
قسط نمبر 3
شوگر کی دوسری قسم :
یہ شوگر كی سب سے زیادہ عام پائی جانے والی قسم ہےـ۔ اس کی ابتدا میں جسم كے اندر انسولین كی پیداوار میں عموماً كوئی بنیادی نقص نہیں ہوتا ـ بلكہ نقص یہ ہوتا ہے كہ انسولین کی جتنی مقدار لبلبہ پیدا كرتا ہے اُسے جسم مناسب طور پر استعمال كرنے سے قاصر رہتا ہے۔ـ انسولین كی اس بے اثری سے پیدا ہونے والی مصنوعی كمی پر قابو پانے كے لیے لبلبہ معمول سے زیادہ انسولین پیدا كرتا ہے پھر اس اضافی بوجھ كی وجہ سے آخر كارتهك جاتا ہےـ، یوں شوگر کی دوسری قسم میں بهی انسولین كی پیدا وار كم ہوجاتی ہے۔
واضح رہے كہ شوگر (گلوكوز) جسم میں استعمال ہونے والا بنیادی ایندهن ہے، اسے استعمال میں لانے كےلیے انسولین كا ہونا ضروری ہے۔ـ خوراك سے آنے والی شوگر جو كہ خون میں گردش كر تی رہتی ہے، وہ انسولین كی موجودگی كے بغیر خلیوں كے اندر نہیں پہنچ پاتی جہاں كہ اُس کااستعمال ہوتا ہےـ۔ اس طرح شوگر خون میں ہی جمع ہوتی چلی جاتی ہےـ۔ اس كے دو نتیجے نكلتے ہیں ۔
v….فوری نقصان تو یہ ہوتا ہے كہ خلیوں كے اندر ضرورت كا ایندهن نہیں پہنچ پاتا اور جسم میں توانائی کا شدید بُحران ہوجاتا ہے۔
v….خون میں مسلسل كافی عرصے تك شوگر زیادہ رہنے سے شوگر كی پیچیدگیاں پیدا ہونے لگی ہیں مثلاً دِل، گُردے، اعصاب اور آنكهوں كی تكالیف وغیرہ ـ…
مرض كے بارے میں مریض كا رویہ:
اكثر لوگوں كو جب یہ پتہ چلتا ہے كہ اُنہیں شوگر ہوگئی ہے، تو وہ بہت زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ ـ اس میں كوئی شك نہیں كہ شوگر ایك ایسا مرض ہے جس كے ساتھ بہت سی پیچیدگیاں وابستہ ہیں، لیكن کچھ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ان پیچیدگیوں سے بچاجا سكتا ہےـ۔
بڑی تعداد میں لوگوں نے اس مرض كے ساتھ طویل عمر جینے كے باوجود اس كی پیچیدگیوں سے خود کو محفوظ رکھا ہےـ۔
بعض لوگ شوگر كی تشخیص سُنتے ہی پریشان ہو جاتے ہیں، اسی طرح بے شمار لوگ ایسے ہیں (خاص طور پاكستان میں) جو اپنے مرض كو كبهی سنجیدگی سے نہیں لیتے اور آہستہ آہستہ جب پیچیدگیاں پیدا ہو نے لگتی ہیں تو ان كے پاس سوائے افسوس كے کچھ باقی نہیں بچتا۔ ـ
ایسے رویوں کی بنیاد میں کئی طرح كے سماجی، معاشی اور نفسیاتی عوامل كار فرما ہوتے ہیں، یہ رویے مریض كی صحت كےلیے كافی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ـ اس طرح صحیح علاج شروع كرنے میں تاخیر ہوتی جاتی ہے۔ یہ تاخیر کئی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔
شوگر کی اور بھی کچھ قسمیں ہیں، جو لبلبے کی بیماریوں سے متعلق ہیں۔ ان میں سب سے عام ملائٹس ہے! جس کو عموماً صرف شوگر ہی کہا جاتا ہے۔
شوگرکی علامات:
اس بیماری میں کچھ علامات ظاہر ہوتی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شوگر کسی اونٹ کی مانند انسانی جسم کے خیمے میں براجمان ہونے کو ہے اور یہی وہ وقت ہے کہ اسے کسی حد تک روکا بھی جاسکتا ہے۔
وہ علامات یہ ہیں:
پیشاب کا زیادہ خارج ہونا، گلا خشک ہونا یا زیادہ پیاس محسوس ہونا…. ‘‘شوگر قسم اوّل’’ کی صورت میں وزن کم اور ‘‘شوگر قسم دوم’’میں وزن زیادہ ہوجانا، صاف نظر نہ آنا، جسم میں خارش، کمزوری اور غنودگی…. بیماری زیادہ بڑھنے کی صورت میں پیشاب میں شکر کی موجودگی، کوما یا بے ہوشی کی حالت، منہ سے Acetone (ایک محلول) کی بو آنا وغیرہ….
عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے، ان میں سے اگر تین علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں تو ڈاکٹر سے فوری مشورہ ضروری ہے۔
بڑی عمر کے افراد کو ہونے والی شوگر میں اکثر انسولین کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آتی اور خوراک، ورزش، متوازن وزن اور ہلکی دوا کے ذریعے ہی علاج ممکن ہوجاتا ہے۔
بچوں میں اور 25 سال سے کم عمر کے مریضوں میں اکثر یہ بیماری ڈرامائی انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے مریضوں کی علامات میں پیاس کی شدت، دن میں اور رات میں بار بار پیشاب کا آنا، وزن کا تیزی سے کم ہونا، بےحد کمزوری محسوس کرنا اور بروقت علاج نہ ملنے پر بےہوش ہوجانا قابل ذکر ہیں۔
اس کے برعکس جو مریض تیس یا چالیس سال سے زیادہ عمر کے اور بھاری بھرکم یعنی موٹے ہوتے ہیں، ان میں اس بیماری کی علامات ڈرامائی انداز میں ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ اکثر ان مریضوں کی علامات عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں مثلاً غیر معمولی تھکاوٹ، پیروں میں درد ہونا، پیشاب کی جگہ سوزش یا خارش ہونا، وزن کا آہستہ آہستہ کم ہونا وغیرہ۔
بیماری کی وجہ:
ہماری کچھ غفلتیں بھی اس بیماری کو دعوت دیتی ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اوّل تو اکثر بیماریوں کی جڑ موٹاپا ہے۔ وزن کی زیادتی سے پیٹ بڑھتا ہے اور پیٹ کے بالکل نیچے جوتے کی شکل میں موجود ایک اہم عضو لبلبہ pancreasدَب جاتا ہے اور اپنا کام اتنی آسانی سے نہیں کرپاتا، جیسا کہ ایک عام انسان میں کرتا ہے۔ اس طرح انسولین کا بننا متاثر ہوتا ہے اور خون میں شوگر بڑھنے لگتی ہے۔
موٹاپے کی ایک اور قسم OBESITY ہے، جس میں چربی بہت بڑھ جاتی ہے، کمر پھیل جاتی ہے اور جسم بہت بے ڈول ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں میں شوگرکے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ لیٹے رہنا، بے کار بیٹھنا بھی بیماری کو بلانے کے مترادف ہے۔
بچوں میں موروثی شوگر جسے ابتدائی مرحلوں میں کنٹرول کیا جاسکتا ہے، پائی جاتی ہے۔ ایسےبچے جو دودھ پینے سے بھاگتےہیں یا وہ افراد، جو گیہوں میں موجود گلو ٹن(Gluten) سے الرجک ہوں، وہ بھی اس بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
کچھ ضروری غذائی مرکبات کی غیرموجودگی بھی شوگر کی وجہ بن سکتی ہے، جیسے مینگنیز Manganese جو پھلوں اور ترکاریوں میں پایا جاتا ہے، کے علاوہ زنک 2N ، وٹامن بی3 اور وٹامن 6 وغیرہ….ان کی غیر موجودگی سے گلوکوز انٹالرینس(Glucose Intolerance) کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے، اگر یہ اجزاء غذا میں شامل ہوں تو شوگر کے خدشات کم ہوجاتے ہیں۔
ماہرین اور ریسرچرز کا خیال ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں اس بیماری کی شرح میں تقریباً 59 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کی وجوہات میں کئی لوگوں کے طرزِ زندگی میں تبدیلی، دیہات کو خیرباد کہہ کر شہروں میں سکونت اختیار کرنا، آرام پسند طرزِزندگی اپنانا وغیرہ شامل ہیں۔
عام لوگوں کا نفسیاتی اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ہونا، کھانے پینے کی عادات میں نمایاں تبدیلیوں کا وقوع پذیر ہونا اور سیدھی سادھی زندگی سے منہ موڑ کر ‘‘مصنوعی زندگی’’ کو گلے لگانا بھی اس بیماری کے اسباب میں شامل ہے۔
لوگ ‘‘اچانک’’ یا پھر ‘‘دھیرے دھیرے ’’ بہرحال بدل رہے ہیں۔ اب اکثر لوگ فطرت کو فراموش کرچکے ہیں ۔ فطری غذائیں کھانے کے بجائے فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کی طرف مائل ہوچکے ہیں۔ صاف ستھرے پانی کی بجائے کولا مشروبات سے پیاس بجھاتے ہیں۔
