
برازیل میں کرہ ارض کے سب سے بڑے برساتی جنگل ایمازون میں شدید آگ بھڑک اٹھی ، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ جنگلات میں لگنے والی آگ کے سبب برازیل کے شہروں اور دیہات میں دھویں کے بادل چھاگئے اور ہر طرف اندھیرا چھاگیا۔ یہاں تک کہ ایمازون کے جنگلات سے ساڑھے تین ہزار کلومیٹر دور برازیل کے شہر ساؤ پولو میں دھواں چھاگیا ۔ہوا میں کاربن کی مقدار بڑھنے سے شہریوں کے لئے سانس لینا دشوار ہوگیا ۔
جنگلات میں اچانک آگ وغیرہ لگ جانے کی صورت میں نہ صرف انسانی زندگیوں اور انسانی اموال کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ دھوئیں کی جو بہت بڑی مقدار فضا میں شامل ہوتی ہے اس سے اور آگ کی تپش سے ماحولیاتی فضا بہت حد تک مکدر ہو جاتی ہے۔
ایمازون کے جنگلات دنیا کی فضا کو آکسیجن فراہم کرنے میں اپنا 20 فیصد حصہ ڈالتے ہیں اورانہیں دنیا کے پھیپھڑوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
جنگل میں لگی اس آگ سے زمین کے موسموں پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایمازون میں ہونے والے نقصان سے دنیا بھر کے مون سون کے سائیکل پر منفی اثر پڑے گا۔
18 اگست 2019 کوالاسکا میں گلوبل وارمنگ کے باعث دیوہیکل برفانی تودہ ٹوٹ کرسمندر میں بہہ گیا، جس کی وجہ الاسکا میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی بتائی جارہی ہے، ریاست الاسکا کے موسمیاتی ریکارڈ کے مطابق گزشتہ مہینہ جولائی 2019ء ،1925ء سے اب تک کا گرم ترین مہینہ ثابت ہوا۔

دنیا میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر کے باعث جہاں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہیں برفانی تودوں کے توڑپھوڑ بھی بڑھ گئی ہے۔
15 اگست کی خبر کے مطابق آئس لینڈ میں ہیٹ ویو سےایک بہت بڑا گلیشیر پگھل کر ختم ہوگیا۔ گلیشیر کا نام اوکیوکول ہے جس کا رقبہ 16؍ مربع کلومیٹر تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال یورپ کو جس ہیٹ ویو کا سامنا رہا ہے اس کی وجہ سے آرکٹک ریجن بری طرح متاثر ہوا ہے۔

10 تا 15 اگست کے دوران ہونے والی مون سون بارشوں کے باعث جنوبی ایشیا میں تباکن سیلاب آئے جس سے کم از کم 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سیلابی صورتحال کی وجہ سے لاکھوں لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ بارشوں نے سب سے زیادہ تباہی جنوبی بھارت کی ریاستوں میں مچائی، جہاں ڈھائی سو سے زیادہ افراد زندگی کی بازی ہار گئے ، تیز بارشوں سے نشیبی علاقے زیر آب آ گئے۔ بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا اور سیلابی صورتحال کے باعث بارہ لاکھ افراد گھروں اور عارضی کیمپوں میں محصور ہو گئے۔

میانمر میں بھی طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بڑی تباہی ہوئی ہے، سنکڑوں گھر پانی میں ڈوب گئے اور ہزاروں افراد نے محفوظ مقام پر نقل مکانی کی ۔ طوفانی بارشوں سے پاکستان کے مختلف خطوں میں بھی سیلابی صورتحال پیدا ہوئی۔
11 اگست کو یورپی ملک بیلجیئم اور فرانس کے قریب لکسمبرگ کے سرحدی علاقے میں طوفانی بگولے ٹورناڈدو Tornado نے تباہی مچائی …. 128 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں سے سینکڑوں گھروں کی چھتیں اور درخت اکھڑ گئے۔

10 اگست کو چین میں لیکیما (Lekmia)طوفان نے تباہی مچادی جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔ طوفان کے نتیجے میں وینلنگ شہر وینزو شہر میں ڈیم ٹوٹنے سے تباہ کن لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ لیکیما طوفان کے باعث متعدد درخت زمین سے اکھڑ گئے، آمدورفت کا نظام درہم برہم اور کئی علاقے بجلی سے بھی محروم ہوگئے ۔

