرنا ہمارے دنیا کے اعمال سے وابستہ ہے۔

جسم کے اندر کیمیکل پلانٹ:

کیمیا دانوں کے نزدیک سارا انسان ہی مختلف کیمیکلز سے بنا ہے ۔ جسم کے اندر لاکھوں کروڑوں کیمیائی معجزے ہر لمحہ رونما ہوتے ہیں اور اس کام میں گردے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ایک عام آدمی گُردوں کو اپنے جسم کے ڈرینج سسٹم (نکاسی کے نظام) کا ایک حصہ سمجھتا ہے حالاں کہ گردے انسانی جسم میں وہی کردار ادا کرتے ہیں جو کردار بہت بڑے کیمیکل پلانٹ کی نگرانی کرنے والا چیف کیمسٹ سر انجام دیتا ہے۔ انسانی جسم کا تمام خون مستقل دونوں گردوں سے گزرتا رہتا ہے۔ گردے خون کو صاف کر کے اس میں موجود تمام زہریلے مادوں کو الگ کرتے ہیں اور انہیں پیشاب کے ذریعے باہر نکال دیتے ہیں۔اس طرح اگر خون میں پانی کی مقدار بڑھ جائے تو سرخ خلیوں کی کارکردگی ختم ہوجائے اور اگر پانی کی مقدار کم ہوجائے تو یہ خلیے فوراً ہی خشک اور بے جان ہوجائیں۔ گردے آب رسانی و نکاسی کے اس انتہائی اہم اور حساس نظام کی مانیٹرنگ اور کنٹرول کے ذمے دار ہوتے ہیں۔

پانچ پانچ اونس کی مشینیں:

ایک گردے کا وزن صرف پانچ اونس ہوتا ہے اوراس کے اندر خون صاف کرنے والے دس لاکھ سے زیادہ یونٹس(Nephrons) موجود ہوتے ہیں۔ یہ باریک اور نازک نسیں ہوتی ہیں۔ اگر ایک گردے کی ان تمام نسوں کو سیدھا کر کے ایک لائن میں رکھا جائے تو ان کی لمبائی ستر میل سے زیادہ ہوگی۔
دونوں گردے مل کر ہر ایک گھنٹے میں جسم کے تمام خون کو دو مرتبہ مکمل طریقے پر صاف کر چکے ہوتے ہیں۔ یعنی ہمارا خون، تطہیر خون کے اس دس اونس ‘‘وزنی پلانٹ’’ سے ایک دن میں اڑتالیس مرتبہگزرتا ہے۔
خون کی صفائی کے دوران خون کے سرخ خلیے، حیاتین، وٹامنز، امائنو ایسڈز، گلوکوز اور ہارمونز وغیرہ ایک پراسرار اور نازک نظام سے گزر کر دوبارہ دوران خون میں شامل ہوجاتے ہیں لیکن ان کی تعداد جسم کی ضروریات سے زیادہ ہو تو گردے انہیں پیشاب کے ذریعے باہر نکال دیتے ہیں۔
اس عرصے میں ہم دنیا بھر کے کام کرتے ہیں اور شاید ہی کبھی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا احساس ہوتا ہو۔
گردے کے مریضوں کو تطہیر خون کے لیے بار بار اسپتال جانا پڑتا ہے۔ مصنوعی طریقے سے خون کی صفائی کے لیے مریض کو کم از کم چار سے چھ گھنٹے بیڈ پر گزارنا پڑتے ہیں جہاں ڈائی لائی سز کا ایک بہت بڑا یونٹ یہ کام سرانجام دیتا ہے۔ اس دوران پیش آنے والی مشکلات، خطرات اور اخراجات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
پانچ پانچ اونس کی جو ڈائی لائی سز مشینیں ہمارے جسم میں لگی ہیں ان کا کبھی ہمیں خیال ہی نہیں آتا۔

ناک، سانس لینے اور خوشبو  یا بدبو کو محسوس کرنے کا ذریعہ:

ہر انسان کی ناک ہی اس کے سانسوں کو برقرار رکھتی ہے ۔ زندگی بھر جو اشیاء ہمارے معدے میں جاتی ہیں انہیں ناک ہی سب سے پہلے چیک کرتی ہے اگر ناک یہ خدمات سرانجام نہ دے تو ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ ہم متعفن کھانا اور بساند بھرا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ کھانے کے سارے مزے اور ساری لذتیں ناک ہی کی وجہ سے قائم ہیں۔
ناک کے دونوں نتھنوں کے اوپری حصے میں لگا ہوا ایک پراسرار نظام خوشبو یا بدبو کو دماغ تک پہنچاتا ہے۔اس خوشبو کو محسوس کرنے کے بعد ہی نظام ہضم میں وہ مادّہ پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعے غذا کھانا آپ کے لیے خوشگوار اور اسے ہضم کرنا ممکن ہوتا ہے۔
خوشبو محسوس کرنے والے یہ پیچیدہ اور نایاب آلات بہ مشکل ڈاک کے چھوٹے سے ٹکٹ کے برابر ہیں۔
زردی مائل کتھئی رنگ کے یہ ٹیشوز قدرت کی صناعی اور قوت ایجاد و تخلیق کا عظیم شاہکار ہیں۔ ہر ٹیشو میں تقریباً ایک کروڑ خلیے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر خلیے میں چھ سے آٹھ ننھے منے خرد بینی بال ہوتے ہیں۔ یہ بال خوشبو یا بدبو کی لہروں کو وصول کرنے والے اینٹینا کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔مثلاً کھانے کے وقت سے پہلے کھانے کی خوشبو جیسے ہی ناک کے ان حساس آلات کے ذریعے دماغ تک پہنچتی ہے تو دماغ کا وہ مخصوص حصہ فوری طور پر ہاضمے کی رطوبت پیدا کرنے والے غدود کو احکامات جاری کرتا ہے کہ کھانا نگلنے اور ہاضمے میں مدد دینے والی رطوبت کی پیداوار شروع کردی جائے۔ یہ رطوبت سیکنڈوں کے اندر منہ، زبان، غذا کی پوری گزرگاہ اور معدے تک پھیل جاتی ہے۔
زکام یا کسی بیماری کے سبب جب ناک کے یہ ‘‘آلات’’ کام کرنا بند کردیتے ہیں تو غذا عام طور پر بے مزہ ہوجاتی ہے۔