لوگ (خاص کر بچے) تازہ پھلوں اور سبزیوں کی بجائے بازاری غذاؤں کو ترجیح دیتے ہیں ۔اسکول جانے والے بچوں کے پاس باقاعدہ ورزش کے لیے وقت ہی نہیں۔ اب نئی نسل کی اکثریت، ٹی وی یا کمپیوٹر کی دنیامیں گم رہتی ہے، جسمانی حرکات کم ہونے سے ان کے جسم کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور وہ موٹاپے (Obesity) کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں۔
موٹاپے کے سبب ناصرف ترقی یافتہ بلکہ ترقی پذیر ملکوں میں بھی ذیابیطس کے مریض کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی وزن میں اضافہ کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹروں کو تشویش ہے کہ موٹاپے اور وزن میں اضافہ کے سبب نا صرف ذیابیطس میں مبتلا لوگوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے بلکہ اوسط عمر بھی کم ہوسکتی ہے۔
جب کسی انسان کے جسمانی وزن میں ایک کلو وزن کا ضرورت سے زیادہ اضافہ ہوتاہے تو اس کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے امکانات پانچ فیصد بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے بعض مریضوں کو جسمانی وزن پر قابو کے ذریعہ سے روکاجا سکتا ہے ۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ جسمانی ورزش کے ذریعہ ذیابیطس کے مرض کو ساٹھ فیصد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ نوجوان نسل کو اپنا آرام پسند طرزِزندگی بدل کر ایک فعال زندگی گزارنی ہوگی تاکہ وہ موٹاپا جیسی مضر بیماری میں مبتلا نہ ہوں ۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیماری صرف شکر یا شکر سے بنی اشیائے خوردنی کا زیادہ استعمال کرنے والوں کو لاحق ہوتی ہے اور اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اکثر مریض خود کو اُن غذائی اجزا سے یکسر محروم کرتے ہیں جو صحت مند زندگی کے لیے لازم ہیں۔
ذیابیطس کنٹرول: صحت بحال!
انسانی جسم کے لیے ذیابیطس کو دیمک سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ اس بیماری سے بصارت کے علاوہ گردوں کی مجموعی حالت پر بھی بہت زیادہ منفی اثرات پڑتے ہیں۔ بعض حالات میں یہ جان لیوا بھی ہو جاتی ہے۔
امریکہ کے طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شوگر یا ذیابیطس مرض کے حوالے سے ایک ریسرچ شایع کی گئی۔ ریسرچرز کے مطابق ابتداء ہی میں اس مرض کے خلاف بھرپور انداز میں اور پوری توجہ کے ساتھ علاج کروانا سودمند ہوتا ہے۔ بروقت اور درست انداز میں علاج سے گردے پر منفی اثرات بھی کم ظاہر ہوتے ہیں۔
شوگر یا ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد انسانی جسم کو کئی طویل مدتی پیچیدگیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ خاص طور پر انسانی گردے اس مرض کا نشانہ ہوتے ہیں۔
بلڈ شوگر کا کنٹرول :
بعض اوقات ذیابیطس کے مریض اپنے مرض کو ‘‘بس ذرا سی شوگر ہے’’ کہہ کر اُسے معمولی ظاہر کرتے ہیں۔ دراصل یہ ذرا سی شوگر کی بات نہیں ہے۔
ذیابیطس میں مبتلا ہونا اور بلڈ شوگر پر کنٹرول نہ رکھنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
خون میں شوگر زیادہ ہونے کی وجہ سے خون کی باریک نالیوں، کیپلریز کی پتلی دیواروں کو نقصان پہنچتا ہے۔ خون کی بڑی نالیوں میں کیلشیم اور چکنائی جمنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کی وجہ سے دل اور خون کی نالیوں کے امراض، مثلاً اسٹروک اور دل کے دورے کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
ذیابیطس سے آنکھیں بھی متاثر ہوسکتی ہیں اور ریٹینا میں خون کی نالیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بینائی کمزور یا ختم ہوسکتی ہے۔ ذیابیطس کے مریض باقاعدہ وقفوں سے آنکھوں کے پچھلے حصے کا معائنہ کرواتے رہیں تو ان تبدیلیوں کی روک تھام کرنا اور انہیں جلد دریافت کرناممکن ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں کا ذیابیطس کی وجہ سے کئی دوسری بیماریاں بھی لاحق ہوسکتی ہیں جیسے گردوں کی کمزوری۔ گردے جسم کی صفائی کا کام کرتے ہیں تاہم یہ بلڈ پریشر اور جسم میں نمک اور پانی کے توازن کے لیے بھی اہم ہیں۔