چینی میڈیا کے مطابق چین میں یہ کئی سالوں کے دوران ایک طاقتور ترین طوفان تھا۔
28جولائی سے 20 اگست کے دوران دنیا بھر میں ایسے زلزلوں کی ایک لہر سی چل نکلی ہے جس کی شدت 6 ریکٹر اسکیل یا اس سے زیادہ ہے۔
28 جولائی کو فلپائن کے شمالی جزائر میں لوزان اسٹریٹ کے گنجان آباد جزائر میں 5.4 اور 5.9 شدت کا زلزلہ آیا۔
3 اگست کو انڈونیشیا کے جزیرہ جاوا کے کھلے سمندر میں 6٫8 کی شدت کا زلزلہ آیا جس نے سینکڑوں عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ تقریباً 50 ہزار افراد نے پناہ گاہوں میں پناہ لی ۔

5 اگست کو جاپان کے شمال مشرق میں 6.3 کی شدت کا زلزلہ آیا ۔
8 اگست کو ترکی کے مغربی حصے میں 6.2 کی شدت کے زلزلے کے بعد ماہرین ایک بڑے ہلاکت خیز زلزلے کے خدشات ظاہر کررہے ہیں۔
10 اگست ہی کو اسلام آباد ، پنجاب اور خیبر پختونخوا سمیت ملک کے مختلف علاقوں 5.5شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ اس سے دو روز قبل بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں صبح سویرے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی جس کا مرکز افغانستان میں ہندوکش کا پہاڑی سلسلہ تھا۔
19 اگست کو مغربی بحر اوقیانوس میں شمالی مرينا جزیرے میں زلزلہ کے جھٹکے محسوس کئے گئے جس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 5.9 تھی۔
ہیٹ ویوز، گلیشئیر پگھلنے، طوفانی بارش، سیلاب، سمندری طوفان، آگ، ٹورناڈو اور شدید زلزلوں کے یہ واقعات صرف 2 ہفتوں کے اندر رونما ہوئے ہیں ۔
گزشتہ صدّی کے اواخر سے موسم کے تغیرات ساری دنیا کے لیے ایک سنگین مسئلہ بنتے جارہے ہیں۔ اب ایسے مقامات جہاں کبھی سخت گرمی پڑا کرتی تھی وہاں برف باری ہورہی ہے اور جہاں بارشوں کا نام ونشان تک نہ تھا وہاں باد و باراں کے طوفان آرہے ہیں۔
اکیسویں صدی کی آمد سے ہی موسموں نے اپنا رویہ تیزی سے بدلنا شروع کردیا۔جون ، جولائی میں گرمی، اگست، ستمبرمیں بارش، مارچ، اپریل میں بہار اور دسمبر، جنوری میں سردی جیسی لگے بندھے معمولات میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ موسم سرما میں شدید کمی ، اپریل میں بارش اور مئی سے دسمبر تک گرمی اور جنوری فروری میں بہار کی آمد نے ماہرین موسمیات کو حیرت زدہ کردیا۔
ایکو سسٹم کا بگڑتا ہوا توازن آج دنیا بھر کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔اوزون کی تہہ میں کمی، گلوبل وارمنگ، گرین ہاؤس ایفیکٹ، سونامی،گلیشئیر کا تیزی سے پگھلنا، سمندر کی سطح بلند ہونا، ساحلی علاقوں میں خوفناک طوفانوں کا سلسلہ، سیلاب، زلزلے اور طرح طرح کی خطرناک وبائیں اور امراض اس بگڑتے ہوئے توازن کا اظہار ہیں۔
گلوبل وارمنگ، کلائیمیٹ چینج، بائیو ڈائیورسٹی، گرین ہاؤس ایفیکٹ، پولوشن، موجودہ دور میں یہ لفظ بہت زیادہ سننے کو مل رہے ہیں۔ روحانی ڈائجسٹ کے صفحات میں بھی ان موضوعات پر کئی مضامین شایع ہوچکے ہیں، دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ہرسال تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں لیکن پھر بھی زمین پر ہونے والی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکا نہیں جاپارہا۔
اگر کوئی آپ سے کہے کہ آپ اس سیارے زمین سے محبت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کل آپ کے بچے اس پر محفوظ اور قدرتی وسائل سے مالامال زندگی گذاریں، تو آپ کو آج سے ہی چند اقدامات کرنا ہوں گے۔
گلوبل وارمنگ سے کئی حیوانات ، پرندوں اور حشرات، شہد کی مکھیوں اور تتلیوں کی نسلیں نابود ہورہی ہیں۔ یہ سن کر شاید کچھ کہیں گے کہ سائنس ترقی کے اس دور میں اتنی ایجادات ہوگئی ہیں کہ اگر گرمی بڑھ بھی جائے تو انسان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر جنگل میں شیر، ابابیلیں، تتلیاں اور شہد کی مکھیاں کم ہورہی ہیں تو اس سے انسان کا کیا نقصان ۔ ترقی یافتہ شہروں میں بھی تو انسان بنا درختوں کے رہ ہی رہےہیں۔ لیکن لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس زمین کی زندگی باہمی توازن کے نظام پر قائم جسے ایکو سسٹم Ecosystem کہا جاتا ہے۔ زمین کے ماحول کے بنیادی اجزاء، جن میں عناصر، گیسز، پانی ، نباتات اور دیگر حیاتیات شامل ہیں، ایک دوسرے سے ماحولیاتی اور کیمیائی توازن کی زنجیروں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک نوع کی زندگی دوسری نوع پر منحصر ہے۔