ناک کے بغیر ہم صحیح طرح بول نہیں سکتے:

بہ ظاہر تو ہم منہ سے بولتے ہیں لیکن ناک کے بغیر صحیح طرح بولنے کا تصور بھی ممکن نہیں۔ سانس لینے کے عمل کو زندگی بخش بنانے کے لیے بھی ناک کی خدمات کا ہم شاید ہی تصور کرسکیں۔
پھیپھڑوں کو مسلسل صاف، گرم اور مرطوب ہوا کی فراہمی ناک ہی کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ناک ایک دن میں پانچ سو کیوبک فٹ ہوا کو صاف، گرم اور مرطوب بناتی ہے۔
سیاچن گلیشیئر کی سرد اور خشک ہواؤں میں کھڑے ہوں یا لیبیا کے آگ برساتے صحرا میں، ناک ہر جگہ پھیپھڑوں کے لیے مخصوص ٹمپریچر کی مرطوب اور صاف ستھری ہوا کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔

ناک کا اندرونی نظام:

ہوا کو مرطوب بنانے کے لیے ناک کی اندرونی جھلی ایک دن میں تقریباً ایک چوتھائی گیلن کے برابر نمی خود تیار کرتی ہے۔ سانسوں کو گرم کرنے کے لیے ناک کی تین اندرونی ہڈیاں ریڈی ایٹرز کا کام کرتی ہیں۔ سانسوں کو آلودگی سے صاف کرنا ،نتھنوں میں موجود نازک بالوں (CELIA) اور ایک مخصوص رطوبتکاکام ہے۔
ناک کے اندر رطوبت کی یہ تہہ ہر بیس منٹ کے بعد تبدیل ہوجاتی ہے۔ آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے پرانی والی تہہ کو سیلیاCELIA نامی مائکرو اسکوپک نظام حلق میں گراتارہتا ہے جہاں سے یہ آلودگی معدے میں چلی جاتی ہے۔ معدے کے تیزابی مادے اس گندگی کو منٹوں میں جلا کرفنا کردیتے ہیں۔سردیوں کے موسم میں ناک کی رطوبت سوکھ جاتی ہے اسی لیے جراثیم کسی رکاوٹ کے بغیر سانس کی نالیوں تک پہنچتے ہیں اور بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

بے سدھ سوتے ہوئے کروٹ:

ناک ہی میں وہ مخصوص اعصاب بھی کام کرتے ہیں جو رات کو بے سدھ سوتے ہوئے انسانوں کو کروٹدلاتے ہیں۔
ایک ہی کروٹ سوتے سوتے جب دو گھنٹے گزر جاتے ہیں تو ناک کے یہ اعصاب جسم کے اس جانب خون کی کمی کو محسوس کر کے اس کی اطلاع دماغ کو فراہم کرتے ہیں۔ ان اطلاعات کے موصول ہونے پر دماغ جسم کے متعلقہ پٹھوں کو احکامات جاری کرتا ہے اور انسان کروٹ بدل لیتے ہیں۔
اگر یہ نظام کام نہ کرے تو ایک ہی کروٹ سوتے سوتے جسم کا وہ حصہ سن ہو کر رہ جائے اور صبح کے وقت شاید ہی کام کاج کے قابل ہوسکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پہلی سانس سے زندگی کی آخری سانس زندگی بھرجو خدمات ہماری ناک ہمارے لیے بالکل مفت انجام دیتی ہے ان میں سے کوئی معمولی خدمت بھی اس معیار کے مطابق دنیا کے سارے ڈاکٹر، ماہرین اور آلات، لاکھوں روپے کے عوض ہمیں فراہم نہیں کرسکتے۔

(جاری ہے)

یہ بھی دیکھیں

تسلیم و رضا اور سُنتِ ابراہیمی کی پیروی کا عظیم دِن عید الاضحٰی

’’عید الاضحی ‘‘ کی آمد کے ساتھ ہی کئی یادیں ، جذبے اور ولولے تازہ …

ارطغرل کی داستان

روحانی ڈائجسٹ جون 2020ء  سے انتخاب….   یہ کوئی ناول،کہانی یا ڈرامہ نہیں بلکہ خلافت …

प्रातिक्रिया दे