ہر سال پیشاب کا ٹیسٹ کروانا اہم ہے جس سےپیشاب میں سفیدی کی مقدار ناپی جاتی ہے۔ اگر پیشاب میں سفیدی پائی جائے تو باقاعدہ وقفوں سے بلڈپریشر چیک کروانا اور بھی اہم ہوجاتا ہے۔
اعصاب کو نقصان پہنچنا (Neuropathy)بھی ذیابیطس کی وجہ سے ہونے والی ایک عام پیچیدگی ہے، جس کے نتیجے میں حسّیات کمزور اور حرکت کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ اعصاب کو نقصان پہنچنے کی پہلی علامت بالعموم اعضاء کا سُن ہونا ہے۔
شوگر کے مریضوں کا اپنے پاؤں باقاعدگی سے چیک کرتے رہنا بہت اہم ہے۔ چھوٹے زخموں کی روک تھام اور انہیں کنٹرول میں رکھنا بھی ضروری ہے ۔
یہ مرض پُرانا ہوجائے تو اس کی وجہ سے پیٹ اور آنتوں کے اعصاب بھی متاثر ہوسکتے ہیں اور غذا نظام انہضام سے گزرنے میں زیادہ وقت لیتی ہے۔ اس صورت میں مریض کو بدہضمی، متلی، قبض اور دستوں جیسی تکالیف ہوسکتی ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کے دانت گرجانا بھی عام شکایت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منہ کی اندرونی لعاب دار جھلّیوں تک خون کی فراہمی کم ہوجاتی ہے۔
منہ کی صفائی کے ساتھ ساتھ دانتوں کے ڈاکٹر سے باقاعدگی کے ساتھ معائنہ کرواتے رہنا ذیابیطس کے مریضوں کے لیے خاص طور پر ضروری ہے ۔
ہر1 منٹ میں ذیابیطس کے 3 مریض معذور ہو جاتے ہیں، طبی ماہرین دنیا میں ہر ایک منٹ میں 3 افراد ذیابطیس کی پیچیدگیوں کے نتیجے میں معذور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ تین سے چار لاکھ افراد اپنے پیروں یا ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ذیابطیس کے نتیجے میں پیروں یا ٹانگیں کٹنا پاکستان میں معذوری کی سب سے بڑی وجہ بن چکا ہے، بلوچستان میں ذیابیطس کی شرح 60 فیصد تک جا پہنچی ہے، ڈاکٹروں کی تربیت اور عوام میں آگاہی پیدا کر کے ذیابیطس کے مریضوں کو پاکستانیوں کو مستقل معذور ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ دو روزہ بین الاقوامی ذیابیطس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معروف ماہر ذیابیطس پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ تمام تر آگاہی کے باوجود دنیا بھر میں شوگر کی بیماری سے ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث پیروں اور ٹانگیں کٹنے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی صورتحال باقی دنیا سے مختلف نہیں، پاکستان میں ہر سال تین سے چار لاکھ لوگ ذیابیطس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث اپنے پیروں اور ٹانگوں سے محروم ہوجاتے ہیں جن میں سے 70 فیصد افراد پانچ سال کے اندر مر جاتے ہیں۔   
			
ڈاکٹر عبد الباسط نے بتایا کہ ڈاکٹروں اور شوگر کے مریضوں کی تربیت کر کے ان کے ادارے بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائیبیٹالوجی اینڈ انڈوکرائنولوجی نے پیروں اور ٹانگیں کٹنے کی شرح کو آدھے سے بھی کم کر دیا ہے، انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں ایسے تین ہزار کلینک قائم کیے جائیں جہاں ماہر ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف شوگر کے مریضوں کا علاج کر کے ان کے پیروں اور ٹانگیں کٹنے سے بچا سکیں۔
اس کانفرنس سے سابق وفاقی سیکریٹری صحت ایوب شیخ، لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر بھیکا رام، انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ (مینا) ریجن کے چیئرمین پروفیسر عبدالباسط، اٹلی کے معروف ماہر ذیابطیس ڈاکٹر البرٹو اینچینی، تنزانیہ کے ماہر ذیابطیس ڈاکٹر ذوالفقار جی عباس، کانفرنس کے چیئرمین ڈاکٹر زاہد میاں، ڈاکٹر سیف الحق، پروفیسر یعقوب احمدانی، پروفیسر فیروز میمن، پروفیسر بلال بن یونس سمیت ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے خطاب کیا۔
(جاری ہے)
روحانی ڈائجسٹ Online Magazine for Mind Body & Soul