دنیا میں اگر صرف شہد کی مکھی کی نسل بھی ختم ہوجائے تو جلد بدیر انسان کی نسل ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ انسان کو ملنے والی خواراک کا 70 فیصد زراعت سے آتا ہے اور زراعت میں پودوں کی نشونما میں شہد کی مکھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرہ ارض پر موجود ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال رہا ہے، بڑھتی ہوئی حدت براہ راست گلیشیئرز پر اثر انداز ہوتی ہے جس سے سیلاب اور طغیانی کے خطرات ہیں اور پھر پانی کی کمی خشک سالی کو دعوت دیتی ہے ۔یہ وہ مظاہر ہیں جس سے زمین پر موجود ہر قسم کی حیات خطرے میں پڑسکتی ہے۔ سائنسدانوں کی پیش گوئی ہے کہ گلوبل وارمنگ کے بڑھنے سے دنیا کے کچھ علاقے زیر آب جبکہ بعض علاقے خشک سالی کا شکار ہوجائیں گے۔ سیلاب اور خشک سالی سے بڑے پیمانے پر فصلیں تباہ ہوں گی۔ کچھ علاقوں میں بارشوں میں اضافے سے لینڈ سلائیڈنگ بڑھ جائے گی ۔ جو علاقے خشک سالی کا شکار ہوں گے وہاں کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔
ان تبدیلیوں کے سنگین نتائج اور تباہ کن اثرات کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا پڑے گا ….
اس تمام صورت حال میں بہتری لانے کے لیے دنیا بھر کے سائنس داں دن و رات محنت کررہے ہیں اور آئے دن ان کے تجربات اور تجاویز سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن ہم یہاں کسی سائنسی تجربے یا اعدادو شمار پر بات نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی کسی سرکاری حکمت عملی پر بحث کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان سب کے بجائے صرف ایک آسان بات پر زور دیں گے اور وہ یہ کہ بچاؤ کی ایک ہی صورت ہے ، وہ ہے صرف اور صرف فطرت کے تشکیل کردہ اصولوں کے تحت زندگی بسر کرنا۔ اگرچہ یہ آج کے دور میں اتنا آسان نہیں رہا ہے لیکن کوشش تو کی جاسکتی ہے نا! جلد یا بدیر ہم حالات کو پھر اپنے حق میں کرسکتے ہیں۔ اور یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم شروعات کریں گے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ماحول کو صاف ستھرا کرنے کی کوشش کریں، دنیا میں پانی کی تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے، ہمیں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال نہیں کرناچاہئے، زمین میں پانی کی کمی سے سبزہ اور انسان ، دونوں کو خطرہ لاحق ہے۔ پانی کو آلودگی سے بچانا بھی ضروری ہے اور ماحول کو دھویں سے۔ اس کے علاوہ عام استعمال ہونے والی اشیاء مثلا پلاسٹک بیگز، موبائل ،ائیر کنڈیشنر ، ٹیلی وژن، بلب اور کاروں کے چلنے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے، اس بات کو ممکن بنایا جائے کی ان اشیاء کا استعمال کم سے کم یا ضرورت کے تحت ہی کیا جائے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اگر آپ کے پاس جگہ نہیں ہے تو پودوں سے بھی کام چلا سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ درخت لگانے سے ہم موسم کے بے قابو ہوتے جن کو خاصی حد تک قابو میں لا سکتے ہیں۔ اگر ہر شخص یہ عہد کرے کہ اس نے کم از کم سال میں ایک درخت لگانا ہے پھر اس کی دیکھ بھال کرکے اسے پروان چڑھانا ہے تو سالانہ کروڑوں درختوں کا اضافہ ہوسکتاہے۔ اور دنیا کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے ۔
N
روحانی ڈائجسٹ Online Magazine for Mind Body & Soul